ترکی میں اسلامی بیداری کی لہر!

ترکی میں اسلامی بیداری کی لہر!

۱۱؍شوال المکرم ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۶؍جولائی ۲۰۱۶ء جمعہ و ہفتہ کی درمیانی شب برادر اسلامی ملک ترکی کی فوج کے ایک حصے نے منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کا دعویٰ کرتے ہوئے ملک بھر میں مارشل لاء اور کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔
دوسری طرف ترک صدر جناب رجب طیب اردوان کی اپیل پر ترک عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے، عوام نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر ان کو آگے بڑھنے سے روک دیا اور ترک عوام نے اپنے اتحاد اور جذبۂ ایمانی کی بدولت اس فوجی بغاوت کو چند گھنٹوں کے اندر اندر کچل کر رکھ دیا۔
اب ہمارے ملک پاکستان میں سیاست دانوں، دانشوروں، کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے انداز میں اس کے تجزیے شروع کردیئے۔ کسی نے کہا: جمہوریت کے خلاف شب خون مارنے والوں کے خلاف ترک عوام کی کامیابی بہت اہم ہے۔ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں اور تاریک قوتوں کے سامنے بہادر ترک عوام کا ڈٹ جانا قابل تحسین ہے۔ کسی نے کہا: پاکستان میں فوج آئی تو مٹھائی بانٹی جائے گی۔ کچھ لوگوں نے ہمارے ملک میں یہ پوسٹر بھی لگوادیئے کہ جناب راحیل صاحب! اب آبھی جاؤ۔ کسی نے بیان دیا کہ: ترکی کے حالات کا موازنہ پاکستان سے نہ کیا جائے۔ کسی نے کہا کہ: ترکی میں ناکام بغاوت کے حوالے سے پاک فوج کے کردار کو زیر بحث نہ لایا جائے۔ کسی نے کہا کہ: یہ ترک عوام کی جمہوریت کے ساتھ انمٹ محبت اور وفاداری کا ثبوت ہے۔ کسی نے کہا کہ: یہ رجب طیب اردوان کی ملک کو ترقی دینے اور معاشی طور پر ملک کو مستحکم کرنے کی وجہ سے ہوا کہ عوام ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اس سے ملتے جلتے کئی پیغامات، بیانات اور کالم لکھے گئے۔
بہر حال ہر ایک نے اپنے اپنے فکر و خیال اور اپنے زاویۂ سوچ کے مطابق پیغام یا بیان اور تجزیہ پیش کیا۔ ہمارے خیال میں ترک عوام نے نہ تو صرف جمہوریت سے محبت کی وجہ سے اس بغاوت کو کچلاہے اور نہ ہی صرف ملکی ترقی کے پیش نظر اپنی فوج کے سامنے یہ سد سکندری بنی ہے، بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں جن کو ہمارے سیاست دان، کالم نگار، ہمارا میڈیا اور اس سے وابستہ اینکرز اور تجزیہ کار شعوری یا لاشعوری طور پر عوام سے چھپا رہے ہیں۔ ترکی کی حالیہ بغاوت کے پس منظر اور صحیح حقائق کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑا سا ماضی میں تاریخ کے اوراق میں جھانکنا ہوگا، جس سے واضح ہوگا کہ ترکی عوام میں اپنی فوج کے خلاف اتنا غم و غصہ اور جناب رجب طیب اردوان کی حکومت بچانے کے لیے اتنا عظیم قربانی کا سبب اور وجوہات کیا ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ رکھنے والے اہل علم و دانش یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے کہ خلافت عثمانیہ (خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ اور خلافت بنو عباس کے بعد) چوتھی بڑی خلافت تھی جو ۶۴۲ سال (۱۲۸۲ء تا ۱۹۲۴) تک قائم رہی، جس کے ۳۷ حکمران مسند آرائے خلافت ہوئے۔ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے اسلام دشمنوں اور خصوصاً فری میسن نے تین اہداف مقرر کیے:
۱: خلافت کو منتشر کرنا اور ایسا مستقل جمہوری نظام قائم کرنا جو کبھی واپس اسلام یا شریعت کی طرف نہ جائے۔
۲:دیندار لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تضحیک کرنا، انہیں شہید کرنا اور ان کی جگہ مغربی تعلیم یافتہ افراد کو حکومتی عہدوں اور مناصب پر مقرر کرنا۔
۳: ملک پر زیادہ سے زیادہ غیرملکی قرضوں کا بوجھ لادنا اور اس کے ذریعہ اپنی من مانی شرائط طے کرانا۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے انہوں نے سلطان وحیدالدین محمد سادس ۳۶ویں سلطان کو اس وقت کے شیخ الاسلام نوری آفندی اور وزیر اعظم احمد توفیق پاشا کے ہمراہ جلاوطن کیا، جو جلا وطنی کی حالت میں ۱۶؍مئی ۱۹۲۶ء کو اٹلی میں وفات پاگئے۔ ان کی جلا وطنی کے بعد ۱۹؍نومبر ۱۹۲۲ء کو نمائشی طور پر سلطان عبدالمجید آفندی کو خلیفہ بنایا گیا، بظاہر یہ خلافت عثمانیہ کے خلیفہ بنائے گئے، لیکن ان کے پاس اختیارات کچھ نہ تھے اور یہ وہی زمانہ تھا کہ یہود و نصاریٰ اپنے ایجنٹوں سے ملک کر خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے در پے تھے اور دوسری طرف متحدہ ہندوستان میں علمائے دیوبند اس خلافت عثمانیہ کو بچانے کی خاطر اپنے ہاں جلسے اور جلوس کے ذریعہ غم و غصہ کا اظہار اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے تھے کہ کسی طرح خلافت بچ جائے اور اس کا وقار، عزت و عظمت بحال ہو، حتی کہ متحدہ ہندوستان میں تحریک خلافت چلانے کی پاداش میں ہمارے اکابر پر غداری کے مقدمات بنے۔ یہ زمانہ ۱۹۱۸ء تا ۱۹۲۴ء کا ہے۔ ہمارے اکابر کی انہیں خدمات کی وجہ سے آج بھی ترکی بھائیوں کے دلوں میں پاکستانیوں کا حد درجہ احترام اور ان کی محبت جاگزیں ہے۔
قصہ مختصر خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالمجید کو بھی اپنے گھر والوں سمیت ترکی سے جلاوطن کرکے بذریعہ ٹرین سوئٹزر لینڈ پہنچادیا گیا اور ۳؍مارچ ۱۹۲۴ء کو انگریز کے پروردہ اور ان کے زرخرید غلام‘ مصطفی کمال پاشا نے ترکی کا انتظام و انصرام سنبھال لیا اور اپنے آقاؤں کی سپرد کی گئی خدمات کو بجا لاتے ہوئے اسلامی خلافت کے خاتمہ کا اعلان کیا، ملک کو سیکولر اسٹیٹ قرار دیا، نظام حکومت جمہوری قرار دیا اور اسلام کے ایک ایک شعار کو مٹایا۔ قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے پر پابندی، عربی میں اذان پر پابندی، نماز کی ادائیگی پر پابندی، حتی کہ اگر کسی کے پاس عربی تحریر کا ایک لفظ بھی ملتا تو اس پر بھی اُسے سزا ملتی۔ ترکی قوم پر یہ ظلم و جبر تقریباً ستر سال تک مسلط رہا، یہاں تک کہ ۱۹۹۵ء میں نجم الدین اربکان کے دور حکومت میں عوام کو کچھ سکون و اطمینان ملنا شروع ہوا تو ۱۹۹۶ء میں اس کی حکومت کی فوج کے ذریعہ چلتا کیا گیا اور اس کی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔
اسی کی جماعت کے ایک فرد ترکی کے موجودہ صدر جناب رجب طیب اردوان ہیں، جنہوں نے بڑی ذہانت، فطانت، صبر و تحمل، بردباری، حوصلہ مندی، جرأت و بہادری، بڑی حکمت و دانائی اور خاموشی سے اپنی عوام کی اسلامی اصولوں پر ذہن سازی اور جماعت سازی کرکے خدمت خلق اور قومی ترقی کے ذریعہ اپنے ملک کو اس کا کھویا ہوا مقام دوبارہ دلادیا۔
مصطفی کمال پاشا جن کو کمال اتاترک کہا جاتا ہے، اس نے ترکی کے مکمل نظام کو سیکولر بنایا، اس نظام کی حفاظت اور نگرانی کی ذمہ داری فوج کو دی گئی، عدالت کو اس کا معاون بنایا گیا، اس لیے اسلام کے نام پر کوئی بھی جماعت بنائی جاتی تو فوراً اس پر پابندی لگ جاتی، جیسا کہ ’’سعادت‘‘ و ’’فضیلت‘‘ جیسے نام کی پارٹیوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔
اس لیے جناب رجب طیب اردوان نے اپنی جماعت کا نام جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (ترقی و انصاف پارٹی) رکھا، تا کہ نام سے خائف ہوکر سیکولر لابیاں کہیں اس جماعت پر بھی پابندی نہ لگادیں۔
انہوں نے اپنی پارٹی کی بنیادی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’ہم جمہوری نظام کو تحفظ دیں گے، فوج کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، ترکی کی بقاء، خوش حالی اور تہذیبی ترقی کے بارہ میں اتاترک کے اصولوں سے انحراف نہیں کریں گے، چونکہ ملک کے شہریوں کی واضح اکثریت ۹۹فیصد مسلمانوں کی ہے، اس لیے جمہوری اصولوں کے مطابق اپنی پالیسیوں میں اکثریت کی مذہبی آزادی کا خیال رکھیں گے۔‘‘
(ترک ناداں سے ترک دانا تک، ص: ۱۸۸)

اور اپنی تقریروں میں ترکی کے شاعر ضیاء غوک اللب کے اشعار پڑھتے، جن کا مفہوم یہ ہے:
مساجب ہماری بیرکیں ہیں اور گنبد ہمارے ہیلمٹ ہیں
مینار ہمارے حراب (نیزے) ہیں اور نمازی ہمارے لشکر ہیں
اور یہ وہ مقدس فوج ہے جو اپنے دین کی حفاظت کرتی ہے

چونکہ اشاروں اور کنایوں سے انہوں نے ان اشعار کے ذریعہ قوم کو اپنی پالیسیوں اور مستقبل کے عزائم کی اطلاع دے دی تو قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ سیکولر لابی اور فوج نے ایک بار انہیں ان اشعار کے پڑھنے کی پاداش میں سزا سنا کر جیل بھیج دیا۔ ان کے حالات میں لکھا ہے کہ جب ان کو سزا سنائی گئی تو وہ جمعہ کا دن تھا، انہوں نے جامع مسجد سلطان فاتح میں نماز جمعہ ادا کی اور جیل میں داخل ہونے سے پہلے اپنے لوگوں سے یوں خطاب کیا:
’’اے میرے پیارو! میں تمہیں الوداع کہتا ہوں، صرف استنبول کے لیے نہیں اپنے ملک ترکی بلکہ عالم اسلام کو روشن صبح کا پیغام دیتا ہوں اور اس پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، تم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم آزمائش کی اس گھڑی میں مخلوق سے احتجاج کرنے اور اس سے مدد مانگنے کے بجائے اپنے رب کے حضور گریہ و زاری کرو، اپنے جذبات کا بے ہنگم استعمال کرنے کی بجائے ان کا آئندہ انتخاب میں بھرپور فیصلہ کن اظہار کرو۔‘‘
(ایضاً، ص: ۱۸۹)

اس کا نتیجہ تھا کہ آئندہ انتخابات میں پوری قوم نے ان کی جماعت کا بھر پور ساتھ دیا اور واضح اکثریت میں ان کی جماعت اقتدار میں آگئی۔
اتنی تفصیلات ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ترکی قوم نے جو ان کے ساتھ دیا ہے وہ اس لیے دیا ہے کہ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ امور مملکت میں اسلامی تعلیمات و ہدایات پر عمل زوال کا باعث نہیں بلکہ عروج و وقار کا ذریعہ ہے اور یہ کہ ہماری قومی و ملکی عزت اور ہمارے بین الاقوامی اعزاز و اکرام کا انحصار‘ اسلامی تشخص کے اظہار اور اپنے دین سے کامل وابستگی اور اس پر عمل کی پختگی پر ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ترکی میں حکومت اور عوام دونوں جناب رجب طیب اردوان کی بیدار مغز قیادت میں مشترکہ جد و جہد کی صورت میں خلافت اسلامیہ کے احیاء کے خواب کی عملی تعبیر کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔
اسرائیل جو ایک عرصہ سے فلسطینیوں کا قتل عام اور ان کا خون بہا رہا ہے، دنیا کے کسی ملک کا سربراہ اس کو فلسطینیوں کا قاتل کہنے کی اپنے اندر جرأت و ہمت نہیں رکھتا، لیکن جناب رجب طیب اردوان وہ واحد اسلامی ملک کا سربراہ ہے جس نے ان کے منہ پر ان کو فلسطینی بچوں کا قاتل کہا۔
اسرائیل نے جب ترکی کے ایک جہاز کو جو فلسطین کے لیے دوائیاں لے کر جارہا تھا، سمندر میں غرق کردیا تو جناب رجب طیب اردوان نے نہ صرف یہ کہ اس پر احتجاج کیا، بلکہ بین الاقوامی عدالت میں ان پر مقدمہ قائم کرکے اس کا ہرجانہ بھی ان سے وصول کیا۔ آج فلسطین کے لیے جو امداد جارہی ہے وہ صرف ترکی عوام اور جناب طیب اردوان کی کوششوں کی وجہ سے جارہی ہے۔
اس کے علاوہ پوری دنیا میں آج امریکہ کے غلط کو غلط کہنے والا کوئی ملک اپنے اندر حوصلہ نہیں رکھتا، یہ صرف جناب طیب اردوان ہی ہیں جو امریکہ کے غلط کو غلط کہہ رہا ہے اور برملا کہہ رہا ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ فتح اللہ گولن اور اس کا نیٹ ورک اس کا خفیہ کردار ہے، اس لیے جناب طیب اردوان نے امریکہ سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے اور اس پر امریکہ ان سے ثبوت مانگ رہا ہے۔
دنیا کا عجوبہ اور نیرنگی بھی دیکھیے کہ کل تک امریکہ نائن الیون کے خود ساختہ واقعہ میں اسامہ بن لادن کو ملوث قرار دے کر امیرالمؤمنین ملامحمد عمر رحمہ اللہ سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کررہا تھا، تو امیرالمومنین ملامحمد عمر رحمہ اللہ نے یہی بات فرمائی تھی کہ اگر اسامہ بن لادن اس واقعہ میں ملوث ہے تو اس کے ثبوت پیش کیے جائیں، ورنہ اسامہ بن لادن ہمارا مہمان ہے اور ہماری روایات کے خلاف ہے کہ بغیر ثبوت اور دلائل کے ہم اپنے ایک مہمان کو اس کے دشمن کے حوالہ کردیں۔ تو اس پر امیرالمومنین ملامحمدعمر رحمہ اللہ کی بات نہ سنی گئی، بلکہ ان کی اس ’’ناروا جرأت‘‘ اور ’’گستاخی‘‘ کی سزا افغانستان کی امارتِ اسلامی کو ختم کرکے دی گئی اور آج ترکی کی اس حالیہ بغاوت کے کرداروں کی حوالگی کا مطالبہ جناب طیب اردوان کررہے ہیں تو ان سے ثبوت مانگے جارہے ہیں۔ ترکی کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ثبوت تو ہم پیش کردیں گے، لیکن اپنے لیے آج یہ اصول کیوں بدل دیا گیا؟ امریکہ میں پرتعیش اور وسیع و عریض محل میں رہنے والے فتح اللہ گولن کو آج ہمارے حوالہ کیوں نہیں کیا جارہا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فتح اللہ گولن کون ہیں؟ ان کی تحریک کیا ہے؟ کس کے لیے یہ کام کرتے ہیں؟ اب یہ کہاں ہیں؟
خواجہ محمدفتح اللہ ۲۷؍اپریل ۱۹۴۱ء میں ترکی کے مشرقی صوبے ارضِ روم کے ایک گاؤں کوروکک میں پیدا ہوئے۔ مذہبی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکاری طور پر وہ امام و خطیب رہے۔ ۱۹۸۱ء میں وہ اس عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے، چونکہ وہ مقبول خطیب اور لکھنے لکھانے والے آدمی تھے، ۵۰؍ سے اوپر ان کے نام سے کتابیں منظر عام پر آئیں، مغربی طاقتوں نے فوراً اسے قبول کیا اور ان کے لیے امداد شروع کردی۔ ۲۸؍فروری ۱۹۹۹ء سے وہ علاج کے بہانے امریکہ میں مقیم ہے اور پوری دنیا میں انہوں نے اسکول و کالجز کا ایک نیٹ ورک قائم کیا ہے، جس کے بارہ میں ان کا کہنا ہے کہ: ’’ہم دنیا میں امن اور صلح ایسے لوگوں کی پرورش کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں جو تعلیم یافتہ، اچھی ناقدانہ سوچ رکھنے والے، انسانوں سے محبت کرنے والے اور اپنی صلاحیتوں کو لوگوں کی خدمت میں پیش کرنے والے ہوں۔‘‘
لیکن در حقیقت امریکہ، اسرائیل اور فتح اللہ گولن کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ان اسکولوں اور کالجز میں تعلیم اور ذہن سازی کے ذریعہ ایسے لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے لیے کام کرسکیں۔ ان کو اعلی تعلیم دلائی جاتی ہے، پھر ان کو اعلی عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے اور پھر اپنے مفادات کے لیے ان سے فیصلے کرائے جاتے ہیں۔ اس کی شہادت انقرہ سے روزنامہ جنگ کے مکتوب نگار فرمان حمید کے اس مضمون سے بھی ہوتی ہے:
’’امریکہ نے ترکی میں اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے فتح اللہ گولن خواجہ کی تحریک کی ہر لحاظ سے حمایت اور امداد کو جاری رکھا اور متحدہ امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے اس تحریک نے چند سالوں میں دنیا بھر میں اسکول قائم کرتے ہوئے اپنی اہمیت کو منوالیا۔۔۔۔ اس وقت عالم مغرب امریکہ اور ان کے حواریوں کو ایک مضبوط نہیں، بلکہ ایک کمزور پارٹی کی ضرورت ہے، تا کہ اردوان کے پاؤں میں زنجیریں ڈال کر ان کے تمام منصوبوں کو روکا جاسکے، جن پر انہوں نے عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے، مغربی ممالک اس مقصد کے لیے فتح اللہ گولن کو استعمال کررہے ہیں۔‘‘
(روزنامہ جنگ، کراچی، ۵؍فروری ۲۰۱۴ء)

ترکی میں اس نیٹ ورک کے پرورداؤں کو فوج، تعلیم، انتظامیہ اور عدلیہ کے محکموں میں خاص طور پر گھسایا جاتا ہے۔ ترکی کی حالیہ بغاوت میں انہیں اداروں کے افراد نے زیادہ حصہ لیا ہے۔
شنید ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں بھی ۳۰ سے زیادہ اسکول و کالجز اس نیٹ ورک کے ساتھ ’’پاک ترک اسکول اینڈ کالجز‘‘ کے نام سے کام کررہے ہیں۔ روزنامہ امت کے خبر ملاحظہ ہو:
’’ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے پس پردہ کردار ادا کرنے والے فتح اللہ گولن کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کی زنجیر پاک ترک اسکول پاکستان میں بھی مغربی نظریات کی ترویج میں مصروف ہے۔ ترکی سے تعلق کے باعث اسلام اور صوفی ازم کا تأثر دے کر پاکستانیوں سے کروڑوں کے عطیات بھی بٹورے جاتے رہے ہیں، ان تعلیمی اداروں میں طلبہ سے فیسیں بھی بڑے اسکولوں کے برابر وصول کی جاتی ہیں۔ اسلام آباد کا ہارمنی نامی پبلشنگ ہاؤس فتح اللہ گولن کی کتب شائع کرتا ہے۔ پاکستان میں گولن کی کتب پڑھانے کا خصوصی نظام موجود ہے۔ پاکستانی حکومت ان تعلیمی اداروں کے حوالے سے ترک حکومت کے احساسات کے مطابق کارروائی کرنا چاہتی ہے۔ پاک ترک اسکول سسٹم کے بارے میں یہ عمومی تأثر پھیلایا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ زیرتعلیم افراد میں مذہبی و صوفی ازم پر مبنی رجحانات کی تشکیل کی جاتی ہے۔ اسکول سسٹم سے آگاہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک ترک اسکولز کا نصاب بھی عام مغربی تعلیمی اداروں جیسا ہے اور تعلیمی کلچر بھی انہی کی طرح ہے، حتی کہ فیسیں بھی مغربی تعلیمی اداروں جیسی ہیں، فرق یہ ہے کہ پاک ترک اسکول سسٹم کی انتظامیہ کو ترکی سے نسبت کی بنیاد پر بہت سے مخیر پاکستانی عطیات دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسکول سسٹم کروڑوں مالیت کی عمارات کھڑی کرنے میں کامیاب ہوا۔ ذرائع کے مطابق پاک ترک اسکول بھی عموماً آکسفورڈ کا نصاب پڑھاتے ہیں اور وہ کیمبرج کے امتحانی نظام سے بھی وابستہ ہیں۔ مذہب یا صوفی ازم تو در کنار یہ ترک شناخت یا کلچر کے حوالے سے بھی کچھ نہیں کررہے، تاہم پاک ترک اسکولوں میں ترکی زبان کی لازمی تعلیم کی وجہ سے ترکی میں بچوں کے لیے روزگار کے امکانات ہیں۔ فتح اللہ گولن کی این جی او کے نام ترک بغاوت میں ملوث ہونے کے انکشافات کے بعد ان اسکولوں کے طلبہ کے لیے یہ امکان بھی ختم ہوگیا۔
’’امت‘‘ کے رابطے پر دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ ترکی کی طرف سے پاک ترک اسکول سسٹم کے بارے میں تشریش کے اظہار کے بعد دونوں برادر ملک باہم رابطے میں ہیں۔ پاکستان انقرہ کی حکومت سے مکمل تعاون کرے گا، تا کہ اس کی تشویش دور ہوسکے۔ اس ضمن میں مختلف آپشنز زیر غور ہیں۔ دوسری جانب پاک ترک اسکول سسٹم کے تحت پاکستان میں ۲؍درجن سے زائد اسکول کام کررہے ہیں۔‘‘
(روزنامہ امت، کراچی، ۲۶؍جولائی ۲۰۱۶ء)

بہر حال ترکی ہمارا باوفا دوست اور اسلامی برادر ملک ہے، ترکی کے صدر، وزیر اعظم اور ان کی حکومت مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور ان کے سامنے ڈٹ کر ان کی غلط کو غلط کہہ کر صرف ترکی کے لیے نہیں بلکہ عالم اسلام کی سربلندی اور تمام برادر اسلامی ممالک کی طرف سے فرض کفایہ ادا کررہی ہے۔ ترکی میں اسلامی بیداری کی لہر جو اٹھی ہے، اس پر ان کا تعاون کرنا، اخلاقی طور پر ان کی مدد کرنا اور ان کے جائز اور صحیح مطالبات کو پورا کرنا ہمارا اخلاقی و اسلامی فریضہ بنتا ہے، جو تحریک آج ترکی کے مسلم حکمرانوں کے لیے مشکلات کھڑی کررہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کل کلاں کو ہمارے لیے بھی مشکلات پیدا کرے، اس لیے پہلے سے ہی اس سوراخ کو بند کرنا اور اپنی حفاظت کو یقینی بنانا بہت ہی اہم اور ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ انتہائی تیقظ و بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کریں۔ دشمن کی مکاریوں اور پرفریب چالوں کا باریک بینی سے جائزہ لے کر ہر میدان میں ان کا توڑ کریں۔ ان شاء اللہ! اس سے جہاں عوام مجتمع ہوگی وہاں ہمارے اسلامی ممالک میں بھی استحکام آئے گا۔ اسی لیے اب ہمارے ملک پاکستان میں بھی ہمارے حکمران خلوصِ نیت سے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جد و جہد و کوشش کریں اور اپنی عوام سے کیے گئے وعدوں کا ایفاء کریں۔ ان شاء اللہ! اس سے جہاں عوام میں یکسوئی پیدا ہوگی، وہاں ملک بھی مستحکم ہوگا۔ إنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ.
و صلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین

بقلم: مولانا محمد اعجاز مصطفی
ماہنامہ بینات، ذوالقعدہ ۱۴۳۷ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں