امریکا نے 7 اور برطانیہ نے 6 مسلم ممالک کے مسافروں پر نئی پابندی لگا دی

امریکا نے 7 اور برطانیہ نے 6 مسلم ممالک کے مسافروں پر نئی پابندی لگا دی

امریکا نے سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے 7 اور برطانیہ نے 6 مسلم ممالک کے مسافروں پر طیارے میں الیکٹرانک ڈیوائسز ساتھ لانے پر پابندی لگا دی۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا کے ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے سعودی عرب سمیت مشرقی وسطیٰ کے 7 مسلم اور شمالی افریقی ملک موروکو کے مسافروں پر طیارے میں برقی آلات ساتھ لانے پر پابندی لگا دی جب کہ ان آلات میں لیپ ٹاپ، کیمرہ، ٹیبلٹس، پرنٹر، الیکٹرانک گیمز، پورٹیبل ڈی وی ڈی اور ای ریڈرز شامل ہیں۔ حکام کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ مسافروں کو صرف موبائل فون ساتھ رکھنے کی اجازت دی جائے گی اور پابندی کا اطلاق دیگر ممالک سے امریکا براہ راست آنے والی پروازوں پر ہوگا۔
جن ممالک کے مسافروں پر برقی آلات لانے پر پابندی لگائی گئی ان میں سعودی عرب، مصر، ترکی، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات اور اردن شامل ہیں جب کہ شمالی افریقی ملک موروکو بھی پابندی کی زد میں ہے۔ اس حوالے سے ان ممالک کی 9 ایئرلائنز کو ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں جن میں ایمرٹس، اتحاد ایئرویز، قطرایئرویز، کویت ایئرویز، سعودی ائیر لانز، ترکش ایئرلائنز، مصر ایئرلائنز، رائل جورڈینین ائیرلائنز اور رائل ایئرمورکو شامل ہیں۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری جان کیلی کا نئی پابندی کے حوالے سے کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپ غیر ملکی پروازوں کے ذریعے جدید طریقے استعمال کرتے ہوئے دھماکا خیز مواد اسمگل کر رہے ہیں جن کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات کئے جارہے ہیں اور انہیں اطلاعات کے بعد 7 مشرقی وسطیٰ اور ایک افریقی ملک کے مسافروں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پابندی کی زد میں آنے والے ہوائی اڈوں میں قاہرہ ایئرپورٹ، امان ایئرپورٹ، کویت انٹرنیشنل ایئرپورٹ، دوحا ایئرپورٹ، ریاض ایئر پورٹ، استنبول، ایئرپورٹ، ابوظہبی ایئرپورٹ اور موروکو کا کیسابیانکا ایئرپورٹ آئیں گے۔
امریکا کی جانب سے پابندی کے فیصلے کے بعد برطانیہ نے بھی 6 مسلم ممالک کے مسافروں پر طیارے میں الیکٹرانک ڈیوائسز لانے پر پابندی لگائی جن میں سعودی عرب، ترکی، لبنان، اردن، مصر اور تیونس شامل ہیں۔ برطانیہ کی جانب سے عائد پابندی کی زد میں آنے والی 2 مقامی ایئرلائنز بھی ہیں جن میں ایزی جیٹ اوربرٹش ایئرویز بھی شامل ہیں۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں