دہشت گردی اور علماء کا موقف۔۔۔ ایک یاددہانی

دہشت گردی اور علماء کا موقف۔۔۔ ایک یاددہانی

ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہرنے جہاں پوری قوم میں تشویش و اضطراب کی ایک لہر دوڑا دی ہے، وہیں دہشت گردی و انتہاپسندی کے اسباب و مضمرات اور ان کے سدباب کی بحث بھی ایک بار پھر گرم ہے اور اس ضمن میں علماء کرام اور مذہبی طبقات کے کردار اور موقف کا سوال بھی اٹھایا جارہا ہے۔
آج سے ۷ برس قبل اسی طرح کے حالات میں ملک بھر کے جید علماء کرام نے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ایک مشترکہ موقف جاری کیا تھا جس میں ملک کے تمام طبقات کے لیے رہنمائی کا سامان بھی تھا اور علماء کے دو ٹوک موقف کا واضح اظہار بھی۔ آج کے حالات کے تناظر میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ علماء کے موقف کا اعادہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہونے والے علماء کے اجلاس کے بعد لکھا گیا کالم جس میں اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ بھی شامل ہے، یاددہانی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’۱۵ اپریل ۲۰۱۰ء کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں ملک بھر سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سرکردہ علماء کرام کا ایک بھرپور اور نمائندہ اجتماع منعقد ہوا، جن کا تعلق دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی دینی و سیاسی جماعتوں، دینی مدارس اور علمی مراکز سے تھا، ایک عرصے کے بعد مسلکی حوالے سے اس قدر بھرپور اور نمائندہ اجتماع دیکھنے میں آیا، جبکہ ملکی صورت حال اور علمائے دیوبند کے بارے میں ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر کیے جانے والے مسلسل اعتراضات اور پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کے پس منظر میں اس قسم کے اجتماع کی ضرورت کافی عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ اس سے قبل ۱۳، ۱۴ اپریل کو جامعہ اشرفیہ میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ اکابر علماء کرام باہم سرجوڑے، بیٹھے رہے اور پیش آمدہ واقعات و حالات کے تناظر میں مسلکی بنیاد پر کوئی اجتماعی موقف طے کرنے کے لیے ان کے درمیان مشاورت چلتی رہی۔
اس اجتماع اور مشاورت میں شریک ہونے والے حضرات میں صدر وفاق المدارس و صدرا جلاس حضرت مولانا سلیم اللہ خان، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی، مولانا محمدتقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا عبدالمجید آف کہروڑپکا، مولانا قاری محمدحنیف جالندھری، مولانا عبیداللہ اشرفی، مولانا فضل الرحیم، مولانا عبدالرحمن اشرفی، مولانا سید عبدالمجید ندیم، مولانا محمد احمد لدھیانوی، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، مولانا اللہ وسایا، مولانا اشرف علی، مولانا عبدالسلام، مولاناقاضی ارشد الحسینی، حافظ حسین احمد، مولانا پیرعزیز الرحمن ہزاروی، مولانا مفتی حبیب الرحمن درخواستی، مولانا محمدعبداللہ آف بھکر، مولانا انوارالحق حقانی، مفتی کفایت اللہ ہزاروی اور مولانا سعید یوسف خان بطور خاص قابل ذکر ہیں، راقم الحروف (مولانا زاہد الراشدی) بھی مسلسل تین روز تک اس مشاورت میں شریک رہا اور مشترکہ موقف اور قراردادوں کی تیاری میں حصہ لینے کی سعادت حاصل کی۔
جامعہ اشرفیہ کی انتظامیہ بالخصوص مولانا حافظ فضل الرحیم نے مشاورت اور اجتماع کے انتظامات اور سیکڑوں علماء کرام کے اعزاز و اکرام اور خدمت میں جس قدر محنت اور جانفشانی سے کام لیا، اسے تمام شرکاء نے سراہا۔ جبکہ علماء کرام کے ساتھ رابطوں، انہیں شرکت کے لیے آمادہ کرنے اور دوران مشاورت تمام امور کو مفاہمت کے دائرے میں رکھنے کے لیے وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمدحنیف جالندھری مسلسل متحرک رہے، اس طویل اور ہمہ جہت مشاورت کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ تمام حضرات نے باہمی مشاورت و مفاہمت کے بھرپور جذبے کے ساتھ متعلقہ امور پر اظہار خیال کیا، آپس کے گلے شکوے سنے، غلط فہمیوں کا ازالہ کیا، مسائل کا گہرائی میں جاکر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا، مستقبل میں مل کر چلنے کا عزم کیا اور اس قسم کی اجتماع مشاورت کے لیے وقتاً فوقتاً ملتے رہنے کا عہد کیا۔
اجتماع کا مشترکہ اعلامیہ مولانا مفتی محمدتقی عثمانی نے تحریر کیا اور قراردادوں کی ترتیب راقم الحروف (مولانا زاہد الراشدی) کے ذمے تھی، ان پر ابتدائی مشاورت اور ۱۵ اپریل کے وسیع تر اجلاس میں تفصیلی بحث و تمحیص اور ترامیم کے بعد متعدد ترامیم کی گئیں اور متفقہ طور پر ان کی منظوری دی گئی، یہ مشترکہ اعلامیہ جو موجودہ حالات میں پاکستان میں علمائے دیوبند کے متفقہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے اور قراردادیں قارئین کی خدمت میں ان گزارشات کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں کہ ان کا پوری سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور اس باہمی مشاورت اور مشترکہ اعلامیہ کی روح کے مطابق ہر سطح پر باہمی اشتراک و معاونت کو فروغ دیا جائے تا کہ ہم سب مل کر وقت کے چیلنجز اور تقاضوں کے مطابق اکابر علمائے دیوبند رحمہم اللہ تعالی کے مشن اور پروگرام کو آگے بڑھا سکیں، اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یارب العالمین۔

مشترکہ اعلامیہ
ملک بھر کے علماء کا یہ اجتماع عام مسلمانوں کے اس احساس میں برابر کا شریک ہے کہ ہمارا ملک جن گوناگوں مسائل سے دوچار ہے، اور اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزررہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لیے مملکت خداداد حاصل کی گئی، اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاً اسلامی نظام زندگی اور اسلامی نظام عدل کی طرف پیش قدمی کی بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں، ملک بھر میں کسی کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے، قتل و غارت اور دہشت گردی سے شخص سہما ہوا ہے اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں، سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عفریت ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے اور عوام کے لیے اپنا جائز حق حاصل کرنا جوئے شیرلانے کے مترادف بن گیا ہے، ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں مہنگائی اور بجلی کی قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے، جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
دوسری طرف ہمارے ملک کے بہترین مسائل ان عوامی تکلیفوں کو دور کرنے اور ان کے اسباب کا ازالہ کرنے کی بجائے امریکا کی مسلط کی ہوئی جنگ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے خرچ ہورہے ہیں، جبکہ امریکا کی طرف سے ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے ان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے، جن میں ہمارے بے گناہ شہریوں کی بہت بڑی تعداد شہید ہو رہی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جگہ جگہ بے گناہ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنارہا ہے اور خود ہمارے شہریوں کے ساتھ امریکا میں بدترین ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور امریکا مسلسل ہمارے بجائے بھارت کو نوازتے رہنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اس سب کے باوجود حکومت کی پالیسیوں میں امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ملکی مفادات کو بے دھڑک قربان کیا جارہا ہے، جب اجتماعی سطح پر مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل درپیش ہوں تو اس وقت بطور خاص اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرکے اس کی نافرمانیوں سے بچا جائے، لیکن ان حالات میں بھی بددینی کو فروغ مل رہا ہے، عریانی و فحاشی پر کوئی روک نہیں، نفاذ شریعت کی پر امن کوششوں کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا، ان تمام حالات میں ملک کے دردمند مسلمان سخت بے چینی کا شکار ہیں۔
اللہ تعالی نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا ہے جس میں نہ مایوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ بے عملی کی، لہذا یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک کے ارباب حل و عقد اور عوام ایک دوسرے کو نشانہ ملامت بنانے کی بجائے مل جل کر اپنے طرز عمل میں انقلابی تبدیلیاں لائیں، اسی طرح ملک کی کشتی گرداب سے نکل سکتی ہے، اسی لیے علماء کرام کا یہ اجتماع بلایا گیا تھا کہ وہ اس صورت حال پر غور کرکے قرآن و سنت کی روشنی میں وہ طریقے تجویز کریں، جو ملک کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے ضروری ہیں، چنانچہ یہ اجتماع متفقہ طور پر سمجھتا ہے کہ مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔
(۱) اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ اسلام ہی نے یہ ملک بنایا تھا اور اسلام ہی اسے بچاسکتا ہے لہذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملک کے آئین کا اہم ترین تقاضا بھی اور اسی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک میں انتہاپسندی کی تحریکیں اٹھی ہیں، اگر ملک نے اس مقصد وجود کی طرف واضح پیش قدمی کی ہوتی تو ملک اس وقت انتہاپسندی کی گرفت میں نہ ہوتا لہذا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ پر امن ذرائع سے پوری نیک نیتی کے ساتھ ملک میں نفاذ شریعت کے اقدامات کیے جائیں، اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کو فعال بنا کر ان کی سفارشات اور فیصلوں کے مطابق اپنے قانونی اور سرکاری نظام میں تبدیلیاں بلاتاخیر لائی جائیں اور ملک سے کرپشن، بے راہ روی اور فحاشی و عریانی ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
(۲) تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے مقاصد پر نفاذ شریعت کے مطالبے کو اولیت دے کر حکومت پر دباؤ ڈالیں اور اس کے لیے موثر مگر پر امن جد و جہد کا اہتمام کریں اور عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لیے جد و جہد کررہے ہیں، ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
(۳) اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کو قرار دیا جارہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو اجاڑنے میں کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی، جگہ جگہ خودکش حملوں اور تخریبی کارروائیوں نے ملک کو بدامنی کی آماج گاہ بنایا ہوا ہے، ان تخریبی کارروائیوں کی تمام محب وطن حلقوں کی طرف سے بار بار مذمت کی گئی ہے اور انہیں سرار ناجائز قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کارروائیوں مستقل جاری ہیں لہذا اس صورت حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر ملک بھر کی متفقہ مذمت اور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود یہ کارروائیاں کیوں جاری ہیں اور اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟
ہماری نظرمیں اس صورتحال کا بہت بڑا سبب وہ افغانی پالیسی ہے جو جنرل پرویز مشرف نے غلامانہ ذہنیت کے تحت کسی تحفظ کے بغیر شروع کردی تھی اور آج تک اسی پر عمل ہوتا چلا آرہا ہے، لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت امریکا نوازی کی اس پالیسی کو ترک کرکے افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو بالکل الگ کرے اور امریکی افواج کو مدد پہنچانے کے تمام اقدامات سے دستبردار ہو۔
(۴) یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خود اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھیں، لہذا ہم پورے اعتماد اور دیانت کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں نفاذ شریعت اور ملک کو غیرملکی تسلط سے نجات دلانے کے لیے پر امن جد و جہد ہی بہترین حکمت عملی اور مسلح جد و جہد شرعی اعتبار سے غلط ہونے کے علاوہ مقاصد کے لیے بھی سخت مضر ہے اور اس کا براہ راست فائدہ ہمارے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے اور امریکا اسے اس علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کررہا ہے، اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ اسے دین کا تقاضا سمجھتا ہے تو یہ اجتماع اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ ایسے حضرات کو حالات کے تقاضوں اور ضرورتوں سے آگاہ کر کے مثبت کردار کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لیے ناصحانہ اور خیرخواہانہ روش اختیار کی جائے۔
(۵) حکومت اس بات کا احساس کرے کہ اندرونی شورشوں کا پائیدار حل بالآخر پر امن مذاکرات کے سوا کچھ نہیں ہوتا، چنانچہ ملک کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے اپنی متفقہ قرار داد میں ایک طرف سابق حکمرانوں کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے اور ڈرون حملوں اور غیرملکی مداخلت کے بارے میں قومی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیا تھا اور دوسری طرف اندرونی شورش کے لیے مذاکرات ہی کا طریقہ تجویز کیا تھا لیکن پارلیمنٹ کی اس قرارداد کو عملاً بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے، لہذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس قرار داد کے مطابق اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرکے خانہ جنگی کا خاتمہ کرے۔
(۶) تمام مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مشکلات اور مصائب کا اصل حل اللہ تعالی کی نافرمانی اور ہر طرح کے گناہوں سے توبہ کرکے رشوت ستانی اور ہر طرح کی حرام آمدنی، بے حیائی اور فحاشی، جھوٹ، غیبت اور دنیوی اغراض کے لیے باہمی جھگڑوں سے پرہیز کریں اور اللہ تبارک و تعالی کی طرف متوجہ ہوں، شرعی فرائض کو بجا لائیں اور اتباع سنت کا اہتمام کریں۔

قرار دادیں
(۱) یہ اجتماع موجودہ ملکی اور علاقائی سنگین صورت حال کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں نفاذ اسلام سے مسلسل روگردانی اور ایک اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے تقاضوں کو نظرانداز کرنے کا منطقی نتیجہ قرار دیتا ہے اور دو ٹوک رائے کا اظہار کرتا ہے کہ قومی خودمختاری کے تحفظ اور نفاذ اسلام کے بغیر ملک و قوم کو موجودہ دلدل سے نکالنا ممکن نہیں ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ دستور پاکستان کی اسلامی دفعات اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق نفاذ اسلام کی طرف عملی پیش رفت کا اہتمام کیا جائے۔
(۲) یہ اجتماع قومی خودمختاری اور ملکی سالمیت کو درپیش مبینہ خطرات و خدشات کے حوالہ سے شدید تشویش و اضطراب کا اظہار کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عوامی جذبات اور قومی مفادات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر فوری نظرثانی کرے او رپارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر عمل در آمد کرکے قومی پالیسیوں کا قبلہ درست کرنے کو یقینی بنائے۔
(۳) یہ اجتماع امریکا میں پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ناروا سلوک اور سفاکانہ و غیرمنصفانہ رویے کی شدید مذمت کرتا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دیگر سینکڑوں گمشدہ یا امریکا کے حوالے کیے جانے والے مظلوم پاکستانیوں کی بازیابی اور رہائی کے لیے اپنی دستوری اور قومی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔
(۴) یہ اجتماع سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی بعض یورپی ممالک میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی مسلسل اشاعت، فرانس میں حجابِ شرعی کے خلاف مہم اور اس قسم کے دیگر معاملات کو اسلام کے خلاف مغربی ثقافت کے علمبرداروں کے معاندانہ رویے کہ آئینہ دار سمجھتا ہے اور دنیا بھر کی مسلم حکومتوں اور اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم (او، آئی، سی) سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات و احکام کے خلاف مغربی ثقافتی یلغار کے سدِّ باب کے لیے پالیسی وضع کریں۔
(۵) یہ اجتماع دینی مدارس کے خلاف مختلف ایجنسیوں اور حکومتی اداروں کی روزافزون اور مسلسل کرروائیوں پر شدید احتجاج کرتا ہے اور آپریشن سے متاثرہ علاقوں میں سینکڑوں مساجد و مدارس کے انہدام کو شرمنال قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دینی مدارس پر چھاپوں اور ان کے اساتذہ و طلبہ کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ فوری بند کرکے منہدم شدہ اور متاثر مدارس ومساجد کی فوری بحالی کا اہتمام کیا جائے اور بند مدارس کو کھول کر ان میں طلبہ کی رہائش و تعلیم کا نظام بحال کیا جائے۔
(۶) یہ اجتماع ملک میں روز افزوں مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب کو غریب عوام سے زندگی چھین لینے کے مترادف تصور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ نظام کے تسلسل اور غلط حکومتی پالیسیوں کے باعث اس عذاب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور عام شہریوں پر زندگی کا دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔
یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ عوام کو مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کے ساتھ ساتھ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا بھی اہتمام کرے۔
(۷) یہ اجتماع ملک میں مغرب کی بے حیاء ثقافت کے فروغ کے لیے این جی اوز اور میڈیا کی آزادانہ روش، حکومتی اداروں کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی اور قومی وسائل کے بے دریغ استعمال کو افسوس ناک قرار دیتا ہے اور اسے پاکستان کے اسلامی تشخص، قرآن و سنت کی تعلیمات اور عوام کے دینی رجحانات کے منافی سمجھتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور وطن عزیز کی اسلامی ثقافت کے تحفظ کا اہتمام کیا جائے۔
(۸) یہ اجتماع بارہ ربیع الاول کے روز فیصل آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی اور بعض دیگر شہروں میں رونما ہونے والے افسوس ناک واقعات کو ملک میں فرقہ وارانہ کشمکش کو فروغ دینے کی سازش کا حصہ قرار دیتا ہے اور ان سانحات میں متاثرہ افراد اور خاندانوں کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ایسے واقعات کی مکمل عدالتی تحقیقات کراکے مجرموں اور ان کے پشت پناہوں کو قرار واقعی سزادی جائے۔
(۹) یہ اجتماع ملک کے تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں اور کارکنوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ موجودہ سنگین قومی صورت حال میں جبکہ قومی خودمختاری، ملکی سالمیت اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو داؤ پر لگادیا گیا ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کی فضاء پیدا کرکے استعماری قوتیں اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ قومی وحدت اور ہم آہنگی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے، اس لیے کسی بھی سطح پر ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی نہ کہ جائے جو فرقہ وارانہ کشمکش کا باعث بن سکتی ہوں بلکہ قومی ہم آہنگی کو بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں تا کہ قوم متحد ہوکر موجودہ بحران کا مقابلہ کرسکے۔
(۱۰) یہ اجتماع پارلیمنٹ میں دستوری ترامیم کے حالیہ بل میں اسلامی دفعات کے تحفظ کی جد و جہد کرنے والے علماء کرام اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کو اس کا میاب جد و جہد پر مبارک باد پیش کرتا ہے اور دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان اسلامی دفعات پر مؤثر عمل درآمد کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔
(۱۱) یہ اجتماع ملک بھر کے علماء کرام اور دینی جماعتوں و کارکنوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ قومی وحدت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی اختلافات کے عمومی اظہار سے حتی الوسع گریز کرین اور مشترکہ قومی و دینی مقاصد کے لیے باہمی تعاون و اشتراک کی فضا کو فروغ دیں، نیز یہ اجتماع قوم کے تمام طبقات اور حلقوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ قومی وحدت کے بھرپور مظاہری کے ساتھ بیرونی مداخلت کا راستہ روکنے کا اہتمام کریں۔
(۱۲) یہ اجتماع ملک بھر کے علماء کرام کے اس نمائندہ اجتماع کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً اس قسم کے مشترکہ اجتماعات کا انعقاد جاری رکھنے کا اعلان کرتا ہے۔
(۱۳) یہ اجتماع میڈیا سے اسلامی شعائر اور دینی حلقوں کے خلاف کردارکشی کے مسلسل پروپیگنڈے پر شدید احتجاج کرتا ہے اور خاص طور پر میڈیا چینلز پر ایک لڑکی کو کوڑے مارے جانے کی ویڈیو کے بارے میں اس انکشاف کی بنیاد پر کہ یہ جعلی طور پر فلمائی گئی تھی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس کی انکوائری کراکے اسلامی احکام کو تمسخر کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
(۱۴) ایبٹ آباد میں جلسے اور جلوس پر بے تحاشا فائرنگ اور اس کے نتیجہ میں متعدد افراد کے قتل کے واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہے اور ہزارہ کے مظلوم عوام سے مکمل ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔
(۱۵) یہ اجتماع کراچی میں مولانا سعید احمد جلال پوریؒ ، مولانا عبدالغفور ندیمؒ ، قاری عبدالحفیظؒ اور ان کے رفقاء جامعہ صدیقیہ کراچی کے طالب علم محمد سفیر، ڈیرہ اسماعیل خان میں خواجہ محمد زاہد، شیخ ایاز، کوئٹہ بلوچستان میں میر مٹھاخان خٹک اور ان کے رفقاء اور دیگر مختلف سانحات میں جام شہادت نوش کرنے والے تمام علماء کرام کے وحشیانہ قتل عام کی شدید مذمت کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ علماء کرام اور دیگر شہداء کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے قرار واقعی سزادی جائے یہ اجتماع تمام شہداء کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ ان کے جملہ پسماندگان اور عقیدت مندوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔
(۱۶) یہ اجتماع مختلف ایجنسیوں کی طرف سے دینی مدارس کے بے گناہ اساتذہ، طلباء اور کارکنوں کو ہراساں کرنے، اغواء کرنے اور بلاوجہ مقدمات قائم کرنے کی شدید مذمت کرتا ہے اور مقدمات ختم کرنے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔‘‘

تحریر: مولانا زاہد الراشدی
(ماہنامہ نصرۃ العلوم، مئی 2010)
اشاعت ثانی: روزنامہ اسلام (23,24,25 February 2017)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں