شریعت مطہرہ میں باجماعت نماز پڑھنے کی بے حد تاکید وارد ہوئی ہے، یہاں تک کہ احادیث مبارکہ میں مساجد کے ائمہ اور مؤذن کو اس بات کی ترغیب بھی دی گئی ہے کہ وہ اذان اور اقامت کے درمیان وقفہ رکھیں، تا کہ کھانے میں مشغول شخص کھانے اور وضو کرنے والا شخص وضو سے فارغ ہوکر جماعت میں شرکت کرسکے، چنانچہ مسند احمد میں ہے:
“عن أبی بن کعب قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: یا بلال! اجعل بین أذانک و إقامتک نفسا یفرغ الآکل من طعامه فی مهل و یقضی المتوضئ حاجته فی مهل. “
(مسند أحمد، حدیث عن أبی بن کعب، حدیث المشایخ عن أبی بن کعب، ج: ۵، ص: ۱۴۳، ط: مؤسسۃ قرطبیۃ)
یہ وقفہ اس لیے بھی مشروع ہے کہ مسنون اور نفل نمازوں کا اہتمام کرنے والے اشخاص اذان اور اقامت کے درمیان نماز پڑھ سکیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان اس شخص کے لیے نماز ہے جو نماز پڑھنا چاہے، صحیح بخاری میں ہے:
“عن عبدالله بن مغفل قال: قال النبی صلی الله علیه وسلم: بین کل أذانین صلاة بین کل أذانین صلاة، ثم قال فی الثالثة: لمن شاء.”
(صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب بین کل أذانین صلاۃ لمن شاء، ج:۱، ص: ۸۷، ط: قدیمی)
سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ مؤذن اذان دینے کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آتا دیکھتے تو اقامت شروع کردیتے۔
“عن جابر بن سمرة قال: کان بلال یؤذن ثم یمهل، فإذا رأی النبی –صلی الله علیه وسلم- قد خرج أقام الصلاة.”
(سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب المؤذن ینتظر الامام، ج: ۱، ص: ۹۰، ط: رحمانیہ)
یہی وجہ ہے کہ مغرب کی نماز کے علاوہ ہر نماز اور اذان کے درمیان متعدبہ وقفہ دیا جاتا ہے، جب کہ مغرب کی نماز میں ایسا نہیں، بلکہ اس میں ایک طویل آیت یا تین آیتوں کی مقدار وقفہ کرنے کا حکم ہے، مغرب کی نماز میں دیگر نمازوں کی طرح وقفہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں مغرب کی نماز کو جلدی پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاعذر ستاروں کی کثرت تک نماز مغرب مؤخر کرنے کو اس امت کی خیر سے روگردانی کی علامت بتایا ہے، سنن ابی داؤد میں حضرت مرثد بن عبداللہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس غزوہ سے واپس آئے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب مصر کے حاکم عقبہ بن عام رضی اللہ عنہ تھے، تو انہوں نے مغرب کی نماز تاخیر سے پڑھی، حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اے عقبہ! یہ کون سی نماز ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم کسی کام میں مصروف تھے، اس لیے نماز تاخیر سے پڑھی، ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ میری امت اس وقت تک خیر یا فطرت پر قائم رہے گی جب تک وہ مغرب کی نماز ستاروں کی کثرت تک مؤخر کرکے نہ پڑھے، روایت کا الفاظ یہ ہیں:
“عن مرثد بن عبدالله قال: لما قدم علینا أبوأیوب غازیا، و عقبة بن عامر یومئذ علی مصر، فأخر المغرب فقام إلیه أبوأیوب فقال له: ما هذه الصلاة یا عقبة؟ فقال شغلنا، قال: ما سمعت رسول الله –صلی الله علیه وسلم- یقول: لا تزال أمتی بخیر –أو قال- علی الفطرة- ما لم یؤخروا المغرب إلی أن تشتبک النجوم.”
(سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی وقت المغرب، ج: ۱، ص: ۷۱، ط: رحمانیہ)
مصنف عبدالرزاق میں میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کسی نماز کے فوت ہونے سے اتنا نہیں ڈرتے تھے جتنا مغرب کی نماز کے فوت ہونے سے ڈرتے تھے۔
“عبدالرزاق عن ابن جریج قال: أخبرنی نافع أو غیره أن ابن عمر کان یقول: ما صلاة أخوف عندی فواتا من المغرب.”
(مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلاۃ، باب وقت المغرب، ج: ۱، ص: ۵۵۴، ط: المکتب الاسلامی)
اسی لیے مغرب کی اذان اور نماز میں زیادہ وقفہ نہیں، بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت کی بقدر کھڑے کھڑے وقفہ کیا جائے، صاحبین رحمہما اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ مغرب کی اذان کے بعد جمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان معمولی جلسہ کی مقدار زمین پر بیٹھا جائے۔ اس کے برعکس آج کل بعض مساجد میں مغرب کی اذان اور نماز میں وقفے کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس کے لیے باقاعدہ لاؤڈاسپیکر سے اعلانات کیے جاتے ہیں اور ان اعلانات کو نمایاں مقامات پر آویزاں کیا جاتا ہے، اس طرزِ عمل سے درج ذیل خرابیاں لازم آتی ہیں:
(۱) ۔۔۔ مغرب کی نماز میں تاخیر ہوتی ہے، جو مکروہ ہے۔
(۲) ۔۔۔ اصولِ افتاء کی بنیادی کتب میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ جب کسی مسئلے میں امام ابوحنیفہ اور صاحبین رحمہم اللہ کا اختلاف ہو تو عبادات میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر فتویٰ دیا جائے گا، لیکن بجز چند اضطراری صورتوں کے امام صاحب اور صاحبین رحمہم اللہ کے قول کو چھوڑ کرکسی تیسرے قول کو اختیار کرنا فقہائے حنفیہ میں سے کسی کے ہاں درست نہیں۔ اس مسئلے میں امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: مغرب کی اذان کے بعد تین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت کے بقدر کھڑے کھڑے وقفہ کیا جائے۔ صاحبین رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ معمولی جلسہ کیا جائے، مروجہ وقفہ ان دونوں صورتوں سے ہٹ کر تیسری صورت ہے، جو اصولِ افتاء کی روشنی میں درست نہیں۔
(۳)۔۔۔ اس مسئلے میں امام صاحب اور صاحبین رحمہم اللہ کے اختیار کردہ فتوی کو چھوڑنے کی وجہ اضطرار کی حد میں داخل نہیں، لہذا اس مسئلہ میں احناف کے اصول و فروع میں مجتہدین فی المذہب ائمہ کے مسلک پر ہی عمل کیا جائے گا۔
(۴) ۔۔۔ عمومی صورت حال یہ ہے کہ لوگ مغرب کی نماز کے لیے تیاری مغرب کی اذان سے پہلے ہی مکمل کرکے مساجد کا رُخ کرتے ہیں، جب اُنہیں اذان اور نماز کے درمیان مذکورہ مقدار سے وقفہ دیا جائے گا تو فطری اور نفسیاتی اثر یہ ہوگا کہ وہ مغرب کی تیاری اذان کے بعد کریں گے، جب مؤذن مغرب کی اذان دے رہا ہوگا تو ان کے ذہن کے ایک گوشے میں یہ بات موجود ہوگی کہ اذان کے بعد بھی کچھ وقت ہے، اس دوران مغرب کی تیاری کرلیں گے، جس کی وجہ سے ان کا جماعت کے ساتھ پہلی رکعت ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے، ورنہ کم از کم تکبیر اولیٰ تو فوت ہو ہی جائے گی، اذان کے بعد آنے والے افراد کو سہولت دینے میں اذان سے پہلے آنے والے افراد کی ترتیب متأثر ہوگی، یوں بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے رات بتانا نہ عقلاً پسندیدہ ہے اور نہ ہی شرعاً، اس زمانے میں جب کہ عبادات کی ادائیگی اور ان کے اہتمام میں سستی برتی جارہی ہے تو اس طرح کے اقدامات لوگوں کو عبادات کے سلسلے میں مزید سست بنادیں گے، جب کہ نماز اور عبادات میں سستی کرنے کو قرآن کریم نے ’’وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَى‘‘ کہہ کر منافقین کی علامات قرار دیا ہے۔
لہذا مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان وقفے والے مسئلے کو استصحابِ حال پر برقرار رکھا جائے اور اذان اور اقامت کے درمیان تین چھوٹی آیتوں یا ایک بڑی آیت کی مقدار سے زیادہ وقفہ نہ کیا جائے، اذان کے بعد مؤذن اقامت کے لیے جو تیاری کرتا ہے اس سے مطلوبہ مقدار کا وقفہ ہوجاتا ہے، اس کے بعد مزید وقفہ کرنا اور اس کی تشہیر کرنا درست نہیں۔
مفتی امداداللہ صاحب کی تالیف ’’اذانِ مغرب کے بعد مروجہ وقفہ کی شرعی حیثیت، قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘ اپنے موضوع پر عمدہ کتاب ہے، جس میں مؤلف موصوف نے بڑی عرق ریزی سے دو مسائل کو مدلل انداز سے بیان کیا ہے:
(۱) مغرب کی اذان و اقامت کے درمیان وقفہ۔
(۲) مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت۔
کتاب کی تالیف کی اصل غرض پہلے مسئلے کو بیان کرنا ہے، جس کے ضمن میں دوسرے مسئلے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ مؤلف نے دونوں مسئلوں میں ائمہ اربعہ کے مذاہب کو ان کی معتبر فقہی کتب کے حوالوں سے بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں احناف کے مفتیٰ بہ قول کو مدلل اور واضح انداز سے پیش کیا ہے۔ یہ تالیف فقہ حنفی کے دائرے میں اس مسئلے کی توضیح و تشریح کی عمدہ کاوش ہے۔ بہتر ہے کہ کتاب کے نام میں دوسرے مسئلے کی جانب بھی اشارہ ہونا چاہیے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی مفتی صاحب کی مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت بخشے اور اس مجموعے کو عوام و خواص کے لیے یکساں مفید بنائے۔ آمین!
وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ سیدنا محمد و علیٰ آلہٖ وأصحابہٖ أجمعین
تحریر: مفتی محمد انعام الحق قاسمی
اشاعت: ماہنامہ بینات، محرم الحرام ۱۴۳۸ھ
آپ کی رائے