مسلمانوں کی ذلت و رُسوائی کے اسباب!

مسلمانوں کی ذلت و رُسوائی کے اسباب!

کون نہیں جانتا کہ ’’وطن‘‘ اپنی ذات میں کوئی مقدس چیز نہیں، اس کی عزت و حرمت محض اس وجہ سے ہے کہ اسلام کی شان و شوکت اور اس کی سربلندی کا ذریعہ ہے۔ اور ’’قومی اسٹیٹ‘‘ میں سوائے اس کے تقدیس کا کوئی پہلو نہیں کہ وہ اسلامی قوت کا مرکز اور مسلمانوں کی عزت و شوکت کا مظہر ہے۔ آج جو مشرق و مغرب میں اسلام دشمن طاقتیں عرب و عجم کے مسلمانوں کے خلاف متحد ہوکر انہیں خود اُن کے اپنے علاقوں میں طرح طرح سے ذلیل و خوار اور پریشان کررہی ہیں، اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم نے فریضۂ جہاد سے غفلت برتی اور مرتبۂ شہادت حاصل کرنے کا ولولہ جاتا رہا۔ جہاد سے غفلت کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس مال و دولت اور مادی وسائل کا فقدان ہے یا یہ کہ مسلمانوں کی مردم شماری کم ہے۔ اللہ رب العزت نے اسلامی عربی ممالک کو ثروت اور مال کی فراوانی کے وہ اسباب عنایت فرمائے ہیں جو کبھی تصور میں بھی نہیں آسکتے تھے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ان وسائل میں یہ اسلام دشمن طاقتیں بھی عالم اسلام اور ممالک عربیہ کی دست نگر اور محتاج ہیں۔
الغرض! آج مسلمانوں کی ذلت کا سبب وسائل کی کمی نہیں، بلکہ اس کا اصل باعث ہمارا باہمی شقاق و نفاق ہے۔ ہم نے اجتماعی ضروریات پر شخصی اغراض کو مقدم رکھا، انفرادی مصالح کو قومی مصالح پر ترجیح دی، راحت و آسائش کے عادی ہوگئے، روحِ جہاد کو کچل ڈالا اور آخرت اور جنت کے عوض جان و مال کی قربانی کا جذبہ سرد پڑ گیا۔ یہ ہیں وہ اسباب جن کی بدولت مسلمان قوم اوجِ ثریا سے ذلت و حقارت کی عمیق وادیوں میں جاگری۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث جس کو امام ابوداؤد رحمہ اللہ و غیرہ نے روایت کیا‘ اہل علم حلقہ میں معروف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وہ زمانہ قریب ہے جبکہ تمام اسلام دشمن قومیں تمہارے مقابلے میں ایک دوسرے کو دعوتِ ضیافت دیں گی۔ ایک صاحب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس وجہ سے کہ اس دن ہماری تعداد کم ہوگی؟ فرمایا: نہیں! بلکہ تم بڑی کثرت میں ہوگے، لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی مانند ہوگے۔ اللہ تعالی دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری اور دوں ہمتی ڈال دے گا۔ ایک صاحب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دوں ہمتی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: دنیا کی چاہت اور موت سے گھبرانا۔‘‘
(مشکوۃ، کتاب الرقاق، باب تغیر الناس، الفصل الثانی، ج: ۲، ص: ۴۵۹، ط: قدیمی)

بہر حال جب ہم مسلمانوں کی موجودہ ناگفتہ بہ زبوں حالی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے چند چیزیں ابھر کر آتی ہیں، جن کی طرف ذیل میں نہایت اختصار سے اشارہ کیا جاتا ہے:

اول:…… اعداءِ اسلام پر وثوق و اعتماد اور بھروسہ کرنا (خواہ روس ہو یا امریکہ و مغربی اقوام)
ظاہر ہے کہ کفر اپنے اختلافات کے باوجود ایک ہی ملت ہے، اور اللہ تعالی پر اعتماد و توکل اور مسلمانوں پر بھروسہ نہ کرنا جب کہ تمام مسلمانوں کو حکم ہے کہ: ’’وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ‘‘ (آل عمران: ۱۶۰)۔۔۔ ’’صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے مسلمانوں کو۔‘‘
اس آیت میں نہایت حصر و تاکید کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ رب العزت کے سوا کسی شخصیت پر اعتماد اور بھروسہ نہیں کرنا چاہیے: ’’حیث قدم قولہ: وَعَلَى اللَّهِ۔‘‘

دوم:…… مسلمانوں کا باہمی اختلاف و انتشار اور خانہ جنگی
جس کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ آپس میں کہیں مل بیٹھ کر صلح صفائی کی بات کرتے ہیں، تب بھی ان کی حالت یہ ہوتی ہے: ’’تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى‘‘۔ (الحشر: ۱۴) ۔۔۔ ’’بظاہر تم ان کو مجتمع دیکھتے ہو، مگر ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔‘‘

سوم:…… توکل علی اللہ سے زیادہ مادی اور عادی اسباب پر اعتماد
بلاشبہ اللہ تعالی نے ہمیں ان تمام اسباب و وسائل کی فراہمی کا حکم دیا ہے جو ہمارے بس میں ہوں اور جن سے دشمن کو مرعوب کیا جاسکے، لیکن افسوس ہے کہ ایک طرف سے توہم مادی اسباب کی فراہمی میں کوتاہ کار ہیں اور دوسری طرف فتح و نصرت کا جو اصل سرچشمہ ہے، اس سے غافل ہیں۔ ارشادِ خداوندی ہے: ’’ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ‘‘ ۔ (آل عمران: ۱۲۶)۔۔۔ ’’نصرت و فتح تو صرف اللہ عزیز و حکیم کے پاس ہے اور اسی کی جانب سے ملتی ہے۔‘‘
تاریخ کے بیسیوں نہیں، سینکڑوں واقعات شاہد ہیں کہ کافروں کے مقابلہ میں بے سر و سامانی اور قلت تعداد کے باوجود فتح و نصرت نے مسلمانوں کے قدم چومے۔

چہارم:۔۔۔ دنیا سے بے پناہ محبت، عیش پرستی اور راحت پسندی، آخرت کے مقابلے میں دنیا کو اختیار کرنا، قومی اور ملی تقاضوں پر اپنے ذاتی تقاضوں کو ترجیح دینا او رروح جہاد کا نکل جانا
اس کی تفصیل طویل ہے، قرآن کریم کی سورۂ آل عمران اور سورۂ توبہ میں نہایت عالی مرتبہ عبرتیں موجود ہیں۔ امت کا فرض ہے کہ اس روشن مینار کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھے۔ بہرحال اللہ کے راستے میں کلمۂ اسلام کی سربلندی کے لیے دشمنوں سے معرکۂ آرائی، راہِ خدا میں جہاد کرنا اور اسلام کی خاطر اپنی جان قربان کردیان نہایت بیش قیمت جوہر ہے۔ قرآن کریم اور سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دنیوی فوائد اور اخروی درجات کو ہر پہلو سے روشن کردیا ہے اور اس کی وجہ سے امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ و السلام پر جو عنایات الہیہ نازل ہوتی ہیں، ان کے اسرار کو نہایت فصاحت و بلاغت سے واضح کردیا ہے۔
حضرات! یہ ایک مختصر سا مقالہ ہے جو نہایت مصروفیت اور کم وقت میں لکھا گیا، اس لیے بحث کے بہت سے گوشے تشنہ رہ گئے ہیں، جس پر مسامحت کی درخواست کروں گا۔ آخر میں ہم حق تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہماری غلطیوں کی اصلاح فرمائے، ہمارے درمیان قلبی اتحاد پیدا فرمائے، کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد اور نصرت فرمائے اور ہمیں صبر، عزیمت، مسلسل محنت کی لگن اور تقویٰ کی صفات سے سرفراز فرما کر کامیاب فرمائے۔ آمین

محدث العصر علامہ سیدمحمد یوسف بنوری رحمہ اللہ
اشاعت: ماہنامہ بینات۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی۔ رجب المرجب ۱۴۳۶ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں