ہمارے اسلاف اور ان کا کردار

ہمارے اسلاف اور ان کا کردار

وہ ایک ندی کے کنارے جارہے تھے کہ ایک سیب بہتا ہوا نظر آیا۔ خوش رنگ دیکھ کر پکڑ لیا۔ خوشبو دماغ میں پہنچی تو دل نے چاہا کہ زبان بھی ذائقہ سے آشنا ہو۔
سیب کھالیا تو بعد میں خیال آیا کہ مبادا اس کا کھانا مالک کی اجازت کے بغیر ’’اکلِ حرام‘‘ میں داخل ہو۔ الٹے پاؤں پھرے۔ آٹھ دس میل چل کر ایک باغ میں پہنچے۔ اس کے مال کو مل کر سیب کا واقعہ سنایا اور معافی کے خواستگار ہوئے۔ باغ کے مالک سید عبداللہ صومعی گو کہ خود عابد و زاہد تھے۔ اس زہد و تقویٰ کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ حسب و نسب دریافت کیا تو علی بن ابی طالب تک نور علی نور پایا۔ تھوڑی دیر توقف کیا اور پھر کہا: ’’محترم! معاف کرسکتا ہوں، لیکن ایک شرط پر‘‘ کون سی شرط!
’’یہ کہ میری ایک اندھی، بہری، گونگی لڑکی ہے۔ اس سے نکاح کرلو‘‘
اب جناب کی حالت دیدنی تھی۔ ایک طرف تو یہ خوف کہ سیب لقمہ حرام بن کر جزوِ بدن نہ بن جائے، تو دوسری طرف ایک پاہج عورت کے ساتھ عمر بھر کا ساتھ جس کا تصور بھی سوہان روح تھا۔ زندگی بھر کا دکھ اور مصیبت، ایک ہیولہ ایک تاریک سایہ جو زندگی کی مسرتوں اور شادمانیوں کا گلا گھونٹ دے۔ لیکن حرام! جس کے تصور نے ابھر کر آگ کے الاؤ کی شکل اختیار کرلی۔ انہیں محسوس ہوا کہ جیسے وہ تاریک شعلوں کی بیکراں آگ میں جل رہے ہوں۔ ان کے ذہن میں خیالات ہجوم لے کر آئے۔ زندگی فانی اور بے اعتبار ہے۔ جوانی چار دن کی چاندنی ہے۔ اس کے بعد عورت اور پتھر برابر ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا اور جرأت سے کہا: ’’مجھے نکاح منظور ہے‘‘ سید عبداللہ صومعی مسکرائے۔
دوسرے دن نکاح ہوچکا تھا جب حجلہِ عروسی میں پہنچے تو ایک حسینہ خوش اندام کو خوش آمدید کہتے پایا گھبرا کر مڑے۔ سید عبداللہ نے پوچھا کہ کیا سبب ہے؟ تو کہا: ’’زوجہ منکوحہ کے علاوہ کوئی اور خاتون ہے کہ اس کے سارے انگ درست اور سالم ہیں‘‘ سید عبداللہ مسکرائے اور کہا: ’’مبارک ہو! تیری زوجہ ہی تو ہے۔‘‘ لیکن آپ نے کہا تھا کہ وہ گونگی، اندھی اور اپاہج ہے۔
ہاں کہا تھا۔ یہ گونگی اس لحاظ سے ہے کہ کبھی بری گفتگو نہیں کی۔ اندھی اس وجہ سے ہے کہ کسی غیرمحرم کی جانب کبھی نگاہ نہیں کی۔ اور اپاہج اس اعتبار سے ہے کہ گھر سے باہر کبھی نہیں نکلی۔ یہ بدکلامی سے گونگی، بدنظری سے اندھی اور خانہ نشینی کے اعتبار سے اپاہج ہے۔
یہ عظیم خاتوم ام الخیر فاطمہ اور ان کے شوہر شیخ ابوصالح موسیٰ تھے۔ یہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے والدین تھے۔ جب والدین کے زہد و تقویٰ کا یہ عالم ہو تو اولاد کی پرورش و تربیت بھی ان ہی خطوط پر ہوتی ہے۔ خود شیخ عبدالقادر جیلانی جب ماں کی گود میں تھے تو رمضان میں کبھی دن میں دودھ نہیں پیا۔ ایک بار عید کے ہونے یا نہ ہونے کا جھگڑا پیدا ہوگیا تو سب نے کہا کہ شیخ ابوصالح کے ہاں جاکر پوچھو، ان کے بچے نے دودھ پیا ہے ؟
پروردگار سے دعا ہے کہ سب کو بھی اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری مائیں محض بچے ہی پیدا نہ کریں، بلکہ ان کی صحیح اسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت بھی کرسکیں۔ (آمین)

(ماخوذ از ’’سوانح شیخ عبدالقادر جیلانی‘‘)

بقلم: راشده پروین
اشاعت: خواتین کا اسلام میگزین۔ نمبر 728


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں