مزاح انسانی فطرت ہے

مزاح انسانی فطرت ہے

لطافت انسانی فطرت ہے۔ لطیف و پاکیزہ مزاح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح میں کوئی بات خلاف واقعہ یا مخاطب کی دل آزاری کا باعث نہ ہوتی تھی۔
مجدد وقت حکیم الامت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ ایک جامع کمالات ہستی تھے۔ آپ اپنی مبارک مجلس میں علمی حقائق، فقہی مباحث اور تصوف کے نکات عجیبہ ارشاد فرماتے، اس کے علاوہ اتباع سنت اور حاضرین کی نشاط طبع کے لیے کوئی لطیفہ یا مناسبت لفظی کا حامل کوئی ایسا ذومعنی جملہ بھی کبھی ارشاد فرمادیا کرتے جس سے پوری محفل زعفران زار بن جاتی۔ اِن جملوں میں مزاح اور ادب کی چاشنی ہوتی۔ آپ کی مجلس کے یہ لطائف و ظرائف جہاں پژمردہ چہروں کو پر رونق بناتے ہیں وہاں مردہ دلوں کو زندہ دلی بھی بخشتے ہیں۔
بقول رمزی اٹاری:
تری حاضر جوابی سے ہر اک مسرور ہوتا تھا
ترا سادہ سا فقرہ مصرع منشور ہوتا تھا

آپ کے چند لطائف جو باتوں کے دوران ارشاد فرمائے پیش خدمت ہیں۔

دَھول اور دُھول:
فرمایا کہ: ایک ذاکر شاغل شخص یہاں پر مقیم تھے جو اکثر وساوس کی شکایت کیا کرتے۔ میں ان کی تسلی کردیتا۔ پھر اس کا زور ہوتا اور میں سمجھا دیتا یہی سلسلہ چل رہا تھا۔ ایک روز میرے پاس آئے کہنے لگے اب تو جی میں آتا ہے کہ عیسائی ہو جاؤں۔ میں نے ایک دَھول رسید کیا اور کہا نالائق ابھی عیسائی ہوجا۔ اِسلام کو ایسے بیہودوں اور ننگ اسلام کی ضرورت نہیں، اٹھ کر چلے گئے بس دَھول نے اکسیر کا کام دیا، ایک دم وہ خیال دل سے کافور ہوگیا، اِس کے بعد پھر کبھی وسوسہ تک نہیں آیا۔ مزاحاً فرمایا کہ دَھول سے دُھول جھڑ جاتی ہے اور مطلع صاف اور بے غبار ہوجاتا ہے۔ یہ میرا اثر نہ تھا۔ شرعی تعزیز کا اثر تھا۔

غالب اور مغلوب:
خواجہ عزیز حسن صاحب رحمہ اللہ نے عرض کیا کہ میرے پاس یادگار غالب رکھی ہے۔ اگر آپ کبھی کبھی دیکھیں تو آپ کے پاس رکھ دوں۔ تو فرمایا کہ یہاں مغلوبوں کا ہی کلام دیکھنے سے فرصت نہیں غالب کا کلام کہاں دیکھیں۔

اخبار، احبار اور اعتبار:
فرمایا کہ اخبار کا تو اعتبار پہلے سے نہ رہا تھا۔ اب تو یہ افسوس ہے کہ احبار کا اعتبار بھی مشکل ہوگیا۔

تحریر: سعدیہ کنول
خواتین کا اسلام میگزین، نمبر ۶۹۹


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں