اسراف سے نعمت چھن جاتی ہے

اسراف سے نعمت چھن جاتی ہے

ان دنوں عام طور پر ہر کوئی سماجی رابطے کے وسائل اور سوشل میڈیا پر آنے والی تحریروں خاص طور پر واٹس اپ پر پیش کیے جانے والے واقعات کا مشاہدہ کرنے میں مصروف نظر آتا ہے، اس معاملہ میں امیر وغریب ، مردوزن، عالم وجاہل، دین دار ودنیادار، عابد وزاہد اور فاسق وفاجر میں کوئی فرق نہیں، ہر کوئی اپنے فارغ اوقات کو اس کے مشاہدے ومطالعہ میں مشغول کیے نظر آتا ہے، اس میں طرح طرح کی باتیں، خبریں اور واقعات پوسٹ کیے جاتے ہیں، جو زیادہ تر دلچسپ، مضحکہ خیز یا عبرت ناک ہوتی ہیں، اکثر وبیشتر پوسٹ ہونے والی تحریروں یا منظروں میں عصر حاضر کی انسانی زندگی کے تضاد کو نمایاں کیا جاتا ہے، کچھ دنوں پہلے بعض عرب ممالک میں ایک اونٹ کی نیلامی کی خبریں سوشل میڈیا پر گشت کر رہی تھیں کہ ملینوں ڈالر میں اسے نیلام کیا گیا، ایک سیاسی قائد وملکی سربراہ کی شرٹ لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئی، بقر عید میں قربانی کے جانوروں میں ایک بکرے یا مینڈھے کی بولی لاکھوں روپے لگی، ایک لڈو لاکھوں روپے میں بکا، اسی سے متعلق بعض عرب اخبارات میں ایک مضمون بھی شائع ہوا تھا، جس میں صاحب قلم نے بجا طور پر شکایت کی ہے کہ لوگ کس طرح دوسروں کو بے وقوف بناتے او ران کے جیب سے محض چند روزہ ناموری کے لیے بھاری بھاری رقمیں نکال لیتے ہیں، اس طرح کے فریب میں وہی مبتلا ہوتے ہیں ، جو نام ونمود کے دلدادہ، سستی شہرت کے خواہاں، دولت وثروت کے مظاہر کے متمنی او راپنے آپ کو بڑے دولت مندوں وسرمایہ داروں کی صف میں شمار کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، ایسے خفیف العقل یا بے وقوف لوگ کسی معقول وجہ کے بغیر ہی محض دکھاوے کے لیے اسراف وفضول خرچی میں ساری حد ود پار کرجانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بھی کسی اہم مقصد اور عظیم مقصد کے لیے نہیں بلکہ نہایت معمولی وغیر اہم کام کے لیے جس کا نہ کوئی خاص مقصد ہے اور نہ وہ کسی کے لیے مفید وکارآمد اور اس سے نہ دنیا میں کوئی بھلا ہونے والا ہے اور نہ آخرت میں ،بھلا یہ کوئی معقول بات ہے کہ ایک بکرا جس کی قیمت دس بیس ہزار سے زائد نہ ہو اسے لاکھوں میں او رایک اونٹ کو لاکھوں ڈالر میں اور گاڑی کی خاص نمبر پلیٹ کو لاکھوں میں خریدا جائے، اس طرح کی فضول خرچی یا بے عقلی وحماقت ہمیں دعوت فکر دیتی اور سوچنے پر مجبو رکرتی ہے کہ آج ساری دنیا میں لوگ کس کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ہمارے کروڑوں مسلم باشندے عورت ومرد، بوڑھے، بچے کیمپوں میں رفیوجی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ہمار ے بھائی کھلے آسمانوں کے نیچے سخت ٹھنڈک وگرمی کے عالم میں شب وروز گزار رہے ہیں اور کروڑوں مسلمان اس ملک میں بھی اور دنیا کے دسرے ملکوں میں بھی نان شبینہ کے محتاج اور دانے دانے کو ترس رہے ہیں، اس صورت حال کے باوجود ہمارے اندر دکھاوے کا یہ عالم ہے کہ ہم محض دکھاوے کے لیے لاکھوں لاکھ یوں ہی پھینک رہے ہیں، جیسے ان کے پاس دولت کا انبار لگا ہو اور یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہوکہ اسے کہاں خرچ کیا جائے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنے انجام کا ر کی کوئی پروا نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم سے اس کے بارے میں پوچھ ہو گی ہی نہیں، حالاں کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” قیامت کے دن حساب وکتاب کے وقت بندے کا قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹے گا جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں باز پرس نہ کر لی جائے اور اس میں سے ایک مال ہے کہ کہاں سے حاصل کیا او رکہاں خرچ کیا۔“

اسی طرح کی فضول خرچی، اسراف اور نعمت خداوندی کی ناقدری کھانے پینے کی چیزوں میں ہے، بہت سے مقامات پر لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، انہیں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ میسر نہیں ، خود اپنے شہراو راپنے صوبہ کے مختلف علاقوں میں لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں ، دانے دانے کو ترس رہے ہیں او رہمارے یہاں ہر روز، دعوتوں اور بغیر دعوتوں کے بھی اشیاء خورد ونوش کی بڑی مقدار کچروں میں ڈالی جا رہی ہیں، دس بیس آدمیوں کے لیے پچاسوں کے بقدرکھانا تیار کیا جاتا اور جو بچ جاتا اسے کسی غریب کو دینے کے بجائے کچروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ہمارا اس طرح کا طرز عمل اور الله کی نعمتوں کی ناقدری غضب الہٰی کو دعوت دیتی اور نعمت کے چھن جانے کا سبب بنتی ہے ، کچروں میں پھینکے ہوئے لذیذ کھانوں پر جب نظر پڑتی ہے تو خوف خدا سے جسم لرز اٹھتا اور دعا نکلتی ہے ” ربنا لا تواخذنا بما فعل السفھاء منا“ اے الله! ہمارے بے وقوفوں واحمقوں کی حرکتوں پر ہماری گرفت نہ فرما، ہمارے علماء وداعیان دین اور سماجی خدمت گاروں کو چاہیے کہ وہ جس طرح جہیز اور دوسری لعنتوں او رمنفی چیزوں کے خلاف شعور بیداری مہم سرانجام دیتے ہیں، اس کے خلاف بھی شعور بیدار کریں، تاکہ ہم الله کی ناراضگی سے بچ سکیں اور نعمتوں کے چھن جانے کے عذاب میں مبتلا نہ ہوں، الله تعالیٰ کا ارشاد : ”اگر تم شکر گذاری کرو گے توبے شک میں تمہیں اور زیادہ دوں گا او راگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے۔“ (ابراہیم:7)

ہم اپنے سماج میں جو اس طرح کی باتیں پا رہے ہیں، یہ ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتی اور جھنجوڑتی ہیں کہ ہم مسلمانوں کا ضمیر بیدار کرنے کی کوشش کریں، انہیں الله کی ناراضگی اور غضب والی باتوں وحرکتوں سے آگاہ کریں، آج ہمارے اخلاق میں گراوٹ ہے، ہمارے نوجوان بے راہ روی کے شکار او رمغرب ومغربی تہذیب کے پیچھے آنکھ بند کرکے بھاگ رہے ہیں، ان کے اندر سے اونچے اقدار، اسلامی اخلاق واطوار ناپید ہوتے جارہے ہیں ، بد اعمالیاں ان کا شیوہ بنتی جارہی ہیں اور ہر چہار جانب بد دینی وبد اعمالی کا دور دورہ ہے اور اس صورت حال میں ہمارے ہوش مندوں کا یہ طرز عمل اور اس طرح کی فضول خرچی ونعمت کی ناقدری خطرے کی گھنٹی ہے، ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے ہم پر بلائیں ومصیبتیں اور آسمانی وزمینی آفتیں آنی شروع ہو جائیں، ہمیں اس سے بچنا چاہیے، دوسروں کو بچانا چاہیے او رجو کر رہے ہیں ، ان کی اصلاح کی کوشش کے ساتھ یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ ہمارے احمقوں کے کرتوتوں کی وجہ سے اے الله! تو ہماری گرفت نہ فرما، مسلم راہ نماؤں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں میں شعور پیدا کرنے کی سعی کریں اور مسلمانوں میں پائے جانے والے منفی پہلوؤں سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے اس کے انجام بد پر متنبہ کریں۔

ہمیں تاریخ او رپہلوں کے احوال سے عبرت حاصل کرنا چاہیے، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ بہت سے مسلم ملک پہلے کیسے تھے اور اب کیسے ہو گئے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ صومالیہ نہایت مال دار ملک تھا او رمغرب کی نظر لگنے سے پہلے یہاں کے باشندوں کے پاس دولت کی ریل پیل تھی، یہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ محض کلیجی کھانے کے لیے مینڈھے او ربکرے ذبح کرتے اور کلیجی نکال کر اسے استعمال کرتے، باقی پورا کوڑے دان میں پھینک دیا کرتے تھے، کسی کی خواہش ہوتی گردایا کوئی خاص عضو کھانے کی تو اس کے لیے بکرا ذبح کیا جاتااور وہ عضو نکال کر اس کے لیے تیار کیا جاتا او رپورا بکرا پھینک دیا جاتا تھا اور آج وہ کئی دہائیوں سے بھوک مری کے شکار ہیں، دانے دانے کے لیے ترس رہے ہیں اور دنیا کے انتہائی غریب ونادار ملک میں اس کا شمار ہوتا ہے، عراق والے صدام اور اس سے پہلے کے زمانہ میں کہتے تھے کہ جب تک ہمارے پاس کھجور اور پیٹرول ہے، ہم غربت کا تصور نہیں کر سکتے، مگر آج وہی عراق ایران وامریکا کی نظر لگ جانے کے بعد پٹرول وکھجور ہوتے ہوئے بھی فقر وافلاس میں مبتلا اور دانے دانے کو ترس رہا ہے ، ان کے پاس سامان ضروریہ تک نہیں ، لبنان والے نعمتوں میں پلتے اور عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتے تھے، مگر آج انہیں رمق باقی رکھنے والی اشیاء کی ضرورت ہے، بھوک وپیاس مٹانے کے لیے ان کے پاس اشیاء خوردنوش نہیں، افغانستان، دمشق، کشمیر طرح طرح کے میوؤں اور پھلوں کے ملک تھے، جو دنیا کے کونے کونے میں سپلائی کیے جاتے تھے اور یہاں کے باشندے خوش حال ومال دار تھے، مگر جب انہوں نے الله کی نعمتوں کی ناشکری وناقدری کی تو آج جنگ وجدال، خشک سالی، قحط اور فقر وافلاس میں مبتلا ہیں ، الله تعالیٰ کا فرمان ہے :” اورجب ہم کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر عذاب کی بات ثابت ہو کر رہ جاتی ہے ، پھر ہم انہیں تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔“ (الاسرا:16)

﴿وَضَرَبَ اللّہُ مَثَلاً قَرْیَةً کَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً یَأْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَداً مِّن کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّہِ فَأَذَاقَہَا اللّہُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُواْ یَصْنَعُون﴾․ (النحل:112)
ترجمہ:” الله تعالیٰ ایسی بستی کی مثال بیان فرماتا ہے، جو پورے امن واطمینان سے تھی، اس کی روزی اس کے پاس ہر جگہ سے چلی آرہی تھی، پھر اس نے الله کی نعمتوں کا کفر کیا تو الله نے اسے بھوک اور ڈرکا مزہ چکھایا ، جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔“

مولانا نثار احمد حصیر القاسمی
ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1438ھ (جامعہ فاروقیہ کراچی)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں