مسلمان والدین بچیوں کو مخلوط سوئمنگ پول میں بھیجنے پر مجبور

مسلمان والدین بچیوں کو مخلوط سوئمنگ پول میں بھیجنے پر مجبور

سوئٹزرلینڈ نے یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای سی ایچ آر) میں ایک کیس جیت لیا ہے، جس کے تحت مسلمان والدین اپنی بیٹیوں کو تیراکی کی کلاسز کے لیے مخلوط سوئمنگ پول میں بھیجنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
دی انڈیپنڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 7 ججوں پر مشتمل ایک پینل نے قرار دیا کہ اگرچہ اس سے مذہبی آزادی میں مداخلت ہوئی ہے تاہم اس اقدام کا مقصد بچوں کو معاشرے میں ایک دوسرے سے گھلنے ملنے میں مدد دینا ہے۔
واضح رہے کہ باسل سے تعلق رکھنے والے سوئس-ترکش والدین عزیز عثمان اوگلو اور سہابت کوزیباش نے اس حوالے سے عدالت سے رجوع کیا تھا، جنھوں نے اپنی بیٹیوں کو مخلوط سوئمنگ پول میں بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔
باسل کے محکمہ تعلیم کے حکام نے مذکورہ والدین کو مشورہ دیا تھا کہ بچیوں کو تیراکی سے روکنے پر ان پر ایک ہزار سوئس فرانک تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، تاہم بچیوں کے اسکول کی جانب سے ثالثی کوششوں کے باوجود بھی انھوں نے تیراکی کی کلاسز میں حصہ نہیں لیا تھا۔ جس کے بعد لڑکیوں کے والدین پر جرمانہ عائد کر دیا گیا تھا۔
مذکورہ جوڑے نے عدالت سے رجوع کیا، تاہم ان کی اپیل کو مسترد کردیا گیا جبکہ سوئٹزرلینڈ کی وفاقی عدالت نے 2012 میں ان کی اپیل خارج کردی تھی۔ جس کے بعد اس جوڑے نے یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق سے رجوع کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی بچیوں کو مخلوط سوئمنگ پول میں بھیجنا یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم ای سی ایچ آر نے جوڑے کی درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ مذہبی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔
فیصلہ دینے والے پینل میں سوئس، سوئیڈش، ہسپانوی، سربین اور چیکو سلاویا سے تعلق رکھنے والے ججز شامل تھے، جنھوں نے فیصلہ دیا کہ اگرچہ مذہبی آزادی میں کچھ حد تک مداخلت ہوئی ہے، تاہم یہ اُس اقدام کا حصہ ہے جس سے غیر ملکی طلبہ خود کو دوسرے طلبہ سے الگ تھلگ نہیں سمجھیں گے۔

اردو ٹائمز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں