شام کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کیجئے!

شام کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کیجئے!

ملکِ شام کے مسلمانوں پر جو قیامت گزری وہ ایک المناک اور دردناک داستان ہے، جس کے نتیجہ میں بے شمار مسلمان شہید ہوگئے۔
ان عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوگئے اور کتنے لوگ زخمی ہوگئے اور اُن کے گھر تباہ ہوگئے اور ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان بے گھر ہوگئے۔ کتنے لوگ ہیں جو کل تک مالدار تھے آج فقیر ہوگئے اور ترکی و غیرہ میں خیموں اور کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس صورت حال میں ہر مسلمان کو ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے اور عالَم کے مسلمانوں کو حسبِ استطاعت ان کی مدد کرنی چاہیے، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں کو آپ میں بھائی بھائی قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:” إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ” (الحجرات:۱۰) ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ اور حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’عن النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: مثل المومنین فی توادھم و تراحمھم و تعاطفھم مثل الجسد اذا اشتکی منہ عضو تداعٰی لہ سائر الجسد بالسھرو الحُمّی۔‘‘ (صحیح مسلم)
ترجمہ: ’’باہمی محبت اور رحم و شفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔‘‘
تشریح:۔۔۔ حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور ایک جسم کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ جسم کے ایک حصے میں اگر درد ہو تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے اور اس درد کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جو کچھ اختیار میں ہوتا ہے وہ کرتا ہے، یہی حالت ہماری اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں ہونی چاہیے، کیونکہ ساری دنیا کے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ دنیا کے کسی حصے میں، کسی کونے میں مسلمانوں پر کوئی تکلیف آئے تو یوں سمجھیں کہ گویا ہم پر تکلیف آگئی ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے، ایسے موقع پر مسلمانوں کی تکلیف کا احساس ہونا اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ ہمارے ایمان کے زندہ ہونے کی علامت ہے، لہذا موجودہ وقت میں ملک شام کے مسلمان جس تکلیف اور مصیبت سے گزر رہے ہیں، اس میں ہمیں دو کام خاص طور پر کرنے چاہئیں:

پہلا کام: مظلوم مسلمانوں کے حق میں دعا
ہر مسلمان کو شامی مظلوم مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالی مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے اور انہیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے۔ اللہ تعالی قادرِ مطلق ہیں، جو کچھ ہورہا ہے ان کی مرضی اور حکم سے ہورہا ہے، وہ حالات بدلنے پر قادر ہیں، اس لیے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ یہ عمل بہت ہی مفید ہے، کیونکہ دعا کسی بھی صورت میں ضائع نہیں ہوتی، بشرطیکہ آداب اور شرائط کی رعایت کے ساتھ کی جائے اور یہ عمل بہت آسان بھی ہے، ہر عام و خاص، امیر و غریب کرسکتا ہے اور آسان ہونے کے باوجود اللہ تعالی کے نزدیک بہت ہی اونچا عمل ہے اور حدیث شریف میں دعا کو مومن کا ہتھیار اور ہر مصیبت اور مشکل سے نجات دینے والی عبادت فرمایا گیا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
دعا کی اہمیت کے بارے میں احادیث مبارکہ
۱: ’’ألا أدُلُّکم علی ما یُنجیکم من عدوکم و یدر لکم أرزاقکم؟ تدعون اللہ فی لیلکم و نھارکم فان الدعاء سلاح المومن۔‘‘ (مسند ابی یعلی، ج: ۳، ص: ۳۴۶)
’’سنو! کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچاؤ کرے اور تمہیں بھرپور روزی دلائے، وہ عمل یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دن رات دعا کیا کرو، کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔‘‘
۲: ’’و عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان الدعا ینفع مما نزل و مما لم ینزل فعلیکم عبادَ اللہ! بالدعاء۔‘‘ (مشکاۃ المصابیح، ج:۲، ص: ۳)
’’دعا ان حوادث و مصائب میں بھی کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہذا اے اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔‘‘
اور اللہ تبارک و تعالی کی سنت مبارکہ ہے کہ وہ مسلمان کی دعا قبول کرتا ہے چاہے وہ اللہ تعالی کا ولی ہو یا نہ ہو، اور حدیث شریف کی روسے ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے لیے غائبانہ دعا خاص طور پر جلدی قبول ہوتی ہے، اس لیے ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے خوب دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالی ظالموں کے شر سے اور ہر قسم کے فتنہ سے اُن کی اور ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

دوسرا کام: اپنی مالی حیثیت کے مطابق مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا
دوسرا کام جو ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالی کے دیئے ہوئے مال سے اپنی حیثیت کے مطابق ان متأثرین کی مدد کرنی چاہیے، اس وقت وہ بیچارے بے کسی کے عالم میں ہیں اور محتاج ہیں، انہیں مدد کی ضرورت ہے اور کسی ضرورت مند مسلمان کی مدد کرنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے اور اگر اس میں کوئی اجر و ثواب نہ ہوتا تب بھی انسان اور مسلمان ہونے کے ناتے ان کا ہمارے اوپر حق ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی کریں۔ لیکن اللہ تبارک و تعالی کا خاص فضل ہے کہ اس نے اس حق کی ادائیگی میں بھی ہمارے لیے بے شمار انعامات رکھے ہیں، احادیث طیبہ میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے بڑے فضائل آئے ہیں اور بڑا اجر و ثواب بیان ہوا ہے، چند احادیث ملاحظہ ہوں:

مسلمان کی مدد کرنے کے فضائل سے متعلق احادیث طیبہ
۱: ’’ المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلِمُه، ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة من كرب الدنيا فرج الله عنه كربة من كرب يوم القيامة، ومن ستر على مسلم ستره الله في الدنيا والآخرة. ‘‘ (صحیح البخاری، ج:۱، ص: ۲۸۶)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگتا ہے اللہ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرتا ہے اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ پاک قیامت کے روز اُس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔‘‘
۲: ’’عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من أدخل علی أھل بین من المسلمین سرورا لم یرض اللہ لہ ثوابا دون الجنۃ۔‘‘ (المعجم الصغیر، ج: ۲، ص: ۱۳۲)
’’جو شخص کسی مسلمان گھرانے کی مدد کرکے ان کے دکھ درد اور تکلیف و مصیبت کو دور کرکے انہیں خوش کردے تو اللہ جل شانہ اس شخص کے لیے جنت سے کم ثواب پر راضی نہ ہوں گے۔‘‘
۳: ’’و عن أنس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من قضی لأحد من أمتی حاجۃ یرید أن یسرہ بھا فقد سرنی و من سرنی فقد سر اللہ و من سر اللہ أدخلہ اللہ الجنۃ۔‘‘ (مشکاۃ المصابیح، ج:۳، ص: ۸۳)
’’جو شخص میرے کسی اُمتی کی کوئی حاجت اس ارادے سے پوری کرے کہ وہ امتی خوش ہوجائے، تو اس آدمی نے مجھے خوش کردیا، اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالی کو خوش کیا اور جس نے اللہ جل شانہ کو خوش کیا تو اللہ پاک اُسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔‘‘

فائدہ: ۔۔۔ معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کی حاجت پوری کرکے اُسے خوش کردینا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا ذریعہ ہے اور پھر اس عمل کی برکت سے اللہ تعالی قیامت کے دن کی مصیبتیں دور فرما کر اس آدمی کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔
۴: ’’و عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یصف أھل النار فیمر بھم الرجل من أھل الجنۃ فیقول الرجل منھم: یا فلان أما تعرفنی؟ أنا الذی سقیتک شربۃ و قال بعضھم: أنا الذی وھبت لک وضوءً فیشفع لہ فیدخلہ الجنۃ۔‘‘ (مشکاۃ المصابیح، ج:۳، ص: ۲۱۸)
’’اہل جہنم صف بستہ کھڑے ہوں گے، ایک جنتی ان کے پاس سے گزرے گا، (اُسے دیکھ کر) ایک جہنمی اس سے کہہ گا: اے فلاں! کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ میں نے آپ کو ایک گھونٹ پانی پلایا تھا، ایک دوسرا جہنمی کہے گا: میں نے آپ کو وضو کا پانی دیا تھا، چنانچہ یہ جنتی ان کی سفارش کرکے انہیں جنت میں لے جائے گا۔‘‘
فائدہ: دیکھئے! غور فرمائیے! وضو کا پانی دینا اور ایک گھونٹ پانی پلانا کیسا معمولی اور آسان عمل ہے، مگر چونکہ اس سے مسلمان کی حاجت پوری ہورہی ہے، اس لیے نجات کا ذریعہ بن گیا، چنانچہ اس عمل کی برکت سے اللہ تعالی بخشش فرمادیں گے اور جنت میں داخل فرمادیں گے۔
۵: ’’عن أنس: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من مشی الیٰ حاجۃ أخیہ المسلم کتب اللہ لہ بکل خطوۃ یخطوھا حسنۃ الی أن یرجع من حیث فارقہ فان قضیت حاجتہ خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمہ و ان ھلک فیما بین ذلک دخل الجنۃبغیر حساب۔‘‘ (مسند ابی یعلی، ج: ۵، ص: ۱۷۵)
’’جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی کسی حاجت اور ضرورت سے جائے تو حق تعالیٰ ایسے شخص کو ہر قدم پر ستر نیکیاں عطا فرمائے گا، یہاں تک کہ وہ اسی جگہ واپس لوٹ آئے جہاں سے وہ چلا تھا، پھر اگر اس مسلمان بھائی کی ضرورت اسی کے ذریعہ پوری ہوگئی تو وہ شخص اپنے گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجائے گا جیسا کہ آج ہی اس کی ماں نے اُسے جنا ہو اور اگر اسی دوران اس کا انتقال ہوجائے تو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
۶: ’’و عن عبداللہ بن عمر و قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من أطعم أخاہ حتی یشبعہ و سقاہ من الماء حتی یرویہ باعدہ اللہ من النار سبع خنادق ما بین کل خندقین خمس ماءۃ عام۔‘‘ (مجمع الزوائد، ج: ۳، ص: ۳۲۰)
’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی بھوکے کو کھانا کھلائے یہاں تک کہ وہ سیر ہوجائے، اس کا پیٹ بھرجائے اور پیاسے کو پانی پلائے یہاں تک کہ وہ سیراب ہوجائے تو اللہ تعالی اس کھلانے پلانے والے کو دوزخ سے سات خندقوں کی مقدار دور فرمادیں گے، ہر دو خندقوں کی درمیانی مسافت پانچ سو سال کے برابر ہوگی (یعنی کل تین ہزار پانچ سو سال کی مسافت کے بقدر جہنم سے دور فرمائیں گے)۔‘‘
۷: ’’عن بن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من مشی فی حاجۃ أخیہ کان خیرا لہ من اعتکاف عشر سنین و من اعتکف یوما ابتغاء وجہ اللہ بینہ و بین النار ثلاث خنادق کل خندق أبعد مما بین الخافقین۔‘‘ (المعجم الأوسط، ج: ۷، ص: ۲۲۰)
’’جو شخص اپنے بھائی کی حاجت میں کوشش کرے تو یہ اس کے لیے دس سال کے اعتکاف سے افضل ہے، اور جس شخص نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا تو حق تعالی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردیں گے، جن میں سے ہر خندق (کی وسعت) مشرق و مغرب کی درمیان وسعت سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
۸: ’’من أغاث ملھوفا کتب اللہ لہ ثلاثا و سبعین مغفرۃ، واحدۃفیھا صلاح امرہ کلہ و ثنتان و سبعون لہ درجات یوم القیامۃ۔‘‘ (مشکاۃ المصابیح، ج: ۳، ص: ۸۳)
’’جو شخص کسی مظلوم کی فریادرسی کرے (یعنی جو کچھ اس کے بس میں ہو وہ اس کے لیے کرے) تو اللہ تعالی اس کے لیے تہتر (۷۳) مغفرتیں (اس کے نامۂ اعمال میں) لکھ دیتے ہیں، ان میں سے ایک مغفرت سے آدمی کے سارے کام بن جائیں گے، باقی بہتر (۷۲) مغفرتوں سے قیامت کے روز اس کے درجات میں اضافہ ہوگا۔‘‘
بہرحال! مذکورہ بالا تمام احادیثِ مبارکہ سے مسلمانوں کی مدد کی کرنے اور حاجت کے وقت ان کے کام آنے کا بڑا اجر و ثواب معلوم ہوا، اور یہ وقت ہمارے مسلمانوں کے کام آنے کا ہے، اس لیے دعا بھی کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق جتنا ہوسکے ان کے ساتھ مالی تعاون کریں اور یاد رکھیں کہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے میں جس طرح ان شاء اللہ مذکورہ بالا فضائل حاصل ہوں گے، اسی طرح صدقہ کا اجر بھی ملے گا اور صدقہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ: ’’اس سے مال میں کمی ہرگز نہیں ہوتی۔‘‘ اللہ تعالی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

تحریر: حضرت مولانا عبدالرؤف سکھروی
اشاعت: ماہنامہ بینات۔ جمادی الاولی 1438ھ ق


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں