اور عہد تابعین میں اس کے نتائج و ثمرات

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (نویں قسط)

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (نویں قسط)

قول صحابی رضی اللہ عنہ کی اہمیت، امام ابویوسف رحمہ اللہ کی نظر میں
قاضی امام ابویوسف رحمہ اللہ صحابی کے قول کے مقابلے میں قیاس کو چھوڑ دیتے تھے، چنانچہ نامور حنفی فقیہ ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ اپنے استاد امام ابوالحسن کرخی رحمہ اللہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
“کان أبوالحسن رحمه الله یقول: کثیراً مما أری لأبی یوسف رحمه الله في اضعاف مسئلة یقول: القاس کذاو إلا أنی ترکته للأثر، و ذلک الأثر قول صحابی لاتعرف عن غیره من نظرائه خلافُه، قال أبوالحسن فهذا یدل من قوله دلالة بینة علی أنه کان یری أن تقلید الصحابی إذا لم نعلم خلافه من أهل عصره أولی من القاس.” (۱)
’’ابوالحسن کرخی رحمہ اللہ فرماتے تھے: میں نے بہت مرتبہ دیکھا ہے کہ وہ مسئلہ کی کمزوری کو (بتاتے ہوئے) فرماتے تھے، قیاس یہی ہے، مگر میں نے قیاس کو اثر کی وجہ سے چھوڑا ہے، اور وہ اثر صحابی کا قول ہے کہ اس قول میں اس صحابی کے نظیر و ہمسروں کاخلاف معلوم نہیں ہوتا۔ ابوالحسن کرخی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کا یہ قول اس امر کی دلیل ہے کہ وہ صحابی کی تقلید کو اگر ان کے معاصرین سے اس کا خلاف معلوم نہ ہو تو قیاس سے بہتر قرار دیتے ہیں۔‘‘
اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ سنن و آثار کا دائرہ کتنا وسیع تر سمجھتے ہیں اور کس حد تک ان کی رعایت کرتے اور ان پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ مذکورہ بالا صفات کا جامع، حافظ، امام، مجتہد اور صحبت یافتہ شاگرد اپنے استاد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی صحبت میں دقت نظر و فقہی بصیرت کا ذکر یوں کرتا ہے:
“ما رأیت أحداً أعلم بتفسیر الحدیث و مواضع النکت التی قید من الفقه ربما ملت إلی الحدیث و کان هو أبصر بالحدیث الصحیح.” (۲)
’’میں نے حدیث کی تفسیر و تشریح کرنے والا، نکات و اسرارِ حدیث کا سمجھنے والا اور صحیح حدیث کا ادراک کرنے والا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں حدیث کو دیکھ کر اس کی طرف مائل ہوا، لیکن حقیقت میں صحیح حدیث کی بصیرت مجھ سے بڑھ کر اُنہیں حاصل تھی۔‘‘
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہی حدیثوں پر نظر کیسی وسیع اور گہری تھی اور فقہی اسرار و نکات کی رسائی میں وہ اپنے تمام معاصرین سے ممتاز تھے۔
حافظ اسرائیل بن یونس السبیعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“کان نعم الرجل النعمان رحمه الله، ما کان أحفظه لکل حدیث فیه فقه، و أشد فحصه عنه و أعلمه بما فیه من الفقه.” (۳)
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بہت اچھے آدمی تھے، ان سے زیادہ کسی کو وہ حدیثیں یاد نہ تھیں، جن میں فقہ حدیث کی باتیں موجود ہیں اور ان سے زیادہ کسی نے اس کی کاوش و جستجو نہیں کی اور نہ ان سے زیادہ فقہ حدیث کا کوئی جاننے والا موجود ہے۔‘‘
امام لغت و حافظ حدیث نضر بن شمیل بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کان الناس نیاما عن الفقه حتی أیقظهم أبوحنیفة رحمه الله مما فتقه و بینه و لحظه.” (۴)
’’لوگ فقہ کی طرف سے خواب غفلت میں پڑے تھے، یہاں تک کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کی عقدہ کشائی اور وضاحت و شرح اور تلخیص کرکے انہیں خواب غفلت سے بیدار کیا۔‘‘

فقہاء و فقہ حدیث
حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے نامور تلامذہ اور دیگر مجتہدین فقہاء معانیِ حدیث کو محدثین کی بہ نسبت زیادہ بہتر سمجھتے اور فقہ حدیث کی بصیرت سے خوب آراستہ تھے، چنانچہ امام ابوعیسی ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“و هم (الفقهاء) أعلم بمعانی الحدیث.” (۵)
’’اور وہ (فقہاء) حدیث کے معانی کو بہتر سمجھتے ہیں۔‘‘

فقہی بصیرت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی سیادت و قیادت
بلاشبہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حدیث کے معانی کے سمجھنے اور فقہ حدیث تک رسائی میں اپنے ہمعصروں میں سب سے زیادہ فائق و ممتاز تھے، چنانچہ حافظ شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“ساد أهل زمانه فی التفقه و تفریع المسائل.” (۶)
’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تفقہ (فقہی بصیرت) حاصل کرنے اور تفریع مسائل میں اپنے معاصرین کی سیادت و قیادت کی ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
“و أمّا الفقه و التدقیق فی الرأی و غوامضه إلیه المنتهی فالناس علیه عیال فی ذلک.” (۷)
لیکن فقہ، فقہی مسائل میں دقت نظر اور مشکلات فقہ کے حل میں وہی حرفِ آخر ہیں اور لوگ ان کے محتاج ہیں۔‘‘

فقہی بصیرت سے آراستہ تین مجتہد امام
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نامور شاگرد عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کا قول:
“إن کان الأثر قد عرف و احتیج إلی الرأی، فرأی مالک و سفیان و أبی حنیفة، و أوحنیفة أحسنهم و أدقهم فطنة و أغواصهم علی الفقه.” (۸)
’’حدیث و اثر موجود ہو اور رائے کی احتیاج ہوتو امام مالک و سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کی بات ماننی چاہیے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ باریک بینی اور زیرکی میں سب سے بہتر ہیں، اور فقہی بصیرت میں وہ ان تینوں میں سب سے زیادہ گہری نظر کے مالک ہیں۔‘‘

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اپنے علمی و تحقیقی سرمایہ پر تبصرہ
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نامور شاگرد فقیہ و مجتہد حسن بن زیادہ لؤلؤی فرماتے ہیں:
میں نے امام موصوف کو یہ فرماتے سنا ہے:
“قولنا هذا رأی و هو أحسن ما قدرنا علیه فمن جاءنا بأحسن من قولنا فهو أولی بالصواب منا.” (۹)
’’ہمارا قول کہ ’’یہ رائے ہے‘‘ اور یہ وہ رائے ہے جسے ہم نے اپنی بساط کے مطابق سب سے بہتر طریقے پر پیش کیا ہے۔ جو کوئی ہماری اس تحقیق سے زیادہ اچھی تحقیق پیش کرے وہ ہم سے زیادہ بر سر حق ہوگا (اس کی تحقیق کو قبول کرنا چاہیے)۔‘‘

شیخ الاسلام امام اعمش رحمہ اللہ کا اعتراف حقیقت
حافظ عبیداللہ بن عمرو الرقی رحمہ اللہ کا بیان ہے:
’’ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ شیخ الاسلام امام حدیث حضرت سلیمان اعمش رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے حضرت اعمش رحمہ اللہ سے مسئلہ پوچھا، وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے، اس کی نظر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر پڑی، اس نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا، آپ رحمہ اللہ نے اُسے فوراً جواب دیا۔ امام اعمش رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کہا: ’’نحن الصیادلة و أنتم الأطباء۔‘‘ (۱۰) ’’ہم (محدثین) دوا فروش ہیں اور تم (فقہاء) ڈاکٹر ہو۔‘‘
یہی حال امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نامور تلامذہ کا تھا۔ چنانچہ قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کے شاگرد فقیہ بشر بن الولید کندی رحمہ اللہ نے امام ابویوسف رحمہ اللہ کا بیان نقل کیا کہ ایک نشست میں حضرت اعمش رحمہ اللہ اور میں تنہا تھے، حضرت اعمش رحمہ اللہ نے چند حدیثیں سانئیں، پھر ایک مسئلہ پوچھا، میں نے جواب دیا، فرمایا: اس کی اصل اور دلیل کیا ہے؟ میں نے کہا: اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو آپ نے ابھی بیان کی ہے۔ حضرت اعمش رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے یہ حدیث اس وقت سے یاد ہے جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں بھی نہیں آئے تھے، لیکن اس کی یہ تاویل اور مطلب مجھ پر منکشف نہیں ہوا جو اَب سمجھ میں آیا ہے، پھر فرمایا: ’’نحن الصیادلۃ و أنتم الأطباء۔‘‘ (۱۱) ’’ہم دوا فروش ہیں تم ڈاکٹر ہو۔‘‘

سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ کی شاگردوں کو فقہ حدیث کی تاکید
سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ اپنی مجالسِ درس میں فقہی بصیرت حاصل کرنے پر زیادہ زور دیتے، لیکن ان کے شاگرد اس پر دھیان نہیں دیتے تھے، چنانچہ حافظ علی بن خشرم المروزی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ: ’’ہم سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر تھے، وہ فرماتے تھے: اے طالب علمو! فقہ حدیث (فقہی بصیرت) سیکھو، تا کہ تمہیں اصحاب الرائے مغلوب نہ کریں۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کوئی بات نہیں کہی، مگر یہ کہ ہم اس سلسلے میں ایک دو حدیثیں بیان کرسکتے ہیں۔ موصوف نے یہ فرمایا اور اصحابِ حدیث نے فقہ حدیث کو چھوڑ دیا، ان کی اس بات پر توجہ نہ دی اور بولے: بتایئے عمرو بن دینار کن سے روایت کرتے ہیں؟۔‘‘ (۱۲)

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت کے بنیادی سرچشمے
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نت نئے مسائل حل کرنے اور ان کے استخراج و استنباط کے بنیادی سرچشموں کی نشاندہی کی ہے، اسے حافظ ابوالحجاج المزی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیا ہے، کہتے ہیں کہ: ’’یحیی بن ضریس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر تھا کہ ایک شخص آیا اور سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کہنے لگا: تم ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کیوں ناراض رہتے ہو؟ ثوری رحمہ اللہ نے پوچھا، کیا ہوگیا؟ وہ بولا: میں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ میں مسئلہ کتاب اللہ میں ٹٹولتا ہوں، اس میں رہنمائی نہیں پاتا تو سنت میں ڈھونڈتا ہوں، پھر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی سراغ نہیں لگتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال میں جستجو کرتا ہوں اور ان میں سے جس کے قول کو چاہتا ہوں اختیار کرتا ہوں، اور ان میں سے جس کا قول چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں اور ان کے اقوال سے باہر کسی اور کے قول کو نہیں لیتا۔‘‘ (۱۳)
پھر جب بات ابراہیم نخعی، شعبی، ابن سیرین، حسن بصری، عطاء بن ابی رباح، اور سعید بن المسیب رحمہم اللہ تک آتی ہے تو (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کچھ اور بھ نام لیے) تو پھر یہ بات تابعین کی ہوجاتی ہے، انہوں نے اجتہاد کیا تو میں بھی اجتہاد کرتا ہوں، جیسے انہوں نے اجتہاد کیا۔
حافظ ابن ضریس رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ یہ باتیں سن کر بہت دیر خاموش رہے، پھر بصیرت فقہی سے کچھ کلمات فرمائے، مجلس میں ہر شخص نے انہیں قلمبند کیا (وہ یہ ہین): ’’ہم جب سخت وعید کی حدیثیں سنتے ہیں تو ڈرتے ہیں اور جب نرمی (ترغیب) کی حدیثیں سنتے ہیں تو مغفرت کی امید رکھتے ہیں، ہم زندوں کا محاسبہ کرتے ہیں، جو دنیا سے رخصت ہوگئے ان پر حکم نہیں لگاتے، ہم نے جو سنا اُسے تسلیم کرتے ہیں، جو نہیں جانتے اُسے عالم الغیب کے سپرد کرتے ہیں، ہم ان کی فقہی رائے و بصیرت کے مقابلے میں اپنی رائے کو رقم کرتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں سرچشمے علم و معرفت کے وہ بنیادی سرمایۂ فیوض و برکات ہیں، جن سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مسائل کا استخراج کرتے اور مرادِ حق کو پانے اور اس تک پہنچنے کی پیہم کوشش کرتے رہتے تھے۔
مورخ ابوعبداللہ الصیمری رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا بیان حسب ذیل الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’(وہ مسائل جو بصراحت قرآن میں مذکور نہیں ہیں ان کا) میں پہلے قرآن میں کھوج لگاتا ہوں، اگر انہیں اس میں پاتا ہوں تو بہت اچھا اور جب اس میں نہیں پاتا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن اور صحیح آثار میں جو معتبر راویوں کے پاس معتبر سند سے موجود ہیں ان میں جستجو کرتا ہوں، پھر اُسے اختیار کرلیتا ہوں۔ اگر ان دونوں میں نہیں ملتا تو پھر اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کے اقوال میں دیکھتا ہوں، جس کے قول کو چاہتا ہوں اختیار کرتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں چھوڑتا ہوں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا۔ عہد تابعین میں سب تابعی مجتہد برابر ہیں، کسی کامیں متبع و مقلد نہیں، اجتہاد کرتا ہوں، جیسے وہ اجتہاد کرتے ہیں۔ چنانچہ جب ابراہیم نخعی، شعبی، حسن بصری، ابن سیرین، سعید بن المسیب اور کچھ اور مجتہدین تک بات آتی ہے اور وہ اجتہاد کرتے ہیں تو پھر مجھے بھی حق ہے کہ میں بھی اجتہاد کروں، جیسے انہوں نے اجتہاد کیا ہے۔‘‘ (۱۴)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا بیان اس امر کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ وہ تابعین میں سے کسی مجتہد تابعی کے افکار و نظریات اور مسلک و مذہب کے نہ ترجمان تھے، نہ اس کے تابع و پیروکار۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتہادی مسائل میں پیروی کو اس لیے ضروری قرار دیا کہ اصابت رائے میں وہ تابعین سے بہت بہتر و برتر تھے اور اس امر کی دلیل یہ حدیث ہے:
“لو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذهباً مابلغ مُد أحدهم و لانصیفه.” (۱۵)
’’تم میں سے کوئی اگر احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان کے مُد (پیمانہ) کے برابر (جس کا وزن پونے دو سیر ہے) بلکہ اس کے اس کے نصف وزن کو بھی نہیں پہنچے گا۔‘‘
شمس الائمہ السرخسی رحمہ اللہ اس کی تشریح کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں:
“فعرفنا أنهم یوفقون لإصابة الرأی ما لا یوفق غیرهم منه فیکون رأیهم أبعد من احتمال الخطأ من رأی من بعدهم.” (۱۶)
’’تو ہمیں معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم (اصابت رائے اور صحیح رائے کی رسائی) میں توفیق الہی سے صحت کی اس حدتک پہنچ چکے ہیں جس حد کو دوسرا کوئی نہیں پہنچتا، اس لیے ان کی رائے ان کے بعد آنے والوں کے رائے سے غلطی اور خطا کے احتمال سے دور ہے۔‘‘
شمس الائمہ السرخسی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
“ما جاء عن الصحابة اتبعناهم، و ما جاءنا عن التابعین زاحمناهم، إنما قال ذلک لأنه کان من جملة التابعین… کان ممن یجتهد فی عهد التابعین و یعلم الناس حتی ناظر الشعبی فی مسئلة النذر بالمعصیة.” (۱۷)
’’صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو آیا ہے ہم ان کی اتباع اور پیروی کریں گے اور تابعین کی طرف سے جو بات آئے گی ہم بھی اجتہاد کے ذریعے ان سے مقابلہ کریں گے۔ ہم کہتے ہیں: ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے یہ بات اس لیے فرمائی ہے کہ وہ تابعی ہیں اور ان فقہاء میں سے ہیں جو عہد تابعین میں اجتہاد کرتے اور لوگوں کو اجتہاد کا طریقہ سکھاتے اور پڑھاتے تھے، یہاں تک کہ نذر بالمعصیۃ کے مسئلے میں امام شعبی رحمہ اللہ سے (جنہوں نے پانچ سو صحابہ کو دیکھا تھا) انہوں نے مناظرہ کیا تھا۔‘‘
ظاہر ہے وہ ابراہیم، حسن بصری اور ابن سیرین رحمہم اللہ کے اجتہاد کی پابندی کیوں کرسکتے ہیں۔ ہاں! جن اجتہادی مسائل میں ان کی رائے ان کے موافق ہوگی وہ ان کے ساتھ رہیں گے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حواشی و حوالہ جات
۱: اصول الجصاص، ج:۲، ص: ۱۷۲۔
۲: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۰۔
۳: ایضاً، ص: ۳۳۹۔
۴: ایضا، ص: ۳۴۵۔
۵: جامع الترمذی، (باب غسل المیت) دہلی، مطبع احمدی، ص: ۱۶۶۔
۶: تاریخ الاسلام، ص: ۳۰۶۔ (ترجمہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ)
۷: سیراعلام النبلاء، ج: ۶، ص: ۳۹۳۔
۸: تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۳۔
۹: ایضاً، ص: ۳۵۲۔
۱۰: جامع بیان العلم و فضلہ، ج: ۲، ص: ۱۳۰۔۱۳۱۔
۱۱: مناقب الامام ابی حنیفہ و صاحبیہ، ص: ۲۱۔
۱۲: معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۶۶۔
۱۳: تہذیب الکمال للمزی، بیروت، دارالفکر، ج: ۱۷، ص: ۱۱۷۔
۱۴: اخبار أبی حنیفۃ و أصحابہ للصیمری، ص: ۲۴۔
۱۵: المحرر فی اصول الفقہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ج: ۲، ص: ۸۵۔
۱۷: اصول السرخسی، ج:۱، ص: ۳۱۳۔

جاری ہے۔۔۔

آٹھویں قسط

تحریر: مولانا ڈاکٹر محمدعبدالحلیم چشتی
اشاعت: ماہنامہ بینات، ربیع الثانی ۱۴۳۶ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں