ایمان کی قدر و قیمت مولانا زہیر صاحب کے بیان میں

ایمان کی قدر و قیمت مولانا زہیر صاحب کے بیان میں

نوٹ: سالانہ لاکھوں فرزندان توحید علمائے کرام اور مبلغین اسلام کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے جوق درجوق رائیونڈ کا رخ کرتے ہیں۔ اس سال بھی سالانہ تبلیغی اجتماع دو مرحلوں میں منعقد ہوا۔ دوسرے مرحلے میں متعدد علمائے کرام نے اجتماع میں شریک مسلمانوں کو اپنے روح پرور خطابوں کا تحفہ پیش کیا۔ ان خطابوں اور بیانات کو اب اہل سنت ایران کی آفیشل ویب سائٹ (sunnionline.us/urdu) اپنے قارئین کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہی ہے۔ یہ خطابات چند دنوں کے فاصلے پر شائع ہوں گے، ان شاءاللہ۔ امید ہے محترم قارئین غور سے پڑھیں گے اور دوسروں کو بھی پہنچائیں گے۔ (ادارہ سنی آن لائن اردو)

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد:
پوری زندگی بہت قیمتی ہے، پھر عصر کے نماز کے بعد کا وقت بہت قیمتی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ’’تو فجر کے نماز کے بعد اور عصر کے نماز کے بعد تهوڑی دیر مجھے یاد کرلیا کرو، میں درمیان میں تیری کفالت کروں گا‘‘۔
زندگی قیمتی، پھر عصر کے نماز کے بعد کا وقت قیمتی، پھر اللہ کے راستے میں نکل کر اس کی قمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ اللہ کے راستے کی ایک صبح اور ایک شام دنیا و مافیھا میں سے اونچے اور سب سے بہتر ہے۔ لیکن وقت جب بہتر پڑتا ہے کہ ہم اس وقت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ لیکن یہ وقت گزر رہا ہے، ہر ایک کی اوپر جو وقت گزر رہا ہے یہ اس کو معلوم ہے کہ کتنا وقت گزرگیا ہے اور سب جانتے ہیں۔ لیکن آگے کتنا وقت باقی ہے یہ کسی کو پتہ نہیں ہے، اس لیے اپنی زندگی کو قیمتی بنانے کی کوشش کریں۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ’’سورج جب روزانہ نکلتا ہے تو یہ اعلان کرتا ہے کہ اے ابن آدم! تجھے جو عمل کرنا ہے کرلو، آج کا دن تیری زندگی میں لوٹ کر پھر کبھی نہیں آئے گا۔
اللہ جل شانہ کا ہمارے اوپر بے شمار انعامات اور احسانات ہیں، اتنے انعامات اور احسانات ہمارے اوپر ہیں کہ قرآن پاک کہتا ہے اگر ہم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہیں اور شمار کرنا چاہیں تو ہم اللہ کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتے، اللہ تعالی کے اتنے انعامات اور احسانات ہمارے اوپر ہیں، قدم قدم پر، سانس سانس پر، اللہ تعالی کی نعمتیں بارش کی طرح ہمارے اوپر اتر رہی ہیں اور ایسی ایسی نعمتیں اللہ تعالی کی ہیں کہ ایک نعمت بڑی نعمت ہوتی ہے لیکن ہمارے دهیان وہاں بھی نہیں جاتا کہ یہ بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اس لیے کہ ہر چیز کی قدر اور قیمت اس وقت معلوم ہوجاتی ہے جب وہ چیز ہاتھ سے نکل جاتی ہے، جب تک کوئی چیز انسان کے ہاتھ میں ہوتا اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا، اور جب چیز ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ میں نے کیا کچھ کهویا ہے۔
اللہ نے ہمیں ہاتھ پیر دے رکھے ہیں، اللہ نے ہمیں صحت دے رکھی ہے، اللہ نے ہمیں آنکھیں دے رکھی ہیں، مثال کے طور پر کوئی آدمی آنکھوں سے معذور ہوجائے تو پتہ چل جائیگا کہ آنکھ کتنی بڑی نعمت تھی کہ زندگی میں اندھیرا ہوگیا۔ ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہوجائے تو پتہ چل جائیگا کہ آنکھ کتنی بڑی نعمت تھی، آدمی کو اللہ نے صحت دے رکھی ہے جب آدمی بیمار لگے تو پتہ چلے گا کہ صحت کتنی بڑی نعمت تھی، تو نعمتوں سے انسان کی زندگی بهری ہوئی ہے، نعمتیں مستقل اتر رہی ہے ، اور ایسی نعمتیں کہ اللہ کی ایک نعمت، بڑی نعمت ہوتی ہے لیکن ہمارا دهیان ادھر نہیں جاتا کہ یہ بھی اللہ کی نعمت ہے، اس لیے میں نے کہا تھا کہ نعمت کی قدر اس وقت ہوتی جب وہ ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے زمانۂ خلافت میں باہر نکلے ایک آدمی کو دیکھا اپاہج، گونگا، بهیرا، ہاتھوں پیروں سے معذور، آنکھوں سے معذور بیمار پڑا ہوا ہے. تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ تم اللہ کی نعمت اس کے اندر پاتے ہو؟ کیا امیر المومنین اس کی اندر کیا نعمت؟ ظاہری طور پر اس میں کوئی نعمت نظر نہیں آتی ہے، تو آپ نے پوچھا کیا اس کو پیشاب نہیں ہوتا؟ یہ پیشاب ہونا کتنی بڑی نعمت ہے، اگر کسی کا پیشاب نہ ہوجائے تو دن میں تارے نظر آنے لگیں، تو ہر نعمت اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہیں۔ پھر ہر نعمت کا قیامت کے دن ہر آدمی سے سوال کیا جائے گا، ایسا نہیں ہے کہ خالی یہ نعمتیں اللہ ہمیں مرحمت فرمائی ہیں تو اس کو استعمال کریں اور اس سے زندگی گزاریں اور چلے جائیں۔ ہر نعمت کے بارے میں کل قیامت کے دن ہر آدمی سے پوچھا بھی جائے گا؛ ’’ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم‘‘، کل قیامت کے دن تم سے ضرور نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ٹھنڈا پانی ہمیں ملا ہے، یہ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اس کے بارے میں پوچھا جائے گا. گرمی میں دهوپ سے بچنے کے لیے سایہ حاصل کیا ہے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
تو نعمتیں ہمارے اوپر بے شمار ہیں، لیکن ان تمام نعمتوں میں جو سب بڑی ہمیں اور آپ کو اللہ تعالی دولت مرحمت عطا فرمائی ہے وہ ایمان کی دولت ہے۔ اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے اس لیے کہ اگر آدمی خداناخواستہ تمام نعمتوں کے ساتھ بغیر ایمان اس دنیا سے چلا جائے اور آخرت میں اللہ کی عذاب سے بچنے کے لیے دنیا کے برابر سونا چاندنی بھی دے، تب بھی آخرت میں اللہ کی عذاب سے بچ نہیں سکتا ہے۔
اللہ نے کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار دنیا کے کسی چیز پر نہیں رکھا ہے، اللہ نے کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار ایمان اور اعمال صالحہ پر رکھا ہے۔ تو سب بڑی نعمت جو اللہ نے ہمیں اور آپ کو مرحمت فرمائی ہے وہ ایمان کی دولت ہے۔ اگر ہم ساری زندگی بھی سجدہ پر سر رکھ کر اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیں، اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن جو چیز آدمی کو بغیر محنت قربانی اور بغیر مجاہدہ ملتی ہے، آدمی کے اندر اس کی قدر و قیمت کم ہوتی ہے۔ اور جو چیز محنت کر کے حاصل کرتا ہے اس کی قدر و قیمت اندر ہوتی ہے، تو ایمان جو ہمیں بغیر محنت اور مجاہدہ مل گیا ہے جیسے کہ وراثت میں ہمیں کوئی چیز مل جاتی ہے ایسے ہی ایمان ہمیں وراثت میں مل گیا ہے، خاندان مسلمان، باپ مسلمان، دادا مسلمان ہم مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں الحمدللہ ہم بھی مسلمان ہیں، لیکن ہمارے اندر اس ایمان کی قدر و قیمت کم ہے. اس لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی اور ایمان والے کی قدر و قیمت بتائی اور صحابہ کے اندر ایمان کی قدر و قیمت اتری جو کہ صحابہ نے اس ایمان کی خاطر اپنی ساری زندگی لگادی اور اس ایمان کی خاطر ہر تکلیف اور مصیبت کو برداشت کیا اور جو چیز ایمان کے مقابلے پر آئی اس کو قربان بھی کیا ہے۔
کیا قدر بتائی؟ یہ قدر بتائی کہ جب تک ایک بھی ایمان والا اس دنیا میں موجود رہے گا اللہ تعالی اس تمام دنیا کے نظام کو باقی رکھے گا۔ یہ میری اور آپ کی قدر ہے اللہ کی یہاں کہ ایک ایمان والے کی وجہ سے اس دنیا کے تمام نظام کو باقی رکھے گا۔ اور قیمت کیا بتائی؟ اگر رائی کے دانہ کے برابر ایمان کو بچا کرلے تو اللہ تعالی اس دنیا سے دس گنی جنت مجھے اور آپ کو عنایت فرمائے گا۔ تو صحابہ کے اندر یہ قدر و قیمت ایسی اتری کہ صحابہ نے اس ایمان کے لیے ہر تکلیف، پریشانی اور مصیبت برداشت کی ہیں۔
صحابہ کے قصے ہم سنتے رہتے ہیں، تعلیم کے حلقوں میں بٹھایا جاتا ہے اسی لیے تا کہ ہم صحابہ کے قصوں سے اثر لینے والے بنیں. اگر ہم اپنے ایمان کو صحابہ کے ایمان کے مقابلے میں رکھیں تب بھی پتہ چلے گا کہ ہم ایمان کے اعتبار سے کتنے کمزور اور دور ہیں، اس ایمان کے خاطر کیسی کیسی تکالیف صحابہ نے اٹھائی۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت خباب بن أرت رضی اللہ عنہ سے پوچھا: خباب! ان تکالیف کی تفصیل بتاؤ جو ایمان کی وجہ سے تم پر پیش آئی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ ذرا میری کمر دیکھیں! جب کمر دیکھی تو حضرت عمر نے کہا: اے خباب! ایسی کمر کسی کی نہیں دیکھی آج تک۔ تو حضرت خباب نے کہا: مجھے آگ کے انگاروں پر لیٹا کر گھسیٹا جاتا تھا اور میری چربی سے اور میری خون سے آگ بجھتی تھی تو ان تکالیف کو آسانی سے برداشت کیا لیکن ایمان پر فرق نہیں آیا۔ کیوں کہ انہوں نے یہ ایمان محنتوں اور تکلیفوں سے حاصل کیا تھا، اس لیے اور قدر و قیمت ان کے اندر اتری ہوئی تھی کہ انہوں نے تکالیف کو برداشت کی تھی۔
ایک عورت کے غلام تھے، جب اس کو یہ پتہ چلا کہ اس کے غلام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے ہیں تو سریے کو گرم کرکر اس سے ان کے بدن کو داغ دیتی تھی۔
پھر اتنا ہی نہیں! جب اللہ کی طرف سے فتوحات کا دروازہ کھلا تو صحابہ اس پر رویا کرتے تھے کہ ہماری تکلیفوں اور مشقتوں کا بدلہ کہیں اللہ تعالی ہمیں دنیا میں تو نہیں دے رہا ہے، اس لیے کہ مومن کی علامت بتائی کہ مؤمن جو عمل کرتا ہے اس کا بدلہ اس کو آخرت میں چاہیے کیوں کہ دنیا میں جو ملتا ہے وہ تھوڑا ملتا ہے اور صرف موت تک وقتی ملتا ہے اور آخرت میں جو ملے گا، وہ ہمیشہ کے لیے اور یہاں سے بہت زیادہ ملے گا. تو مؤمن اپنے عمل کا بدلہ دنیا میں نہیں چاہتا ہے، آخرت میں چاہتا ہے۔ اور جو عمل کرتا ہے اپنے اللہ کو راضی کرنے کے لیے کرتا ہے۔ کوئی خوش ہے یا ناخوش، کوئی دیکھ رہاہے یا نہیں، کوئی کیا کہے گا، کچھ کہے گا کچھ نہیں کہے گا، اس کی کوئی پرواہ اس کو نہیں، بس اندر سے یہ چاہتا ہے کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہوجائے۔
لہذا ایمان کی خاطر تکلیفوں کو برداشت کرنا اور پھر ایمان کی خاطر اور ایمان کے مقابلے میں کوئی چیز آئی ہے اس کو قربان کریں لیکن ایمان پر چوٹ نہیں لگنے دیں۔ صحابہ نے بھی ایمان کے مقابلے ہر چیز کو قربان کیا، مال آیا ہے، دولت، حکومت یہاں تک کہ ماں باپ، گھروالے، بچے آئے ہیں سب کو ایمان کے مقابلے میں قربان کیا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی ماں کو جب پتہ چلی کہ وہ ایمان لایا ہے تو قسم کھائی کے میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی جب تک تم دین نہیں چھوڑتے. تو ایک دن گزرا، حضرت سعد نے سمجھایا لیکن نہیں مانی، دوسرا اور تیسرا دن گزرا اور ضعف بڑھتا چلا گیا، جب چار پانچ دن گزر گئے تو حضرت سعد نے کہا کہ اے ماں! خدا کی قسم اگر تیرے بدن کی اندر سو جانیں ہوتی اور وہ جان ایک ایک کر کے نکل جائے گی تب بھی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو نہیں چھوڑوں گا۔ اب تیری مرضی ہے چاہے تو کھالے پیلے یا نہیں. ماں آئی ہے ایمان کے مقابلے پر تو ماں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ حکومت اور مال آئی ہے تو بھی قربان کیا۔
حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو روم کی فوج نے قید کیا تھا پھر ان کو بادشاہ کے سامنے لے کر آئے، بادشاہ نے ان کے اوپر نصرانیت کو پیش کیا کہ تم نصرانی ہوجاؤ تو میں تمہیں آدھی بادشاہت اور سلطنت دے دوں گا، تو اس صحابی نے یہ سوچا کہ اگر یہ بادشاہ مجھے ایمان چھوڑنے کے لیے آدھی سلطنت دینے کو تیار ہے اور مجھ سے میرے نبی کیا کہا تھا کہ اگر رائی کے دانے کے برابر ایمان کو بچا کر لے تو اللہ تعالی اس دنیا سے دس گنی بڑی جنت عطا فرمائے گا، تو اسی وقت جواب دیا کہ آدھی سلطنت نہیں اگر پوری بادشاہت دے اور پوری نہیں بلکہ جتنی بادشاہت زمین پر ہے سب کی سب، تب بھی میں پلک جھپکنے کے برابر ایمان کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوں۔
پھر اتنا ہی نہیں کہ چلو چھوڑ دیا، نہیں مانتے ہو اپنے گھر چلے جاؤ، بلکہ دوسری چیز اس لیے کہ آدمی کو جو سیدھے راستے سے ہٹھایا جاتا ہے وہ دو طریقوں سے ہٹایا جاتا ہے، ایک تو لالچ دیکھ کر ہٹایا جاتا ہے کہ تم ہمارا یہ کام کرو یہ دیں گے وہ دیں گے، اگر لالچ سے نہیں مانتے تو دوسری چیز دھمکی دے کر ہٹایا جاتا ہے۔ لالچ کو تو یہ جواب دیا کہ اگر پوری سلطنت دے تب بھی میں پلک جھپکنے کے برابر ایمان کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوں۔ پھر دوسری چیز: دھمکی، اصل تو یہ اللہ کی طرف سے ایمان والوں کی آزمائشیں ہوتی ہیں، ہر ایمان والے پر آزمائش آتی ہے، اس کے ایمان کے اعتبار سے امتحان ہوتا ہے، قرآن میں ہے: “الم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ”، کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم یہ کہہ دو کہ ہم ایمان والے ہیں تو تم آزمائے نہیں جاؤ گے، نہیں! ہر ایمان والے کی آزمائش ہوتی ہے، ایمان پرکھنے کے لیے کہ یہ اپنے ایمان میں کتنا مضبوط ہے، اپنے دین میں کتنا جمع ہوا ہے، ہر چیز امتحان کے وقت آزمایا جاتی ہے. جو ایمان والا ہوتا ہے وہ حالات کا مقابلہ حالات سے نہیں کرتا بلکہ حالات کا مقابلہ اعمال سے کرتا ہے اور جب حالات کے مقابلے میں آدمی اپنے دین پر جم جاتا ہے تو پھر اللہ کی طرف سے نصرت آتی ہے، ’’ان تنصروا اللہ ینصرکم‘‘؛ اللہ کا وعدہ ہے کہ تم ہمارے دین کی مدد کرو ہم تمہاری مدد کریں گے، لیکن پہلی شرط یہ ہے کہ تم میرے دین کی مدد کرو، تو جب آدمی حالات کے مقابلے میں اپنے دین پر جم جاتا ہے، اعمال سے استغفار کرتا ہے پھر اللہ تعالی حالات کو بدلتا ہے.
حالات کا تعلق دنیا کی کسی چیز سے نہیں ہے، آپ دیکھیں کہ دنیا میں جتنے حالات اور پریشانیاں اور مصیبتیں اس وقت ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی ہیں، حالانکہ دنیا میں جتنی سہولتیں اس وقت ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں، لیکن حالات بدتر سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، کیوں کہ اس کا تعلق انسان کے اعمال سے ہے، جیسے انسان کے اعمال اللہ کی طرف اوپر جاتے ہیں ویسے فیصلے نیچے آتے ہیں، اگر ہمارے اعمال اوپر ایسے جائیں گے جو اللہ کو راضی اور خوش کرنے والے ہیں تو پھر اوپر سے جو فیصلے آئیں گے وہ بھی ایسے آئیں گے جو ہمیں خوش کرنے والے ہوں گے اور اگر ہمارے اعمال ایسے اوپر جائیں گے جو اللہ کو ناخوش اور ناراض کرنے والے ہیں تو پھر اوپر سے جو فیصلے آئیں گے وہ بھی ایسے آئیں گے جو ہمیں ناگوار گزریں گے، تو حالات کا تعلق دنیا کی کسی چیز سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق انسان کے اعمال سے ہے۔ میں نے کہا کہ ایمان والے پر آزمائشیں یہ دیکھنے کے لیے آتی ہیں کہ کیا اپنے ایمان میں کتنا مضبوط ہے، تو مومن حالات کے مقابلہ حالات سے نہیں بلکہ اعمال سے کرتا ہے، جب توبہ و استغفار کرتا ہے، اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو پھر اللہ تعالی حالات کو بدلتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں قحط سالی ہوئی اور ایسا قحط پڑا کہ جانور تک ہلاک ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ مصر اور شام سے اور کئی اور جگہوں سے غلہ منگائے، غلہ آئے اور آکر ختم ہوگئے، قحط دور نہ ہوا، ایک صحابی نے بکری ذبح کیا تو اس بکری سے نہ خون نکلا نہ گوشت، خالی ہڈی نکلی، وہ صحابی رونے لگے، روتے ہوئے سوگئے تو خواب میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، آپ نے فرمایا عمر کو میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ تو تو بڑا عقلمند تھا تجھے کیا ہوا؟ ایمان کی فراست عطا فرمائی حضرت عمر کو، یہ صحابی اٹھے اور حضرت عمر کی خدمت میں گئے اور اپنا پورا قصہ اور خواب سنایا، تو حضرت عمر نے فوراً مشورے والوں کو جمع کیا اور مشورہ میں بات رکھی. تو مشورہ میں بات آئی کہ امیرالمومنین جہاں سے قحط شروع ہوا ہے اسی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے؟ ہم حالات کے مقابلے حالات سے کر رہے ہیں، قحط ہوا ہم مصر اور شام سے غلہ منگوا رہے ہیں لیکن ہم نے اللہ کی طرف رجوع نہیں کیا، حالات کے مقابلہ حالات سے ہو رہا تھا. یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہاں یہ ہم سے چوٹ ہو رہی ہے. فوراً مدینے سے باہر گئے اور توبہ استغفار کر ہی رہے تھے کہ اسی وقت بارش شروع ہوئی۔ جب تک حالات کے مقابلہ حالات سے کرتے رہے تو قحط سالی ختم نہیں ہوئی اور جب حالات کے مقابلے توبہ و استغفار سے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے سے کیا تو اسی وقت حالات بدل گئے۔
تو میں نے عرض کیا ایمان والے پر آزمائشیں آتی ہے یہ دیکھنے کے لیے یہ اپنے ایمان میں کتنا مضبوط ہے، تو وہ صحابی کہ پہلے تو لالچ تھی اور لالچ کا وہ جواب دیا۔ پھر دوسری چیز دھمکی، کے بادشاہ نے ایک دیگ منگوائی اور دیگ کے اندر پانی ابل رہا تها، جب پانی خوب کولا گیا تو بادشاہ نے قیدیوں کو بلایا اور ان کے سامنے اس میں ڈال دیا اور یہ کہا کہ ایمان چھوڑو، نہیں تو تجھے بھی اس میں ڈالا جائے گا، تو صحابی کہنے لگے جو تجھ سے ہوسکے وہ کرلے، بادشاہ نے حکم دیا کہ اِن کو اس میں ڈالو، جب لے جانے لگے تو وہ صحابی رونے لگے، اس کی اطلاع بادشاہ کو مل گئی، بادشاہ یہ سمجھا کے شاید ڈر کی وجہ سے ہے اور ابھی مان جائے گا اور ایمان چھوڑ دے گا، ان کو بلایا اور پھر نصرانیت کو پیش کیا، صحابہ کہنے لگے کہ میں نے ایک مرتبہ کہہ دیا تھا کہ تجھ سے جو ہوسکے، وہ کرلے۔ بادشاہ نے کہا کہ کیوں روتے رہے تھے؟ صحابہ نے کہا کہ میں تو اس لیے رو رہا تھا کے میرے بدن کے اندر ایک جان ہے، وہ جان اس دیگ میں ڈالی جائے گی اور ختم ہوجائے گی، میں اس لیے رو رہا تھا کہ کاش میرے بدن کے اندر سو جانیں ہوتی اور ساری کی ساری جانیں آج اس دیگ میں ڈالی جاتی اور وہ ساری جانیں میں اللہ کے نام پر قربان کرتا، ایک جان کے قربان پر رو رہا تھا۔
یہ جذبہ بنتا ہے دعوت سے۔۔۔ جب آدمی دعوت دیتا ہے اور اپنے دین کو لے کر حرکت میں رہتا ہے، اندر کا یقین بدلتا ہے، تو وہ ایمان جو اللہ تعالی نے صحابہ کو مرحمت فرمایا تھا وہ ایمان اللہ نے مجھے اور آپ کو بھی مرحمت فرمایا ہے اور فرق اتنا ہے کہ صحابہ اپنے ایمان کے اعتبار سے اعلیٰ درجے پر تھے اور ہم اپنے ایمان کے اعتبار سے نچلے درجے پر ہیں، اس لیے اللہ کے راستے میں نکلنے کا مقصد اور یہ اجتماعات کا ہونا، خالی ایک روٹین کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ اس لیے ہیں تا کہ ہمارے اندر اپنے دین اور ایمان کی کمزوری کا احساس ہوجائے، آدمی کے اندر کسی چیز کا احساس ہوجائے تو کسی کی کہنے سننے کی ضرورت نہیں ہے، آدمی خود اس کی فکر میں رکھتا ہے، جیسے صحابہ کو اپنے ایمان کا اور اپنے دین کی فکر تھی اور کسی کو کہنے سننے کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ خود اس کی فکر میں رہتے تھے اور ایسی فکر تھی کے چھوٹی چھوٹی بات پر اپنے منافق ہونے کا احساس ہوجاتا تھا، چھوٹی باتوں پر ڈر لگتا تھا کہ کہیں میں تو منافق نہیں ہوں۔
حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، اور کہتے ہوئے نکلے کہ ’’حنظلہ تو منافق ہوگیا‘‘. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باہر تشریف لے جارہے تھے، اُن سے کہا کہ: حنظلہ تو منافق ہوگیا؟ (انہوں نے وجہ پوچھی کہ کس وجہ سے کہہ رہے ہو کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا؟) تو انہوں نے وجہ بتائی کہ جب ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہوتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت، دوزخ، قبر اور حشر کا ذکر کرتے ہیں، تو ہمارے قلوب ایسے ہوجاتے ہیں جیسے وہ ہمارے سامنے ہیں اور جب گھر واپس آتے ہیں تو بیوی بچے پاس آتے ہیں، ہنسی مذاق کی بات شروع ہوجاتی ہے اور وہ کیفیت جو نبی کی مجلس میں ہوئی‘ ختم ہوجاتی ہے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کیفیت تو ہمارے اندر بھی ہوتی ہے، چلو چل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں، مطلب یہ کہ اتنی سی بات پر منافق ہونے کا ڈر ہوا کہ کہیں منافق تو نہیں ہوگئے۔
تو میرے دوستو! اللہ کرے کہ ہمارے اندر بھی دین کے اعتبار سے احساس پیدا ہوجائے، سب سے پہلے ہمیں اپنے ایمان کی فکر کرنی ہے۔
اس دعوت کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر کا یقین بدلے، جب اندر کا یقین بدلا پھر بدن سے نکلنے والے اعمال جاندار بنیں گے، آدمی جو چیز عمل کے اعتبار سے چلاتی ہے وہ اس کے اندر کی طاقت چلاتی ہے، اور اندر اس چیز کا یقین ہوتا ہے جس کا آدمی دعوت دیتا ہے، تو اللہ کے راستے میں نکلنے کا مقصد یہ ہے کہ جتنی دعوت دیں گے جتنی اللہ کی عظمت کے بارے میں بولیں گے، سنیں گے اور سوچیں گے، اتنا ہی اللہ کی عظمت اور بڑائی سمجھ میں آئے گی اور جتنی اللہ کی عظمت سمجھ میں آئے گی اتنا ہی ہمارے بدن سے نکلنے والے اعمال جاندار بنیں گے، صحابہ نے خالی ایمان کی فکر اور قدر و قیمت نہیں جانی اور ایمان کے لیے قربانی نہیں دی بلکہ صحابہ نے ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے عملوں کی فکر بھی کی ہے اور ہمیں اپنے ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے عملوں کی فکر بھی کرنی ہے اور صحابہ نے خالی ایمان کی خاطر قربانی نہیں دی بلکہ عمل کی خاطر بھی قربانی دی ہے، کیوں کے ایمان اور اعمال صالحہ دونوں انسان کی نجات کے لیے ہیں، ایمان کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے، اور ایمان ہے لیکن اعمال صالحہ نہیں ہے تو پھر اسے سزا بگھتنی پڑے گی۔ تو صحابہ نے جس طرح ایمان کے خاطر تکالیف برداشت کی ہیں اور قربانیاں دی ہیں اسی طرح اعمال کے خاطر بھی قربانیاں دی ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ باغ میں نماز پڑھ رہے تھے، اس میں ایک پرندہ گھس گیا، حضرت ابوطلحہ نماز پڑھتے پڑھتے اچانک اس پرندہ پر ان کی نگاہ پڑگئی اور اس پرندہ کے ساتھ نگاہ گومنے لگی، جدھر پرندے گئی نگاہ بھی اسی طرف گئی، تھوڑی دیر ہوئی پھر خیال آیا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا، جب یہ خیال آیا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں یہ بهول گئے کہ کتنی رکعات ہوئیں، دو ہوئیں یا تین، سلام پھیر کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ پورا کا پورا باغ اللہ کے نام پر صدقہ ہے، کیوں کہ یہ باغ میرے عمل کی خرابی کا ذریعہ بنا ہے، اگر یہ باغ نہ ہوتا نہ میں اس میں نماز پڑهتا نہ اس میں پرندہ آتا نہ میرا دھیان ادھر جاتا نہ میری نماز خراب ہوتی، نماز باغ کی وجہ سے خراب ہوئی تو اللہ کے نام پر صدقہ کیا اور آج ہم مسلمانوں کا کیا حال ہے کہ مسلمان ایمان کی کمزوری کی وجہ سے سب سے زیادہ نماز کی طرف سے غفلت میں پڑا ہوا ہے۔
اندر اتنا ایمان کمزور ہے کہ وہ دین پر تو کیا چلاتا وہ تو فرائض پر نہیں کهڑا کر پارہا ہے، حالانکہ حدیث کا مفہوم ہے کہ اسلام میں کوئی حصہ نہیں اس مسلمان کا جو نماز نہ پڑھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب خنجر مارا گیا اور آپ پر بے ہوشی اتاری رہی، ساری کوشش کی آپ کو ہوش میں لانے کی، آپ ہوش میں نہیں آئے، تو ایک صحابی نے کہا کہ امیرالمومنین کو نماز کے ذریعے سے ہوش میں لاؤ، تو اس وقت کہا: اے امیرالمومنین! الصلاۃ الصلاۃ، آپ نے اس وقت آنکھ کھولی اور یہ جملہ فرمایا کہ: اسلام میں کوئی حصہ نہیں اس مسلمان کا جو نماز نہ پڑھے۔ اس لیے ہمیں اس دعوت کے ذریعے سے سب سے پہلے اندر کے یقین کو بدلنا ہے، اور ذکر کے ذریعے سے اپنے اندر کی غفلت کو ختم کرنا ہے، آج غفلتیں بھی ہمارے اندر بڑهی ہوئی ہیں، ایسی غفلتیں ہیں کہ آدمی غفلت کے ماحول میں غافل ہیں، جیسے دوکان اور بازار ہیں۔ مسلمان اتنا غافل ہوچکا ہے کہ نماز پڑھ رہا ہے اللہ کے سامنے کهڑا ہورہا ہے لیکن وہاں بھی غافل ہے، نماز میں کوئی دوکان میں گھوم رہا ہے کوئی کاروبار میں گھوم رہا ہے، تو ذکر کے ذریعے سے اس غلفت کو ختم کرنا ہے۔ وضو کرکے قبلے کی طرف اللہ کا ذکر کرکے اندر کی غفلت ختم ہوگی، جتنی اندر کی غفلت ختم ہوگی اتنا ہی عمل کرنے میں مزہ آئے گا، آدمی کو جب پتہ چلتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے تو وہ عمل اور اچھی طرح کرتا ہے، تو آدمی کو جب پتہ چلتا ہے کہ جب گناہ کرنے کا ارادہ ہوتاہے اور کوئی اسے دیکھ رہا ہے تو اس سے روک جاتا ہے، تو ایسے اگر ہمارے دھیان اللہ کی طرف ہوجائے کہ اللہ مجھے ہر وقت اور ہر جگہ دیکھ رہا ہے پھر عمل کرنے کا مزہ ہے اور گناہوں سے بہت زیادہ بچنے والا بنے گا۔ اس لیے تین تسبیح صبح کو اور تین تسبیح شام کو، ایک تسبیح تیسرے کلمے کی ’’سبحان اللہ الحمدللہ لاالہ الا اللہ و اللہ اکبر و لاحول و لاقوۃ الاباللہ العلی العظیم‘‘ اور ایک تسبیح درود شریف کی اور ایک تسبیح استغفار کی، جتنے دھیان سے جی لگا کر پڑھیں گے( اس لیے کہ ذکر اگر غفلت سے بھی کیا جائے تب بھی نفع سے خالی نہیں ہے ثواب تو ملی جائے گی لیکن غفلت اپنی جگہ باقی رہے گی) ان شاء اللہ اندر کے غفلت ختم ہوگی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں