دینی ماحول میں بزنس تعلیم

دینی ماحول میں بزنس تعلیم

’’ابو! میں پڑھوں گا۔ میں کاروبار کے جدید طریقے سیکھوں گا۔ میں سیکھوں گا کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیز کس طرح اتنی بڑی بن گئیں؟ یہ کس طرح اپنے کاروبار چلاتی ہیں؟ کس طرح یہ اپنا کاروبار پھیلاتی ہیں؟ یہ سب میں سیکھنا چاہتا ہوں؟ میرا دل چاہتا ہے کہ پاکستان کی بھی ملٹی نیشنل کمپنیز ہوں جو پاکستان کی معیشت کو مستحکم کریں۔ لیکن میں ان تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھنا چاہتا جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا دین برباد ہو جائے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری عبادات کا نور برباد ہو جائے۔
میں نہیں چاہتا کہ میں کوئی ایسی حرکت کر بیٹھوں جس سے میں اور میرا خاندان بدنام ہو جائے۔ ابو! پلیز آپ سرچ کریں، کوئی ایسا ادارہ ہو جو مجھے بہترین بزنس کی تعلیم دے اور میں اپنا ایمان بھی محفوظ رکھ سکوں۔ میں اپنے دینی اعمال پر بھی قائم رہ سکوں۔ میرے اساتذہ نے مجھے حفظ کروایا۔ میں نے آئی کام کی تعلیم ایک بوائز کالج میں لی۔ میں ہر سال تراویح میں قرآن سناتا ہوں۔ اپنے کالج میں، میں نے نمازوں کی امامت کروائی ہے۔ میں اپنی مسجد کے امام صاحب سے مسائل سیکھتا ہوں۔ الحمد للہ! نمازوں کی پابندی کرتا ہوں۔ ان تمام برائیوں سے محفوظ ہوں جن میں بہت سے نوجوان پڑ جاتے ہیں۔ آپ نے مجھ پر اتنی محنت کی ہے۔ میں یہ تمام محنت یونیورسٹی کے ماحول میں جا کر کھونا نہیں چاہتا۔ پلیز! کوئی ادارہ تو ہو گا جو دینی ماحول میں یونیورسٹی لیول کی تعلیم دیتا ہو گا… ابو آپ دیکھیے…‘‘ یہ ایک باعمل نوجوان ’’احمد‘‘ کی اپنے باپ سے التجا تھی۔ وہ اصرار کر رہا تھا کہ میرے لیے مزید تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ لیکن میں ایسے ماحول میں نہیں پڑھنا چاہتا جہاں میرا دین، میرے نیک اعمال محفوظ نہ ہوں۔

لیکن… ابو جواب دیتے ہیں: ’’بیٹا! تمہاری خواہش اپنی جگہ پر قابل احترام ہے۔ میں نے بہت سرچ کیا لیکن ایک ادارہ بھی مجھے نہیں ملا جہاں بزنس کی تعلیم دینی ماحول میں دی جا رہی ہو۔ بلکہ میں نے محسوس کیا کہ بزنس اسکولز میں تو زیادہ آزادانہ ماحول ہے۔ وہاں عملی بزنس کرنے کی اور مارکیٹ کو سمجھنے کی مشق کروائی جاتی ہے۔ وہاں گروپ بنا کر کام ہو رہا ہوتا ہے۔ لڑکیاں، لڑکوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ گاہک سے رابطے کا معاملہ ہو یا ایڈورٹائزمنٹ، یہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکیاں زیادہ بہتر کام کر سکتی ہیں، لہذا وہاں ماحول مزید آزادانہ ہو جاتا ہے۔ میری خواہش بھی یہی ہے جو تمہاری ہے لیکن بیٹا میں کیا کروں؟ کاش! ایسا ادارہ ہوتا جہاں میں تمہیں داخلہ دلوا کر تمہاری خواہش پوری کر پاتا…‘‘ یہ ایک دین دار باپ بیٹے کی گفتگو کا نمونہ ہے۔ یہ صرف ایک باپ بیٹے کی نہیں بلکہ ہر دین دار شخص کا مسئلہ ہے۔ اولاد کی تربیت دینی خطوط پر کرنے کے لیے تعلیم گاہ ایک اہم کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ اگر گھر کا ماحول دینی ہو لیکن تعلیم گاہ میں ماحول دینی نہ ہو تو ماں باپ کی طرف سے کی جانے والی ساری محنت نا صرف برابر ہو جاتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں بچہ ایک فرسٹیشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ماں، باپ ایک بات کہتے ہیں اور اساتذہ، تعلیمی ادارے کا ماحول اس کے خلاف ہے۔ کون صحیح ہے؟ پھر اس بات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ آزادانہ ماحول کی طرف مائل ہو جائے۔ دین ہم سے یہ نہیں کہتا کہ سب لوگ عالم بنیں۔ حافظ بنیں۔ بلکہ ایک اسلامی معاشرے کو جس طرح علما، خطبا اور حفاظ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اسلامی معاشرے میں دیندار ڈاکٹرز، انجنینئرز، ماہرین تعلیم اور ماہرین تجارت سب کی ضرورت ہے۔ جو اپنے شعبوںکو دین کے مطابق لے کر چلیں۔ لیکن اگر آج ہم اپنے بچوں کی دینی تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم انہیں ایسے اداروں میں ہی تعلیم دلاوانا چاہتے ہیں جہاں دینی ماحول ہو۔ تو کیا ہم اپنے بچوں کو صرف عالم یا حافظ ہی بنا سکتے ہیں؟ یا پھر ہمارے پاس کوئی اور آپشن بھی ہے؟

آج سے کچھ عرصہ پہلے تک اس کا جواب شاید ’’نہیں‘‘ میں ہوتا۔ اگرآپ صرف دینی ماحول والے ادارے میں ہی اپنے بچے کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو صرف آپ کے پاس حافظ اور عالم بننے کا آپشن ہی ہے۔ الحمد للہ! آج احمد کے والد کو کاش کہنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر www.kims.net.pk اپنے انٹرنیٹ کے ایڈریس باکس پر لکھیں تو انہیں ایک ادارے کی ویب سائٹ مل جائے گی جو ملک کی ٹاپ لیول کی یونیورسٹی کے ڈگری پروگرامز چلا رہا ہے۔

معاشرے کے لیے باکردار مسلمان قیادت کی فراہمی کے لیے کچھ علما، مشائخ، ماہرین تعلیم اور ماہرین تجارت نے سر جوڑا اور 2006 ء میں ’’کراچی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ سائنسز‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ اگست 2007 ء سے باقاعدہ کراچی یونیورسٹی کے تحت ایم بی اے کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ مئی 2009 ء میں پہلا بیچ ایم بی اے کر کے فارغ ہوا۔ اس بیچ کے شرکا سب عالم دین تھے۔ اس کے بعد سے اب تک ایم بی اے کے 12، بی بی اے کے 10، بی اے کے 6، ایم اے اکنامکس کے 3 اور بی کام کا ایک بیچ اپنی تعلیم مکمل کر چکا ہے۔

’’کراچی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ سائنسز‘‘ ڈگری لیول کی تعلیم کا ایک معیاری ادارہ ہے۔ یہاں کے اساتذہ تجربہ کار، تعلیم یافتہ اور طلبا کے ساتھ مخلص ہیں۔ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر سرٹیفیکٹ کورسز، انگلش لینگویج کورسز اور دیگر اسکلز ڈیویلپمنٹ کورسز کا انعقاد بھی کروایا جاتا ہے۔ مارکیٹ ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے اسلامی مالیات میں سرٹیفکیٹ کورس بھی طلبا کو کروائے جانے کا پروگرام ہے۔ طلبا کی صلاحیتوں کو جگانے کے لیے مختلف ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد بھی KIMS کی خصوصیت ہے۔ جن میں مختلف زبانوں میں تقاریر کے مقابلے، کھیلوں کے مقابلے اور مضمون نویسی کے مقابلے شامل ہیں۔

مارکیٹ نالج کو بڑھانے کے لیے طلبا کے لیے مختلف اداروں کی وزٹ کا اہتمام کیا جاتا ہے، مزید مارکیٹ سے تجربہ کار افراد کے لیکچرز رکھوائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوران تعلیم انٹرن شپ کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا مارکیٹ سے بھی آشنا ہو جائیں۔ ان تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ طلبا کی دینی تربیت کے لیے علما کرام کے بیانات، طلبا کی اخلاقی تربیت کے لیے نگرانی کا نظام بھی KIMS کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

یہاں سے فارغ ہونے والے طلبا ملک کے ممتاز اداروں میں دینی جذبہ کے ساتھ اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ KIMS کے فضلا جن شعبہ ہائے زندگی میں خدمات دے رہے ہیں، ان میں سرکاری یونیورسٹیز، پرائیویٹ یونیورسٹیز، سرکاری ادارے، پی آئی اے، سپارکو، فارما سیوٹیکل کمپنیز، ہوٹلنگ انڈسٹری، اسلامی مالیاتی ادارے، اسلامی اسکولز و کالج، اسلامی ریسرچ سینٹرز، دینی مدارس، اسلامی نظریاتی کونسل شامل ہیں۔

KIMSکے فضلا نے مارکیٹ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا جس میں نصابی ضروریات کے لیے اسلامیات، سوشیولوجی اور انٹرپرینورشپ پر کتابیں لکھیں۔ مزید عام تاجروں کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ’’شریعہ اینڈ بزنس‘‘ میں لکھنے والے کئی لکھاری KIMS کے گریجویٹ یا طلبا ہیں۔ ان شاء اللہ مستقبل قریب میں ’’بزنس مینجمنٹ‘‘ کے موضوع پر ایک عام تاجر کے لیے جدید مینجمنٹ اور اسلامی تعلیمات کا خلاصہ کتابی شکل میں پیش کیا جائے گا۔

اس طرح الحمدللہ 2006 ء میں جو ایک خواب تھا ایک حقیقت کے طور پر آپ کے سامنے موجود ہے۔ معاشرے میں ایسے افراد پہنچنا شروع ہو گئے ہیں جن کی نشوونما دینی ماحول میں ہوئی ہے۔ امید ہے ایک مثبت تبدیلی معاشرے میں آئے گی اور وہ تبدیلی باعمل افراد سے آئے گی۔ وہ افراد جو جدید علوم سے واقف، مروجہ مارکیٹ سے آشنا اور باقاعدہ عملی مسلمان ہوں گے۔

ہم تاجر ہیں، ہم کسی ادارے کے منیجر ہیں۔ ہمیں باکردار، دیانتدار اور تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت رہتی ہے۔ ہم خود کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی اگلی نسل کو کچھ سکھانا چاہتے ہیں۔ اب بھی ہم کیوں اپنی کاروباری زندگی کو دین کے مطابق کرنے کے لیے تیار نہیں؟ جبکہ الحمد اللہ! اب تو لوگ موجود ہیں جو ہمارے بزنس کو بھی سمجھتے ہیں اور دینی تعلیمات سے بھی آشنا ہیں۔ وہ ہمارے کاروبار کو شریعت کے مطابق کرنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ آئیے! ان لوگوں کے ہاتھ بن جائیں، زبان بن جائیں، ان کے ہاتھ مضبوط کریں جو معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کی ابتدا کر چکے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ ہو جائیں۔ اللہ پاک ہماری محنت کو ضروری قبول فرمائے گا۔ اگر ہم نے قدم اٹھائے، آگے اٹھنے والے تمام قدموں کا ثواب بھی ہمارے اکاؤنٹ میں جمع ہو جائے گا۔ دیر نہ ہو جائے KIMS کے ساتھ ہر حوالے سے تعاون کے لیے تیار رہیں۔ اللہ تعالی اس ادارے کو قائم دائم رکھے اس کے مشن کو خوب پھیلائے۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنائے، آمین۔

مولانا شیخ نعمان شریعہ ڈیپارٹمنٹ: بینک اسلامی، پاکستان و ایم بی اے (KIMS)، جامعۃ الرشید
شریعہ اینڈ بزنس ڈاٹ کام


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں