شادی اور اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

شادی اور اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

احادیث میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو ہدایت اور رہنمائی دی ہے کہ شادیاں ہلکی پھلکی اور کم خرچ ہوا کریں، اور بشارت سنائی گئی ہے کہ اگر ایسا کریں گے تو اللہ تعالی کی طرف سے شادیوں میں اور اُن کے نتیجوں میں بڑی برکتیں ہوں گی، آج ہم جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور خاص کر خانگی زندگی میں جو اُلجھنیں ہیں ان کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ نکاح و شادی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات سے انحراف کرکے ہم آسانی برکات اور خداوندی عنایات سے محروم ہوگئے ہیں، اسی بنا پر ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بار کم سے کم پڑے۔ (شعب الایمان للبیہقی)
یہ بات یاد رہے کہ اگر والد اپنی رضا و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر کچھ دینا چاہے تو یہ شرعی طور پر ممنوع بھی نہیں، لیکن شریعت میں کہیں اس کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی گئی، نہ ہی کسی روایت میں اس کا تذکری یا ترغیب ملتی ہے۔ جہاں تک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو جہیز کے طور پر یہ چیزیں دی تھیں: ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ، ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔ (سنن نسائی)
اکثر اہل علم اس حدیث کا یہی مطلب سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں اپنی صاحبزادی کے نکاح کے موقع پر جہیز کے طور پر دی تھیں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیز کے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج بلکہ تصور بھی نہیں تھا۔ اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دوسری صاحبزادیوں کے نکاح کا سلسلہ میں کہیں کسی قسم کے جہیز دینے کا ذکر نہیں آیا۔ رہی بات حدیث کے لفظ ’’جھز‘‘ کا مطلب، تو اس کے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں، بلکہ ضرورت کا انتظام اور بند و بست کرنے کے ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کا انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے انہی کی طرف سے اور انہی کے پیسوں سے کیا تھا، کیونکہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھر میں نہیں تھیں، روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہوجاتی ہے، بہر حال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا۔ (معارف الحدیث، جلد ہفتم)
جہیز کے سلسلہ میں ہمارے معاشرے میں بے شمار غلط تصورات پھیلے ہوئے ہیں، جہیز کو شادی کے لیے ایک لازمی شرط سمجھ لیا گیا ہے، چنانچہ جب تک جہیز دینے کے لیے رقم نہ ہو لڑکی کی شادی نہیں کی جاتی۔ ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنی ہی بچیاں صرف اسی بنا پر بن بیاہی رہ جاتی ہیں کہ باپ کے پاس جہیز دینے کی استطاعت نہیں ہوتی، اور جب سر پر آہی جائے تو ناجائز ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ جہیز کی اشیاء کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، اب جہیز محض ایک بیٹی کے لیے باپ کا تحفہ نہیں، بلکہ معاشرے کا ایک جبر ہے۔ اور اب تو جہیز کی نمائش کی رسم نے بھی ضروری قرار دے دیا ہے کہ جہیز ایسا ہوا اور اس میں اتنی چیزیں شامل ہوں جو ہر دیکھنے والے کو خوش کرسکے، اور تعریف حاصل کرسکے۔
جہیز کے بارے میں بعض لوگ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جہیز کو قانوناً بالکل ممنوع قرار دیا جائے، لیکن غور کیا جائے تو یہ انفرادی مسئلہ نہیں، بلکہ اجتماعی اور معاشرتی مسئلہ ہے، اور اس قسم کے مسائل صرف قانون کی جکڑبندی سے حل نہیں ہوتے، اس کے لیے تعلیم و تربیت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک مناسب ذہنی فضا تیار کرنا ضروری ہے، اور معاشرے کے بااثر، اہل دانش، با رسوخ طبقے اور صاحبِ اقتدار حضرات کو اس کا نمونہ عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنی حسبِ خواہش کسی عور ت سے نکاح ہوجانا بلاشبہ بڑی نعمت ہے، اس نعمت کے شکر کے طور پر اس کی عملی شکل ولیمہ کو قرار دیا گیا ہے، ولیمہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بلاتکلف اختصار کے ساتھ جس قدر میسر ہوجائے اپنے خاص لوگوں کو کھلادے، ولیمہ اسی حد تک مسنون ہے جس کو اسلام نے متعین کردیا ہے، جس میں غرباء بھی ہوں، اور ولیمہ اپنی حیثیت کے مطابق ہو، سودی قرض سے نہ کیا گیا ہو، دکھلاوے اور شہرت کے لیے نہ ہو، تکلفات سے پاک ہو، اس سنت کی ادائیگی کے لیے شرعاًنہ مہمانوں کی کوئی تعداد مقرر ہے، نہ کھانے کا کوئی معیار، بلکہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق کرسکتا ہے، البتہ اگر استطاعت ہو تو زیادہ مہمان بلانے اور اچھے کھانے کا اہتمام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن مقصود کھلاوا یا نام کمانا یا دوسروں سے اپنے اپنے آپ کو اونچا دکھلانا نہ ہو۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ولیمہ سے متعلق بھی بہت سی رسومات اور فضول خرچیاں پائی جاتی ہیں، کم آمدنی والے لوگ اس کے لیے بھاری قرض اُٹھاتے ہیں، اور مالدار خوب نمائش کرتے ہیں، دونوں باتیں حد اعتدال کے خلاف ہیں۔ ولیمہ میں کثیر افراد کی شرکت کو لازمی سمجھا جاتا ہے، اس کے انتظام کے لیے چاہے زندگی بھر انسان قرض کے بوجھ تلے دبا رہے، مگر نام اونچا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر انتظام کو لازم سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ شریعت کی روح کے منافی ہے۔ کوئی لازم نہیں کہ خاندان بھر کے اور تمام دوست احباب کی شرکت کو لازمی سمجھا جائے، اور اگر اپنی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا انتظام نہیں ہوسکتا تو اس کو عار سمجھا جاتا ہے، یہ بھی ایک معاشرتی ناسور بن چکا ہے، اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی شادیاں ہوئیں اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع تک نہیں تھی، اس کی کیا وجہ تھی؟ حالانکہ ان سے زیادہ کون محب صادق اور عاشق رسول ہوسکتا ہے؟ جنہوں نے گھربار، اہل و اولاد سب کچھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اشاروں پر قربان کردیا۔ اصل بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایسا بنادیا تھا کہ وہ اپنی شادی اور نکاح کی تقریبات میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شرکت کی زحمت نہیں دیتے تھے، بلکہ اطلاع کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور خواص اصحاب میں شامل ہیں، انہوں نے خود اپنی شادی کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر بھی نہیں ہوئی۔
۱:۔۔۔ شادی کے موقع پر اطلاع کے لیے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، اور کارڈ چھپوانے میں ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، حالانکہ اس کا حاصل صرف اطلاع دینا ہے، جس گھر میں دیا گیا انہوں نے پڑھا اور ایک طرف رکھ دیا۔ اس سلسلہ میں بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ شادی کی اطلاع کے لیے اگر کارڈ چھپوانے کی ضرورت بھی ہو تو معمولی درجے کا کارڈ چھپوایا جائے۔ سرکاری سطح پر اس کی ترغیب چلائی جائے۔
۲: ۔۔۔ نیوتہ یعنی شادی کے موقع پر پیسے لینے دینے کا رواج بھی شریعت کے خلاف ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ دینے والا اس نیت سے دیتا ہے کہ آئندہ کسی موقع پر یہ رقم مزید بڑھا کردی جائے گی، یہ ایک طرح کا سودی قرض ہے، اس کا تذکرہ بھی قانون سازی میں شامل کیا جائے۔
۳: ۔۔۔ جہیز اگر چہ اولاد کے ساتھ صلہ رحمی کے سلسلہ میں دیا جاتا ہے، مگر اس کو لازم سمجھنے اور مطالبہ کی حد تک اس معاملہ کے پہنچ جانے کی بناپر اس کے متعلق ٹھوس قانون سازی کی جائے، اس رسم جہیز کی وجہ سے لڑکیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی اپنی عمر کو کھودیتی ہیں، مگر اسباب نہ ہونے کی وجہ سے ماں باپ ان کی شادی سے کتراتے ہیں۔ اگر جہیز میں کچھ دینا ہی ہے تو ایسی چیزیں دی جائیں جن کی بیٹی کو ضرورت ہو، جیسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ میں سابق میں ذکر ہوا۔ اپنی حیثیت کے مطابق اگر انسان انتظام کرے گا تو اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ کہیں ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا۔ اور جہیز میں بھی صرف ضروری اور استعمال کی چیزیں شامل ہوں، ایسی چیزیں نہ شامل کی جائیں جو کبھی کام نہیں آتیں، سوائے اس کے کہ گھر میں جگہ گھیریں۔
۴: ۔۔۔ لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کے لیے کھانے کی دعوت کو ولیمہ کی طرح لازم سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے، شرعی طور پر کسی صورت یہ پسندیدہ نہیں ہے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے، البتہ حسبِ استطاعت خاص خاص عزیز و اقارب اور بطور مہمان نوازی کے‘ بغیر کسی سابقہ انتظام کے کھانا کھلادیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
۵:۔۔۔ شادی کے موقع پر گانا بجانا، مووی بنوانا اور تصویرکشی کی وبا عام ہوچکی ہے، حالانکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ شریعت میں یہ چیزیں سخت حرام اور ناپسندیدہ ہیں اور ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی سزا سنائی گئی ہے، اس کے بارے میں بھی غور و خوض کیا جائے۔
۶: ۔۔۔ ہماری معاشرتی تقریبات میں مخلوط اجتماعات کی وبا عام ہوچکی ہے، سب جانتے ہیں کہ مخلوط اجتماع نہ صرف یہ کہ شرعی طور پر حوام ہیں، بلکہ معاشرتی سطح پر بھی اس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں، اس سلسلہ میں مردوں اور عورتوں کے لیے جدا جدا جگہوں کے انتظامات یادرمیاں میں حائل بنا کر پوشن بنانے پر زور دیا جائے۔
۷:۔۔۔ جہیز کے مطالبے اور اس کی نمائش پر پابندی عائد کی جائے، کیونکہ یہ بھی ایک بڑا سبب ہے اس بات کا کہ نمائش اور تعریف کے حصول کے لیے لوگ اپنی استطاعت سے بڑھ کر قرضوں کے باجھ تلے دب کر ایسی اشیاء دیتے ہیں جو ان کی استطاعت سے باہر ہوتی ہیں، اشیاء کی قلت یا کم جہیز کی وجہ سے نمائش نہ ہونے کو اور لوگوں کے نہ دکھلانے کو اپنے لیے عیب سمجھا جاتا ہے۔
۸: ۔۔۔ شادی بیاہ کی تقریبات کے لیے نظام الاوقات بنایا جائے، اور وقت کی پابندی کو لازم قرار دیا جائے۔ مستقل قانون سازی کی جائے۔ اگر چہ اس سلسلہ میں پہلے بھی قانون سازی کی جاچکی ہے، مگر اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر اوقات مقررہ وقت کے چار چار، پانچ پانچ گھنٹوں بعد تقریبات کا آغاز کیا جاتا ہے اور ساری رات اسی میں صرف ہوجاتی ہے، تضییع اوقات کے علاوہ بجلی و غیرہ کا بے جا استعمال بھی اس بنا پر ہوتا ہے۔
۹:۔۔۔ ولیمہ اور جہیز کے سلسلہ میں سب سے زیادہ ذمہ داری اُن افراد پر عائد ہوتی ہے جو کھاتے پیتے امیر اور صاحب اقتدار طبقہ کے گھرانہ کہلاتے ہیں، جب تک یہ لوگ اپنے خاندانوں میں شادی سادگی کے ساتھ نہیں کریں گے اور معاشرے میں رائج رسومات سے دستبردار نہیں ہوں گے، اس وقت تک معاشرے میں تبدیلی ناممکن ہے، محض قانون ہی تبدیلی کا سبب نہیں بنتا، بلکہ اس کے لیے عملی کردار ادا کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
۱۰:۔۔۔ سرکاری خزانہ سے نادار اور بے سہارا بچیوں کی تعلیم اور ان کی شادی کے لیے انتظام کیا جائے، اور اس کے لیے مستقل کوٹہ مقرر کیا جائے، ہر صوبہ میں اس کے لیے مستقل ایک محکمہ قائم کیا جائے، جب ملک میں ثقافت اور دیگر کاموں کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے صرف کیے جاسکتے ہیں تو اس مد میں خرچ کرنے میں کون سی رکاوٹ ہے؟ اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔
۱۱: ۔۔۔ سرکاری انتظام کے علاوہ اہل ثروت کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے معاشرے میں مستحق بچیوں کے لیے اجتماعی شادی کا انتظام کریں، تا کہ اسلامی طریقۂ نکاح معاشرے میں آسان ہو اور فحاشی و بے حیائی کا سب باب ہو۔
۱۲: ۔۔۔ شادی ہال میں کھانوں کے سلسلہ میں بھی فضول خرچی کے علاوہ بڑے پیمانے پر کھانوں کا ضیاع ہوتا ہے، ضرورت سے زائد کھانا لیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد بقیہ ضائع کردیا جاتا ہے، اس مسئلہ پر بھی غور و فکر کرنی چاہیے۔

تحریر: جناب محمد عبداللہ، مرسلہ: ابوالفداء المشہدی
اشاعت: ماہنامہ بینات۔ صفر المظفر 1438ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں