امریکہ: مسلمانوں کیخلاف ہیٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ

امریکہ: مسلمانوں کیخلاف ہیٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ

امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ہیٹ کرائم وارداتوں نے خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے۔
شکاگو میں مسلمان برقعہ پوش ماں بیٹی پر حملہ کیا گیا ان پر تھوکا گیا اور انہیں اسلامک اسٹیٹ کہہ کر تنگ کیا گیا۔ دو متاثرہ مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں ویسٹ راجرز پارک علاقہ میں نشانہ بنایا گیا ایک امریکی عورت نے انہیں ماڑا، غلیظ گالیاں دیں اور اسلام کو برا بھلا کہا۔
خواتین نے الزام عائد کیا ہے کہ شکاگو پولیس اس واقعہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی اور اس جائے وقوعہ پر کچھ امریکی نوجوان وہاں موجود تھے لیکن انہوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ جب امریکی عورت اسلام کو برا بھلا کہہ رہی تھی اور مسلم خواتین کو گالیاں دے رہی تھی تو یہ نوجوان ہنس کر متاثرہ خواتین کا مذاق اڑاتے رہے۔
سٹی یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم کے انچارج جہانگیر خٹک کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریریں ہیٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا سبب بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی معاشرے میں یکدم ہلچل پیدا ہونا تشویشناک ضرور ہے۔ سینٹر آن افریقن پالیٹیکس اور کولمبیا یونیورسٹی میں سوسائٹی کے ڈائریکٹر فریڈرک سی خارس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں نسلی تعلقات انتہائی بگاڑ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم امریکی تاریخ کے ایسے دور کا مشاہدہ کر رہے ہیں جب نسلی کشیدگیوں میں شدت آنے پر اکثر و بیشتر لاوا ابل پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر جگہ امریکی خون بہہ رہا ہے اور نسل پرستی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں ، مجھے نہیں لگتا کہ حالات جلد بہتر ہو جائینگے ۔
واشنگٹن ڈی سی کے اربن انسٹیٹوٹ میں جسٹس پالیسی سنٹر کی ڈائریکٹر نینی لاوجنی کا کہنا ہے کہ وائٹ ہائوس اور امریکی محکمہ پولیس کی جانب سے امریکہ میں مقیم مختلف کیمونیٹز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو حالیہ واقعات نے نقصان پہنچایا ہے۔
جارجیا سے رکن پارلیمان جان لوٹس کا کہنا ہے کہ بعض اوقات مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ امریکی معاشرے کے جسم پر نسلی تعصب کے گھائو اور داغ بہت گہرے ہیں جن سے ہمیں نمٹنا ہوگا۔
ڈیلس کے میئر مالک رالنگز کا کہنا ہے کہ نسلی مسائل نے ایک بار پھر قوم کو تقسیم کر رکھا ہے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم نے اس مسئلے کو بڑھنے اور بگڑنے کیوں دیا۔

اردو ٹائمز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں