لیگی وزیر کی بے جا الزام تراشی

لیگی وزیر کی بے جا الزام تراشی

جب سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم وزیر اعظم کو بھاگنے نہیں دیں گے اور ہمارا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک نواز شریف حساب، تلاشی یا استعفاء نہیں دیتے، اس وقت سے اقتدار کے ایوانوں میں سراسیمگی پائی جاتی ہے اور لیگی وزراء مسلسل بیان بازیوں میں مصروف ہیں۔
عمران خان نے اپنی سیاست کا محور کرپشن اور بددیانتی کو بنایا ہے، ان کا مؤقف یہ ہے کہ اگر سیاسی قیادت بیوروکریٹس اور کار و باری شخصیات رشوت، کمیشن اور ایسی ہی دوسری قبیح حرکتوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت پاکستان کو لوٹادیں تو ہمارے ملک سے غربت، افلاس اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا، اس سلسلہ میں سب سے پہلے حکمرانوں کا احتساب ضروری ہے۔ خان صاحب کے اس مؤقف میں شدت اس وقت آئی جب اپریل 2016ء میں جرمنی کے ایک اخبار نے پاناما لیکس (PANAMA LEAKS) کے نام سے عالمی سطح پر کالے دھن کے کاروبار، اس کی وسوت اور ستم کاریوں کے بارے میں ایک کروڑ سے زیادہ دستاویز کا راز فاش کیا، اس خبر نے دنیا گوشے گوشے میں بالخصوص مالیاتی اور سیاسی میدانوں میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا کردی، اس تناظر میں ’’آف شور کمپنیوں‘‘ کا لفظ زبان زد عام و خاص ہوا جس سے مراد وہ نمائشی کمپنیاں ہیں جو ہر طرح کے ٹیکس اور ریاستی نگرانی کے نظام سے بالاتر ہوکر اپنا کھیل کھیلتی ہیں، بڑے بڑے سیاست دان، تاجر، صنعت کار حتیٰ کہ جج اور خیراتی اداروں کے سربراہ بھی ان کمپنیوں کے پجاریوں کے صف میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کی بڑی سیاسی قیادت کار و باری شخصیات حتی کہ عدلیہ کے بعض سابق جج ’’آف شور کمپنیوں‘‘ کے اس انکشاف کی زد میں ہیں۔ ’’آف شور کمپنیوں‘‘ میں وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹوں اور بھتیجوں کے نام بھی آئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف نام آنے سے جرم ثابت نہیں ہوتا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے وزیر اعظم اس وقت مالی اعتبار سے ملک کی تیسری بڑی شخصیت ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے بارے میں سوالات 1992ء سے اٹھ رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دور سے لے کر اب تک ان کے اور ان کے خاندانوں کے اثاثوں میں جو بے پناہ اضافے ہوئے ہیں، اس کی مکمل تفصیل قوم کے سامنے آنی چاہیے۔ آمدنی کے ذرائع، ٹیکسوں کی ادائیگی، سرمائے کی ملک سے باہر منتقلی، بیرون ملک جائیدادوں اور کار و بار کی توسیع ہر چیز سامنے آنی چاہیے۔
عمران خان اور ان کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف سہی لیکن ان کا یہ مطالبہ وزن رکھتا ہے کہ اگر وزیر اعظم مالی کرپشن سے پاک دامن ہیں تو خود کو احتساب کے لیے پیش کریں۔
یاد رہے کہ ’’پاناما لیکس‘‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد آئس لینڈ کے وزیر اعظم، یوکرین کے صدر، اپسین کے وزیر صنعت و حرفت فیفا (فٹ بال کی بین الاقوامی اتھارٹی) کے سربراہ اور نصف درجن ارباب اقتدار مستعفی ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں اس طرح کی کوئی روایت نہیں۔ اس لیے اسے ایک سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔
عمران خان کے احتجاج کے اعلان اور اسلام آباد کو سیل کردینے کی وارننگ کے بعد لیگی رہنما اور وزراء پرانے دھول پیٹ رہے ہیں۔ ایک دو روز قبل اسی سلسلہ میں وفاقی وزیر برائے بجلی و پانی خواجہ محمدآصف نے فرمایا ہے کہ خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت کی امداد سے چلنے والے مدرسے پی ٹی آئی کی اسلام آباد بند کرنے کی کوششوں میں افرادی قوت فراہم کررہے ہیں۔ وزیر موصوف کا اشارہ ملک کی قابل احترام دینی درسگاہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جانب سے جسے موجودہ مالی سال میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے مالی گرانٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔
دارالعلوم حقانیہ کا روشن ماضی اور قابل رشک حال قوم کے سامنے ہے۔ اس ادارہ کے بانی استاذ العلماء و المحدثین حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے تدریس کے ساتھ خار زار سیاست میں بھی بے مثال قابل قدر خدمات انجام دیں لیکن دارالعلوم اور اس کے کارپردازوں کا دامن دنیوی الائشوں سے ہمیشہ پاک رہا ہے۔ اس ادارے پر یہ الزام عاید کرنا کہ وہ دنیوی مفاد کے لیے کسی کا آلہ کا ر بن کر حکومت وقت کے خلاف سازش کا مرتکب ہے، انتہائی لغو، بے بنیاد اور بیہودہ الزام تراشی ہے۔
پاکستان کے دینی مدارس کا عمومی مزاج یہ ہے کہ وہ بحیثیت ادارہ سیاست میں ملوث نہیں ہوتے۔ اگر کسی مدرسہ کے سربراہ عملی سیاست میں سرگرم ہیں تو بھی اس مدرسہ کے اساتذہ و طلبہ اس سے لاتعلق رہ کر تعلیم و تعلم کی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ لیگی وزیر خواجہ آصف کا یہ مغالطہ آفرینی بالواسطہ دینی مدارس کی توہین کے مترادف ہے، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب بھی دیگر لیگی وزراء کی طرح عمرانی تحریک سے خوفزدہ ہیں اور ساون کے اندھے کی طرح، جسے ہر طرف سبزہ دکھائی دیتا ہے، انہیں ہر نقل و حرکت حکومت کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو اس جانب بھی توجہ مبذول فرمانی چاہیے کہ ان کے وزراء جب بھی دینی حلقوں اور مدارس کے خلاف بولتے ہیں تو کفن پھاڑ کر بولتے ہیں! کیوں؟

مولانا محمد ازہر
روزنامہ اسلام۔23-10-2016


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں