دنیا کی خراب صورتحال انسانوں کے اعمال کا نتیجہ ہے

دنیا کی خراب صورتحال انسانوں کے اعمال کا نتیجہ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے تئیس دسمبر دوہزار سولہ کے خطبہ جمعہ میں انسانوں پر آفتوں اور مصیبتوں سمیت دنیا کی خراب صورتحال کو انسانوں کی بداعمالیوں اور منفی کردار کا نتیجہ قرار دیا جس پر توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔
’سنی آن لائن‘ نے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی ویب سائٹ کے حوالے سے لکھا، مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: قرآن پاک اور سنت کے مطالعے سے واضح ہوتاہے کہ معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور جتنی مصیبتیں اور بلائیں دنیا و آخرت میں لوگوں پر گرتی ہیں، سب ان کے اپنے ہی اعمال اور کرتوتوں کے نتائج ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ تعالی ہمارے بہت سارے گناہوں اور خطاووں سے گذشت فرماتاہے، قرآن پاک میں آیاہے اگر اللہ تعالی انسانوں کو ان کے تمام گناہوں پر مواخذہ فرماتا اور ان کی گرفت ہوجاتی، تو پوری دنیا نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ جانوروں کے لیے بھی رہنے کے قابل نہ رہتی۔ لیکن اللہ تعالی ارحم الراحمین ہے اور بندوں کو توبہ و اصلاح کا موقع دیتاہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے گناہ کے منفی اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جب کسی معاشرے میں گناہ و فسادعام ہوجائے، تو اللہ تعالی اس معاشرے کے افراد کو عذاب سے دوچار فرمائے گا۔ سزائے الہی کی شکلیں مختلف ہیں۔ آج کے مسلمان خدا اور رسول پر ایمان رکھنے کے باوجود اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے حقوق ضائع کرتے ہیں۔ اسی لیے مسلکی و فرقہ وارانہ لڑائیوں اور خاندانی چپقلشوں میں ٹھوکریں کھارہے ہیں جو ایک قسم کی سزا ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: جب انسان گناہ کا ارتکاب کرتاہے، اللہ تعالی اپنی ظاہری و باطنی رحمتوں کو بند فرماتاہے۔ آج بہت سارے لوگ قحط سالی اور خشکی سے نالاں ہیں اور تجارت و بازار کی خرابی کا رونا رورہے ہیں۔ یہ سب گناہوں اور غفلتوں کی سزائیں ہیں جو ہم بھگت رہے ہیں۔
انہوں نے توبہ و استغفار کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: ہمیں اللہ تعالی کی رحمتوں کی بندش کو اپنے گناہوں اور اعمال کا نتیجہ سمجھنا چاہیے اور اللہ تعالی سے گڑگڑاکر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ جو شخص دل کی گہرائیوں سے توبہ کرتاہے، وہ ایک ایسے شخص کی طرح ہے جس نے بالکل گناہ ہی نہیں کیا ہے۔ توبہ کے بعد ہی گناہ کے منفی اثرات کا خاتمہ ممکن ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے بعض قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: اللہ تعالی نے فرمایا ہے: «فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا*يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا*وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا؛ پس میں نے کہا اپنے رب سے بخشش مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے * وہ آسمان سے تم پر (موسلا داھار) مینہ برسائے گا * اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنا دے گا» ۔ جو شخص گناہ کرتاہے، دراصل وہ اپنی ہی ذات پر ظلم کرتاہے، لیکن اللہ تعالی غفور و رحیم ہے اور توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتاہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں