میرا خاندان امریکا سے واپس کیوں آنا چاہتا ہے؟

میرا خاندان امریکا سے واپس کیوں آنا چاہتا ہے؟

امریکی انتخابات کے اگلے دن میں سو کر اٹھی تو امریکا میں رہنے والے رشتے داروں کے پیغامات آنے شروع ہو چکے تھے۔ مجھے سب سے زیادہ دھچکا جس پیغام سے لگا، وہ میری خالہ کا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ: “یہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے۔ کاش میں سو کر اٹھوں تو سب واپس ٹھیک ہو چکا ہو۔”
میں نے بھی سوچا کہ مجھے واپس سو جانا چاہیے اور اس حقیقت سے نظریں چرا لینی چاہیئں کہ ڈونلڈ ٹرمپ واقعی امریکا کے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ اس شخص کو ووٹ دے کر امریکا نے نفرت، نسل پرستی، اور صنفی امتیاز کو ووٹ دیا ہے۔
ہمیں عام طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جابر، نسل پرست اور کرپٹ حکومتیں صرف تیسری دنیا میں ہی پائی جاتی ہیں۔ دھاندلی اور سیاسی اتھل پتھل پاکستان میں تو عام بات ہے۔ جب ریاست ایمرجنسی کا اعلان کرے یا کوئی ہڑتال ہو، تو ہمارے بچے ایک اور چھٹی کا سوچ کر خوش ہو جاتے ہیں۔
لیکن ہمارے ذہنوں میں یہ تصور کبھی نہیں ہوتا کہ امریکا میں بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ کئی پاکستانی زندگی میں کامیابی یا اپنے بچوں کے لیے ایک اچھی زندگی کی خواہش میں مغرب جانا چاہتے ہیں۔ امریکا کو مواقع کی سرزمین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایسا ملک، جسے دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک تصور کیا جاتا ہے، اس کا شہری بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہم سالہا سال سخت محنت کرتے ہیں۔
یہ “امیریکن ڈریم” ہمارے لیے بہت ہی پرکشش ہے۔ ہم اسے تارکینِ وطن کا ملک سمجھتے ہیں، ایسا ملک جس میں ہر کسی کے لیے جگہ ہے۔
ہمارے نکتہءِ نظر سے امریکا اور پاکستان میں بہت سی چیزیں مختلف ہیں۔ ان کا نظامِ انصاف خامیوں سے پاک ہے، سب کے لیے مساوی حقوق اور ایک جیسے مواقع پر زور دیا جاتا ہے، پھر چاہے اس کا مذہب یا نسل کوئی بھی ہو۔ ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان میں جس طرح کے تشدد کا ہم روزانہ کی بنیادوں پر مشاہدہ کرتے ہیں، وہ ہمیں امریکا میں کبھی نہیں دکھائی دے گا۔
ہمیں امریکا کی ہر چیز قابلِ تعریف لگتی ہے۔ کسی کو ان کا لہجہ پسند ہے، ان کا لباس پسند ہے، تو کسی کو ان کے ادب آداب پسند ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی شادی کسی نیلے پاسپورٹ والے یا والی کے ساتھ ہو۔
ہم میں سے کئی لوگ ایک بہتر زندگی کی تلاش میں امریکا جا بستے ہیں۔ کسی نئے ملک میں اپنے لیے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں ہے، مگر ہم تمام تر چیلنجز کے باوجود ہمت نہیں ہارتے۔
مگر آج پہلی دفعہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ امریکا میں سب کچھ اتنا خوشگوار بھی نہیں جتنا کہ یہاں سے بیٹھ کر ہمیں محسوس ہوتا ہے۔
آج تک میں نے کبھی امریکا میں اپنی زندگیاں گزار دینے والے رشتے داروں کو یہ کہتے نہیں سنا تھا کہ وہ پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں۔
تارکینِ وطن کے بنائے گئے اس ملک میں اب حال ہی میں آنے والے نئے لوگ آہستہ آہستہ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ امریکی آبادی کا ایک بڑا حصہ انہیں دل سے قبول نہیں کرتا۔
اور اس مفروضے کو تقویت ان کے ٹرمپ جیسے شخص کو ووٹ دینے سے ملتی ہے، جس نے میکسیکن افراد کو باہر رکھنے کے لیے دیوار تعمیر کرنے اور مسلمانوں کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ٹرمپ کی فتح سے یہ بات واضح ہے کہ اوباما کی آٹھ سالہ صدارت کے بعد بھی امریکی لوگوں کی ذہنیت میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ صدر اوباما نے بار بار اس بات کی واضح کوششیں کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کو نہ بھڑکنے دیں، اور اس کے لیے انہوں نے اورلینڈو میں ہونے والی فائرنگ اور بوسٹن دھماکوں کے باوجود اسلام یا مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگ پرامید تھے کہ ہیلری کلنٹن ٹرمپ کو شکست دے دیں گی۔ انتخاب سے ایک دن پہلے رائے عامہ کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ ٹرمپ جیت نہیں سکتے۔ مجھے امید تھی کہ امریکی عوام بالآخر ایک خاتون کو وائٹ ہاؤس میں لانے کے لیے تیار ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔
کلنٹن واضح طور پر ٹرمپ سے بہتر تھیں۔ مگر پھر مجھے احساس ہوا کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے اس بات پر غور کیا ہی نہیں تھا کہ کلنٹن کے صدر بننے سے بھی بہت ساری چیزوں نے تبدیل نہیں ہونا تھا۔ اور شاید ہم نے کلنٹن اور ان کی مہم میں موجود خامیوں کو صرف اس لیے نظرانداز کر دیا تھا کیوں کہ ان کے مقابل ایک نسل پرست، انا پرست اور ایک عورت دشمن شخص کھڑا تھا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کلنٹن اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔ وہ سکریٹری کلنٹن ہیں۔ انہیں وال اسٹریٹ کے بینکوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کی انتخابی مہم نہایت کمزور تھی اور وہ ان ریاستوں میں بھی ناکام ہوئیں جو عام طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتی ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ اگر وہ جیت جاتیں، تو امریکیوں کو ایک افریقی امریکی صدر منتخب کرنے کے بعد ایک خاتون صدر منتخب کرنے پر فخر ہوتا۔ ہم سب لوگ جانتے ہیں کہ کلنٹن کا صدر بننا ٹرمپ سے بہتر ہوتا، مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کلنٹن کا دامن بھی مکمل طور پر صاف نہیں ہے۔
اور اگر ٹرمپ کی فتح ایک سانحہ ہے، تو کلنٹن سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لینے پر بھی ہمارے ہاتھ صرف شدید ترین مایوسی ہی آتی۔
ان امریکی انتخابات نے کئی چیزوں سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

عائشہ اسلام
ڈان نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں