رائیونڈ اجتماع ۲۰۱۶؛ مولانا طارق جمیل کا حسین بیان

رائیونڈ اجتماع ۲۰۱۶؛ مولانا طارق جمیل کا حسین بیان

نوٹ: سالانہ لاکھوں فرزندان توحید علمائے کرام اور مبلغین اسلام کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے جوق درجوق رائیونڈ کا رخ کرتے ہیں۔ اس سال بھی سالانہ تبلیغی اجتماع دو مرحلوں میں منعقد ہوا۔ دوسرے مرحلے میں متعدد علمائے کرام نے اجتماع میں شریک مسلمانوں کو اپنے روح پرور خطابوں کا تحفہ پیش کیا۔ ان خطابوں اور بیانات کو اب اہل سنت ایران کی آفیشل ویب سائٹ (sunnionline.us/urdu) اپنے قارئین کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہی ہے۔ یہ خطابات چند دنوں کے فاصلے پر شائع ہوں گے، ان شاءاللہ۔ اس سے قبل مولانا زہیر صاحب کا بیان شائع ہوچکاہے، اب ممتاز خطیب و مبلغ مولانا طارق جمیل صاحب کا بیان پیش کیا جارہاہے۔ امید ہے محترم قارئین غور سے پڑھیں گے اور دوسروں کو بھی پہنچائیں گے۔ (ادارہ سنی آن لائن اردو)


الحمدللہ و الصلوۃ و السلام علی رسول اللہ، اما بعد:
اللہ تعالی آپ کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے، ماشاء اللہ مجھے سامنے سارے نوجوان ہی نظر آرہے ہیں، آپ اتنی مشقت میں ہمارے ساتھ وقت گزار رہے ہیں، رات کی ٹھنڈک، دن کا گردوغبار، یہ سب آپ کے نامۂ اعمال میں ان شاء اللہ جمع ہو رہے ہیں، وضو کرنے کے ٹائم وہاں تکلیفیں، جو دوست روٹی لینے جاتے ہیں وہاں بھی لمبی لائن ہے، ہر جگہ مشقت ہی مشقت ہیں، اور چونکہ یہ اللہ کی وجہ سے ہیں، اللہ کی نسبت پر ہیں، تو ان شاء اللہ اس سے ثواب مل جائے گا۔
مجھے گرد و غبار دیکھ کر ایک حدیث یاد آگئی، صحابہ کا اللہ کے نبی کے ساتھ سفر ہورہا تھا، ایسے غبار اٹھ رہا تھا، ایک انصاری نوجوان الگ ہوکر چلے گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی، آپ صلی الله علیه و سلم نے فرمایا: اے نوجوان! ہم سے الگ ہوکر کیوں چل رہے ہو؟ کہا: یا رسول اللہ! یہ مٹی ہورہی ہے مجھے اچھی نہیں لگ رہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے بُرا نہ سمجھو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہ تو جنت کی خوشبو ہورہی ہے۔ جب صحابہ نے یہ سنا تو اور پیر مار مار کے غبار ہی غبار کردیا۔ تو اللہ تعالی آپ کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے؛ ہم تو کمروں سے اٹھ کر منبر پے بیٹھ کر بیان کرکے واپس کمروں میں چلے جاتے ہیں، آپ آسمان کی چهت تلے ہو، نیچے زمین بھی ناہموار ہے اور اوپر چهت بھی ایسی کمزور ہے. لیکن اللہ کی ذات سے میری امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ کا عمل بہت بڑا عمل بن کے قیامت کے دن تولا جائے گا۔
ایک صحابی کا جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! اس کا جنازہ مت پڑھیں، یہ اچھا آدمی نہیں تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا کسی نے اس کی کوئی نیکی دیکھی ہے؟ اس زمانہ میں نماز اور روزہ کوئی نہیں چھوڑتا ، ذکر و تلاوت اور زکات بھی کوئی نہیں چھوڑتا تھا، مسجد کی حاضری میں منافق بھی نہیں چھوڑتے تھے، ایمان والے کہاں؟! تو ایک صحابی نے کہا: ’یا رسول اللہ! اس نے اور میں نے مل کر ایک رات اللہ کی راہ میں پہرہ دیا تھا‘، تو آپ ﷺ نے فرمایا تیرے ساتھی تجھے جہنمی سمجھتے ہیں لیکن میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں، اور اس کا جنازہ پڑھایا۔
آپ کی تین راتیں اس گرد و غبار میں گزریں گی اور تکلیف کے مراحل سے گزریں گی. یہ سب ان شاء اللہ پورے عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنے گا اور میرے اور آپ کے دلوں کے بھی اللہ کی طرف پھر جانے کا ذریعہ بنے گا اور یہ ایک یاددہانی ہے۔
ہم ایک سبق بھول چکے ہیں، پیدا کرنے والے کو بھولے ہیں، جو راہیں اس طرف جاتی تھیں ان راہوں کو بھولے ہیں، ان راہوں پر لے کر جو چلنے والے ہستی تھی اس ہستی کو بھولے ہیں، اس زندگی کا کیا انجام ہونے والا ہے اس انجام کو بھولے ہیں۔ ایک چھوٹے سے کٹے میں ہمیں ڈال کر واپس چلے جائیں گے پھر اسے کوئی یاد بھی نہیں رکهے گا کہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا، ہم اس کڈے کو بھول چکے ہیں۔ پھر ایک دن اللہ کے سامنے ’’ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ‘‘؛ ایک بڑا ہیبت ناک دن آرہا ہے، اس دن کو بھول چکے ہیں۔ دودھ پلانے والیاں اپنے دودھ پیتے بچے بھول جائیں گی؛ ایسا خوفناک دن ہے۔ بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے، پھر اللہ ہمارے ہاتھ میں پیپر دینے والا ہے، پتہ نہیں سیدھے ہاتھ میں آئے گا یا الٹے ہاتھ، اور وہ بڑا خوفناک تعیین ہوگا، پھر اللہ ہمیں ترازو کے سامنے کھڑا کرکے بولے گا: ’’ماذا قدمت‘‘؛ آج کے دن کیا لایا ہو؟ تو یہ ساری کاٹھیاں جو ہم بھول چکے ہیں۔
جہاں خود بخود پیدا نہیں ہوا، اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جس کا نام ’’اللہ‘‘ ہے۔ کوئی چیز خود نہیں بنتی، بنانے والا بناتا ہے ، {هیچ کس از پیش خود چیزی نشد / هیچ آهنی خنجر تیزی نشد* هیچ حلوایی نشد استادکار/ تا که شاگرد شکرریزی نشد} یہ نہیں ہوتا کہ ایک لوہا دس لاکھ سال پڑا رہے، پھر اچانک چھری بن جائے یا خنجر بن جائے، ایسا نہیں ہوتا کہ ایک بیج پڑا رہے، اس کو نہ پانی ملے نہ کهاد ملے، نہ نگرانی ہو نہ حفاظت ہو اور وہ ایک درخت بن جائے۔ اللہ تعالی نے اسباب کے پردہ میں اس کائنات کو چلایا ہے، ہر چیز کا بنانے والا وہ خود ہے، ’’أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ‘‘؛ تمہیں معلوم نہیں کہ یہ کائنات کچھ نہیں تھیں، ایک مادہ تھا تیرے رب نے پهاڑا، کیسے کیا؟ کیا کیا؟ ’’وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ* وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ‘‘؛ میرا رب کہتا ہے یہ بھی تیرے اللہ نے بنائی ہے اور تیرے اللہ بہت بہترین فرش بچهانے والا ہے۔ پھر پہاڑ کہاں سے آئے ہیں، تو اللہ تعالی نے فرمایا: ’’وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا‘‘؛ تیرے رب نے اس میں پہاڑ لگائے۔ پھر پانی کہاں سے آیا؟ تو وہ میرے اللہ نے کہا: ’’هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ‘‘؛ تیرے اللہ نے یہ میٹھا پانی بنایا، ’’وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ‘‘، تیرے رب نے کڑوا پانی بنایا ہے۔ اس میں مچھلیاں کہاں سے آئیں؟ ’’وَمِنْ كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا‘‘ تو مچھلیاں کڑوا میٹھے دونوں پانی سے نکال کے کھاتے ہو، یہ بھی تیرے اللہ نے سارا نظام بنایا ہے۔ دنیا میں میٹھا پانی کتنے فیصد ہے اور کڑوا کتنے فیصد؟ پوری دنیا میں میٹھا پانی صرف تین فیصد ہے اور باقی ۹۷ فیصد کڑوا پانی ہے اور میرے اللہ کی ایک آیت ’’بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ‘‘؛ بیچ میں میرے رب کا امر ہے، پردہ ہے، اللہ تعالی اس پردہ کو نکال لے تو پوری کائنات میں ایک قطرہ میٹھا پانی نہیں ملے گا، یہ اس شہنشاہ کی طاقت ہے جو کڑوے کو الگ چلاتا ہے اور میٹھے کو الگ چلاتا ہے۔ پھر یہ پھول باغات کہاں سے آئے ہیں؟ تو اس اللہ نے ہی خبر دی ’’فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا* وَعِنَبًا وَقَضْبًا* وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا* وَحَدَائِقَ غُلْبًا* وَفَاكِهَةً وَأَبًّا‘‘؛ پھر یہ سارا کچھ کس لیے بنایا ہے؟ “مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ”، یہ تمہارے اور تمہارے جانوروں کے لیے بنایا ہے۔ پھر یہ سونا، اٹھنا، جاگنا، یہ دن اور رات، یہ سورج یہ چاند، ستارے سیارے، یہ کہاں سے آگئے؟ تو میرے اللہ نے جواب دیا: ’’أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا‘‘، تیرا اللہ ہی تو ہے جس نے زمین کو بچهونا بچھایا؛ “وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا”، تیرا اللہ ہی تو ہے جس نے پہاڑوں کو کیل بناکے گاڑا؛ “وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا” تیرا رب ہی تو ہے جس نے تمہیں جوڑا جوڑا بنایا؛ ’’وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا‘‘، تیرا اللہ ہی تو ہے جو تمہاری نیند لے کر آیا جس نے تمہیں سب سے کاٹ کے رکھ دیا؛ ’’وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا‘‘، تیرا اللہ ہی تو ہے جو رات کا سیاہ لباس لے کر آتا ہے؛ ’’وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا‘‘، تیرا اللہ ہی تو ہے جو دن کو نکال کر تمہارے روٹی کھانے پینے کا سامان بناتا ہے؛ ’’وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاءً ثَجَّاجًا‘‘، تیرا اللہ ہی تو ہے جو آسمان سے بادلوں سے پانی برساتا ہے؛ ’’وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘‘، زمین اور آسمان کے درمیان بادلوں کو کھڑا کرتا ہے؛ ’’أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا‘‘، پھر اس سے بارش برساتا ہے، قطرہ قطرہ اور آہستہ آہستہ کرکے اللہ تعالی بارش برساتا ہے. بارہ سو کلومیٹر سے پانی کا قطرہ گرتا ہے اس کی رفتار مسافت اور بلندی کے لحاظ سے پانچ سو اٹھاون (۵۵۸) کلومیٹر فی گھنٹہ اس کی رفتار ہونی چاہیے. ۵۵۸ فی گھنٹہ کی رفتار سے اگر بارش برستی تو گنجے کو ایک قطرہ کافی تھا؛ سیدھے سر میں سوراخ، چتھوں میں سوراخ، مسجد میں سوراخ، ہر جگہ کو سوراخ کردیتا، میرے مالک نے بارہ سو کلومیٹر فی گھنٹہ میں اتنے اسپیڈ بریکر لگادیئے کہ پانیوں سے ٹکراتے ہو، ساڑھے پانچ سو کلومیٹر کی رفتار کو اللہ تعالی روک دیتا ہے، صرف آٹھ کلومیٹر فی رفتار سے بارش کا قطرہ میرے اور آپ کے سر پر گرتا ہے؛ ابھی آیت سنو: ’’أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا‘‘، تیرے رب نے کس انوکھے طریقے سے بارش برسایا ہے؟ یہ ہے انوکھا طریقہ کے ساڑھے پانچ سو کلومیٹر بیچ میں سے نکال کر صرف آٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سب پر بارش کا پانی برستا ہے، زمین کے اندر جاتا ہے۔ اللہ تعالی صرف بیس کرے، ہماری کهوپڑیاں پٹ کے رہ جاتیں۔ تو یہ سارا جواب اللہ تعالی دے رہا ہے؛ ’’وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا * وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا * وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا * وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا‘‘، یہ آسمان، سورج، چاند، یہ ستارے، یہ دن اور رات؛ ’’يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ‘‘، سب کے پیچھے اللہ نظر آتا ہے۔
اللہ تعالی اپنا تعارف کراتا ہے: ’’إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ‘‘؛ تمہارا رب ہے اللہ۔ اللہ کا نام اللہ ہے، خدا نہیں۔ ’خدا‘ اللہ کی ایک صفت کا نام ہے، اس لیے “خدا” کہہ سکتے ہیں، لیکن لفظ ’خدا‘ اللہ پہ پورا نہیں آتا ہے، لفظ گاڈ/God اللہ پر پورا نہیں آتا ہے؛ انسان کا بنایا ہوا کوئی لفظ اللہ پہ صادق نہیں آتا، اللہ پہ صرف “اللہ” صادق آتا ہے۔ میرے رب کا نام اللہ ہے؛ ’’اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ‘‘، “اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ”، “فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ”، “إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا”، “اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ”، “اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ”، سارے قرآن میں اللہ نے ٹھہرایا ہے کہ ’’إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ‘‘۔
میرے اللہ نے تعارف کروایا کہ اس کائنات کا بنانے والا ’’اللہ‘‘ ہے اور پھر اللہ نے کہا مالک بھی اللہ، ’’قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ‘‘؛ کوئی شریک ہے؟ ’’وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ‘‘، کوئی شریک نہیں ہے۔ کوئی وارث ہے؟ نہیں! ’’مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَ لَا وَلَدًا‘‘، بیوی بیٹا کوئی نہیں۔ کوئی پیچھے وراثت آئی ہے؟” لَمْ يُولَدْ”، کسی کا بیٹا نہیں؛ ’’لَمْ يَلِدْ‘‘، کسی کا باپ نہیں؛ ’’قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ‘‘، احد اور واحد؛ واحد جس کا شریک نہ ہو، احد جس جیسا کوئی نہ ہو؛ میرا رب واحد بھی ہے، احد بھی ہے، صمد بھی ہے، قادر بھی ہے، رحمان اور رحیم بھی ہے، عزیز، جبار، متکبر بھی ہے۔ یہ میرا اور آپ کا اللہ ہے؛ ہم اپنے اللہ سے دوستی لگانے آئے ہیں، لیکن بھول گئے ہیں، دوستی غیروں سے لگادی ہے۔ پتہ نہیں کتنے پتھر بٹھالیے، کتنے اندر مندر سجالیے، کتنی مورتیاں سجالیں، ان سب کو “لا الہ الا اللہ” کی ضرب سے توڑ کر صرف اللہ کو دل دینا ہے۔
’’ما الاسلام؟‘‘ کے کئی جواب ہیں۔ میرے مضمون کے مطابق ایک حدیث یاد آگئی، ایک شخص نے کہا: “یا رسول‌الله! مَا الْإِسْلَامُ؟” اسلام کیا ہے؟ میرے نبی نے فرمایا: “أَنْ تُسْلِمَ قَلْبَكَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ”، اسلام یہ ہے کہ دل اللہ کو دے دیں اور “وَأَنْ يَسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِكَ وَيَدِكَ”، تیرے ہاتھ اور زبان سے مسلمان کی عزت اور آبرو محفوظ رہے؛ یہ ہے اسلام، دل اللہ کو دے دینا، دل میں اللہ کے سوا ہر جذبے کو کچل کے، نکال کے پھینک دینا۔ یہ سارے نبیوں کی محنت ہے اور میرے نبی کی محنت ہے کہ لا الہ الا اللہ کا نقش بٹھانا، سب سے کاٹ کر اللہ سے جوڑنا۔ جسے اللہ مِلا ہے اسے سب کچھ ملا ہے، جسے اللہ نہ ملا ہے اسے کچھ نہ ملا۔ جسے زمین کے خزانے چاہیے وہ اللہ کو ڈھونڈ لے۔ زمین اللہ کی ہے، “إِنَّ الأَرضَ لِلَّهِ”، ” وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ” جسے موسم کو اپنے موافق چاہیے وہ اللہ کو ڈھونڈ لے، ’’وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘‘ جسے بارشوں کا نظام اپنے موافق کرنا ہے وہ اللہ کو پالے، جس نے چاند ستاروں کی گردش اپنے موافق بنانا ہے وہ اپنے اللہ کو ساتھ لے لے،’’ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ* وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ”، “وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى”، “وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ* وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ”، “وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ‘‘. ستاروں کا رب اللہ، چاند کا رب اللہ، سورج کا رب اللہ، آسمان کا رب اللہ، ہواؤں کا رب اللہ، پانیوں کا رب اللہ، زمین کا رب اللہ، زمینی مخلوق کا رب اللہ، پانی کی مخلوقات کا رب اللہ، اُڑنے والوں پہ اللہ کی بادشاہی، ٹھہرنے والوں پر اللہ کی بادشاہی، رینگنے والوں پر اللہ کی بادشاہی، ہنسنے والوں پر اللہ کی بادشاہی، تارنے والوں پے اللہ کی بادشاہی، پهاڑنے والوں پے اللہ کی بادشاہی، غرانے والوں پے اللہ کی بادشاہی، زیرزمین میں رہنے والے کیڑوں پے اللہ کی بادشاہی، آسمان کے وسطوں میں اڑنے والے عقابوں پے اللہ کی بادشاہی، ہاتھی جیسا جانور کا مالک میرا اللہ، رات کے اندھیروں کے مالک میرا اللہ، دن کے اجالوں کا مالک میرا اللہ، نور و ظلمات کا بادشاہ میرا اللہ، زمین، آسمان، عرش، فرش، لوح و قلم، کرسی پر اکیلا راج کرنے والا میرا اللہ بادشاہ، نیند سے پاک، ایک اکیلا اللہ بادشاہ، تهکن سے پاک میرا اللہ اکیلا بادشاہ، اونگھ سے پاک میرا اللہ اکیلا بادشاہ، کھانے سے پاک میرا اللہ بادشاہ، پانی سے پاک میرا اللہ بادشاہ، مشیر سے پاک میرا اللہ بادشاہ، مدبر بلامشیر ’’ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ‘‘ زمین سے لے کر آسمان تک نظام بنایا، نظام پلایا، سب کو نظر میں رکھا، نہ بنا کے بھولا نہ مار کے بھولا، نہ اٹھاکے بھولا، نہ دو پنگ والوں کو بھولا، نہ چارپاؤں والوں کے، نہ اڑنے والوں کو، نہ ٹھہرنے والوں کو، نہ رینگنے والوں کو، نہ نوری مخلوق، نہ ناری مخلوق، ساری کائنات میرے رب کی نظر کے سامنے ہے، اپنے دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے، کیا دعویٰ کرتا ہے؟ کہتا ہے ’’ الذي يرى دبيب النملة السوداء، على الصخرة الصماء، في الليلة الظلماء‘‘؛ تمہیں بتاؤں تمہارے رب کی آنکھ کیسی ہے؟ کہتا ہے کہ رات کالی ہو، پہاڑ بھی کالا ہو، پتھر بھی کالا ہو، چٹان بھی کالی، چیونٹی بھی کالی ہو، تیرا رب عرشوں پر ہو، چیونٹی کالی رات میں کالے پہاڑ پر، کالی چٹان پر، کالے پتھر پر رینگ رہی ہو، تو تیرا رب کہتا ہے کہ چیونٹی دیکھ رہا ہوں اس کی ٹانگوں پر جو لکیر بن رہی ہے، تیرا رب وہ لیکر دیکھ رہا ہے۔ مجھے کیسے نہیں دیکھے گا، مجھے کیسے نہیں پرکے گا، کیا میری خلوت مجھے میرے اللہ سے دور کردے گی، چھپادے گی؟ پردوں کا گرادینا، اندھیروں کا چهاجانا؛ کیا میں اپنے اللہ سے چھپ سکتا ہوں؟ “مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا” میرے بندوں تین اکٹھے ہو کے دروازے بند کرو چوتھا اللہ ہے، پانچ اکٹھے ہوں چھٹا اللہ ہے، چھ سے چھ ہزار ہوجاؤ تمہارے اوپر اللہ ہے۔ چھ سے ایک ہوجاؤ تمہارے ساتھ اللہ ہے؛ ’’وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‘‘، تمہاری شاہرگ سے زیادہ قریب ہے؛ ’’وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ‘‘۔ زور سے بول، سنتا ہے؛ آہستہ بول، سنتا ہے؛ دل کی دھڑکنوں میں بول، وہ اس کو بھی سنتا ہے، “يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى”۔
میں ایک دفعہ اسماء الحسنی دیکھ رہا تھا، اللہ کے تمام اسماء الحسنی میں ایک نام ہے ’’المنتقم‘‘؛ غصے کو بتانے والا، غضب کو بتانے والا اور انتقام کو بتانے والا، لیکن میرے نبی نے اس کو کہاں لایا اور اس ’المنتقم‘ کو کس طرح ہلکا کردیا۔ دو صفتیں اس سے پہلے ’’العفو اور الرؤف‘‘، پھر ’المنتقم‘ اور دو صفتیں اس کے بعد ’’البر اور التواب‘‘، المنتقم کو ہلکا کردیا۔ العفو اور الرؤف دونوں رحمت کی صفتیں، پھر المنتقم، آگے البر اور التواب دونوں رحمت کی صفتیں، اللہ کے انتقام کو بھی العفو میں، الرؤف میں، البر میں اور التواب میں چھپا کر پیش کردیا؛ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر احسان ہے۔
اللہ تعالی نے سوال کیا: ’’ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا‘‘، بیکار آیا ہو؟ ’’ وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ‘‘، واپسی نہیں ہوگی؟ ” أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى” ایسے چھوڑ دیا جائے گا، پوچھ پڑتال نہیں ہے؟ ’’ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ‘‘ میرا نظام چل رہاہے، تمہاری ہر چیز لکھے گا؛ ” مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ”، تیری زبان بول رہی ہے اور میرا فرشتہ لکھ رہا ہے، اور دل پر تیرے رب کی نظر ہے کہ کیوں بول رہے ہو؟ کیوں کہہ رہے ہو؟ کس لیے کہہ رہے ہو؟ آپ کو کیا پتہ؟ خود مجھے بھی نہیں پتہ، یہ موت میں پتہ چلے گا کہ یہ اللہ کے لیے تھا، یہ اپنی واہ واہ کے لیے تھا؛ اخلاص کا دعویٰ تو کوئی کر نہیں سکتا۔ میرے رب کا سوال: کیوں پیدا ہوا؟ کس نے پیدا کیا؟ یا اللہ تو نے پیدا کیا، ’’ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ‘‘ کیوں پیدا کیا؟ ’’ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ‘‘ اس لیے پیدا کیا تا کہ میری بندگی کریں، یہ تو پوری امتوں کے لیے ہے، پھر ایک بات ہمارے لیے اضافی ہے: ” لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا” دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سے زیادہ خوبصورت عمل کون کر رہا ہے؛ ’’ إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا‘‘ زمین کی خوبصورتی کیوں ہے؟ یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے زیادہ خوبصورت عمل کون کرتا ہے۔
پہلے میں اللہ سے شروع کرتا ہوں، اللہ اپنے بارے میں کہتا ہے: ’’ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ‘‘ تیرے رب جیسا حسین خالق کوئی نہیں، اللہ خود بھی جمیل ہے جمال کو پسند کرتا ہے، حَسین ہے حُسن کو پسند کرتا ہے ” وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ”؛ پھر اللہ آپ کو کہتا ہے: ” لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ” پھر میں نے تیرے جیسا کوئی نہیں بنایا، اے انسان تو بھی سب سے حسین نظام میں پیدا کیا گیا، جب اللہ ساری کائنات کے بنانے کو ذکر کیا تو اپنا تعارف کرادیا ” فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ”۔ پھر اللہ کہتا ہے: ’’ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ‘‘ کیا برکت والا ہے پوری کائنات کا رب، رب کا اصل مطلب ہے مالک، بادشاہ۔ اب صرف اللہ ایک انسان بنانے کا ذکر کرے گا: ’’ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ‘‘، انسان مٹی سے بنایا؛ ’’ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ‘‘ پھر نطفہ؛ ’’ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً‘‘ پھر نطفہ ایک لوتھڑا؛ ” فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً” پھر لوتھڑا ایک بوٹی؛ ’’فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا‘‘ پھر اس میں ہڈیاں؛ ’’فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا‘‘ پھر اس پر گوشت؛ “ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ” پھر ماں کے پیٹ میں ایک انسان کی شکل بنادیا۔ «فَتَبَارَكَ اللَّـهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ».
جنت میں خط آئے گا اللہ کی طرف سے بندے کے نام اور وہ خط فرشتے لے کر آئے گا، جب وہ کھولے گا تو اوپر لکھا ہوگا ’’من العزیز الرحیم إلی العزیز الرحیم‘‘، اس رب کی طرف سے جو عزتوں اور رحمتوں والا ہے اس بندے کے نام جو وہ بندہ بھی اب عزتوں اور رحمتوں والا بن چکا ہے۔ ’’من الحی القیوم إلی الحی القیوم‘‘، اس رب کے طرف سے جو زندہ اور قائم ہے اس بندہ کے نام پر جو وہ بھی زندہ اور قائم ہوچکا ہے، وہ بھی موت سے پاک ہوچکا ہے، اس خط کو پڑھنے کی حلاوت جنت سے ہوگی کہ میرے رب اپنے بندے کا حال پوچھنے کے لیے خط بھیجے گا، قرآن کھولو۔ میرے رب نے کہا: ’’ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ‘‘ تیرے رب نے سب سے خوبصورت کتاب، قرآن کو اتارا۔ پھر اللہ کے اسلام کھولو: ’’ وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ‘‘ کہ جو مذہب اسلام میں نے تمہیں دیا ہے یہ تمام ادیان میں سب سے حسین دین ہے۔ پھر اشارہ کرتے: ” وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً” میں نے جو نبی دیا ہے ایسا حسین نبی کائنات میں کوئی نہیں ہے، اللہ سے خوبصورت کس کا رنگ ہوگا اور میرے اللہ کا رنگ میرے رب کی شریعت ہے، اور شریعت لانے والا میرا نبی ہے، جس کو اللہ نے ساری کائنات میں سب سے افضل، اعلی، اجمل، انور، ارفع، اعلم، ارحم اور کتنے الفاظ سے تعارف کروایا ہے، ہماری باگ جاگے اللہ نے ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم نبی عطا فرمایا، اللہ نے جنہیں حبیب بنایا، جن کے وجود کی قسمیں اٹھائیں، اللہ نے کسی نبی کی قسمیں نہیں اٹھائیں، ’’لأمرک‘‘ اے میرے محبوب آپ کی جان کی قسم۔ کسی کے بول کی قسم نہیں اٹھائی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بول کی قسم اٹھائی: ’’ وَقِيلِهِ يَا رَبِّ إِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمٌ لَا يُؤْمِنُونَ‘‘ اے میرے محبوب، اس محبوب کے بول کی قسم۔ کسی کے شہر کی قسم نہیں اٹھائی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی قسم اٹھائی: ’’وَهَـذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ‘‘۔ تورات، انجیل، زبور کی قسم نہیں اٹھائی؛ میرے نبی کے قرآن کی قسم اٹھائی: ’’ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ‘‘۔ کسی نبی کی رسالت پر قسم نہیں اٹھائی، اپنے حبیب کی رسالت پے قسم اٹھائی: ” يس وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ”، مجھے قسم قرآن حکیم کی آپ میرے رسول ہیں؛ ’’عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ‘‘ اور میں قسم اٹھا کے کہتا ہوں کے آپ ہی سیدھے راستے پر ہیں۔ اللہ تعالی نے کسی کی صفائی پیش کرتے ہوئے قسم نہیں اٹھائی، لیکن اپنے حبیب کا وکیل صفائی بن کر قسمیں اٹھائیں: ’’فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ * وَمَا لَا تُبْصِرُونَ * إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ * وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ * وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ”؛ “وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى * مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى * وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى‘‘ اپنے حبیب کی صفائی پیش کرتے ہوئے قسمیں اٹھائیں، اپنے نبی کو تسلیاں دیتے ہوئے قسمیں اٹھائیں: ’’وَالضُّحَى * وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى * مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى * وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَى * وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى‘‘۔
ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی: ’’ وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ‘‘، یا اللہ جنت عطا فرما، اللہ نے دے دی، چار ہزار نبیوں کا باپ بنادیا، اللہ نے اپنے حبیب کو مانگنے سے پہلے فرمایا: “إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ” اے میرے حبیب جنت کی چابی تیرے ہاتھ میں ہے، ساری جنت کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وارث بنادیا؛ میرے نبی نے فرمایا: ’’إن الجنة حرمت على الأنبياء كلهم حتى أدخلها‘‘ سارے نبیوں پر جنت حرام ہے جب تک میرا قدم نہ پڑ جائے۔ کسی نبی کے گھرانہ کو جنت کی سرداری نہ ملی، میرے نبی کے گھرانہ کو جنت کی سرداری ملی؛ میری بیٹی فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں، میرے بچے حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں. علی کا ہاتھ پکڑ کے سینے کے قریب کرکے فرمایا: ’’علی أترضی ان یکون منزلک مقابل منزلی فی الجنۃ‘‘ علی تو راضی ہے جنت میں تیرا گھر میرے گھر کے سامنے ہو؟ تو علی رونے لگے اور کہا یا رسول اللہ! میرا تو گھر پورا ہوگیا مجھے اور کیا چاہیے، میں راضی ہوں میرا گھر آپ کے گھر کے سامنے ہو۔ کسی نبی کے صحابہ کو زندگی میں جنت کی بشارت نہیں ملی، میرے نبی کے صحابہ کو زندگی میں جنت کی بشارت ہے: ’’ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى‘‘، اے میرے محبوب میرا وعدہ ہے آپ کے تمام صحابہ جنت میں جائیں گے، میرے نبی نے فرمایا: اللہ تعالی جنت میں دیدار عام کرے گا، “إن الله یتجلی یوم القیامة للناس عامة”؛ ایک آدمی کو اس میں سے دیدار خاص ہوگا، ساری امت کو دیدار عام ہوگا، ایک آدمی کو دیدار خاص ہوگا وہ ہے ابوبکر صدیق، ’’و لأبی بکر خاصة‘‘۔
عرفہ کا میدان تھا، ایسا مجمع سامنے تھا، سب صحابہ سامنے تھے؛ میرے نبی نے فرمایا: اس وقت میرا اللہ میرے صحابے پے فخر کررہا ہے اور عمر بن خطاب پر خاص طور پر فخر کررہا ہے۔ میرے نبی نے فرمایا: عثمان! جنت میں ہر نبی کا ایک رفیق ہوگا، میرا رفیق تو ہوگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ہر نبی کا ایک حواری ہوگا، میرا دو حواری ہوگا؛ طلحہ اور زبیر۔
میرے نبی مسجد میں داخل ہوئے، آپ کے دائیں ابوبکر تھے اور بائیں عمر تھے؛ سامنے صحابہ کی نظر پڑی، آپ ﷺ نے دونوں کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: ’’ھکذا نحشر یوم القیامة‘‘، قیامت کے دن ہم ایسے ہی اٹھیں گے۔
میرے نبی نے فرمایا لوگ میدان حشر میں پیدل چلیں گے، میں براق پے ہوں گا اور بلال میرے سامنے سرخ اونٹ پے سوار ہو کے چلے گا. جب میدان محشر پہنچیں گے تو بلال اونٹ پر کهڑے ہو کر اذان دے گا اور اس دن آدم کی پوری نسل بلال کی اذان سنے گی. جب وہ کہیں گے ’’ أشهد أن لاإله إلا الله‘‘، سب کہیں گے ’’صدقت صدقت!‘‘، سچ کہہ رہے ہو! سچ کہہ رہے ہو! جب وہ کہیں گے ’’أشهد أن محمداً رسول الله‘‘ تو سارا مجمع محشر کہیں گے ’’صدقت صدقت‘‘ سچ کہہ رہے ہو سچ کہہ رہے ہو! میرے نبی نے فرمایا ساری امتوں پر جنت حرام ہے جب تک میری امت نہ چلی جائے، ” وحرمت على الأمم حتى تدخل أمتي”۔
میرے نبی سے زیادہ خوبصورت رنگ دینے والا ہے؟ میرے اللہ کے حبیب، میرے اللہ کے محبوب، سب سے پہلے وجود بخشا، میرے نبی نے فرمایا: اللہ نے کائنات کے بنانے سے ہزار سال پہلے سورہ یاسین کی تلاوت فرمائی، نہ زمین نہ آسمان، نہ سورج نہ چاند، نہ ستارے نہ سیارے، نہ لوح نہ قلم، نہ کرسی نہ عرش نہ فرش، نہ جنت نہ جہنم، نہ جبرئیل نہ عزرائیل، نہ میکائیل نہ اسرافیل؛ جب کچھ نہیں تھا تو میرے رب نے کہا: ’’إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ‘‘، اے میرے حبیب! آپ میرے رسول ہیں۔
وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني ** وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ
خلقتَ مبرأً منْ كلّ عيبٍ ** كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ
یہ لفظ تو حسان رضی اللہ عنہ نے واضح کرکے استعمال کردیا، آپ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا، ’’عظیم الھامة‘‘بڑا سر، ’’رجل الشعر‘‘ نیم گوریالہ بال، ’’شدید السواد الشعر‘‘ سیاہ کالے بال، ’’واسع الجبین‘‘ کشادہ ماتھا، ’’أزج الحواجب‘‘ ابرو خمدار، باریک اور گنجان، ’’من غیر قرن‘‘ ابرو مبارک جدا جدا تھے، ’’أقنی العرنین‘‘ ناکھ مائل بہ بلندی تھی، ذرا اٹھا ہوا تھا، آگے سے باریک، ’’له نور یعلوہ‘‘ وہاں سے نور نکلتا تھا۔ آنکھیں کیسی؟ ’أدعج، أشکل، أھدب، أھور، أنجل، أبرج، أکحل‘ یہ میرے نبی کی آنکھوں کا حسن بیان کرنے کے لیے سات الفاظ آئے ہیں، ان سات الفاظ کا ایک ترجمہ ہے کہ اس کائنات میں ایسی حسین آنکھ اللہ نے کسی کو عطا نہیں فرمایا ہے۔
’’و أحسن منک لم تری قط عینی، و أجمل منک لم تلد النساء‘‘ آپ جیسا حسین میری آنکھ نہ دیکھا، آپ جیسا جمال والا کسی ماں نے جنم نہیں دی نہ پہلے نہ بعد میں۔ آپ ہی اول اور آخر ہیں، سب نبی عالی نسب ہیں لیکن صرف میرے نبی کا نسب آدم علیه السلام تک جاتا ہے۔
الله ” احسن الخالقین”، میرے نبی ’أحسن لم تری قط عین و أجمل لم تلد النساء‘، میرا قرآن ’أحسن الحدیث‘، میرا دین ’أحسن دیناً‘، میرا رب ’أحسن الخالقین‘، اور میرا امتحان ” لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا” اور اس پر ٹھکانہ ’أحسن مقیلا‘ اور پھر اللہ نے فرمایا ’’وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ‘‘ میرے بندوں سے کہو کہ سب سے خوبصورت حسین بول بولا کرے، پھر اللہ نے کہا، ’’ فَبَشِّرْ عِبَادِي‘‘ میرے بندوں کو خوشخبری دے، ’’ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ‘‘ جو سب سے حسین بول کی پیروی کرتے ہیں۔
حسین اور کثیر، بہت زیادہ کا امتحان نہیں بہت خوبصورت کا امتحان ہے۔ ایک واقعہ سے میری بات واضح ہوجائے گی، تبوک کے موقع پر اللہ کے نبی نے کہا: جان لگاؤ مال لگاؤ، عثمان رضی اللہ عنہ اتنا لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ’’ما علی عثمان أن لا یعمل بعدہ‘‘، عثمان! تو آج کے بعد کچھ بھی نہ کرے، تیری بخشش کا فیصلہ ہوگیا۔ عمر رضی اللہ عنہ ساری زندگی کوشش کرتے کہ ابوبکر سے بڑھوں، (یہ بڑھنا تو محبوب ہے) بڑھ نہیں سکے۔ تبوک کے موقع آگیا، ابوبکر فقیر تھے اور عمر مالدار تھے، کہنے لگے آج موقع مل گیا۔ انہوں نے اپنا مال اکٹھا کردیا، آدھا لاکر سامنے رکھا اور ابوبکر نے سارا اٹھا کے سامنے رکھ دیا، دیکھنے میں عمر رضی اللہ عنہ کا مال زیادہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تھوڑا تھا، اللہ اور رسول جانتے ہیں کہ کثرت میں عمر بڑھا ہوا ہے اور خوبصورتی میں ابوبکر بڑھے ہوئے ہیں اور حسین کو جیتنا ہے، اس موقع کا یہی سوال تھا جو میرے نبی نے کیا لیکن بظاہر یہ سوال بنتا نہیں، عمر ’’ما ترکت لأھلک؟‘‘ عمر پیچھے کیا چھوڑ کے آئے ہو؟ عمر نے کہا: آدھا چھوڑ کے آیا ہوں۔ آپ نے کہا: ابوبکر ’’ماترکت لأھلک؟‘‘ ابوبکر تو گھروالوں کے لیے کیا چھوڑ کے آیا؟ ابوبکر نے کہا کہ میں تو اللہ اور رسول کو چھوڑ کے آیا ہوں۔ تو عمر نے کہا کہ ابوبکر میں تم سے آگے نہیں نکل سکتا ہوں۔ یہ ہے “احسن عملا” اور “اکثر عملا” کی مثال، اکثر عملا بھی مطلوب ہے لیکن فیصلہ ہوگا ’احسن عملا‘ کا۔ زیادہ خوبصورت کس کا ہے؟
اب اگر ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ سب سے خوبصورت عمل کونسا ہے تو ہم تھوڑے وقت میں زیادہ کما سکتے ہیں، کیوں کہ یہ امت وقت کے لحاظ سے غریب ہے اور مال کے لحاظ سے امیر ہے۔ پہلی امتیں وقت کے امیر تھیں، سو سال، دو سو سال، تین سو سال تک عمر پائی جاتی تھیں، اب ساٹھ ستر سال میں لوگ مرجاتے ہیں. ہمارے پاس وقت کم اور اسباب زیادہ ہیں، تو ہمیں تھوڑے وقت میں اگر سب سے اچھے عمل کی خبر ہوجائے وہ کیا ہے، اگر ہم وہ کرنے لگ جائیں تو ان شاء اللہ آگے نکل جائیں گے اور اللہ کو بھی راضی کرلیں گے اور جنت میں بھی چلے جائیں گے۔ تو میں اپنے رب پے قربان ہوجاؤں میرے اللہ نے ہمارے اوپر مشقت نہیں ڈالی کہ ڈھونڈو کونسا عمل سب سے خوبصورت ہے، اللہ نے خود بتادیا کہ تمہارے پاس وقت تھوڑا ہے، میں خود بتاتاہوں کے تیرے رب کی بارگاہ میں سب سے خوبصورت عمل تبلیغ ہے، دعوت الی اللہ سب سے خوبصورت عمل ہے؛ ’’ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ‘‘ کوئی ہے جو مجھے دعوت سے بہتر عمل دکھادے؟ اللہ تعالی چیلنج دے رہا ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عمل دعوت الی اللہ سے بہتر نہیں ہے، دعوت الی اللہ سب سے خوبصورت عمل، اللہ کی طرف بلانا سب سے خوبصورت عمل، اللہ کی طرف ٹھہرنا سب سے خوبصورت محنت جس پر اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو بھیجا، پھر ہمارے نبی کو بھیجا، پھر ہم پے کرم فرما کر ان کے ختم نبوت کے طفیل اس محنت کو ہماری طرف منتقل کیا، یہ اس امت کی خاصیت اور امتیازی نشان ہے “کنتم خیر أمة”، “هو اجتباکم” و “ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا”۔
نبیوں کے لیے یہ تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں: ’’ ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى‘‘، آدم علیہ السلام۔ ” وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ”، یوسف علیہ السلام۔ ’’ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ‘‘، ابراہیم علیہ السلام۔ “اجتباہ”، “یصطفی” و “أنا اخترتک” نبیوں کے لیے، اجتباہ کیا ہوتا ہے؟ کسی کام کے لیے چناؤ۔ اصطفاہ کیا ہوتا ہے؟ خالص چیز کا چناؤ، اختار کیا ہوتا ہے؟ پسندیدہ چیز کا چناؤ۔ اللہ نے یہ تین لفظ جو نبیوں کے لیے لایا تھا وہ تین الفاظ اس امت کے لیے بھی لایا ہے ” كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ” اے امۃ محبوب تم بڑے اعلیٰ ہو، بڑے زبردست ہو، یا اللہ کیوں؟ تہجد زیادہ پڑھتے ہیں؟ علم زیادہ حاصل کرتے ہیں؟ حج ہر سال کرتے ہیں؟ نہیں! خیرامۃ، ساری امتوں میں سے تمہیں پسند کرچکا ہوں اس لیے کہ ’’أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ تم میرا پیغام پہنچانے کے لیے نکلے گئے ہو، ’أخرجت‘ یہاں بہت طاقتور لفظ ہے، ’خرجت‘ نہیں کہا، یہ لفظ بھی معنیٰ دے سکتے تھے، لیکن اخرجت کے اندر یہ معنیٰ ہے کہ اللہ تعالی فرما رہا ہے: میں نے تمہیں کہا ہے کہ میرا پیغام لے کر نکلو، میں تمہیں بلانے آرہا ہوں کے آؤ اور میرے پیغام کو لے کر دنیا کے آخری کنارے تک پہنچاؤ، اس لیے کہ تم سب سے اعلیٰ درجے کی امت ہو کہ تم میرے پیغام کو لے کر دنیا میں پھرتے ہو، کوئی امت پیغام حق نہیں لے کر نکلے سوائے اس امت کی، لہذا مکہ کی چوٹیوں سے جو کلمہ توحید بلند ہوا اور مدینہ میں جاکر خوبصورت نظام اور ریاست کی شکل اختیار کی، وہاں سے ابھری ہوئی آواز اور وہاں سے اٹھنے والی آواز اور اس پر لے کر چلنے والی جو طاقتور حکومتوں کو ختم کیا، ایران کی طاقتور حکومت تین ہزار ایک سو چونسٹھ سال (۳۱۶۴) قائم رہی ہے جس میں مختلف اقوام آئی ہیں، مختلف خاندان آئے ہیں، آخری خاندان ساسانی تھا جس کا آخری بادشاہ یزدگرد تھا جو حضرت عثمان کے زمانہ میں قتل کیا گیا تھا اور اس حکومت کا خاتمہ ہوا اور اس ساسانی خاندان کا مشہور بادشاہ انوشیران عادل تھا. فردوسی کہتا ہے کہ اونٹ چرانے والے اور اونٹنی کا دودھ پینے والے یہ عجم کے تخت کے مالک بن گئے، اے ٹھہرے آسمان تجھ پر تف ہے، عرب کے صحرانشین میرے نبی کے پیغام لے کر نکل گئے تھے اور زندگی جب تک وفا کرتی ہے ان کی قبریں ایسے قدم بہ قدم بڑھتے بڑھتے کائنات کے چھپے چھپے میں جہاں تک دنیا آباد تھی، پهیلتے چلے گئے اور واپسی نصیب نہیں ہوئی، میرے رب کا پیغام دنیا کے آخری کناروں تک، جہاں تک وہ جاسکتے تھے، انہوں نے پہنچایا۔
میرے نبی مسجد میں تھے، ایک نوجوان آئے ان کا نام سعد تھا، کہا: یارسول اللہ میں بڑا خاندانی آدمی ہوں، لیکن میں کالا بھی ہوں، بدصورت بھی ہوں؛ مجھے لڑکی کوئی نہیں دیتا، میری شادی کروائیں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ عمرو بن وہب سے کہو تمہیں بیٹی دے دیں، یہ اٹھے اور دروازے پہ دستک دیا اور کہا اللہ کے رسول کا قاصد آیا ہے، باہر آؤ، عمرو نے جواب دیا: ’’لبیک لرسول رسول اللہ‘‘ میں حاضر اللہ کے نبی کے قاصد کے لیے، آگے دیکھا تو سعد سلمی، کہا: جی! کس لیے آیا ہے؟ سعد نے کہا: اللہ کے نبی نے فرمایا کہ آپ اپنی بیٹی میرے نکاح میں دے دیں۔ کہا: جاؤ، نہیں دوں گا تجھے، غریب اور فقیر۔ وہ تو اسی قدموں پر واپس آگیا، بیٹی نے پیچھے سن لیا اور کہا: ابا جان! تو نے میرے نبی کی بات کو ٹکرایا ہے، جاؤ، جاکے ہاں کردو، کہیں ہمیں تباہی نہ دیکھنے پڑے۔ سعد مجلس میں آئے، پیچھے عمرو بن وہب بھی آگئے، تو آپ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا: عمرو! تو نے ہماری بات ہی ٹکرادی، کہا نہیں یارسول اللہ میں حاضر ہوں آپ میری بیٹی کا نکاح پڑھیں، آپ نے نکاح پڑھا اور چار سو درہم مہر رکھ دیا، آپ ﷺ نے فرمایا: سعد! چل اپنی بیوی کو لے جا، کہا یا رسول اللہ پیسے کہاں سے لاؤں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جاؤ عبدالرحمن، سعد بن ابی وقاص اور علی بن ابی طالب کے پاس اور ان تینوں سے کہو تمہارے مہر کا انتظام کریں. تینوں کے پاس گئے، انہوں نے مل کر چار سو سے زیادہ کا بند و بست کردیا، تو بڑے خوش ہوئے اور کہا چار سو کو مہر کے لیے دوں گا باقی شادی کے لیے کچھ سامان و غیرہ لے لوں گا تو خوشی خوشی بازار میں داخل ہوئے، یہ وہ دور ہے جو گاہے گاہے مدینے پر دشمن حملے کرتے تھے. تو اُحد کی جانب کافروں نے اٹیک کردیا، مسجد میں خبر پہنچی کہ یا رسول اللہ! حملہ ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اعلان کرو، اعلان ہوتا تھا کہ ’’یا خیل اللہ ارکبی‘ اے اللہ کے سوارو نکلو، سعد بازار میں داخل ہوتے ہوئے وقت کان میں آواز پڑی اے اللہ کے سوارو، سعد کے قدم رکے، ’’فنظر نظرۃ فی السماء‘‘ آسمان پر ایک نظر ڈالی اور کہا ’’اللهم اله السموات و الارض‘‘ اے زمین اور آسمان کا اللہ، ’’و اله محمد ﷺ‘‘ اور اے محمدﷺ کے اللہ، ’’لأجعلن ھذہ الدراھم فی ما یحب اللہ و رسوله و المومنین‘‘ ابھی یہ پیسہ سعد کی شادی پے نہیں لگے گا. ابھی یہ وہاں لگے گا جہاں تو بھی خوش ہوگا، تیرا نبی بھی خوش ہوگا، ایمان والے بھی خوش ہوں گے، ان ہی پیسوں سے گوڑا، تلوار اور ڈهال خریدی اور چلانگ لگادی اور چہرہ چهپا دیا، شاید اس لیے کہ پہچانا نہ جاؤں اور کوئی واپس نہ کردے اور آکر پیچھے سے حملہ آور ہوئے، گوڑے کو اٹھایا اور جوش کے ساتھ صفوں کے اندر گھس گئے، گوڑا زخمی ہوکے گرگیا، اڑتی تلوار پکڑلیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی اور بازوؤں سے پہچانا اور کہا: سعد! تو یہاں کیا کررہا ہے؟ تجھے کہاں بھیجا تھا؟ کہا: یا رسول اللہ میں سعد ہوں، اللہ اور رسول کو راضی کرنے کے لیے آیاہوں، آپﷺ نے کہا: تجھے مبارک ہو جنت تجھ پے واجب ہوگئی، کہا مجھے اور کچھ نہیں چاہیے اور چلانگ لگادی اور تلواروں کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے گر گئے، سارے صحابہ ابھی اس کی مجلس نکاح میں بیٹھے تھے اور ابھی اس کی تڑپتی لاش دیکھ رہے تھے، نبی ﷺ آگئے اور سعد کو اپنی گود میں لے لیا، سر اپنی گود میں رکھا اور آپ کے آنسو گر گر کر سعد کے چہرہ پر پڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے ’’ما أطیب ریحک و أحبک الی اللہ و رسوله‘‘ اے سعد میں قربان جاؤں تو اللہ اور رسول کا کتنا پیارا بن چکا ہے اور تو کتنا خوشبودار بن چکا ہے، پھر ایک دم مسکرا کر منہ پھیرا کر کہا ’’ورد الحوض و رب الکعبة‘‘ رب کعبہ کی قسم سعد حوض پے پہنچ گئے۔ ابولبابہ کہنے لگے حوض کیا ہے؟ کہا: میرے رب نے مجھے کوثر دیا جس کا ایک گونٹ پینے والا کبھی پیاسا نہ رہے گا، سعد وہاں پہنچ چکا ہے، ابولبابہ کہنے لگے یا رسول اللہ پہلے آپ رو رہے تھے پھر آپ ہنسنے لگے؛ پھر آپ نے منہ پھیر لیا، یہ بتائیں گے کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں سعد کی جدائی پے رو رہا تھا، ’’وأما ضحکی فلما رأیت منزله عنداللہ‘‘ اور میں مسکرایا ہوں اس کی عالی شان درجات جنت میں دیکھ کر، اور منہ پھیرا ’’فلما رأیت ازواجه من الحور العین‘‘ میں نے اس کی جنت کی حوروں کو دیکھا ’’یتبادرنه‘‘ اس کو گلے لگانے کے لیے ڈول لگا رہی تھیں اور ہر حور کی خواہش تھی میں آگے بڑھ جاؤں اور سب سے پہلے میں سعد کے گلے لگوں، اس تیز دوڑنے کی وجہ سے ’’کاشفات سوقھا‘‘ ان کی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹ گیا ہے اور ان کی مرمری پنڈلیاں مجھے نظر آرہی تھیں ’’و بادیات خلاخیلھا‘‘ اور ان کے پاؤں میں بڑی چن چن کرتی بازیں مجھے دکھائی دے رہی تھیں. اس لیے میں نے شرم سے منہ پھیر لیا۔ جاؤ سعد کی منکوحہ سے کہہ دو کہ سعد کے رب نے تجھ سے زیادہ حسین بیویوں کے مالک اسے بنادیا، یہ مٹی سے بنی، وہ مشک، عنبر، زعفران اور کافور سے بنائی ہیں، وہ سورج کو انگلی دکھائے سورج بے نور ہوجائے، وہ مُردوں سے بات کرے وہ اٹھ کے زندہ ہوجائیں، وہ سمندر میں تھوک ڈالیں ساتوں سمندر شہد کی طرح میٹھے ہوجائیں، یہ حسین بیویاں اللہ نے سعد کو دے دی۔ ایک نظر ڈالے، اس رب کی قسم جس نے یہاں بٹھایا ہے چالیس سال سے ایسا دیکھتے رہے گا کہ آنکھ جهپک نہ جائیں، ایسی پاکیزہ بیویاں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے تیار کیا ہے۔

آخر میں پتہ نہیں آپ لوگ تین دن کے لیے آئے تھے یا ایک دن کے لیے، میری گزارش ہے یہاں سے گھر واپس نہ جاؤ، یہیں سے اللہ کا پیغام لے کر آگے نکل جاؤ کیوں کہ کامیابی اس میں ہے۔

و صلی اللہ تعالی علی خیرخلقہ محمد و آلہ و صحبہ اجمعین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں