دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث شیخ عبدالحق اعظمی کا سانحہ ارتحال

دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث شیخ عبدالحق اعظمی کا سانحہ ارتحال

مولانا عبدالحق اعظمی شیخ ثانی دارالعلوم دیوبند مختصر سی بیماری کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا کی عمر 88برس تھی ، ضعف اور کمزوری کا ساتھ تو تھا ہی لیکن صبح طبیعت خراب ہوئی تو مقامی ڈاکٹر کے یہاں بغرض علاج داخل کئے گئے ، حالت بگڑتی گئی اور مولانا مغرب اور عشاء کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے۔ مولانا دارالعلوم دیوبند کے ممتاز اساتذہ میں سے تھے اورایک لمبے عرصے سے بخاری شریف جلد ثانی کا سبق مولانا سے متعلق تھا، وہ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، علامہ ابراہیم بلیاوی، مولانا اعزاز علی کے خاص شاگرد تھے ۔ اپنے علاقہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم مئو سے عربی ہفتم تک تعلیم پائی اور پھر تکمیل دورہ کے لئے دارالعلوم میں داخل ہوئے ۔ مختلف جگہوں پر تدریسی خدمت انجام دی ، درس نظامی کی اہم ترین کتابیں اور حدیث کی بنیادی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں ۔ 1982میں ارباب شوریٰ کی ایماء پر دارالعلوم دیوبند میں بہ حیثیت مدرس بلائے گئے وہ ایک صاحب کمال، صاحب علم، صاحب فضل انسان تھے، ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جب ملک اور بیرون ملک میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ آپ کے اپنے استاد شیخ الاسلام مدنیؒ کے طرز درس کا اچھا حصہ ملا تھا، چنانچہ بخاری میں جب وہ کتاب المغازی کا درس دیتے تھے تو ان کا انداز اور تیور دیگر ہوتے تھے وہ کامیاب مدرس تھے اور ان بزرگوں کی تدریسی صلاحیتوں اور کمالات کو زندہ کرتے تھے جن سے دارالعلوم کی تدریسی زندگی تاریخ علم کا خوبصورت عنوان ہے ۔
دیوبندکےموجودہ اکابر میں انتہائی مقبول اوراپنی سادگیِ وضع اوربے تکلفانہ اطوارکی وجہ سے اساتذہ وطلبہ سب میں یکساں قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔آپ کامستجاب الدعوات ہونابھی معروف تھا۔ دارالعلوم میں خاص خاص مواقع پرحضرت سے دعاکروانے کااہتمام کروایاجاتا بطورِ خاص بخاری کے اختتام کے دن حضرت کی دعاغیرمعمولی رقت آمیزہوتی تھی۔ مولانا کا انتقال ایک ایسے وقت میں کہ جب امت ممتاز افراد سے محروم ہوتی جارہی ہے ایک بڑاسانحہ ہے۔ ان کے حادثہ وفات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے ، انتقال کی خبر آتے ہی دیوبند کی فضا سوگوار ہوگئی اور دارالعلوم دیوبند اپنے ایک فرزند کے رخصت ہوجانے پر غم کے زیر اثر ہے۔ ہزاروں شاگرد اور ان کے ممتاز ونمایاں شاگرد اپنے نامور استاد کی جدائی کو دل سے محسوس کررہے ہیں ۔ مولانا کے سب بچے اس وقت آبائی وطن اعظم گڑھ میں ہیں ، ان کو اطلاع دیدی گئی ہے ، ان کے دیوبند پہنچنے کے بعد ہی تدفین کا عمل مکمل ہوگا ۔ ان کے انتقال کی خبر سے دارالعلوم دیوبند،دارالعلوم وقف دیوبند سمیت دیگر تمام مدارس کے طلباء و اساتذہ اور دنیابھر میں پھیلے ان تلامذہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی ،نائب مہتمم مولاناعبدالخالق مدارسی موقع پر پہنچے اور مولانا کے جسد خاکی کو بذریعہ ایمبولینس احاطہ مولسری میں لایا گیا،جہاں اساتذہ و طلباء کے جم غفیر نے نم آنکھوںکے ساتھ شیخ مرحوم کاآخری دیدارکیا۔پسماندگان میں چھ صاحبزادے اور تین صاحبزدایاں ہیں۔ یقینا شیخ عبدالحق کا انتقال ایک عہد کاخاتمہ ہے ،جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک دارالعلوم دیوبند میں علم حدیث کی باکمال خدمات انجام دی ہیں۔ مرحوم اکابر اسلاف دیوبند کی نشانی تھے ،جو نہ صرف اپنے علمی فن میں زبردست مہارت رکھتے تھے بلکہ سالہا سال سے بخاری شریف کادرس دے رہے تھے۔ ان کے انتقال سے علمی میدان میں جو خلاپیداہواہے اس کو پر کرناآسان نہیں ہوگا۔

استاذ گرامی حضرت مولانا عبد الحق اعظمی رحمہ اللہ

دیوبند سے جب یہ اطلاع ملی کہ حضرت شیخ ثانی اب اس دنیا میں نہیں رہے، تو ذہن کے پردے پر رعب و معصومیت کے آثار سے بھرپور ان کا چہرہ سامنے آگیا۔ لمبا قد، گہرا رنگ، سر پر گول ٹوپی، ہاتھ میں عصا اور کاندھے پر رومال۔ ہم نے ابتداء سال ہفتم میں حضرت سے مشکاة المصابيح جلد ثانی پڑھی ہے۔ ہفتم میں آنے سے پہلے حضرت والا کو بارہا دارالعلوم آتے جاتے دیکھا کہ طلبہ کا ایک جھرمٹ ہے اور آپ شان سے درس بخاری کے لیے چلے آرہے ہیں۔ اس وقت حضرت کے رعب سے بڑا متاثر ہوتا اسی لیے زیادہ سے زیادہ دور سے سلام کرنے پر ہی اکتفا کرتا۔ مگر جب مشکاة کے درس میں ان کے سامنے ببیٹھنے کی نوبت آئی تو ان کی معصومیت اور طلبہ کے ساتھ ان کی شفقت کا روز ہی مشاہدہ کیا۔ مجھ ناچیز پر تو وہ کچھ زیادہ ہی مہربان تھے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جس زمانے میں وہ بنارس میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے، قریب ہی واقع ایک دوسرے مدرسے میں میرے نانا حضرت مولانا قاری عبداللہ سلیم صاحب کا بھی تقرر ہوا تھا، دونوں حضرات کی عمر میں اگرچہ فرق تھا مگر چونکہ دونوں ہی حضرت مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے اس نسبت سے ایک دوسرے سے گہرا تعلق قائم رہا۔ جب حضرت کو اس نسبی تعلق کا علم ہوا تو آپ ہی نے نانا محترم کے ساتھ اپنے تعلق کا ذکر کیا۔
ششماہی امتحان تک حضرت نے مشکاة كی عبارت کے لیے مجھے غیر اعلانیہ طور پر متعین کردیا تھا۔ جب دورہ حدیث شروع ہوا تو حضرت کی عنایتیں بڑھ گئیں۔ اس سال مجھے اور دیگر دو طلبہ کو عبارت کے لیے خاص کرلیا گیا۔ عشاء کے بعد جب حضرت دار الحدیث میں داخل ہوتے تو دروازے ہی سے عبارت خواں کی جگہ نظر دوڑاتے، اگر ہم تینوں طلبہ میں سے کوئی ایک موجود ہوتا تو مطمئن ہوجاتے ورنہ اپنی رعب دار نگاہوں سے اس عبارت خواں کو مسترد کردیتے۔ رعب اور معصومیت کی اس ملی جلی کیفیت سے سارے طلبہ محظوظ ہوتے۔
حضرت کی سادگی اور معصومیت کا یہ واقعہ تو کبھی ذہن سے نہیں نکلے گا کہ ایک دن چند ساتھیوں نے چھٹی کی اسکیم بنائی اور ہمارے درسی ساتھی مولانا سید حسن مدنی کی قیادت میں چند طلبہ حضرت کے گھر پہنچ گئے۔ آپ اس وقت درس کے لیے تیار ہورہے تھے، مولانا حسن مدنی نے کہا کہ “حضرت چہرے سے لگ رہا ہے کہ کچھ بیمار ہیں”۔ فرمایا: “اچھا مولی صاحب! واقعی؟” مولانا حسن مدنی نے مجھے کہنی ماری کہ میں بھی تائید کروں۔ میں نے کہا: “جی بڑی نقاہت چہرے سے لگ رہی ہے” تیسرا بولا کہ حضرت آج آپ نہ پڑھائیں، اصل تو صحت ہے۔ فرمانے لگے کہ “ہاں صبح سے کچھ طبیعت میں گرانی محسوس تو کررہا ہوں، چلو تم لوگ کہتے ہو تو آرام کرلیتا ہوں”۔ دورہ حدیث کے تمام اساتذہ میں یہ طالب علمانہ شرارتیں صرف حضرت کے ساتھ ہی ممکن تھیں۔ آج جب یہ واقعہ پھر تازہ ہوا تو سادگی ان کی صورت میں مجسم نظر آئی۔
آخری سال پلک جھپکتے ہی گزرگیا اور اچانک ایک دن اعلان ہوا کہ کل بعد نماز عشاء حضرت آخری درس دیں گے، درس کی محفل سجی اور حضرت نے “چلیے” کہہ کر مجھے عبارت پڑھنے کا حکم دیا۔ جوں جوں آخری حدیث قریب آرہی تھی دل کے سمندر میں جذبات کا طوفان بڑھتا جارہا تھا۔ ایک طرف اپنے اساتذہ کی شفقتوں سے محرومی کا احساس اور دوسری طرف دار الحديث کی منور فضاؤں سے بچھڑنے کا خیال۔ جیسے تیسے کرکے آخری حدیث پڑھی اور پھر حضرت کی نصیحت، الوداعی کلمات اور رقت آمیز دعا نے طلبہ کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، شاید ہی کسی کی آنکھ نے اس کا ساتھ دیا ہو، وہ وسیع وعریض ہال یکا یک گریہ گاہ بن گیا اور اس ایک رات نے دارالعلوم دیوبند اس کے اساتذہ اور اس کی چہاردیواری کے لیے ہمارے دلوں میں محبت کی مشعل ہمیشہ کے لیے روشن کردی۔ ابھی بھی حضرت رحمہ اللہ کا جملہ کانوں میں گونج رہا ہے: “اب پتہ نہیں تم لوگوں سے ملاقات ہو نہ ہو، ہم زندہ رہیں نہ رہیں، اگر یہاں نہیں تو ان شاء الله جنت میں ملاقات ہوگی”۔ حضرت تو دار بقاء کی طرف کوچ کرگئے، ہم اور ان کے ہزاروں تلامذہ اسی امید اور دعا کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی گزاریں گے حضرت سے جنت میں ملاقات ہوگی۔ آمین۔

یاسر ندیم الواجدی
(بصیرت فیچرس)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں