بگٹی کے بعد روایتی سیاست دفن ہوگئی

بگٹی کے بعد روایتی سیاست دفن ہوگئی

نواب اکبر بگٹی کے اہم سیاسی کردار کا آغاز سنہ 2005 میں ہوا جب پاکستان کی مرکزی حکومت نے ساحلِ بلوچستان پر ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔
اس پر نواب صاحب نے ساحل اور وسائل کی حفاظت کا نعرہ لگا کر مزاحمت کا اعلان کیا۔ ایک سال کے دوران انھوں نے کئی بار مرکزی حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات کئے جو ناکام رہے۔ بعد ازاں 80 سال کی عمر میں انھوں نے روایتی بلوچ احتجاج کا طریقہ اپنایا اور پہاڑوں پر چلے گئے اور پھر کبھی نہیں لوٹے۔
آج پھر بلوچستان کا ساحل گوادر پاک چین اقتصادی راہدای کی وجہ سے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
نواب اکبر خان بگٹی جن کا بچپن کا نام شہباز خان تھا مشرقی بلوچستان کے دوسرے بڑے قبیلے بگٹی کے سربراہ تھے۔
اگرچہ انھیں ابتدائی دنوں میں سیاست کا شوق نہیں تھا لیکن سنہ 1947 میں برطانیہ کے زیر انتظام بلوچستان کی پاکستان یا انڈیا میں شمولیت کے سوال پر جو محدود ریفرنڈم ہوا اس میں انھوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔
وہ کہتے تھے کہ اس میں کوئی تیسرا آپشن ہی نہیں رکھا گیا تھا۔
سنہ 1950 کی دہائی میں انھوں نے اس طرح کی سیاست کی جو اشرافیہ کرتی ہے۔
سنہ 1958 میں وہ ڈاکٹر خان کی جماعت ری پبلک میں شامل ہوگئے اور فیروز کان نون کی کابینہ میں دفاع اور داخلہ کے وزیر مملکت مقرر ہوئے۔
مختصر وزارت کے دور میں ان کا واحد اور بڑا کارنامہ گوادر کی مسقط سے خریداری تھا۔ ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی وہ وزارت سے فارغ ہوئے اسی دور میں انھیں اپنے چچا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور سزائے موت سنائی گئی۔
ان کی ہنگامہ خیز سیاسی زندگی کا آغاز ون یونٹ ٹوٹنے اور سنہ 1970 کے عام انتخابات سے ہوا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یا مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے جب سنہ 1970 کے عام انتخابات کے نتائج قبول کرنے اور اقتدار بنگالیوں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تو نواب بگٹی ایک الٹرا بلوچ نیشنلسٹ کے طور پر سامنے آئے۔
انھوں نے ڈھاکہ جا کر شیخ مجیب الرحمان کی حمایت کا اعلان کیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد وہ مسلسل مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے ناقد رہے لیکن گورنر اور وزیر اعلیٰ بھی بنے۔
نواب بگٹی کی ہلاکت نے روایتی سیاست کو دفن کر دیا اور ایک زبردست مزاحمتی تحریک شروع ہوئی، بہت سے نوجوان پہاڑوں پر چلے گئے۔
امریکی کانگریس اور اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے اداروں نے بھی اس صورتِ حال کا نوٹس لیا۔
نواب بگٹی کی موت کے بعد جو احتجاج شروع ہوا حکمران اسے کوششوں کے باوجود ختم کرنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہے ہیں اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ حالات اب پہلے سے بہت بہتر ہیں۔

اکبر بگٹی کی دسویں برسی پر بلوچستان میں ہڑتال
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے متعدد علاقوں میں جمعے کو بلوچ رہنما اکبر خان بگٹی کی دسویں برسی کے موقع پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔
اکبر بگٹی 26 اگست 2006 کو سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہونے والے ایک فوجی آپریشن میں ہلاک ہوگئے تھے۔
ان کی دسویں برسی پر بلوچ رپبلکن پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی نے ہڑتال کی کال دی تھی جس کے نتیجے میں صوبے کے بلوچ آبادی والے متعدد علاقوں میں کاروباری مراکز بند رہے۔
اس موقع پر صوبے میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
اکبر بگٹی بلوچستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے علاوہ مختلف وفاقی محکموں کے وزیر بھی رہے۔
2005 میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے آغاز کے بعد انھوں نے ڈیرہ بگٹی اور گردونواح کے پہاڑی علاقوں کا رخ کیا جہاں 26 اگست 2006 کو تراتانی کے علاقے میں وہ ایک فوجی آپریشن میں مارے گئے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر ان کی ہلاکت کا مقدمہ تین سال بعد اکتوبر 2009 میں درج کیا گیا تھا اور مقدمے کے اندراج کے پانچ برس سے زیادہ عرصے بعد سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ ) پرویز مشرف اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز سمیت چھ ملزمان پر فردِ جرم عائد کر دی گئی تھی۔
اس آپریشن میں مارے جانے کے بعد بلوچستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا لیکن سرکاری حکام کا دعویٰ ہے کہ پہلے مقابلے میں اب بلوچستان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔

بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں