تحفظِ ناموسِ رسالت، تحریکِ پاکستان کی اساس

تحفظِ ناموسِ رسالت، تحریکِ پاکستان کی اساس

کوئی بھی قوم اپنے مذہبی پیشواؤں کی توہین برداشت نہیں کرسکتی۔ پھر پیشوا جس درجے کا ہو اور قوم کی مذہبی حمیت جس سطح پر ہو، ایسی گستاخانہ حرکات پر ردِعمل بھی اسی شدت کا ہوتا ہے۔ حضور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات سے بڑھ کر کوئی ہستی کائنات میں ہوئی نہ ہوگی۔ وہ شخصیت کہ جس کے اخلاقِ حسنہ نے جانی دشمنوں کو بھی دوست بنالیا، وہ رہبر کہ جس کی صفات پر لاکھوں صفحات لکھ کر بھی تعریف کا حق ادا نہیں کیا جاسکا، وہ محسنِ انسانیت کہ غیرجانب دار لوگوں نے بھی اس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ ایک مغربی مؤرخ نے دنیا کی سو بڑی شخصیات کو منتخب کیا تو ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کا نام نامی اور تعارف سب سے پہلے رکھا۔ غیرمتعصب ہندوؤں تک نے

ان کی تعریف و توصیف کی۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس رانا بھگوان داس کا کلام ہے ؎
محمد مصطفی ہو، زینتِ کون و مکاں تم ہو… بصد یہ جان و دل قرباں، کہ میری جانِ جاں تم ہو… کہاں انساں، کہاں بھگواں کہ سب سے جلوۂ جاناں… یہ سب پردے تمہارے ہیں، اسی میں ضوء فشاں تم ہو… اور ؎

ذکر محمد کی خاطر ہے…سانس کامیری آنا جانا… آپ کے منکر کوبھگوان نے…انسان نہ سمجھا نہ انساں جانا… سوئے ارضِ محبوب جاؤں گا یارو!…میں تقدیر اپنی بناؤں گا یارو… کوئی مجھ کوروکے میری جان لے لے…میں جاؤں گا یارو میں جاؤں گا یارو…

مگر اسی دھرتی پر ایسے بدبخت لوگ بھی بستے ہیں جو ناموس رسالت کے خلا ف زبان و قلم استعمال کرکے خود کو ابدی شقاوت و بدبختی کا حق دار بناتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ مدت سے سوشل میڈیا پر اس قسم کی غلیظ حرکات بڑھتی جارہی ہیں۔ شیطان کے پجاریوں نے جب دیکھا کہ وہ تحفظِ ناموس رسالت کے قوانین میں ترمیم کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے تو انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور وہاں ہر قسم کی دریدہ دہنی پر اتر آئے۔ ملک بھر میں اس حوالے سے سخت تشویش کا عالم ہے۔ علمائے کرام جمع ہوکرا س کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے آخر لاکھوں جانیں دے کریہ ملک کس لیے حاصل کیا تھا؟ کیا صرف روٹی، کپڑا اور مکان کے لیے؟ یہ چیزیں تو اکھنڈ ہندوستان میں اچھوتوں اور چماروں کو بھی میسر آجا تی تھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کو مہمیز دینے میں ان گستاخانہ واقعات کا بہت بڑا ہاتھ تھا جو بعض متعصب ہندو یا سکھ متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں کیا کرتے تھے۔ اس بناء پر جگہ جگہ فسادات ہوتے رہتے تھے۔ متحدہ ہندوستان میں انگریزی قوانین کے تحت ناموسِ رسالت کو وہ تحفظ ملنا ممکن نہ تھا جو مسلمانوں کو مطلوب تھا۔

’’آریہ سماج‘‘ ہندوؤں کا وہ فرقہ تھا جس کا بانی سوامی دیانند ہندوؤں کی اصلاح اور نشأۃِ ثانیہ کا جھنڈا لے کر اٹھا تھا، مگر حقیقت میں وہ ہندوازم کے احیاء کی آڑ میں اسلام کو مٹادینا چاہتا تھا، اس نے اپنی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ میں اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نہایت ناپاک حملے کیے تھے۔ اسی دیانند کے ایک چیلے نے پنڈت چمپوپتی لال کا فرضی نام اختیار کرکے ’’رنگیلا رسول‘‘ کے اشتعال انگیز عنوان سے ایک غلیظ کتاب لکھی جسے 1923ء میں لاہور کے ایک ناشر راج پال نے شایع کردیا۔ مسلمان زعماء نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ مصنف نامعلوم تھا، اس لیے ناشر کے خلاف فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔

لاہور ڈسٹرکٹ کے ایڈیشنل مجسٹریٹ نے راج پال کو فقط چھ ماہ قید کی سزاسنائی، مگر راج پال کے وکیل نے لاہور ہائی کورٹ میں اس سزا کے خلاف اپیل دائر کردی۔ جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے راج پال کو بری کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’کتاب کی عبارت خواہ کتنی ہی ناخوش گوار کیوں نہ ہو، اس سے بہرحال کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔‘‘ راج پال کی رہائی پرجولائی 1927ء میں پورا ملک احتجاج کی آواز سے گونج اٹھا۔ لاہور میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے۔ وہاں دفعہ 144 نافذ کردی گئی۔ لاہور کے باہر جلسہ ہوا جہاں مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید دہلوی کی موجودگی میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا: ’’آج جنسِ انسان کو عزت بخشنے والے کی عزت خطرے میں ہے۔ آج اس جلیل المرتبت کی ناموس خطرے میں ہے جس کی دی ہوئی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے۔ آج مفتی کفایت اللہ اور احمد سعید کے دروازے پر ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ اور امّ المؤمنین خدیجۃ الکبریٰؓ کھڑی آواز دے رہی ہیں، ہم تمہاری مائیں ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کفارنے ہمیں گالیاں دی ہیں۔ ارے دیکھو! کہیں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ دروازے پر توکھڑی نہیں!!‘‘ یہ الفاظ اس ولولے ادا کیے گئے کہ لوگوں کی نگاہیں بے اختیار درواز ے کی طرف اٹھ گئیں اور ہر طرف آہ و بکا کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ شاہ جی نے کہا: ’’جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے۔‘‘

آخر کار راج پال غازی علم دین کے ہاتھوں واصلِ جہنم ہوا۔ اس کے قتل نے ہندو مسلم کش مکش کو مزید بڑھادیا۔ 1927ء میں یوپی کے گنگا اشنان میلے میں عین اس وقت جب صوبائی گورنر میلے کے دورے پر تھا، ہندوؤںنے مسلمانوں پر حملہ کردیا، ان کی دکانوں کولوٹ لیااور غارت گری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی سال ’’بتیا‘‘ کے ہندوؤں نے مسلمانوں کے گھر جلادیے، مسجد اور قرآن مجید کی بے حرمتی کی۔ غرض فسادات کا سلسلہ کسی طرح رکنے میں نہیں آرہا تھا۔ مارچ 1929ء میں محمد علی جناح کے زیرِصدارت مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس ہوا جس میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو، ابوالکلام آزاد اور مفتی کفایت اللہ دہلوی بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں محمد علی جناح نے اپنے وہ مشہورچودہ نکات پیش کیے جن میں سے بنیادی چیزوں پرمسلم لیگ، جمعیت علمائے ہند اور خلافت کمیٹی کے زعماء پہلے ہی متفق تھے۔ اس کی بعض شقیں ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد، مذہبی احساسات اور ان کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کی ضمانت دیتی تھیں۔ یہی وہ چودہ نکات تھے جن کے ہندوؤں کی طرف سے مسترد کیے جانے پر مسلمانوں کی ہندوؤں سے راہیں الگ ہوگئیں۔ مسلم لیگ کے پرچم تلے ایک الگ وطن کے قیام کی ضرورت سب کو سمجھ آگئی، کیونکہ تین چوتھائی ہندو اکثریت کے ملک میں مسلمان کبھی بھی کوئی ایسا آئین نہیں بنواسکتے تھے جو مسلمانوںکے مذہبی جذبات و احساسات کو مجروح ہونے بچاتا اور ان کی تہذیب و ثقافت کو محفوظ رکھتا۔ اللہ نے مسلم قوم کی عظیم قربانیوں کا صلہ مملکتِ خداداد پاکستان کی شکل میں دیا۔ آج اگر اسی ملک میں توہینِ رسالت کا کھلم کھلا ارتکاب ہو، تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ پھر اس ملک کا فائدہ کیا رہ جاتا ہے؟

الحمدللہ! علمائے کرام اور حساس مسلمانوں نے ملک گیر احتجاج کے ساتھ قانونی کوششیں بھی کیں جس کے نتیجے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جنا ب شوکت صدیقی نے تمام گستاخانہ مواد فوری طور پر بلاک کرنے اور سوش میڈیا سے تمام اہانت آمیز مواد ہٹانے کا فیصلہ سنادیا۔ جسٹس صاحب کے یہ الفاظ ان کی ایمانی جرأت کے آئینہ دار ہیں: ’’پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، اسلام کسی بھی مذہبی پیشوا کی اہانت کی اجازت نہیں دیتا۔ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرہ برابر گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ سوشل میڈیامیں مقدس شخصیات کی اہانت سنگین ترین جرم ہے۔‘‘ عدالت نے اپناکام بخوبی انجام دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری حکومت اور افسرِ شاہی اپنی ایمانی غیرت کا ثبوت کس حد تک دیتے ہیں۔ ملک میں آیندہ امن و امان کی بقا کا انحصار اسی پر ہوگا۔

تحریر: مولانا محمد اسماعیل ریحان
ہفت روزہ ضرب مؤمن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں