سری لنکا میں اسلام

سری لنکا میں اسلام

’’سری لنکا‘‘ جنوبی ایشیا کی قدیم تہذیب کا امانت دار اپنی نوعیت کی واحد مملکت ہے۔ 1972ء سے قبل تک اس علاقے کو جزیرہ سیلون بھی کہتے تھے، جو بحر ہند کے کنارے واقع ہے۔ سری لنکا اور ہندوستانی تہذیب کے درمیان ہمیشہ سے گہرے مراسم رہے ہیں۔
1948ء میں سری لنکا برطانوی تسلط سے آزاد ہوا اور آزادی کے ساتھ سال بعد اقوام متحدہ کا رکن بنا۔ کولمبو جو برطانوی راج میں دارالسلطنت تھا، آج بھی سری لنکا کا دارالحکومت ہے۔ ملک کو انتظامی طور پر 9صوبوں اور 25 ضلعوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس ملک کی اکثریت دیہی علاقوں کی باسی ہے اور ان کی زندگی کا دار و مدار قدرتی وسائل پر ہے۔ سری لنکا آبادی بہت سے لسانی و علاقائی گروہوں پر مشتمل ہے۔ شہریوں کی بڑی تعداد ہندو دھرم اور بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے اگرچہ سری لنکا برصغیر سے الگ ہے، لیکن تاریخی طور پر اسے ہندوستان سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔قدیم تاریخ میں سری لنکا مشرق اور مغرب کے درمیان ہونے والی سمندری تجارت میں چورا ہے کا مقام رکھتا تھا۔ روم، یونان اور عرب و فارس سے آنے والے بحری جہاز اس ملک کی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ اس سرزمین میں وارد ہونے والے ابتدائی لوگ جنوبی ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے پہاڑی قبائل تھے، جو بعد میں پانچویں صدی مسیحی میں ہندوستانی آرینز سے مل کر ان میں گڈمڈ ہوگئے اور اب ’’سنہالی‘‘ کہلاتے ہیں۔ تامل قوم کے قبائل سری لنکا کی آبادی کا دوسرا بڑا حصہ ہیں، جو تیسری صدی قبل مسیح میں ہندوستان سے سری لنکا میں ہجرت کرکے داخل ہوئے۔ ان کے بارے میں قیاس ہے کہ یہ دراوڑی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
تیسری صدی قبل مسیح میں ’’اشوکا‘‘ نامی تاریخی اہمیت کے حامل بادشاہ نے اپنے بیٹے ’’ماہندہ‘‘ کو بدھ مت کی تبلیغ کے لیے سرزمین سری لنکا پر بھیجا۔ شہزادہ اس مملکت کے دارالحکومت سے آٹھ میل دور رک گیا اور اس نے بادشاہ کو مذاکرات کی دعوت دی، گفتگو کے دوران شہزادے نے اپنے مذہب کی تبلیغ کی اور مد مقابل کو بدھ مت میں داخل ہونے کی دعوت پیش کردی۔ بادشاہ نے جس کا نام ’’طسہ‘‘ تھا، اس نے فوراً اس مذہب کو قبول کیا اور شہزادے کے ساتھ آئے ہوئے مبلغین کو اپنی ریاست میں ساتھ لے آیا۔ ان مبلغین نے پہلے شاہی خاندان میں اور پھر عوام میں بدھ مت کی خوب خوب تشہیر کی۔ بادشاہ نے عوامی پذیرائی کے سبب شہر کا ایک وسطی مقام اس مذہب کے لیے وقف کردیا۔ یہاں مہاتما گو تم بدھ کے اس درخت کی ایک شاخ بھی زمین میں بوکراگا دی گئی، جس درخت کے نیچے بیٹھ کر اس بانی مذہب نے نروان (تقویٰ) کی تعلیم دی تھی۔ بہت جلد سری لنکا میں بدھ مت کے بہت سے معبد قائم ہوگئے اور بہت ہی مختصر عرصے میں یہ علاقہ بدھ مت کے لیے مرکزیت کا حامل بن گیا۔
1505ء میں ایک پرتگالی جہاز غیرموافق ہوا کے باعث سری لنکا کے ساحل پر اتفاقاً آن پہنچا۔ یہاں کے بادشاہ نے اس جہاز کے کمانڈر کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا، جبکہ کمانڈر کو بھی اس جگہ کی تجارتی اہمیت بہت پسند آئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرتگالیوں نے سری لنکا کے ساتھ کاروباری تعلقات استوار کرلیے اور 1518ء میں انہیں کولمبو میں تجارتی مقاصد کے لیے اپنا قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس سرزمین پر پرتگالیوں کی یہ پہلی آمد تھی۔ پرتگالیوں نے شاہی خاندان میں اختلافات کا سیاسی فائدہ اٹھانا شروع کردیا اور بہت جلد انہوں نے اہل اقتدار میں مذہب عیسائیت بھی داخل کردیا۔ ایک صدی گزرنے کے بعد تک پرتگالی چند وسطی علاقوں کو چھوڑ کر پورے سری لنکا پر قابض ہوچکے تھے اور وہ مذہب عیسائیت کے پرچار کے لیے رومن کیتھولک عیسائی مبلغین کی ایک کثیر تعداد بھی ساتھ لائے، جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
1658ء میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک مختصر مقابلے کے بعد پرتگالیوں سے سری لنکا خالی کرالیا اور 1665ء تک وہ اس خطے کے بیشتر حصے پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ انقلاب فرانس کے دوران برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1796ء میں ہندوستان سے پے در پے حملے کرکے سری لنکا او اپنی قلمرو میں شامل کرلیا۔ انگریزوں نے مدارس (چنائے) سے اس ملک کو کنٹرول کیا اور سری لنکا کے تمام انتظامی امور مدارس میں نمٹائے جانے لگے۔
1802ء میں فرانس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت برطانیہ کو یہاں پر تسلط کا پورا حق دے دیا گیا اور سری لنکا ’’کراؤن کالونی‘‘ بن گیا۔ کم و بیش ایک صدی کے بعد بدھ مت اور ہندو دھرم کی مذہبی تحریکوں نے سر اٹھانا شروع کیا اور انگریز کے سیاسی و مذہبی اقتدار کے خلاف آوازیں سنائی دینے لگیں۔ استعمار نے مقامی راہنماؤں کو گرفتار کرنا شروع کیا جس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ بکھرے ہوئے مختلف گروہ باہم جمع ہوگئے اور 1919ء میں نیشنل سیکلوں گانگریس کا عمل وجود میں آگیا۔ کانگریس نے آئینی اصلاحات، قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی، بجٹ کی تیاری اور انتظامی معاملات میں شراکت کے مطالبات پیش کردیے۔ آئین بنا اور بہت سے دیگر مطالبات منظور بھی ہوئے رد بھی ہوئے اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان نصف صدی کی طویل کشمکش نے بالآخر تحریک آزادی کا روپ دھارلیا اور 4فروری 1948 کو سری لنکا کی آزادی کا سورج طلوع ہوگیا۔
سری لنکا کی اسلامی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود اسلام، کیونکہ اس سرزمین کے ساتھ عربوں کے قدیم تجارتی تعلقات قائم تھے اور ہندوستان کی فتح سے قبل ہی بحری عرب تجار یہاں پر اسلام کو روشناس کراچکے تھے۔ تا ہم باقاعدہ مسلمانوں کی تاریخ یہاں اس وقت شروع ہوئی، جب جنوبی ہندوستان کے راستے نور اسلام کی کرنیں یہاں پہنچنا شروع ہوئیں۔ یہاں کی تامل زبان بھی اس زمانے میں عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگی تھی۔ سری لنکا کے بادشاہ مسلمانوں کی قدر کیا کرتے تھے، کیونکہ مسلمانوں نے طب کے میدان میں بہت نام کمایا، اکثر بادشاہوں کے شاہی طبیب مسلمان ہی تھے اور ڈچ حکمرانوں نے بھی اپنے اکثر اسپتال مسلمان طبیبوں کے سپرد ہی کر رکھے تھے۔ آج پورے سری لنکا میں مسلمان پھیلے ہوئے ہیں، تجارت، کھتی باڑی اور مچھلی بانی کے پیشوں سے وابستہ اس ملک کے مسلمانوں کی معاشی حالت بہت اچھی نہیں۔ آزادی کے بعد کئی دفعہ انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا اور وہ ہجرت پر مجبور ہوئے، اس کی وجہ شاید وہاں کی تامل بغاوت ہے اور مسلمانوں کی اکثریت اسی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مسلمان وہاں کی آبادی کا دس فیصد ہیں، یہ ایک بڑی اقلیت ہے، لیکن ہندو ذہنیت کا روایتی تعصب یہاں بھی نظر آتا ہے۔ ہم سری لنکا کی حکومت سے امید کرتے ہیں کہ وہ وہاں کے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو جینوا معاہدے کے تحت جائز حقوق دے گی۔

تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
اشاعت: روزنامہ اسلام۔ 07/فروری/2017ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں