صبر باعث راحت

صبر باعث راحت

دنیا میں ہر شخص ایک حال میں نہیں ہے۔۔۔ کچھ لوگوں کو اتنی خوشیاں ملتی ہیں کہ ہنستے ہنستے آنسو نکل آتے ہیں اور کچھ کے نصیب میں اتنے غم ہیں کہ ہنسی سزا معلوم ہوتی ہے۔
دنیا غمی اور خوشی کا امتزاج ہے۔۔۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں کے مکین کبھی کسی دکھ درد سے آشنا نہ ہوئے ہوں۔ جہاں پھول برستے ہیں وہیں کبھی کبھار کوئی کانٹا زخم بھی دے جاتا ہے۔ رم جھم برستے پانی میں کبھی کبھار اولے بھی پڑنے لگتے ہیں۔ لیکن مسلمان کو اگر ذرا سی بھی تکلیف پہنچتی ہے تو حدیث کی رو سے وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے۔ حتی کہ اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بھی اس کے گناہوں کا ازالہ ہوتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ جو بھی تکلیف بندے کو آتی ہے جیسے بخار آجائے یا کوئی (اور) مصیبت آجائے حتی کہ اتنی بات بھی پیش آجائے کہ اس نے اپنے کرتے کی آستین میں کوئی پیسہ رکھا تھا مگر رکھ کر بھول گیا، اس کی تلاش میں جو گھبرائٹ ہوئی تو یہ بھی گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے گناہوں (صغائر) سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے سرخ سونا نتھر کو صاف ہوجاتا ہے (کبیر)۔
اور انسان کو جو بھی حالتیں پیش آتی ہیں، خواہ اختیاری ہوں یا غیراختیاری وہ دو طرح کی ہوتی ہیں۔ یعنی یا تو طبیعت کے موافق ہوتی ہیں یا طبیعت کے موافق نہیں ہوتیں بلکہ نفس کو ان سے گرانی اور ناگواری ہوتی ہے، تو جس کو ان میں سے جو بھی حالت درپیش ہو اس کے چاہیے کہ وہ اس سے احسن طریقے سے عہدہ برا ہوجائے۔۔۔ اس کا طریقہ کیا ہے۔۔۔؟؟
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ حیات المسلمین میں فرماتے ہیں کہ ’’جس کو پہلی حالت (یعنی طبیعت کے موافق) درپیش ہو تو ایسی حالت کو دل سے اللہ تعالی کی نعمت سمجھنا اور اس پر خوش ہونا اور اپنی حیثیت سے اس کو زیادہ سمجھنا اور زبان سے اللہ تعالی کی تعریف کرنا اور اس نعمت کا گناہوں میں استعمال نہ کرنا یہی شکر ہے۔ لیکن اگر حالت طبیعت کے موافق نہ ہو تو اس صورت میں یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اس میں میری کوئی مصلحت رکھی ہے اور شکایت و شکوہ نہ کرے اور اگر وہ کوئی حکم (شرعی) ہے تو اس پر مضبوطی سے قائم رہنا اور اگر کوئی مصیبت درپیش ہے تو مضبوطی سے اس کو سہنا اور پریشان نہ ہونا چاہیے یہ صبر ہے۔‘‘
’’صبر‘‘ کی مثال ایسی ہے کہ مثلاً نفس دین کے کاموں سے گھبراتا ہے، اور بھاگتا ہے یا گناہ کے کاموں کا تقاضا کرتا ہے، خواہ نماز روزے سے جی چراتا ہے یا حرام آمدنی کو چھوڑنے سے یا کسی کا حق دینے سے ہچکچاتا ہے، ایسے وقت ہمت کرکے دین کے کام کو بجا لائے اور گناہ سے رُکے۔۔۔ اگرچہ دونوں جگہ کتنی ہی تکلیف ہو، کیونکہ بہت جلدی اس تکلیف سے زیادہ آرام اور مزہ دیکھے گا، اسی طرح ایک اور مثال ہے کہ اس پر کوئی مصیبت پڑگئی خواہ فقر و فاقہ کی، خواہ بیماری کی، خواہ کسی کے مرنے کی، خواہ کسی دشمن کے ستانے کی، خواہ مال کے نقصان ہوجانے کی ایسے وقت میں مصیبت کی مصلحتوں کو یاد کرے اور سب سے بڑی مصلحت ’’ثواب‘‘ ہے جس کا مصیبت پر وعدہ کیا گیا ہے اور اس مصیبت کا بلاضرورت اظہار نہ کرے اور دل میں ہروقت اس کی سوچ بچار نہ کرے، اس سے ایک خاص سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر اس مصیبت کی کوئی تدبیر ہو جیسے حلال مال کا حاصل کرنا یا بیماری کا علاج کرنا یا کسی صاحبِ قدرت سے مدد لینا یا شریعت سے تحقیق کرکے بدلہ لے لینا یا دعا کرنا، اس کا کچھ مضائقہ نہیں۔
’’صبر علی البلاء‘‘ کی تیسری مثال یہ ہے کہ دین کے کام میں کوئی ظالم روک ٹوک کرے یا دین کو ذلیل کرے، وہاں جان کو جان نہ سمجھے مگر قانونِ عقلی اور قانون شرعی کے خلاف نہ کرے، یہ صبر کی چند مثالیں ہیں۔ جس کو جو بھی حالت درپیش ہو وہ مذکورہ حل کی روشنی میں صبر کرے اور اجرِ عظیم کا خود کو مستحق بنالے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
’’اور ہم تمہارا امتحان کریں گے، کسی قدر خوف سے (جو دشمنوں کے ہجوم یا حوادث کے نزول سے پیش آئے) اور کسی قدر فقر و فاقہ سے اور کسی قدر مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے (مثلاً مویشی مرگئے یا کوئی آدمی مرگیا یا بیمار ہوگیا یا پھل اور کھتی کی پیداوار تلف ہوگئی) اور آپ (ان مواقع پر) صبر کرنے والوں کو بشارت سنادیجیے۔‘‘ (بقرہ آیت ۱۵۵)
صبر ہی کی مثال میں ایک حدیثِ مبارک بھی ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر پر سردار بنا کر دریا کے (سفر) میں بھیجا۔ ان لوگوں نے اسی حالت میں اندھیری رات میں کشتی کا بادبان کھول رکھا تھا (اور کشتی چل رہی تھی) اچانک ان کے اوپر سے کسی نے پکارا: اے کشتی والو! ٹھہرو میں تم کو اللہ تعالی کے ایک حکم کی خبر دیتا ہوں جو اس نے اپنی ذات پر مقرر کر رکھا ہے۔ حضرت ابوموسی نے کہا: اگر تم کو خبر دینا ہے تو ہم کو خبر دو۔ اس پکارنے والے نے کہا کہ اللہ تعالی نے اپنی ذات پر یہ بات مقرر کرلی ہے کہ جو شخص گرمی کے دن میں (روزہ رکھ کر) اپنے کو پیاسا رکھے گا، اللہ تعالی اس کو پیاس کے دن (یعنی قیامت میں جب پیاس کی شدت ہوگی) سیراب فرمادے گا۔ (حیات المسلمین)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے (ایک لمبی حدیث میں) روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی شخص ایسا نہیں جو طاعون واقع ہونے کے وقت اپنی بستی میں صبر کے ساتھ ثواب کی نیت سے ٹھہرا رہے اور یہ اعتقاد رکھے کہ وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے (تقدیر میں) لکھ دیا ہے مگر ایسے شخص کو شہید کے برابر ثواب ملے گا۔ (بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب میں دنیا میں رہنے والوں میں سے اس کے کسی پیارے کی جان لے لوں پھر وہ اس کو ثواب سمجھے (اور صبر کرے تو ایسے شخص کے لیے) میرے پاس جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں (بخاری)۔۔۔ وہ پیارا خواہ اولاد ہو یا بیوی ہو یا شوہر ہو یا اور کوئی رشتہ دار ہو یا دوست ہو۔ اسی طرح۔۔۔ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے (ایک لمبی حدیث میں ) روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین شخص ہیں جن سے اللہ تعالی محبت کرتا ہے اور ان کی طرف متوجہ ہوکر ہنستا ہے۔ (جیسا اس کی شان کے لائق ہے) اور ان کی حالت پر خوش ہوتا ہے (ان تین میں) ایک وہ بھی ہے جو اللہ تعالی کے لیے جان دینے کو تیار ہوگیا پھر خواہ جان جاتی رہی اور خواہ اللہ تعالی نے اس کو غالب کردیا اور اس کی طرف سے کافی ہوگیا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرے اس بندے کو دیکھو میرے لیے کس طرح اپنی جان کو صابر بنادیا۔ (عین ترغیب از طبرانی)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کوئی وقت خالی نہیں کہ انسان پر کوئی نہ کوئی حالت نہ ہوتی ہو خواہ طبیعت کے موافق ہو یا طبیعت کے خلاف۔ پہلی حالت پر شکر کا حکم ہے دوسری حالت پر صبر کا حکم ہے۔ تو صبر و شکر ہروقت کے کرنے کے کام ہیں۔ محترم خواتین اسلام! اس کو نہ بھولنا، پھر دیکھنا ہر وقت کیسی لذت اور راحت میں رہوگی۔ اللہ رب العزت ہم سب کو صبر کرنے والا نعمتوں پر شکر کرنے والا بنادے۔ (آمین)

تحریر: بنت مفتی عبدالرؤف
اشاعت: خواتین کا اسلام میگزین۔ نمبر 711


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں