علوم حدیث میں اختصاص، اہمیت و ضرورت

علوم حدیث میں اختصاص، اہمیت و ضرورت

علومِ حدیث، اِیک بحر بیکراں
تاریخ اسلام کے قرونِ اولی میں علمائے حق نے دین کے بنیادی مآخذ کی حفاظت و صیانت کی خاطر جن نئے علوم و فنون کی داغ بیل ڈالی ہے، ان کا ایک معتد بہ حصہ مختلف جہات اور متنوع عنوانات سے معنون ہوکر ’’علوم حدیث‘‘ کی صورت زندہ و تابندہ ہے، عنوان کی سادگی کی بنا پر ظاہر بینوں کو پہاڑ، رائی کی ماند دکھنے لگتا ہے، لیکن حقیقت سے آشنا طبائع اس بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوکر انگشت بدنداں رہ جاتی ہیں، علم کا جو شیدائی بھی اس سفر پر روانہ ہوا تو متاعِ حیات تسلیم کرکے بھی تشنہ لبی پر شکوہ کناں نظر آیا، ان علوم کی وسعت کے اجمالی تعارف کے لیے چھٹی صدی ہجری کے معروف محدث و فقیہ، امام ابوبکر زین الدین حازمی رحمہ اللہ (۵۴۸ھ۔۵۸۴ھ) کے اس فرمان پر نگاہ ڈالیے:
’’علم الحدیث یشتمل علی أنواع کثیرة، تقرب من مائة نوعو ذکر منها طائفة أبوعبدالله الحافظ رحمة الله علیه فی “وعرفة علوم الحدیث”، و کل نوع منها علم مستقل لو أنفق الطالب فیه عمره لما أدرک نهایته، لکن المبتدئ یحتاج أن یستطرف من کل نوع؛ لأنها أصول الحدیث، و متی جهل الطالب الأصول تعذر علیه طریق الوصول.‘‘(۱)
’’علم حدیث کے سو کے لگ بھگ انواع ہیں، حافظ ابوعبداللہ (حاکم) رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں ان انواع میں سے معتد بہٰ تعداد ذکر کی ہے، اور ہر نوع مستقل علم کی حیثیت رکھتی ہے، (بعض انواع ایسی ہیں کہ) اگر طالب علم پوری حیاتِ مستعار انہیں میں صرف کر ڈالے تب بھی انتہا کو نہ پاسکے گا، لیکن مبتدی کو چاہیے کہ ہر نوع سے معتد بہ استفادہ کرے؛ اس لیے کہ یہ حدیثی اصول ہیں، اور طالب علم اصول سے ہی نابلد ہو تو مقصود تک پہنچنا دشوار ہوجاتا ہے۔‘‘

کچھ احوال واقعی
مرورِ زمانہ کے ساتھ اب یہ سمجھانا بھی دشوار ہوچلا ہے کہ ان علوم میں زندگیاں کھپانے کی ضرورت ہی آخر کیا ہے؟ بہتیرے طلبائے علم، درس نظامی کی تکمیل کے بعد یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ محدثین نے جب بازی جیت لی ہے تو پھر ’’تخصص فی علوم الحدیث‘‘ کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ اس صحرا نوردی سے ہمیں کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟ اور یہ اختصاص ہمیں مستقبل میں کس جہت سے نمایاں مقام دلا سکتا ہے؟ علم کے تنزل کے دور میں اس نوع کے سوالات تعجب خیز نہیں ہوا کرتے، ایسے وقت بدیہی امور‘ نظری بن ہی جایا کرتے ہیں، کچھ قصور اُن نادان دوستوں کا بھی ضرور ہے جو سفر سے واپسی پر راہ کی حسین وادیوں کی واقعی و حقیقی منظر کشی نہ کرسکے، یا طبعی کسل کی بنا پر خرگوش کی مانند آخری گھڑیوں کے انتظار میں فرصت زریں کھوبیٹھے اور اقبال کے الفاظ میں ’’چند کلیوں پر ہی قناعت کر آئے‘‘، ایسے میں کسی نو خیز نے کارگزاری پوچھی تو چند نابیناؤں کی طرح قوتِ لامسہ کے ذریعے ہاتھی کی دم، پیر اور شکم، جسے چھوکر محسوس کیا، اسی کا دم بھرتے نظر آئے، اور علم کی متلاشی پیاسی طبیعتیں اس ’’جہت‘‘ کو تھوڑا خیال کرکے قدم بڑھا گئیں، یوں ذہانتوں کی بے توجہی سے میدان علم میں آیا خلا وسیع ہوتا چلا گیا۔
منظر کی دھند لاہٹ میں کچھ دخل رویوں کے افراط و تفریط کا بھی ہے، بعضے ان علوم کی عظمت تلے دب کریوں مغلوب ہوئے کہ دیگر میادین علم سے مستغنی دکھائی دیئے، غلبہ حال میں یہ مسلمہ حقیقت نگاہ سے اوجھل ہوگئی کہ علم اسلامیہ سبھی اپنا سرمایہ ہیں، جو باہم مربوط ہونے کی بنا پر ایک دوسرے کے محتاج ہیں، اور طبعی رجحانات کی تقسیم تو تکوین کا کرشمہ ہے، جس سے ہر میدان کی رکھوالی مقصود ہے، ایک جماعت اس راہ سے خوابیدہ یا نیم چشیدہ ہی گزری اور جو لوٹی تو اپنی ’’پھوٹی کوڑی‘‘ کو یواقیت و جواہر جان کر سلف کی جاں گسل جد و جہد پر ’’دو حرف‘‘ پڑھتے سنائی دی۔
’’اپنوں‘‘ کی اس بے اعتنائی میں ’’غیروں‘‘ کی اُڑائی ’’گرد‘‘ کا کردار بھی بھولنے جیسا نہیں، کچھ خالی ذہن تھے، سو جو جام تھمائے گئے، مخمور ہوکر انہیں کے گن گاتے نظر آئے، بعض عقلیت پسند تھے تو انہیں من بھاتی عقلی موشگافیاں ’’خوابیدہ ضمیر‘‘ کی آواز لگیں، بھول گئے کہ واردانِ خوان نبوت، علم و تقوی کے شناور ہونے کے ساتھ ’’روایت و درایت‘‘ اور ’’عقل و نقل‘‘ کے اسلحے سے بھی لیس تھے، وہ کھرا کھوٹا جانتے تھے اور انسانی وسعت کے دائرے میں اپنا فرض نبھاگئے ہیں، شکووں کی یہ داستاں طویل ہے اور دراز گوئی کا یہ موقع نہیں، مدعا صرف یہ ہے کہ ’’علوم حدیث‘‘ کے اس میدان پر راہ گیروں کی قلت کے کچھ داخلی و خارجی اسباب و عوام بھی ہیں۔

اختصاص کیوں ضروری ہے؟
علوم اسلامیہ کی دنیا وسیع و عریض ہے، دور قدیم میں طبائع باہمت، حوصلے بلند و بالا، صحتیں تنومند و توانا اور حافظے مضبوط ہوا کرتے تھے تو بیک وقت علوم عقلیہ و نقلیہ کی جامع شخصیات بھی موجود رہتی تھیں، عہد رفتہ کے ساتھ صلاحتیں دیمک زدہ ہوتی گئیں تو جامعیت کی شان بھی ندرت کا شکار ہونے لگی، یوں اختصاصی مہارتوں کی ضرورت بڑھتی چلی گئی، اختصاصی مہارتوں کی اہمیت بتلانے کو زبان رسالت علی صاحبھا الصلوۃ والسلام سے نکلے ان الہامی جملوں میں پنہاں اشارے قابل غور ہیں:
’’عن أنس بن مالک قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: “أرحم أمتی بأمتی أبوبکر؛ و أشدهم فی أمر الله عمر، و أصدقهم حیاء عثمان بن عفان، و أعلمهم بالحلال و الحرام معاذ بن جبل، و أفرضهم زید بن ثابت، و أقرؤهم أبی بن کعب، و لکل أمة أمین، و أمین هذه الأمة أبوعبیدة بن الجراح.‘‘ (۲)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے امت کے سب سے رحم دل انسان ابوبکرؓ، حکمِ خداوندی کے معاملے میں سب سے سخت عمرؓ، سب سے باحیا عثمان بن عفانؓ، سب سے زیادہ حلال و حرام کے مسائل جاننے والے معاذ بن جبلؓ، علم فرائض کے سب سے بڑے عالم زید بن ثابتؓ، اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعبؓ ہیں، اور ہر امت کا ایک امین ہوا کرتا ہے، میرے امت کے امین ابوعبیدہ بن جراحؓ ہیں، رضی اللہ عنھم۔‘‘
محدثین اس حدیث کو عام طور پر ’’مناقب صحابہ رضی اللہ عنہم‘‘ کے ذیل میں ذکر کرتے ہیں،اس لیے کہ اس میں کیجا کئی کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کے مقام و مرتبہ اور ان کے امتیازی اوصاف و خصوصیات کا بیان ہے، ’’اشارۃ النص‘‘ کے طور پر اس حدیث سے یہ استنباط کیا جاسکتا ہے کہ ’’اختصاص‘‘ کی بنیاد‘ عہدِ نبوت میں ہی ڈال دی گئی تھی، چنانچہ مذکورہ روایت میں حضرت معاذ بن جبل، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے اختصاصی علوم کی جانب واضح اشارہ ملتا ہے۔ یوں بھی دور حاضر کو اختصاص (اسپیشلائزیشن Specialization) کا عہد کہا جاتا ہے، بلکہ اب نبوت اس سے بڑھ کر ذیلی اختصاص (سب اسپیشلائزیشن Sub Specialization) تک جاپہنچی ہے، چنانچہ آج علاج کے سلسلے میں بھی جنرل ڈاکٹر کے بجائے متخصص (اسپیشلسٹ Specializatist) سے ہی رجوع کیا جاتا ہے، اس بنا پر علوم دنیویہ کی مانند علوم اسلامیہ میں بھی یہی رویہ عین فطرت کے مطابق ہے کہ ضروری علوم میں کلی و بنیادی معلومات کے حصول کے بعد کسی ایک علم و فن میں کمال حاصل کیا جائے، کیونکہ ہر ایک علم و فن میں دقت رسی دشوار ہی نہیں، کہا جاسکتا ہے کہ آج کے دور میں ناممکن ہے، فقہ ظاہری کے امام اور پانچویں صدی کے نامور عالم، حافظ ابومحمد علی بن حزم اندلسی رحمہ اللہ (۳۸۴ھ۔۴۵۶ھ) اپنی کتاب ’’مراتب العلوم‘‘ میں اس پہلو پر بحث کرتے ہوئے کچھ یوں رقم طراز ہیں:
’’من طلب الاحتواء علی کل علم أوشک أن ینقطع و ینحسر، و لا یحصل علی شیئی. و کان کالمحضر إلی غیر غایة، إذا العمر یقصر عن ذلک. و لیأخذ من کل علم بنصب، و مقدار ذلک: معرفته بأعراض ذلک العلم فقط، ثم یأخذ مما به ضرورة إلی مالابد له منه، کما وصفنا، ثم یعتمد العلم الذی یسبق فیه بطبعه و بقلبه و بحیلتهو فیستکثر منه ما أمکنه، فربما کان ذلک منه فی علمین أو ثلاثة أو أکثر، علی قدر ذکاء فهمه، و قوة طبعه، و حضور خاطره، و إکبابه علی الطلب.‘‘ (۳)
’’جس کسی نے بھی ہر علم میں مہارت کرنے کا ارادہ کیا وہ ختم ہوکر رہ گیا اور کچھ حاصل نہ کرپایا، اس کی مثال اس تیز رفتار شخص کی مانند ہے جس کی کوئی منزل نہ ہو؛ اس لیے کہ متاعِ حیات بہت تھوڑی ہے، لہذا ہر علم میں سے کچھ حصہ کرنا چاہیے، یعنی اس کی بنیادی مقاصد کی معرفت کے بعد ضروری مباحث کو حاصل کرے، بعد ازاں جس علم کی جانب طبعی و قلبی میلان اور رجحان ہو اس میں حتی الامکان مزید محنت و کوشش سے کام لے، یوں فہم و ذکاوت، طبعی قوت، جمعیت خاطر اور یکسوئی کے بقدر کم و بیش دو تین علوم میں ہی مہارت حاصل کرسکے گا۔‘‘
ذرا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمارے سلف میں یہی رجحان پایا جاتا تھا، امامِ لغت و جلیل القدر امام ابوعبیدہ قاسم بن سلام رحمہ اللہ (۱۵۷ھ۔۲۲۴ھ) کا کہنا ہے:
’’ما ناظرنی رجلٌ قط و کان مفنّنا فی العلوم إلا غلبتُه، و لا ناظرنی رجل ذو فن واحد من العلوم إلا غلبنی فیه.‘‘ (۴)
’’جب بھی کسی معتدد علوم پر نگاہ رکھنے والے سے مناظرے کی نوبت آئی تو میں غالب رہا، لیکن ایک فن کے ماہر کو ہمیشہ اس فن میں مجھ پر غلبہ حاصل رہا ہے۔‘‘
چنانچہ متقدمین کے دور سے ہی حدیث کے سلسلے میں محدث کی اور فقہ و استنباط کے پہلو سے فقیہ کی رائے ہی معتبر قرار پاتی تھی، کوئی بعید نہیں کہ علوم اسلامیہ کی تدوین کے ابتدائی ادوار میں ’’فقہ‘‘ کی وسعت کے تین مختلف زاویوں (عقائد و کلام، فقہ اصطلاحی اور تزکیہ و احسان) میں پھیلاؤ کے پس پشت یہی فکر کار فرما رہی ہو، اس پہلو سے علامہ ابن حجر ہیتمی مکی رحمہ اللہ (۹۰۹ھ۔۹۷۳ھ) کا یہ جملہ ان گنت پیچیدہ گتھیاں سلجھا سکتا ہے:
’’من غلب علیه فن یرجع إلیه فیه دون غیره.‘‘ (۵)
’’جس عالم پر کوئی ایک فن غالب ہو تو اسی فن سے متعلق ان سے رجوع کیا جائے گا، دیگر علوم میں ان سے رہنمائی نہیں لی جائے گی۔‘‘
بر صغیر کے نامور محقق عالم مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’إن الله تعالی جعل لکل مقام مقالاً و لکل فن رجالاً، و خص طائفة من مخلوقاته بنوع فضیلة لاتجد فی غیره، فمن المحدثین من لیس لهم حظ إلا روایة الأحادیث و نقلها من دون التفقه و الوصول إلی سرها، و من الفقهاء من لیس لهم حظ إلا ضبط للمسائل الفقهیة من دون المهارة فی الروایات الحدیثیة، فالواجب أن ننزل کُلا منهم فی منازلهم، و نقف عند مراتبهم.‘‘ (۶)
’’اللہ تعالی نے ہر موقع کے مناسب کلام اور ہر فن کے لائق مردانِ کار پیدا کیے ہیں، اپنی مخلوقات میں سے بعض کو خاص نوع کی فضیلت بخشی ہے، جو باقی مخلوق میں نہیں، بعض محدثین کو محض احادیث کی روایت و نقل کا مشغلہ نصیب ہوا ہے، حدیث کی فقہ اور اسرار تک ان کی رسائی نہیں، یونہی فقہاء کی ایک جماعت مسائل فقہیہ کے ضبط میں مصروف رہی ہے، انہیں حدیثی روایات میں دست گاہ حاصل نہ تھی، لہذا ہر ایک طبقہ کو اس کا جائز مقام دینا اور ان کے مراتب کی حدود پر قائم رہنا ضروری ہے۔‘‘
جب ہر فن میں صاحب فن کا قول ہی معتبر ٹھہرا تو ہر دور میں ہر فن کے متخصصین کا وجود بھی ناگزیر قرار پاتا ہے، پھر جبکہ علوم آلیہ بلکہ علوم عقلیہ محضہ کے شناور ان پر زندگیاں نچھاور کر ررہے ہوں تو علوم عالیہ اور خصوصا علوم حدیث پر جان کاری کی اہمیت اہل دانش سے مخفی نہ رہنی چاہیے، بلاشبہ کسی بھی علم و فن کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن ’’أعط کلّ ذی حق حقہ‘‘ (۷) (ہر حق دار کو اس کا جائز حق دو) کے مخاطبین سے واجب حق کی ادائیگی کا سوال بھی اہل عقل کے ہاں یقیناًغیردانشمندانہ شمار نہ ہوگا، تعلیم کے انتہائی مرحلے میں طبعی رجحانات و میلانات کو پیش نظر رکھ کر صلاحیتوں کی تقسیم کے لمحات میں ہر میدان کی علمی ضروریات کو دیکھتے ہوئے منصفانہ تقسیم کا مطالبہ عین فطرت ہے اور یہی ان گزارشات کا مقصود ہے۔
’’تخصصات‘‘ کے سلسلے میں ایک عمومی اشکال سننے میں آتا ہے کہ قدماء میں تو یہ طریقہ رائج نہیں رہا، آخر اس کی ضرورت کیا ہے؟ عرض یہ ہے کہ بلاشبہ قدماء کے ہاں مروجہ طرز پر ’’تخصصات‘‘ کا رواج نہ تھا، لیکن امت مسلمہ کی علمی و تعلیمی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں بھی رسمی طالب علمی سے فراغت کے بعد طلباء کو جس فن سے قلبی وابستگی ہوتی تو اس فن کے ماہر کے ہاں جا کر مزید رسوخ حاصل کیا کرتے تھے، عصر حاضر میں چونکہ انفرادی تعلیم کا یہ سلسلہ دشوار ہوچلا ہے، اس بنا پر مدارس و جامعات میں انتظامی طور پر اصحاب فن کی نگرانی میں شعبے کھول کر طلبائے علم کو استفادے کی دعوت دی جاتی ہے، گویا زمانے کے چلن کی بنا پر اسلوب و منہج کا فرق ہے، حقیقت وہی ہے جو قدماء سے چلی آرہی ہے۔

علوم حدیث میں اختصاص کی ضرورت
مندرجہ بالا تفصیل سے اجمالی طور پر دیگر علوم کی طرح علوم حدیث میں اختصاص کی اہمیت و ضرورت بھی واضح ہوگئی، اس سلسلے میں چند مزید گزارشات نکات کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں:
(۱) قرآن کریم کے بعد دین کا دوسرا بنیادی ماخذ ’’حدیث و سنت‘‘ ہے، اس لیے حفظ مراتب کے پہلو سے بھی قرآن و علوم قرآن کے بعد علوم حدیث زیادہ توجہات کے مستحق ہیں، شاید اسی بنا پر مولانا محمدانور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے فرزند نسبتی اور ان کے افادات پر مشتمل علمی سرمائے ’’انوارالباری شرح صحیح بخاری‘‘ کے مرتب مولانا احمدرضا بجنوردی رحمہ اللہ کا تجزیہ ہے: ’’میرے نزدیک علوم اسلامیہ میں سب سے زیادہ اہم اور مشکل‘ حدیث ہی کا تخصص ہے۔‘‘ (۸)
درس نظامی کے مختلف درجات میں کتب ستہ سمیت دیگر کتب حدیث و اُصول حدیث شامل نصاب ہیں، جن سے علوم حدیث سے بنیادی شناسائی تو ضرور پیدا ہوجاتی ہے، لیکن دیگر علوم کی طرح اختصاصی مہارت تک رسائی حاصل نہیں ہوتی، لہذا جیسے ’’تخصص فی التفسیر و اصولہ‘‘، ’’تخصص فی الفقہ و الافتاء‘‘، ’’تخصص فی الادب العربی‘‘، ’’تخصص فی الدعوۃ و الارشاد‘‘ اور ’’تخصص فی العلوم العقلیہ‘‘ کی ضرورت بجاطور پر محسوس کی جاتی ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ذہین فضلاء کی ایک جماعت ’’تخصص فی علوم الحدیث‘‘ کی جانب متوجہ ہو، اور اس جہاں میں زندگی کھپا کر اُمت مسلمہ کی طرف سے فرض کفایہ کی ادائیگی کا ذریعہ ثابت ہو، اس نکتے کو پیش نظر رکھتے ہوئے گرد و پیش پر نگاہ ڈالی جائے تو افراد کی جتنی تعداد دیگر میدانوں میں نظر آتی ہے، علوم حدیث میں اختصاصی مہارتوں کی جانب ویسی تو جہات نہیں۔

(۲) عصر حاضر میں علوم حدیث کے بہت سے پہلو بے اعتنائی کا شکار ہیں، مثلا: رجال احادیث، جرح و تعدیل، ضبط اسمائے روات، غریب الحدیث، اسباب ورود احادیث، ناسخ و منسوخ، اور احادیث الاحکام و غیرہ، پہلے گذر چکا کہ علوم حدیث ایک وسیع میدان ہے، علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ان علوم کی چورانوے (۹۴) انواع ذکر کی ہیں، ان میں سے ہر نوع پر مستقل کتب کی تالیف سے اسلامی کتب خانے میں ایک بہت بڑا ذخیرہ وجود میں آیا ہے، اور روز بروز اس میں مختلف جہات سے ترتیب و تدوین، تلخیص و اختصار اور مختلف مباحث کے حوالے سے اٹھنے والے نئے اشکالات و سوالات کا جواب دینے کے لیے لکھا جانے والا لٹریچر بڑھ رہا ہے، جس کے تعارف، مناہج کی پہچان اور استفادہ کے طریقے کار کی معرفت کارے دارد، ’’علوم حدیث میں اختصاص‘‘ کا ایک اہم مقصد اس قیمتی ذخیرے کا تعارف اور ہر علم و فن میں لکھی گئی کتب کے مناہج کی معرفت بھی ہے، تا کہ اس قیمتی ذخیرے سے واقفیت حاصل کرنے کے نئے مباحث میں امت مسلمہ کی رہنمائی کی جاسکے۔

(۳) ہر دور کی طرح دور حاضر میں بھی عوام اور خواص کے مختلف حلقوں میں شدید ضعیف اور موضوع احادیث کا چلن ہے، موضوعات کے اس شیوعمیں کھرے کھوٹے کی تمیز کرکے عوام و خواص میں اس کا شعور بیدار کرنا بھی ایک طوفان برپا ہے، محتمل روایات کے مصداقات کی تعیین کے ذریعے بھی فتنہ و فساد کی راہیں، واکی جارہی ہیں، اس صورت حال کی بنا پر عوام میں جو بے چینی اور ہیجان کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، اصحاب فہم و دانش اس کا ادراک بھی کررہے ہیں، لیکن اس پہلو پر علمی و تحقیقی کام کرکے ’’تشکیک‘‘ کی اس فضا کو ختم کرنے والے مردانِ جفاکار کو اَکھیاں ترس رہی ہیں اور انتظار کی یہ طویل شب عرصے سے صبح کی نویدِ مسرت سننے کو بے تاب ہے۔

(۴) اصول حدیث کی متداول کتب، محدثین اور خصوصا فقہ شافعی کی نمائندہ شمار کی جاتی ہیں، جن کے بہت سے مباحث میں فقہائے حنفیہ کی آراء محدثین سے مختلف ہیں، اور درس نظامی کا عام فاضل محض حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی ’’نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر‘‘ یا علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی ’’تدریب الراوی فی تقریب النواوی‘‘ پڑھ کر حدیثی مباحث میں محدثین و شافعیہ کی آراء کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت سی الجھنوں کا شکار رہتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ فقہائے احناف کی اصول آراء ہماری اصول فقہ کی ’’کتب السنۃ‘‘ کے ضمن میں زیر بحث آتی ہیں، وہاں اس جانب توجہات مبذول نہیں رہتیں، نیز احناف کے ہاں اس پہلو سے مستقل کام بھی کم ہے، ان اسباب کی بنا پر نصابی تعلیم کے دوران اصول حدیث کے پہلو سے خلا باقی رہ جاتا ہے، اور اختصاصی شعبوں میں اس کمی کی تلافی کی کوشش کی جاتی ہے، علوم حدیث کے نامور عالم و محقق مولانا محمدعبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ کا درج ذیل بیان پڑھیے:
’’حنفی عالم کو محدثین کی مصطلح کے علاوہ اصول فقہ کی کتابوں میں جو سنت کی بحث ہے، اس کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے، خصوصا جصاص رحمہ اللہ کی اصول فقہ، سرخسی رحمہ اللہ اور بزودی رحمہ اللہ کی کتابوں میں جو سنت کی بحث ہے، وہ پیش نظر رہے کہ ہمارے ہاں نقد حدیث کے وہی اصول ہیں جو ان کتابوں میں مذکور ہیں، وہ نہیں جو ابن صلاح رحمہ اللہ اور بعد کے لوگوں نے بنائے ہیں، اس سلسلے میں ’’کشف بزدوی‘‘ اور ’’اصول سرخسی‘‘ کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔‘‘ (۹)

(۵) ’’تخصص فی علوم الحدیث‘‘ کے ان شعبوں کا ایک بنیادی مقصد علم حدیث کی تدریسی استعداد کے ساتھ تالیفی صلاحیت پیدا کرنا بھی ہے، اصحاب نظر جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا موجود مطبوعہ کتب سے کئی گنا بڑا ذخیرہ مخطوطات کی صورت میں مسلم و غیرمسلم دنیا کے مختلف سرکاری، ادارتی اور نجی کتب خانوں میں پردۂ خفا کی نذر ہے، ایسے میں پختہ و ذی استعداد مدرسین کے ساتھ تحقیق مخطوطات کے ماہر اور عمدہ تالیفی صلاحیتوں کے حامل فضلاء بھی علمی میدان کی ضرورت ہیں، مولانا محمدعبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ نے ایک موقع پر لکھا تھا:

’’تخصص کی دو شکلیں ہیں:
۱: ایک یہ کہ طالب علم درس کے سلسلے میں استعداد پیدا کرسکے، اور وہ ’’التخصص فی درس الحدیث‘‘ کا اہل ہو۔
۲: دوسرے یہ کہ جب لوگوں میں تصنیف و تالیف کی اہلیت ہو، ان کے تخصص کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی خاص موضوع پر کسی کتاب کی تالیف کرسکیں، یا حدیث کے کسی مخطوطے کی تصحیح کرسکیں، اس پر تعلیقات و حواشی لکھ سکیں۔‘‘ (۱۰)

(۶) سابقہ نکات کے ضمن میں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ حدیث کی حجیت اور شرح و بیان کے حوالے سے مختلف طبقات کی جانب سے اشکالات و جوابات کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے، منکرین حدیث بھی اپنی مردہ اسکیم میں جان ڈالنے کی خاطر آئے روزنت نئے مباحث چھیڑ کر سادہ لوح مسلمانوں میں تشکیکی جراثیم پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اس پر مستزاد بعض مسلم دانشور بھی اپنی کم فہمی کی بنا پر شبہات میں مبتلا ہو کر دانستہ و نادانستہ طور پر عوام میں ان کی اشاعت کی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں، اس صورت حال نے آج پرانی بحثوں کو دوبارہ زندہ کردیا ہے اور اس وقت عرب و عجم میں متنوع حدیثی موضوعات پر کتب و مقالات لکھے جارہے ہیں، سمینیار اور کانفرنسیں ہورہی ہیں، بر صغیر بھی اس صورت حال کی لپیٹ میں ہے، اور کسی درجے میں یہاں بھی اس پہلو پر کام کیا جارہا ہے، لیکن جدید چیلنجز کی بنا پر بہت سے تشنہ پہلووں پر قدیم ذخیرے کی روشنی میں عوام اور عصری تعلیم یافتہ طبقوں کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے علمی و تحقیقی لٹریچر کی ضرورت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

برصغیر کے چند معروف شعبہائے تخصص فی علوم الحدیث کا ایک تعارف

جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ برصغیر میں علوم حدیث میں اختصاص کے لیے مستقل شعبہ کی بنیاد ڈالنے میں پہل کا اعزاز جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کو حاصل ہے، محدث العصر مولانا سیدمحمدیوسف بنوری رحمہ اللہ نے شوال ۱۳۸۳ھ بمطابق نومبر ۱۹۶۳ء میں اس شعبے کی بنیاد ڈالی، اور علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کے شاگرد رشید مولانا محمدادریس میرٹھی رحمہ اللہ کو نگران مقرر فرمایا، بعد ازاں مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ اور ان کے بعد استاذ محترم مولانا محمدعبدالحلیم چشتی مدظلہ (فاضل دارالعلوم دیوبند) تا حال مشرف کے منصب پر فائز ہیں۔
اس شعبے کے پچاس سالہ تاریخ میں بیسیوں تحقیقی مقالات لکھے گئے، جن کی ایک فہرست مولانا علی احمد و مولانا صہیب ضیاء (متخصصین فی علوم الحدیث جامعہ) کی محنت و کوشش سے سہا ہی ’’تحقیقاتِ حدیث‘‘ (۱۱) میں چھپ چکی ہے، جس میں ۸۸ مقالات کا ذکر ہے، ان کے علاوہ بھی بہت سے مقالات کی فہرست جامعہ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ کی خواہش تھی کہ یہاں تحقیقی مقالات لکھے جائیں اور طبع ہوکر علمی ذخیرے میں موجود خلا کو پر کریں، چنانچہ جامعہ کے اس شعبے میں لکھے جانے والے بہت سے مقالات ملک و بیرون ملک کے مختلف اشاعتی اداروں سے طبع ہوکر عام ہوچکے ہیں، جن میں سے چند معروف مقالات کا تعارف درج ذیل ہے:
(۱) ’’السنۃ و مکانتھا فی ضوء القرأٰنِ الکریم‘‘ از مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ، یہ مقالہ حضرت مولانا محمدادریس میرٹھی رحمہ اللہ کی نگرانی میں لکھا گیا ہے، اس دور میں انکار حدیث کے فتنے نے سر اٹھایا، جس میں قرآن کریم کی آڑ میں ذخیرہ حدیث کو بے وقعت بنانے کے مذموم مقاصد کار فرما تھے، اس لیے اس مقالے میں قرآن کریم کی روشنی میں سنت نبویہ کی حیثیت و مرتبہ متعین کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے، اصل عربی مقالہ ’’مکتبہ بنوریہ‘‘ سے اور اردو ترجمہ ۱۴۰۰ھ میں جامعہ کے اشاعتی شعبے ’’مجلس دعوت و تحقیق اسلامی‘‘ سے طبع ہوچکا ہے۔

(۲) ’’مسانید الامام ابی حنیفۃ ؒ و عدد مرویاتہ من المرفوعات و الآثار‘‘ از مولانا محمدامین اورکزئی شہید رحمہ اللہ (۲۰۰۹ء): یہ مقالہ بھی حضرت مولانا محمدادریس میرٹھی رحمہ اللہ کے اشراف میں لکھا گیا ہے، اس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا حدیثی مقام، ان کی بیس سے زائد ’’مسانید‘‘ کا تعارف و تجزیہ اور ان میں جمع شدہ روایات کی تعداد بیان کی گئی ہے، ۱۳۹۸ھ میں ’’مجلس دعوت و تحقیق اسلامی‘‘ سے اور بارِ دگر مولانا شہید کے ادارے ’’جامعہ یوسفیہ شاہو وام ہنگو‘‘ سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔

(۳) ’’الکتب المدونۃ فی الحدیث و أصنافھا و خصائصھا‘‘ از مولانا محمدزمان کلاچوی:مقالے کا موضوع عنوان سے ظاہر ہے، حضرت بنوری رحمہ اللہ کی خواہش تھی کہ کتب حدیث کے تفصیلی تعارف پر مشتمل کتاب تربیت دی جائے، یہ مقالہ اسی خواہش کی ایک تکمیلی کوشش ہے، ’’المصنفات فی الحدیث‘‘ کا اردو ترجمہ نوشہرہ کی ’’القاسم اکیڈمی‘‘ نے نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔

(۴) ’’الکلام المفید فی تحریر الأسانید‘‘ از مولانا روح الامین بنگہ دیشی: مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ کی زیرنگرانی لکھے گئے اس مقالے میں بنیادی طور پر مولانا نعمانی رحمہ اللہ کی اور اس ضمن میں اکابر علمائے دیوبند کی اسانید کو یکجا کرنے کی سعی کی گئی ہے، علمائے دیوبند کے ’’اثبات‘‘ (ثبت کی جمع، حدیثی اصطلاح کے مطابق کسی ایک شیخ یا چند مشائخ کی اسانید حدیث کا مجموعہ) میں اس کتاب کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ پہلے پہل ۱۴۲۵ھ میں ’’مکتبہ حجاز دیوبند‘‘ سے اور دوسری بار کچھ عرصہ قبل ’’زمزم پبلشرز‘‘ کراچی سے طبع ہوچکا ہے۔

(۵) ’’أحادیث تلامیذ الامام و أحادیث العلماء الأحناف فی صحیح البخاری‘‘ از مولانا مفیض الرحمن چاٹگامی: فقہائے احناف پر حدیث سے دوری کا ایک بے بنیاد اتہام باندھا جاتا ہے، استاذ محترم مولانا ڈاکٹر محمدعبدالحلیم چشتی مدظلہ کے اشراف میں لکھے گئے اس مقالے میں ذخیرۂ حدیث کی معتبرترین کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلامذہ اور دیگر حنفی فقہاء کی سند سے مذکور روایات کو جمع کیا گیا ہے، ’’الوردۃ الحاضرۃ‘‘ کے نام سے ’’زمزم پبلشرز‘‘ سے شائع ہوچکا ہے۔

(۶) ثنائیات الامام الأعظم أبی حنیفۃؒ ‘‘ از مولانا عبدالعزیز یحیی سعدی: امام بخاری رحمہ اللہ کی ’’صحیح‘‘ میں بائیس ’’ثلاثیات‘‘ (جن روایات میں امام بخاری رحمہ اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان محض تین واسطے ہیں) ہیں ، اور محدثین کے ہاں ایسی روایات کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے، جن کی سند میں واسطے کم ہوں، استاذ محترم مولانا چشتی مدظلہ کی نگرانی میں تحریر کیے گئے پیش نظر مقالے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ۲۱۹؍ ’’ثنائیات‘‘ (جن روایات میں امام عالی مقام اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں محض دو واسطے ہیں) جمع کی گئی ہیں، پہلی بار کراچی سے اور بعدازاں ۱۴۲۶ھ میں ’’الامام أبوحنیفۃ و ثنائیاتہ‘‘ کے نام سے بیروت کے معروف اشاعتی ادارے ’’دارالکتب العلمیۃ‘‘ سے عالم عرب کے محقق عالم ڈاکٹر نورالدین عتر حفظہ اللہ کی گراں قدر تقریظ کے ساتھ طبع ہوکر عام دستیاب ہے۔

(۷)’’الجمع بین الآثار‘‘ از مولانا ایوب رشیدی: یہ مقالہ بھی استاذ محترم مولانا چشتی مدظلہ کے دور اشراف میں لکھا گیا ہے، اس میں امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کی ’’کتاب الآثار‘‘ کی روایات کو جمع کرکے ان کے رجال پر کلام کیا گیا ہے، ابتدا میں استاذ محترم کے قلم سے لکھا گیا مقدمہ ایک تحقیقی مقالے کی شکل اختیار کرگیا ہے، اس مقدمے کے اردو ترجمے کا ایک حصہ سیرت طیبہ کے متعلق مولانا ڈاکٹر عزیز الرحمن کی ادارت میں شائع ہونے والے ششماہی ’’السیرۃ‘‘ (۱۲) میں قسط وار چھپ چکا ہے، امید ہے کہ ان شاء اللہ جلد ہی مستلق کتابی صورت میں طبع ہوگا، جبکہ اصل عربی مقالہ حال ہی میں ’’لمحات من التربیۃ الفقھیۃ فی خیر القرون‘‘ کے نام سے اردن کے اشاعتی ادارے ’’دارالفتح‘‘ سے چھپا ہے، مولانا رشیدی کا مقالہ ۱۴۲۶ھ میں ’’زمزم پبلشرز‘‘ سے چھپ کر عام ہوچکا ہے۔
(۸) الفقہ فی السند‘‘ از مولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی: وادئ مہران میں فقہ اسلامی کے نمو و ارتقا اور یہاں کے اہل علم کی فقہی خدمات کے جائزہ، تعارف و تبصرہ کے حوالے سے لکھے گئے اس مقالے کا اردو ترجمہ ’’القاسم اکیڈمی‘‘ نوشہرہ سے شائع ہوا ہے۔
(۹) ’’درسات فی أصول الحدیث علی منھج الحنفیۃ‘‘ از مولانا ترکمانی: احناف کے اصول حدیث پر اپنی نوعیت کا یہ منفرد کام استاذ محترم مولانا محمدعبدالحلیم چشتی مدظلہ کی نگرانی میں انجام پایا تھا، مزید اضافات اور فنی ترتیب و تدوین کے بعد ابتدا میں ’’مکتبۃ السعادۃ‘‘ کراچی سے اور پھر بیروت کے معروف اشاعتی ادارے ’’دار ابن کثیر‘‘ سے یکے بعد دیگرے دوبار طبع ہوچکا ہے، حال ہی میں مزید اضافات کے ساتھ ’’مکتبۃ الکوثر‘‘ سے اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ کتاب کے طبع ہونے اور علمی حلقوں میں عام ہونے کے بعد عرب و عجم کے کبار اہل علم نے نوجوان مقالہ نگار کی اس کاوش کو بنظر تحسین دیکھا اور مؤلف کو بلند پایہ تعریفی کلمات سے نوازا ہے، مقام شکر ہے کہ احناف کے اصول حدیث کے حوالے سے اُسے اب مرجعیت کا مقام مل چکا ہے، چنانچہ موضوع سے متعلق بیشتر علمی و تحقیقی مقالات میں اس کے حوالے دیئے گئے ہیں، بلاشبہ یہ مقالہ جامعہ کے ’’شعبہ تخصص فی علوم الحدیث‘‘ میں ہونے والے تحقیقی کام کی ایک عمدہ مثال ہے۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے اس شعبے نے علوم حدیث کے میدان میں پیش رفت کے سلسلے میں نمایاں کردار کیا، معاشرے کو ماہرین علوم حدیث کی ایک کھپ فراہم کی، ملک و بیرون ملک کے کئی جامعات کے شعبہائے تخصص فی علوم الحدیث میں مصروف عمل بہتیرے اہل علم جامعہ کے اس شعبے سے ہی فیض یاب ہوکر مرجعیت کے مقام پر پہنچے، والحمدللہ علی ذلک۔

جامعہ فاروقیہ کراچی
جامعہ فاروقیہ میں حضرت مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ نے ۱۴۲۵ھ میں اس شعبہ کی بنیاد ڈالی، اور مولانا نورالبشر نورالحق مدظلہ و مولانا ساجد صدوی حفظہ اللہ (متخصص فی علوم الحدیث جامعہ بنوری ٹاؤن) کے اشراف میں ’’تخصص فی علوم الحدیث‘‘ کا شعبہ قائم کیا، اس شعبے میں لکھے گئے مقالات کی ایک فہرست ۲۰۱۰ء میں سہماہی تحقیقات حدیث کے ایک شمارہ میں شائع ہوچکی ہے، (۱۳) اس کے بعد بھی کافی مقالے لکھے گئے ہیں، جن کی تفصیلات سردست سامنے نہیں، بلاشبہ جامعہ کے اس شعبے نے قلیل مدت میں نہایت قیمتی اور قابل قدر کام سامنے لائے ہیں، جن میں سے دو نمایاں مطبوعہ مقالات درج ذیل ہیں:
۱: ’’غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ‘‘ از مولانا طارق امیرخان: محدثین کی متنوع خدمات میں سے ایک اہم خدمت موضوع روایات کو ذخیرۂ حدیث سے ممتاز کرنا ہے، اس موضوع پر بھی معتدبہ مواد حدیثی کتب خانے کی زینت ہے، پیش نظر مقالہ اسی جد و جہد کا تسلسل ہے، جس میں پاک و ہند میں زبان زد عوام و خواص اٹھائیس ۲۸؍روایات کی تحقیق کی گئی ہے، ابتدا میں موضوع روایات و کتب موضوعات سے متعلق وقیع مقدمہ ہے، یہ مقالہ مولانا نورالبشر مدظلہ کی زیر نگرانی لکھا گیا اور ’’زمزم پبلشرز‘‘ سے طبع ہوچکا ہے، مؤلف نے تخصص سے فراغت کے بعد بھی اس نوع پر کام جاری رکھا، ان شاء اللہ جلد ہی اس سلسلے کی دوسری جلد منظر عام پر آرہی ہے۔
۲: ’’الجزء فی فضائل القرآن‘‘ از مولانا طارق امیرخان: یہ مقالہ بھی مؤلف نے جامعہ فاروقیہ میں تخصص کے دوران ترتیب دیا ہے، جس میں شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا رحمہ اللہ کی ’’فضائل قرآن‘‘ کے حدیثی فوائد کے ضمن میں آنے والے روایات کی تخریج و تحقیق کی گئی ہے، اور اب یہ کام کتابی صورت میں ’’زمزم پبلشرز‘‘ سے چھپ چکا ہے۔
دیگر مقالات میں سے چند اہل عنوانات ملاحظہ فرمائیں:
۱: ’’تحقیق و دراسۃ کتاب ’’امعان النظر فی توضیح شرح نخبۃ الفکر‘‘ للعلامۃ محمد اکرام السندی النصربوری‘‘ مولوی کفایت اللہ بن محمد زکریا۔
۲: ’’تحقیق و دراسۃ کتاب ’’بھجۃ النظر شرح نخبۃ الفکر‘‘ لأبی الحسن الصغیر السندی‘‘ مولوی محمد کاشف بن محمد یونس۔
۳: ’’الامام ابن ھمام و آراؤہ الأصولیۃ فی ’’فتح القدیر‘‘ مولوی حسین احمد،
۴: ’’الحدیث الضعیف و مدی الاستدلال بہ فی الفضائل و الأحکام‘‘ مولوی محمد عمران ۔

جامعہ بنوریہ کراچی
جامعہ بنوریہ کراچی میں یہ شعبہ قائم ہوئے کچھ عرصہ گزارا ہے، اور مولانا آصف اختر حفظہ اللہ اس کے مشرف ہیں، مولانا بھی استاذ محترم مولانا چشتی مدظلہ کے فیض یافتہ ہیں۔

جامعہ اشرف المدارس کراچی
جامعہ اشرف المدارس میں قائم شعبہ ’’تخصص فی علوم الحدیث‘‘ مولانا مفیض الرحمن چاٹگامی کے اشراف میں قائم ہے، مولانا چاٹگامی جامعہ بنوری ٹاؤن کے متخصص اور کئی کتب کے مؤلف ہیں۔

معہد عثمان بن عفان کراچی
مولانا نور البشر نور الحق مدظلہ (استاذ جامعہ فاروقیہ کراچی) کے اس ادارے میں ’’تخصص فی الفقہ و الحدیث‘‘ کا دو سالہ منفرد کورس چند سال سے جاری ہے، جس میں اصول افتاء و علوم حدیث کی منتخب کتب کی تدریس و مطالعہ کے ساتھ افتاء و تخریج کی تمرین بھی کرائی جاتی ہے، مولانا مدظلہ تحقیقی مزاج و مذاق رکھنے والے پختہ عالم و مدرس اور تحقیق تخریج کے میدان میں طویل تجربہ رکھتے ہیں، اس لیے مختصر دورانیے میں دونوں مہارتیں حاصل کرنے کے خواہش مند ذی استعداد طلبہ اس ادارے سے منسلک ہوکر فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

مجلس البحوث الاسلامیۃ راولپنڈی
مسجد الہلال اصغر مال اسکیم میں استاذ محترم مولانا محمد عبدالحلیم چشتی مدظلہ کی سرپرستی اور جامعہ بنوری ٹاؤن کے متخصصین مولانا محمدعاصم انعام، مولانا ایوب رشیدی اور مولانا وصی اللہ حفظہم اللہ و دیگر علماء کی نگرانی میں ’’مجلس البحوث الاسلامیۃ‘‘ اور اس کے ذیلی شعبے ’’تخصص فی علوم الحدیث و السنۃ‘‘ کو قائم ہوئے کچھ عرصہ گزرا ہے، اس دوران یہاں دیگر مقالات کے علاوہ ایک نمایاں کام شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب ’’فضائل اعمال‘‘ کی تخریج کا ہوا، جو اب چھپ کر عام ہوچکا ہے۔

جامعہ دارالعلوم دیوبند، ہندوستان
برصغیر کی عظیم دینی درسگاہ ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند میں یہ شعبہ ۱۴۲۰ھ میں قائم ہوا اور مولانا نعمت اللہ اعظمی مدظلہ اس کے نگران مقرر ہوئے، جو تا حال اشراف کے فرائض انجام دے رہے ہیں، بعد از اں مولانا عبداللہ معروفی حفظہ اللہ بھی بحیثیت معاون مشرف اس شعبے سے منسلک ہوئے، اس شعبے کے شائع شدہ چند اہم تحقیقی مقالات درج ذیل ہیں:
(۱) ’’الحدیث الحسن فی جامع الترمذی‘‘
(۲) ’’الحدیث الحسن الصحیح‘‘
(۳) ’’الحدیث الحسن الغریب‘‘
(۴) ’’الحدیث الغریب‘‘: یہ مقالہ مولانا نعمت اللہ اعظمی مدظلہ، ہندوستان کے نامور محقق مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ اور مولانا عبداللہ معروفی مدظلہ کی نگرانی میں شعبے کے پانچ طلبہ نے لکھا ہے، جس میں ’’جامع الترمذی‘‘ کی ان احادیث کی تحقیق کی گئی ہے، جن کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن‘‘ لکھا ہے، ابتدا میں انہی روایات پر کام ہوا، بعد از اں امام موصوف کی دیگر اصطلاحات پر بھی تحقیقی کام ہوا، چنانچہ ’’حسن غریب‘‘ پر دو جلدیں، ’’حدیث غریب‘‘ پر ایک جلد اور ’’حسن غریب‘‘ پر تین جلدیں چھپ چکی ہیں، ہر جلد کی ضخامت چھے سو صفحات سے زائد ہے، یہ مکمل کام اسی شعبے میں ہوا۔

(۵) ’’حقیقۃ الزیادۃ علی القرأن بخبر الواحد و استعراض علمی لایرادات ابن القیم علی الحنفیۃ بناءً علی ھذا الأصل‘‘: یہ مقالے کے عنوان سے اس کے مباحث کی وضاحت ہوجاتی ہے، یہ کام مولانا نعمت اللہ اعظمی مدظلہ کے اشراف میں تین طلبہ نے کیا اور مولانا عبداللہ معروفی حفظہ اللہ نے ترمیم و تہذیب فرمائی، ’’المکتبۃ العثمانیۃ‘‘ دیوبند سے چھپ چکا ہے۔ (۱۴)

جامعہ مظاہرالعلوم سہارن پور، ہندوستان
جامعہ کی مجلس شوریٰ کی تجویز سے سنہ ۱۴۱۵ھ میں اس شعبے کا قیام عمل میں آیا، اور حضرت مولانا زین العابدین اعظمی رحمہ اللہ نگران مقرر ہوئے، دوسرے ہی سال طلبہ کی تعداد میں اضافہ کی بنا پر ان کی معاونت کے لیے مولانا عبداللہ معروفی حفظہ اللہ کا تقرر کیا گیا، (کچھ عرصے بعد مولانا معروفی حفظہ اللہ کو دارالعلوم دیوبند میں طلب کرلیا گیا) ۱۴۲۱ھ میں شائع شدہ شعبے کے پانچ سالہ کارکردگی کی روداد کے مطابق اس قلیل مدت کے دوران شعبے میں انجام پانے والے نمایاں تحقیقی کام درج ذیل ہیں:
(۱) ’’المؤتلف و المختلف فی أسماء نقلۃ الحدیث‘‘ اور ’’مشتبۃ النسبۃ‘‘ کی تحقیق و تعلیق، یہ دونوں اہم کام تخصص کے طلبا کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچے۔
(۲) علامہ محمد بن محمد بن سلیمان مغربی رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب ’’جمع الفوائد من جامع الأصول و مجمع الزوائد‘‘ کی تحقیق، یہ کام بھی مولانا زین العابدین اعظمی رحمہ اللہ کے اشراف میں شعبے کے متخصصین کے ذریعے انجام پایا ہے، جو اَب چھپ کر عام ہوچکا ہے۔
ان دو اہم علمی کاوشوں کے علاوہ بھی دسیوں مقالات لکھے گئے ہیں، جن میں سے بعض زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں، سردست تفصیلات دستیاب نہ ہونے کی بنا پر ان کا تعارف پیش نہیں جاسکتا۔ (۱۵)

مرکز الدعوۃ الاسلامیۃ ڈھاکہ بنگلہ دیش
یہ ادارہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں قائم ہے، جس کے شعبہ ’’تخصص فی علوم الحدیث‘‘ کے مشرف مفتی عبدالمالک (متخصص جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن) ہیں، مولانا حدیث و فقہ کے پختہ و محقق عالم ہیں، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں تخصص کے بعد جامعہ دارالعلوم کراچی میں ’’تخصص فی الافتاء‘‘ کیا، بعد از اں اپنے استاذ مولانا محمدعبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ کے ایما پر عالم عرب کے محقق و محدث شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ کی خدمت میں بھی کافی عرصہ رہے، یوں مولانا نے عرب و عجم کے جہابذہ سے خوب استفادہ کیا، علوم حدیث کے مبتدئین کے لیے انہوں نے ’’المدخل الی علوم الحدیث الشریف‘‘ کے نام سے ایک مفید کتاب ترتیب دی ہے، اور عرصہ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ’’نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر‘‘ کی شرح و تعلیق میں مشغول ہیں، بنگلہ دیش میں مولانا جیسی محدثانہ و فقیہانہ مزاج کی حامل شخصیت کا وجود نعمت سے کم نہیں۔
یہاں علوم حدیث میں اختصاص سے متعلق چند شعبوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کے بارے میں کسی قدر معلومات مہیا ہوسکی ہیں، استیعاب ممکن تھا نہ مقصود، بلاشبہ ان کے علاوہ بھی اندرون و بیرون ملک کئی اداروں میں ’’تخصص فی علوم الحدیث‘‘ کے شعبے قائم ہیں، جن سے فضلائے کرام حسب مناسبت استفادہ کرسکتے ہیں۔

ایک گزارش علوم حدیث کے متخصصین سے
اس مقام کی مناسب سے ’’متخصصین فی علوم الحدیث‘‘ سے خصوصاً اور دیگر اہل اختصاص کی خدمت میں عموماً ایک برادرانہ و خیرخواہانہ گزارش پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ کسی بھی علم و فن کے ساتھ مناسبت کی بقا کے لیے اس کا دائمی و مربوط مطالعہ ضروری ہوتا ہے، اختصاصی مہارت حاصل کرلینے کے باوجود ربط و تسلسل نہ رہنے کا بناپر برسوں کی محنت (اکارت کہنا تو مناسب نہ ہوگا کہ فی الجملہ افادیت سے انکار بھی نہیں، کہا جاسکتا ہے کہ اختصاصی صلاحیت) ہوا ہوجاتی ہے، اس رویے سے بعض اوقات جزئیات تو در کنار، فن کے بنیادی اصول و کلیات بھی ذہن سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور عمومی مشاہدے کے رو سے بھی یہ عین فطری معاملہ ہے، امام فن جرح و تعدیل و محدث جلیل القدر امام عبدالرحمن مہدی رحمہ اللہ کا مقولہ ہے:
’’انما مثل صاحب الحدیث بمنزلۃ السمسار، اذا غاب عن السوق خمسۃ أیام تغیّر بصرُہ۔‘‘ (۱۶)
’’حدیث کا طالب علم دلال (ہمارے عرف میں بجائے اس کے ’’منی چینجر‘‘ کہہ لیجیے) کی مانند ہوتا ہے، چند روز بھی مارکیٹ سے دور رہے تو فنی بصیرت (اور پیشہ ورانہ مہارت) میں فرق آجاتا ہے۔‘‘
چند روز کی غیبوبت سے اتنا تغیر آجاتا ہے تو فنی مطالعہ کے بالکلیہ ترک کی صورت میں اختصاصی استعداد کا کیا حشر ہوگا؟! ایسے میں مسلسل مطالعہ و تحقیق کے عمل سے جڑے بنا خود کو متخصص باور کراتے رہنا خام خیالی ہی کہی جاسکتی ہے، یوں ہم عوام کو تو مطمئن کرسکتے ہیں، لیکن ضمیر کی عدالت میں جواب دہی سے عاجز رہیں گے۔ امام احمد بن حنبل شیبانی رحمہ اللہ سے ایک موقع پر دریافت کیا گیا: حدیث کی طلب کب تک جاری رکھنی چاہیے؟ فرمایا: ’’موت تک۔‘‘ (۱۷) گویا حقیقی متخصص وہی ہے جو تحقیق و مطالعہ کے سفر میں کسی مقام پر قناعت کے بجائے فن کے ساتھ دائمی ربط قائم رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ و مراجع
۱۔۔۔عجالۃ المبتدی و فضالۃ المنتھی فی النسب، ص۳، المطبعۃ الأمیریۃ بالقاھرۃ، امام ابن صلاح رحمہ اللہ نے ’’مقدمہ‘‘ میں پینسٹھ (۶۵) انواع ذکر کی ہیں، جبکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے دیگر کتب سے جمع کرکے اپنے اضافات کے ساتھ ’’تدریب الراوی‘‘ میں چورانوے (۹۴) انواع ذکر کی ہیں۔
۲۔۔۔ سنن الترمذی، أبواب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبلؓ، ج۲، ص۶۹۹، رحمانیہ۔
۳۔۔۔ مراتب العلوم لابن حزم ؒ ضمن مجموع رسالاتہ، ج۴، ص: ۷۷،۷۸۔
۴۔۔۔ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبدالبرؒ ، باب اثبات المناظرۃ و المجادلۃ و اقامۃ الحجۃ، ص۳۳۵، رقم ۹۴۳، دار ابن حزم ۱۴۲۷ھ۔ ۲۰۰۶ء۔
۵۔۔۔ الفتاوی الحدیثیۃ، ص۳۲۸، قدیمی کتب خانہ کراتشی۔
۶۔۔۔التعلیقات الحافلۃ علی الأجوبۃ الفاضلۃ، ص۳۱، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ حلب سوریا، ۱۴۳۶ھ۔ ۲۰۰۵ء۔
۷۔۔۔ صحیح البخاری، کتاب الصوم ، باب من أقسم علی أخیہ لیفطر فی التطوع، ۱: ۲۶۴، قدیمی۔
۸۔۔۔تخصص حدیث شریف، تعارف، اصول و ضوابط، ص ۲۷، جامعہ مظاہرعلوم سہارن پور، انڈیا۔
۹۔۔۔ ایضا، ص۲۵۔
۱۰۔۔۔ ایضا، ص۲۳۔
۱۱۔۔۔ تحقیقات حدیث، شمارہ: ۲، بابت محرم الحرام ۱۴۳۱ھ بمطابق جنوری ۲۰۱۰ء۔
۱۲۔۔۔ ششماہی السیرۃ شمارہ: بابت ۶ و ۷، رمضان ۱۴۲۲ھ اور ربیع الاول ۱۴۲۳ھ۔
۱۳۔۔۔ تحقیقات حدیث، شمارہ: بابت رمضان المبارک ۱۴۲۹ھ، ستمبر ۲۰۰۸ء۔
۱۴۔۔۔ یہ مقالات تا حال ہمارے ملک میں عام نہیں ہوئے، دارالعلوم دیوبند کے شعبہ ’’تخصص فی علوم الحدیث‘‘ اور مذکورہ مقالات کے متعلق یہ معلومات مولانا عبید انور بن مولانا نسیم اخترشاہ قیصر (متخصص فی علوم الحدیث دارالعلوم دیوبند) نے عنایت فرمائیں، جزاہ اللہ خیرا۔
۱۵۔۔۔ مذکورہ معلومات رسالہ ’’تخصص حدیث شریف، تعارف، اصول و ضوابط، مطبوعہ: جامعہ مظاہر علوم سہارن پور، انڈیا‘‘ سے حاصل کی گئی ہیں۔
۱۶۔۔۔ الجامع لأخلاق الراوی و آداب السامع للخطیب، باب دوام المراعاۃ للحدیث و المذاکرۃ بہ و اتقاء الفتور عنہ، ص ۴۱۳، رقم ۱۹۰۹، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ۱۴۱۷ھ، ۱۹۹۶ء۔
۱۷۔۔۔ شرف أصحاب الحدیث للخطیب، ج۲، ص ۱۲۸، رقم ۱۳۵، مکتبۃ ابن تیمیۃ القاھرۃ۔

تحریر: مولانا محمد یاسر عبداللہ
ماہنامہ بینات، ذوالقعدہ ۱۴۳۷ھ
(جامعہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی)


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “علوم حدیث میں اختصاص، اہمیت و ضرورت

  1. سید محمد زاہدین says:

    سلام علیکم
    جناب عالی سے گذارش ہے کہ حوزہ حدیثی دھلی کے متعلق کچھ معلومات فراہم کریں بندہ اس موضوع پر تحقیق کر رہا ہے بندہ پی ایچ ڈی کر رہا ہے اور میرا رشتہ حدیث تطبیقی ہے اگر آپ کو کچھ معلومات حوزہ حدیثی دھلی کے متعلق معلومات ہو تو شیئر کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں