قربانی کرنے والے کے مقام کا اعتبار ہوگا یا جانور کے مقام کا؟

قربانی کرنے والے کے مقام کا اعتبار ہوگا یا جانور کے مقام کا؟

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
اگر کوئی برطانیہ میں مقیم ہو اور وہ پاکستان میں کسی کو اپنا وکیل بنا دے کہ آپ میری طرف سے قربانی کریں، چونکہ عموماً برطانیہ والے پاکستان سے دو دن پہلے عید کرتے ہیں یعنی جس دن پاکستان میں عید ہوتی ہے وہ ان کا تیسرا دن ہوتا ہے اور جب پاکستان میں عید کا دوسرادن ہوتا ہے تو ان کے ایام عید ختم ہوچکے ہوتے ہیں تو کیا یہ وکیل ان کی طرف سے دوسرے دن میں قربانی کرسکتا ہے یا نہیں؟ یعنی قربانی میں قربانی کرنے والے کے مقام کا اعتبار ہوتا ہے یا جانور کے مقام کا؟
جبکہ فتاویٰ رحیمیہ میں ہے کہ جانور کے مقام کا اعتبار ہوگا اور دارالافتاء دارالعلوم کراچی سے فتویٰ دیا گیا ہے کہ قربانی کرنے والے کے مقام کا اعتبار ہوگا، جس کی فوٹو کاپی ساتھ منسلک کی جاتی ہے، برائے کرم اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔
مستفتی: ارشاد الرحمن، اٹک

الجواب و منہ الصدق والصواب
بطور تمہید چند امور کا ابتداء میں ذکر کرنا ضروری ہے، تا کہ اصل مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو۔
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ کے اندر قربانی کا تعلق چونکہ مخصوص ایام و مخصوص زمانہ کے ساتھ رکھا گیا ہے، اس لیے فقہاء کرام نے قربانی کے وجوب کے لیے بنیادی اعتبار سے دو شرطیں ضروری قرار دی ہیں:
۱۔ ایک یہ کہ نفسِ وجوب پایا جائے، یعنی ایامِ نحر کے مخصوص ایام شروع ہوجائیں، جو ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کے دن صبح صادق طلوع ہونے کے بعد سے لے کر بارھویں ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے سے پہلے تک ہے، یعنی مذکورہ ایام کا دخول قربانی کے نفسِ وجوب کے لیے بنیادی شرط ہے، ان تین ایام میں جس دن بھی چاہے قربانی کرنا جائز ہے، ان دنوں کے علاوہ میں قربانی کرنا جائز نہیں، جیسا کہ ’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے:
’’و أیام النحر ثلاثۃ: یوم الأضحی و ھو الیوم العاشر من ذی الحجۃ، والحادی عشر، والثانی عشر بعد طلوع الفجر من الیوم الأول الی غروب الشمس من الیوم الثانی عشر‘‘۔
(کتاب التضحیۃ، ج:۴، ص۱۹۸، ط: داراحیاء التراث العربی۔ کذا فی الہندیۃ، الأضحیۃ، الباب الثالث: فی وقت الأضحیۃ، ج:۵، ص:۲۹۵، ط: رشیدیہ)
اس طرح ان ایام کے گزرنے کے بعد بھی قربانی کرنا جائز نہیں ہوگا، جیسا کہ ’’فتح القدیر‘‘ میں ہے:
’’و لو ذھب الوقت تسقط الأضحیۃ۔‘‘
(فتح القدیر، الأضحیۃ، ج۸، ص:۴۲۵، ط: رشیدیہ)

۲۔ دوسری یہ کہ شرطِ وجوب بھی ہو اور وہ ’’غنی‘‘ (مالداری) ہے، یعنی اس شخص پر قربانی لازم ہوجاتی ہے جو مقدارِ نصاب یا اس سے زائد کا مالک ہو، یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا سامان ہو جس کے مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت کے برابر ضرورت سے زائددیگر اشیاء اس کی ملکیت میں ہوں، جیسا کہ ’’الدر مع الرد‘‘ میں ہے:
’’و شرائطھا أی شرائط وجوبھا:الاسلام و الاقامۃ، و الیسار الذی یتعلق بہ وجوب صدقۃ الفطر‘‘ و فی الشامیۃ: (قولہ: والیسار) بأن ملک مائتی درھم أو عرضاً یساویھا غیر مسکنہ و ثیاب اللبس أو متاع یحتاجہ الی أن یذبح الأضحیۃ و لولہ عقار یستغلہ، فقیل: تلزم لو قیمتہ نصاباً و صاحب الثیاب الأربعۃ لو ساویٰ الرابع نصاباً غنی و ثلاثۃ فلا۔۔۔ الخ۔‘‘
(الأضحیۃ، ج:۶، ص: ۳۱۲، ط: سعید)
غرضیکہ یہ دو چیزیں قربانی کے وجوب کے لیے بنیادی شرطیں ہیں، لہذا پہلی شرط کے مطابق وقت کے داخل ہونے کے بعد ہی قربانی کرنا جائز ہوگا، نہ وقت سے پہلے جائز ہے اور نہ ہی وقت کے ختم ہونے کے بعد جائز ہے، جیسا کہ ’’شرح العنایۃ علی ھامش فتح القدیر‘‘ میں ہے:
’’فلا یجوز فی لیلۃ النحر ألبتۃ لوقوعھا قبل وقتھا لا فی لیلۃ التشریق المحض لخروجہ۔‘‘
(الأضحیۃ، ج۸، ص: ۴۳۲، ط: رشیدیہ)

نیز قربانی کرنے والا جس ملک میں موجود ہے اس ملک کے ایام النحر کا اعتبار ہوگا، اگر کوئی پاکستانی مثلاً برطانیہ میں رہ رہا ہے اور وہاں ایام النحر شروع ہوجائیں تو اس پر لازم ہے کہ برطانیہ کے ایام نحر کے اعتبار سے قربانی کرے، کیونکہ وہاں نفسِ وجوب کا سبب پایا جاچکا ہے۔
پھر یہ کہ قربانی کرنے والے حضرات یا تو شہری ہوتے ہیں یا دیہاتی، شہری باشندوں کا حکم الگ ہے اور دیہات میں رہنے والوں کا حکم الگ ہے۔
شہری باشندوں کے لیے نمازِ عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنا جائز نہیں، جبکہ دیہات میں رہنے والوں کے لیے طلوعِ صبح صادق کے ساتھ ہی قربانی کا جانور ذبح کرنا درست ہے، اس لیے کہ ان پر عید کی نماز واجب نہیں، جیسا کہ ’’ہندیہ‘‘ میں ہے:
’’و الوقت المستحب للتضحیۃ فی حق أھل السواد بعد طلوع الشمس و فی حق أھل المصر بعد الخطبۃ، کذا فی الظھیریۃ۔‘‘
(الأضحیۃ، الباب الثالث فی وقت الأضحیۃ، ج۵، ص۲۹۵، ط: رشیدیہ)

’’فتح القدیر‘‘ میں ہے:
’’ و وقت الأضحیۃ یدخل بطلوع الفجر من یوم النحر الا أنہ یایجوز لأھل الأمصار الذبح حتی یصلی الامام العید۔‘‘
(الأضحیۃ، ج:۸، ص۴۳۰، ط: رشیدیہ)
مذکورہ سطور سے معلوم ہوا کہ نفسِ وجوب کا تعلق مکلف یعنی قربانی کرنے والے کے ذمہ کے ساتھ ہے، لہذا نفسِ وجوب میں قربانی کرنے والے کے محل (مکان) کا اعتبار ہوگا۔ نیز مذکورہ بالا تفصیل کا تعلق اس مسئلہ کے ساتھ ہے کہ اگر کوئی شخص بذاتِ خود اپنے مکان و محل میں قربانی کرے، لیکن اگر کوئی شخص از خود اپنے محل میں قربانی نہیں کرتا، بلکہ کسی دوسرے ملک میں رہنے والے کسی دوسرے شخص کو اپنی قربانی کا وکیل بنادے تو اس مسئلہ سے متعلق حکم کے لیے آئندہ سطور میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
چونکہ نفسِ وجوب کا سبب یوم النحر ہے، جیسا کہ اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا، لہذا اگر کوئی شخص اپنی قربانی کے لیے کسی دوسرے ملک میں رہنے والے کسی شخص کو وکیل بنادے تو ایسی صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ قربانی کا وکیل بننے والا اور کروانے والا (مؤکل) دونوں کے ہاں یوم النحر ہوچکا ہے یا نہیں؟ اگر یوم نحر ہوچکا ہے تو نفس وجوب ہوگیا، اب دیگر شرائط کے پائے جانے کی صورت میں قربانی کرنے والا خود قربانی کرے یا کسی کو وکیل بنا کر کروائے، دونوں صورتوں میں قربانی شرعاً ادا ہوجائے گی، لیکن قربانی والا جہاں رہ رہا ہے اگر وہاں یوم نحر نہیں ہوا ہے جو کہ نفس وجوب کا سبب ہے تو جس طرح اس وقت وہ خود اپنی قربانی نہیں کرسکتا، اسی طرح اس کی طرف سے کوئی اور بھی نہیں کرسکتا، اگرچہ دوسرے شخص یعنی وکیل کے شہر یا ملک میں یوم النحر شروع ہوچکا ہو۔ اسی وجہ سے فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قربانی کے لیے رقم کسی دوسرے ملک میں بھیج دے اور کسی کو قربانی کرنے کے لیے کہہ دے تو اس طرح رقم بھیج کر قربانی کرنا اگرچہ درست ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن اتنی بات ضروری ہے کہ قربانی دونوں ملکوں کے مشترکہ دن میں کی جائے ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی، مثلاً برطانیہ میں پاکستان کے حساب سے دو دن پہلے اگر قربانی کے ایام شروع ہوتے ہیں اور پاکستان میں دو دن بعد تو برطانیہ میں رہنے والے آدمی کی قربانی پاکستان میں صرف پہلے دن میں صحیح ہوگی، دوسرے اور تیسرے دن میں نہیں، کیونکہ پاکستان کا پہلا دن برطانیہ کے حساب سے قربانی کا تیسرا دن ہے، جبکہ دوسرا اور تیسرا دن برطانیہ کے حساب سے قربانی کا دن نہیں۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ برطانیہ کا وقت پاکستان کے وقت سے پانچ گھنٹے پیچھے ہے، مثلاً: جب پاکستان میں صبح ساڑھے چھ بج رہے ہوتے ہیں تو برطانیہ میں رات کا ڈیڑھ بج رہا ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی آدمی برطانیہ میں رہ رہا ہو اور وہ پاکستان میں کسی کو اپنی قربانی کا جانور ذبح کرنے کا وکیل بنادے تو پاکستان میں اس کی قربانی اس وقت تک شرعاً معتبر نہ ہوگی جب تک برطانیہ میں یوم نحر کی صبح طلوع نہ ہو، کیونکہ یومِ نحر کی ابتداء دس ذوالحجہ کی طلوع صبح صادق سے ہوتی ہے۔
لہذا برطانیہ اور پاکستان کے ایام النحر میں جو دن دونوں ملکوں میں مشترک ہو صرف اس دن میں قربانی کرنا صحیح ہوگا، اس کے علاوہ دنوں میں قربانی کرنا جائز نہیں ہوگا۔ باقی فقہاء کی جن عبارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکان اضحیہ کا اعتبار ہے تو اس کا تعلق ’’اداء‘‘ سے ہے یعنی جانور جس جگہ پر ہے ذبح کے احکامات میں وہاں کا اعتبار ہوگا، نفس وجوب میں وہاں کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ نفس وجوب میں مکلف یعنی قربانی کرنے والے کے محل کا اعتبار ہوگا۔
اگر جانور دیہات میں ہے تو اس صورت میں دیہات میں قربانی کے جانور کو صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد ذبح کرنا جائز ہوگا، اگرچہ خود قربانی کروانے والا شہر میں ہو، جیسا کہ ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے:
’’و لو أخرج الأضحیۃ من المصر فذبح قبل صلوۃ العید قالوا: ان خرج من المصر مقدار ما یباح للمسافر قصر الصلوۃ فی ذلک المکان جاز الذبح قبل صلوۃ العید و الا لا‘‘۔
(الأضحیۃ، الباب الرابع، فیما بالمکان و الزمان، ج:۵، ص: ۲۹۶، ط: رشیدیہ)

’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے:
’’روی عن أبی یوسف رحمہ اللہ: یعتبر المکان الذی یکون فیہ الذبح، و لا یعتبر المکان الذی فیہ المذبوح عنہ و انما کان کذلک لأن الذبح ھو القربۃ فیعتبر مکان فعلھا لامکان المفعول عنہ‘‘۔
(کتاب: التضحیۃ، فصل: و أما شرائط اقامۃ الواجب، ج:۵، ص:۷۴، ط: سعید)

اس کے برعکس اگر جانور شہر میں ہے اور قربانی کرنے والا دیہات میں ہو تو اس صورت میں جب تک شہر میں کسی ایک جگہ پر بھی عید کی نماز نہیں ہوگی، جانور کو ذبح کرنا جائز نہیں ہوگا، جیسا کہ ’’ہندیہ‘‘ یں ہے:
’’و لو کان الرجل بالسواد و أھلہ بالمصر لم تجز التضحیۃ عنہ الا بعد صلوۃ الامام‘‘۔
(الأضحیۃ، الباب الرابع: فیما یتعلق بالمکان و الزمان، ج۵، ص۲۹۶، ط: رشیدیہ)

غرضیکہ ’’مکان الأضحیۃ‘‘ سے مطلق مراد لینا کہ قربانی کا جانور جہاں پر ہے وہاں اگر ایام نحرشروع ہیں تو قربانی کرنا جائز ہے، چاہے قربانی کرنے والا کسی ایسے ملک میں کیوں نہ ہو جہاں ایام نحر ابھی شروع ہی نہیں ہوئے ہیں، ہرگز درست نہیں، کیونکہ جہاں ایام نحر شروع ہی نہیں ہیں وہاں اس شخص پر وجوب کا سبب ہی متحقق نہیں ہوا اور وجوب ذمہ سے ساقط نہیں ہوتا جب تک کہ نفسِ وجوب کا تحقق نہ ہو۔
اس پوری تفصیل کا لب لباب اور خلاصہ یہ ہوا کہ قربانی کروانے والے (مؤکل) اور کرنے والے (وکیل) کے مکان میں اگر اختلاف اور فرق ہو تو دونوں جگہوں میں دیگر شرائط کے ساتھ ایام نحر کا پایا جانا ضروری ہے۔
باقی جہاں ’’فتاوی رحیمیہ‘‘ میں ایک سوال کے جواب سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے مطلق مکان اضحیہ کو معتبر قرار دیا ہے خواہ قربانی کروانے والے شخص (مؤکل) پر نفس وجوب (ایام نحر کا پایا جانا) متحقق ہوا ہو یا نہیں۔ تو گزشتہ تفصیل اور فقہاء کرام کی صریح عبارات کے مطابق یہ رائے درست نہیں ہے، کیونکہ جواب میں پیش کردہ صاحب ہدایہ کی عبارت کا تعلق شہری اور دیہاتی سے متعلق ہے کہ شہری اگر دیہات میں اپنا جانور قربانی کی نیت سے بھیج دے تو ایسی صورت میں مؤکل کے شہر میں عید کی نماز پڑھی گئی ہو یا نہ پڑھی گئی ہو بہر دو صورت دیہات میں اس جانور کی قربانی شرعاً معتبر ہوگی اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ شہر میں رہنے والے شخص پر قربانی کا وجوب متحقق ہوچکا ہو اور وہ ایام نحر ہیں۔ قربانی کا وجوب متحقق ہونے سے قبل اگر جانور ذبح کردیا جائے تو لامحالہ ایسی قربانی شرعاً معتبر نہیں۔
لہذا حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا سائل کے جواب میں یہ فرمانا کہ مدارس میں عید الاضحی پیر کے دن ہو اور مدارس میں رہنے والے کوئی شخص حیدرآباد میں رہنے والے کسی شخص کو اپنی قربانی کے لیے وکیل بنادے، جبکہ حیدرآباد میں عیدالاضحی مدارس سے ایک دن قبل یعنی بروز اتوار ہو تو مدارس والے کی طرف سے حیدرآباد میں بروز اتوار قربانی کی جاسکتی ہے۔ تو حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی یہ رائے فقہی عبارات کے مطابق درست نہیں ہے، کیونکہ قربانی کا جانور ذبح ہوتے وقت مدارس والے پر قربانی کا وجوب ہی متحقق نہیں ہوا جس کی تحقیقی تفصیل ماقبل میں گزری اور ادباً عرض ہے کہ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں ہمیں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی تحقیق یا رائے سے اتفاق نہیں ہے۔
باقی زیرِ بحث مسئلہ کے بارے میں استفتاء کے ہمراہ منسلک دارالعلوم کراچی کے فتویٰ کو بغور پڑھنے کے بعد واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی مطلق جانور کا محل معتبر نہیں، بلکہ مؤکل پر بھی نفس وجوب کا پایا جانا ضروری ہے، یعنی دونوں جگہوں پر ایام نحر کا پایا جانا ضروری ہے، لہذا اس مسئلہ میں ان کی اور ہماری آراء میں کوئی اختلاف نہیں۔ فقط واللہ اعلم

 

الجواب صحیح: محمد عبدالمجید دین پوری
الجواب صحیح: محمد انعام الحق
الجواب صحیح: محمد شفیق عارف
الجواب صحیح: محمد عبدالقادر
الجواب صحیح: محمد داؤد

کتبہ طارق جمیل، متخصص فقہ اسلامی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
بشکریہ: ماہنامہ بینات۔ ذوالقعدہ ۱۴۳۷ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں