امت مسلمہ: ذلت ونکبت سے کیسے نکل سکتی ہے؟

امت مسلمہ: ذلت ونکبت سے کیسے نکل سکتی ہے؟

گزشتہ دنوں ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کے خلاف سازشوں پر ایک شور بپا تھا۔
اہل قلم اور دانشور حضرات نے مسلمانوں کو بیدار کرنے اور مسلمانوں تک حالات حاضرہ کی ترسیل میں بہت اہم رول اداکیا جس کے لئے میں امت اسلامیہ کی جانب سے ان کا مشکور ہوں۔ لیکن شاید اب شور کچھ تھم سا گیاہے۔ حالانکہ حالات جوں کے توں ہیں۔ میں نے بھی اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کے ساتھ کچھ لکھنے کی کوشش کی تھی اور حالات حاضرہ پر یکے بعد دیگرے کئی مضامین مختلف عناوین پر شائع بھی ہوئے اور اہل قلم اور اہل علم حضرات کی جانب سے حوصلہ افزائی بھی ہوئی۔ لیکن اکثر یہ شکایات موصول ہوئیں کہ حالات تو کشیدہ ہیں اور ان سے تقریباً ہر عام وخاص واقف ہے۔ لیکن اس کا حل کیا ہے کیسے ان مسائل سے ہم باہر نکل سکتے ہیں؟ (اس کا حل کوئی پیش نہیں کرتا)اسی کے پیش نظر میں زیر نظر مضمون میں اس بات کی کوشش کررہاہوں کہ مسائل کے حل کی صورتیں جو میں اپنی کم فہمی کے ساتھ سمجھ پارہاہوں پیش کروں۔
اگر ہم اپنے تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری ابتدا ہی ایسی ہوئی کہ جیسے ایک چراغ مسلسل آندھی کی زد میں ہے۔ لیکن مکہ کی پوری کافر برادری اپنے سارے سازو سامان ، آن و بان اور قوت وشہامت کے باوجود اس سراج منیر کا کچھ بھی بگاڑ پانے میں ناکام رہی۔ اسے رسول اکرمؐ کا معجزہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ جس دعوت کی شروعات ایک فرد نے کی تھی ، جسے ستایا گیا تھا ، جان لینے کی کوشش کی گئی تھی ، جس کے نادار ماننے والوں پر ظلم و عذاب کی ساری سنتیں تازہ کر دی گئی تھیں ، جسے خود اپنے شہر سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا تھا وہی رسولؐ 8؍سال کی مختصر مدت میں بحیثیت فاتح لوٹتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اس کے سامنے اس کے سارے دشمن سرنیچا کیے عفوو درگذر کے سوالی بنے کھڑے ہیں۔ غور سے دیکھیے تو مسلمانوں کی تاریخ ہی معجزوں کی تاریخ ہے ورنہ مضبوط پٹھوں والے نوجوانوں کے بیچ سے سورۂ یٰس کی ابتدائی آیتیں پڑھ کر نکل جانا آسان تھا کیا۔ در اصل یہ اللہ کی خاص مہربانی تھی۔ تین سو تیرہ کے نہتھے جتھے کا ایک ہزار کے مسلح لشکرکو چت کردینا اور غزوہ احزاب میں باد صر صر کے ذریعہ دشمنان اسلام کے خیمے میں ہلچل پیدا کرکے مسلمانوں کی حفاظت ہم سے کیا کہتی ہے ؟
قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب ایسا لگتا ہے کہ جیسے اب ان قوموں کا مٹ جانا طے ہے۔ کتاب حیات سے ان کے صفحات ہمیشہ کے لئے کھرچ کر الگ کردیے جائیں گے اور روئے زمین پر ان کا نام لیوا کوئی نہ رہ جائے گا۔ بہت سی قوموں اور تہذیبوں کے نام و نشان مٹے بھی ہیں اوروہ صحیح معنوں میں نسیا منسیا کی مثال بھی بنے ہیں۔ امت مسلمہ کی تاریخ پر نظر دوڑائیے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تاریخ میں کئی موڑ ایسے آئے جب لگنے لگا کہ اس امت کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ لیکن ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ کا سب سے روشن تجربہ یہ ہے کہ سورج کی مانند یہ امت کبھی غروب نہ ہوسکی۔ اقبال نے کہا ہے۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
لیکن ادھر ڈوبے ادھر نکلے کی تاریخ کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ بنیادی شرائط ہیں جن کا میں یہاں مختصر خاکہ پیش کرنے کی کوشش کررہاہوں۔ کسی بھی قوم اور معاشرہ کی موجودگی وبقاء کے لئے چند بنیادیں ہوتی ہیں جو نہایت ناگزیر اور ضروری اساسات میں شامل ہیں جو معاشرہ کی بقاء کے ساتھ اس کے استحکام کی ضامن ہیں، جن میں سے ہر ایک اتنی اہم ہیں کہ ان پر مستقل مضمون ہونا چاہئے اور علماء امت، مفکرین ، دانشوروں اور اہل قلم حضرات نے بہت کچھ لکھا ہے اور امت کی اس طرف خوب سے خوب تر رہنمائی کی ہے۔
1۔ دین سے تعلق اور تعلیم وتعلم : کسی بھی قوم کے لئے یہ سب سے ہم ترین بنیاد ہے ، جس پر پوری امت کی تعمیر ہوتی کہ وہ اپنے دین، اپنی شریعت سے وابستہ رہے اور اس کے ساتھ وفادارانہ شعار رکھے۔ دین ہی اگر باقی نہیں رہے گا تو پھر امت کی بقا ممکن نہ ہوگی۔ دین کو جاننا اور اس کے حقائق سے واقفیت اور اس کے احکامات ہی وہ بنیاد ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم کامیاب ہوسکتے ہیں اورتعلیم ترقی کے لئے اہم ترین بنیاد ہے، جس پر پوری امت کی تعمیر ہوتی ہے اور اسی پر کھڑی ہوکر امت اور قوم دوسری اقوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی ہے اور یہی وہ شعبہ ہے جس کی بنیاد پر حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ فرشتوں کا مسجود بنایا اور خلافت وامامت کی ذمہ داری ان پر ڈالی۔ رسول آخر خاتم النبیینؐ پر پہلی آیت نازل ہوئی وہ بھی اسی پیغام کی حامل ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلمان اس پہلو کی طرف بالکل توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ آج ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہمارے پاس نہ دینی علم ہے اور نہ ہی دنیاوی علم بعض دانشور یہ خیال کرتے ہیں کہ دینی علم کے لئے مدارس کا ہندوستان میں جال بچھا ہوا ہے ضرورت ہے کہ دنیاوی علم اور عصری تعلیم گاہوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس میدان میں معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔ میں واضح کردوں کہ یقیناً مدارس دینیہ تو ہندوستان میں بہت ہیں لیکن معیاری مدرسوں بہت کمی ہے۔ معدود چند معیاری ادارے ہیں جو اپنے ہمہ جہت خدمات میں مصروف ہیں اور انہی کا فیض ہے کہ آج ملک میں مسلمانوں کا دین سلامت اور لوگ دین پر قائم ہیں اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ دنوں جب طلاق کے مسائل پر عدالت عظمیٰ اور مسلم پرسنل لاء کے درمیان بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری تھا تو بارہا ٹی وی ڈیبیٹ پر یہ سوال اٹھتا رہا کہ مسلمانوں میں عمومی طورپر مسائل نکاح، مسائل طلاق اور عائلی مسائل سے ناواقفیت پائی جارہی ہے۔ لہٰذا بورڈ کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہئے اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمان دینی علوم سے بھی اسی طرح کوڑے ہیں جس طرح دنیاوی علم کے میدان میں کوڑے ہیں اور سچر کمیٹی کی سفارشات میں بھی اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ مدارس میں مسلمانوں کا صرف 4فیصد ہی تعلیم حاصل کرتاہے تو سوال یہ ہے کہ 96 فیصد کہاں جارہے ہیں؟ اس لئے ضرورت ہے کہ عصری اور دینی تعلیم کی تقسیم کے بغیر صرف علم وہنر کے میدان کی طرف خاص توجہ مبذول کی جائے اور معیاری اداروں کے قیام پر غور کیاجائے اور نصاب تعلیم میں ایسا مواد فراہم کیا جائے جو عصری تقاضوں کو پورے کرنے کے ساتھ ہی دین ومذہب سے اس قدر قریب ہو کہ ہرمسلمان طالب علم ڈاکٹر، انجینئر، فلاسفر اور کچھ بننے سے پہلے اپنے آپ کو مسلمان تصور کرے اور احکامات ربانی، ہدایات نبویؐ اس کے سامنے ہو اور وہ اپنے اندر علم سے انسانیت کی خدمات کا جذبہ موجزن رکھتاہو۔ یہ انتہائی حساس اور ہم بنیاد ہے اور اسی سے وہ بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں اور ہوں گی جو میں ذیل میں ذکر کرنا چاہتاہوں۔
2۔ ان میں سے دوسری بنیاداتحاد واتفاق ہے۔ یعنی اپنے معاشرہ کے ساتھ یک جہتی ویکتائی کامضبوط احساس۔ یہ احساس ہرفرد میں اس حدتک جاگزیں ہونا چاہئے کہ وہ اجتماعی مفادکواپنے مفادپرترجیح دے۔ یہ جذبہ اخوت وشجاعت کوجنم دیتاہے۔ اسی اساس کی وجہ سے ایک انسان اپنے ملک وقوم کے لئے قربانی دیتاہے اوربہادری کی داستان رقم کرتاہے۔ یہی جذبہ انسان کے اندروفاداری کوپروان چڑھاتا ہے اورپھرانسان اپنے ملک کے وسیع ترمفادات کے لئے ہرقسم کی قربانی کوفخروانبساط کے ساتھ انجام دیتاہے۔
3۔ بنیاد: مساوات انسانی اورجمہوری کلچرہے۔ یعنی یہ کہ تمام انسان اصلاً اپنے حقوق میں برابرہیں۔ کسی کوکسی پرکوئی مستقل فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت تو اللہ سے خوف اور انسانیت کی خدمت کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ یہی قدرجمہوریت ، حریت فکراورعزت نفس کوجنم دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے ہر فرد کو اپنے وقاراورمقام کاپاس ہوتاہے اوراس کے اندرخوداعتمادی پیداہوتی ہے۔ مساوات انسانی کے شعورہی کی وجہ سے ذرائع ابلاغ آزاد ہوتے ہیں اوربڑے سے بڑافردبھی کسی دوسرے ادارہ کو دباؤ میں نہیں لاسکتا۔
4۔ بنیاد: امانت ودیانت ہے۔ یعنی یہ کہ معاشرہ میں عام طورپرسچائی کاچلن ہو۔ تاجر،صنعت کار، سیاست دان ، بیوروکریٹ اورحاکم سچ بولیں اورسچ سنیں۔ملاوٹ اوردھوکا دہی سے فضاعمومی طورپرپاک ہو۔ جھوٹ سے سب لوگ نفرت کریں۔ ہرایک اپنے وعدے کوپوراکرے۔ پوری سوسائٹی ایک دوسرے پراعتمادکی فضامیں کھڑی ہواورہرفرداپنی ڈیوٹی بہتر طریقہ سے انجام دے۔جس کی تعلیم اسلام نے جابجا دی ہے۔
5۔ بنیاد انصاف ہے۔ یعنی قوم وملت کا ہر فرد اتنا علم رکھتا ہو کہ وہ انصاف کی حدوں سے بخوبی واقف ہو، اور انصاف کرنا جانتاہو، اور ایسے میں مظلوم کی دادرسی کی جائے۔ انصاف جلد اور سستاہو۔ پولیس کااہم ترین فریضہ مجرموں کی سرکوبی اورشریفوں کی اشک شوئی ہو۔ عوام کاعدالتوں پراعتمادہواورعوام کبھی گواہی نہ چھپائیں ، بلکہ ہرفرداس کواپنی ذمہ داری سمجھے اوروہ سچی گواہی کے ذریعہ سے عدالت کی مددکرے۔ نیزملک کے ہر طبقہ اورہراکائی کے ساتھ انصاف کیاجائے۔
5۔ بنیاد: محنت ہے۔ یعنی یہ کہ ہرفرداپنے کام سے محبت کرے۔ محنت کوعزت کی نگاہ سے دیکھاجائے اورسستی وکاہلی سے نفرت کی جائے۔ ہرپیشہ معززسمجھاجائے اورہرفردکسی نہ کسی مثبت سرگرمی میں مصروف ہو۔ یہی اساس تعلیم کی اہمیت کو بھی نمایاں کرتی ہے۔
6۔ بنیاد: معیار اور قانون کی پابندی ہے۔ یعنی یہ کہ فردکوقابلیت وصلاحیت کی بنیاد پر جانچا جائے۔ رشوت اورناجائزسفارش ناقابل تصورہو۔ قابلیت کوپس پشت ڈال کرکسی اوردباؤ کی بنیادپرترجیح دینا بہت بڑی غلطی سمجھاجائے۔ہرمعاہدہ کی روح ومعانی کے ساتھ پابندی کی جائے اور قانون کو ہر چیز پر بالادست سمجھے۔ ہر انسان ہر وقت یہ خیال رکھے کہ اس سے قانون کی خلاف ورزی سرزد نہ ہو۔ اس سے ہر شہری قانون کو ہر وقت اپنی پشت پر محسوس کرتاہے اور اسے اعتماد ہوتاہے اور قانون شکنوں کے خلاف تمام ادارے اور عوام ہر وقت متحد ہوتے ہیں۔
7۔ بنیاد:محروم وکمزورطبقات کی مددکرنے کے لئے کمربستہ رہناہے۔ ہرسوسائٹی میں زیردست اورمفلوک الحال افرادوطبقات ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ جن افراد کے پاس وسائل کی فراوانی ہے ، وہ محروم طبقات کی مددکواپنافرض سمجھیں اوراس مقصد کے لئے وسائل اورقوت کی قربانی دیں، جس کی قرآن کریم رسول اکرمؐ نے بارہا تاکید فرمائی ہے۔
8۔ بنیاد:تدبراورحکمت ودانش اور صبر واستقامت ہے۔ یعنی یہ کہ ہرقومی ،اجتماعی یاانفرادی معاملہ کوجذبات واشتعال کی نظر سے دیکھنے اوراس پرفوری ردعمل ظاہرکرنے کی بجائے اس کاپوراتجزیہ کیاجائے۔ تحمل ، رواداری اورشائستگی کواپنامزاج بنایاجائے اورباہمی مکالمے اورٹھنڈے غوروفکرکے بعد ہرمسئلہ کاحل نکالاجائے۔ جب ہرفرد اس قدرپرعمل پیراہوتاہے تواس سے غلطی کاامکان کم ہوتاہے اوراقوام کی برادری میں اسے ایک قابل عزت اورباوقارمقام حاصل ہوتاہے۔ ہرفرد اورقوم کواپنی زندگی میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہے۔ ایسے مواقع پرجلد بازی ، زودرنجی اورسطحی اثرات کے تحت فیصلہ تبدیل کرنے کارویہ انتہائی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ تمام تکالیف کوصبرواستقامت کے ساتھ برداشت کرنا، سچی بات پر ڈٹے رہنا، اگرجھوٹ وقتی فائدہ دے تب بھی اس سے اجتناب کرنا، اپنے اعلیٰ مقاصد اوراخلاقیات کے لئے ہرمشکل خندہ پیشانی سے سہنا، ہرفرد اورہرقوم کی حقیقی کامیابی کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔

محمد شاہ نواز عالم ندوی
بصیرت آن لائن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں