آفتاب علم و عمل غروب ہوگیا

آفتاب علم و عمل غروب ہوگیا

داغ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

استاذ العلماء، شیخ الکل، رئیس وفاق المدارس العربیہ، صدر اتحاد تنظیمات مدارس اورملک کی معروف دینی درس گاہ جامعہ فاروقیہ کے مؤسس، بانی مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان اپنے لاکھوں تلامذہ، معتقدین اور مستفیدین کو غمزدہ اور مجہور چھوڑ کر دارالفناء سے دارالبقاء کی طرف انتقال فرماگئے،انا للہ و انا الیہ راجعون۔
قحط الرجال کے موجودہ دور میں حضرت شیخ رحمہ اللہ کی جدائی کو دنیائے علم و عمل کا سب سے بڑا علمی و تعلیمی حادثہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا،وہ اس وقت ہمارے اسلاف کی ایمان افروز روایات کے امین، محافظ، مناد اور داعی تھے۔ ان کی زہد و تقویٰ، ایثار و اخلاص، ذہانت و بصیرت، حکمت و فقاہت، ورع و عزیمت، جرأت و استقامت اور حق گوئی و حق پرستی کے اوصاف عالیہ سے منور زندگی مدتوں تک آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتے رہے گی۔ حضرت ؒ کی علمی، فقہی، دینی، تدریسی، تحقیقی، تصنیفی، اصلاحی اور تحریکی خدمات کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی اپنے مقبول بندوں کے رفع درجات کے لیے کیا کیا اسباب پیدا فرماتے ہیں اور کس طرح محیرالعقول صفات و کمالات ایک شخصیت میں جمع فرما دیتے ہیں۔ حضرت مولاناؒ بیک وقت فقیہ بھی تھے، محدث بھی، مفسر بھی، متکلم بھی، مجاہد بھی اور زاہد شب بیدار بھی، امین و منتظم بھی اور فیاض اور دریا دل بھی، ناقد و متصلب بھی اور شفیق و کریم بھی، غرضیکہ ایسی جامع الصفات و الکمالات ہستی تھے جن کی دور دور تک کوئی نظیر نہیں آتی۔
وفاق المدارس العربیہ کو اگر پاکستان کے دینی مدارس کی روح قرار دیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’وفاق المدارس‘‘ کی روح شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ تھے۔ حضرت کو 1980ء میں وفاق المدارس العربیہ کا ناظم اعلی منتخب کیا گیا۔1989ء میں آپ کا 27سالہ دور صدارت وفاق المدارس کا سنہری دور ہے، آپ ہی کے دور صدارت میں نائن الیون کا واقعہ ہوا جس کے نتیجے میں مدارس دینیہ کے خلاف ایک بھرپور منفی تحریک برپا کی گئی۔ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم سے مستفید گروہ بالخصوص حکمرانوں نے دینی درس گاہوں کو کبھی محبت و اپنائیت کی نظر سے نہیں دیکھا (الا ماشاء اللہ) مگر نائن الیون کے بعد مدارس کے مخالفین کھل کر سامنے آگئے، مدارس کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی گئی، دہشت گردی کے الزامات کے ذریعے مشکیں کسنے کی سعی کی گئی، مگر حضرت شیخ ابتلا کے اس دور میں پوری جرات سے میدان میں موجود رہے۔ دینی مدارس کی آزادانہ حیثیت کو برقرار رکھنے اور انہیں سرکاری مداخلت سے بچانے کے لیے ناظم اعلی وفاق المدارس مولانا محمدحنیف جالندھری کی خدمات بھی قابل ستائش ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس راہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ کی فراست و دوربینی، قیادت و رہنمائی، روحانی توجہات اور شبینہ دعائیں مولانا محمدحنیف جالندھری کے دوش بدوش رہیں۔
حضرتؒ رحمہ اللہ نے تقریباً ۹۶برس اس جہان رنگ و بو میں گزارے۔ 1947ء میں آپ نے ازہر الہند دارالعلوم دیوبند سے فقہ، حدیث، تفسیر، اور دیگر علوم کی تکمیل کی اس وقت سے لے کر وفات سے دو دن قبل تک آپؒ کی زندگی کا ہر لمحہ مختلف دینی خدمات میں گزرا، مفتاح العلوم جلال آباد (بھارت) دارالعلوم ٹنڈوالہ یار، دارالعلوم کراچی، جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن اور آخر میں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی (کراچی) کی مسند ہائے تدریس آپؒ کے علم و فضل اور تفہیم و تدریس کی زبان حال سے شہادت دے رہی ہیں، جہاں آپ نے کم و بیش ستر سال تک اپنی ممتاز و منفرد انداز تدریس کے چراغ جلائے۔ مشکل علمی ابحاث کو اختصار و جامعیت اور واضح پیرائے میں بیان کرنا آپؒ کی تدریس کا اختصاص تھا۔ ایک کامیاب، مؤثر اور مقبول انداز بیان کے ساتھ حیرت انگیز حافظہ کے مالک تھے۔ حضرت کے بارے میں علمی حلقوں میں مشہور ہے کہ آپ نے ایک ماہ میں مکمل قرآن کریم حفظ کیا۔ ایک مرتبہ حضرتؒ جامعہ خیرالمدارس ملتان میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ راقم السطور قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا۔ دوران گفتگو حضرتؒ سے حفظ قرآن کریم کے بارے میں سوال کیا تو حضرت ؒ نے اپنے مخصوص انداز اور دلنشین تبسم کے ساتھ سنایا کہ میں ان دنوں دارالعلوم دیوبند میں موقوف علیہ کا طالب علم تھا۔ سالانہ تعطیلات پر جلال آباد آیا تو دل میں خیال آیا کہ رمضان المبارک کی تعطیلات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ قرآن کریم یاد کرلینا چاہیے، چنانچہ ارادہ یہ کیا کہ کم از کم ایک پاؤ روزانہ یاد کیا جائے لیکن پہلے ہی دن ظہر تک ربع پارے کے بجائے اللہ کے فضل و کرم سے ایک پارہ مکمل ہوگیا۔ اس سے ہمت بندھی اور میں روزانہ ایک پارہ یاد کرکے تروایح میں سنانے لگا، اس دوران کم سے کم مقدار تین پاؤ رہی جبکہ ایک دن اڑھائی پارے بھی یاد کیے۔ (ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔) دارالعلوم کراچی میں آپؒ نے دس سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ اسی دوران مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی کو آپؒ سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔
زندگی کے آخری دور میں ان کی جد و جہد اور مسلسل خدمات کے ساتھ ساتھ اگر ان کی جسمانی نقاہت و کمزوری کو دیکھا جائے تو تعجب ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اس بار گراں کو اٹھائے ہوئے تھے، نہ صرف تدریسی انتظامی اور تحریکی مشاغل بلکہ تحریری و تصنیفی کام، جو مکمل یکسوئی کا متقاضی ہے، میں بھی ان کی خدمت حیرت انگیز ہیں۔ علم و تحقیق کی شاہکار بخاری شریف کی مایہ ناز شرح ’’کشف الباری‘‘ آپؒ کی گراں قدر علمی یادگار ہے جو ۲۴جلدوں میں زیور طبع سے آراستہ ہوکر علمی حلقوں میں سند قبول حاصل کرچکی ہے۔ آپؒ کی دوسری گرانقدر تصنیف ۵ جلدوں میں ’’مشکوۃ شریف‘‘ کی آسان اور تحقیقی شرح ’’نفخات التنقیح‘‘ ہے۔ آپؒ کی سرپرستی میں شایع ہونے والا رسالہ ’’الفاروق‘‘ (اردو، عربی، انگریزی، سندھی) بھی دینی جرائد میں ممتاز مقام کا حامل ہے۔ ’’الفاروق‘‘ اردو کے ابتدائی دور میں اس کے اداریے حضرت والا تحریر فرماتے تھے۔ ان اداریوں کے مطالعہ سے آپؒ کی ملکی و عالمی حالات پر گہری نظر، علمی گرفت اور قلم کی جولانیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اداریے بعد میں ’’صدائے حق‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوئے۔
وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل آپؒ نے بعض اصلاح طلب امور کی طرف وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا محمدحنیف جالندھری کو نہ صرف متوجہ فرمایا بلکہ ناصحانہ تنقید بھی فرمائی جبکہ حضرت صدر صاحبؒ کی محبت و شفقت و عنایات اور حضرت ناظم اعلیٰ صاحب کی نیازمندی و ارادت کا دورانیہ ۳۷ برس پر محیط ہے، اس عرصہ میں حضرت وفاقؒ نے نوجوان ناظم اعلیٰ کی بیٹوں کی مانند تربیت و رہنمائی فرمائی مگر دینی، فکری اور انتظامی معاملات میں کسی قسم کی مصالحت سے کام نہیں لیا، راقم اسے حضرت مولانا محمدحنیف جالندھری حفظہ اللہ کی بہت بڑی خوش نصیبی سمجھتا ہے کہ حضرتؒ ان سے خوشی و رضا اور محبت و اطمینان کی کیفیت میں دنیا سے رخصت ہوئے اور سفر آخرت پر روانہ ہونے سے پہلے ان کے فکر و عمل کی نہ صرف تصحیح فرما گئے، بلکہ مستقبل کے لیے بھی واضح خطوط متعین فرماگئے کہ اگر ذمہ داران وفاق ان خطوط پر چلتے رہے تو ان شاء اللہ محفوظ و مامون رہیں گے۔
حضرتؒ کی جدائی سے دین کے مختلف شعبوں بالخصوص وفاق المدارس کے لیے جو خلا اور قیادت کا بحران پیدا ہوا ہے اللہ تعالی ہی سے دعا ہے کہ وہ غریب سے ایسے اسباب پیدا فرمادیں کہ یہ چراغ بجھنے نہ پائیں، چراغِ مقبلان ہرگز نمیرد۔ مقبولانِ بارگاہ الہ کے کردار کا روشن چراغ کبھی نہیں بجھتا۔

بقلم: مولانا محمدازہر
اشاعت: روزنامہ اسلام۔17/01/2017


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں