حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم کا سفرنامہ تھائی لینڈ

حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم کا سفرنامہ تھائی لینڈ

آج اس تقریب کا مرکزی خطاب حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم کا درس بخاری تھا۔ مولانا نعیم نے حضرت والا کو دعوت خطاب دیتے ہوئے حاضرین مجلس کو بتایا کہ حضرت شیخ صاحب، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ الله کے تلمیذ رشید، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر، جامعہ فاروقیہ کراچی1967ء کے بانی اور تاحال شیخ الحدیث، حدیث شریف کی سند روایت میں آپ کے اور سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے درمیان27 واسطے ہیں۔ حضرت شیخ کی آج کے اس درس بخاری میں ایک امتیازی شان یہ بھی تھی کہ تھائی لینڈ کے اس دوردراز مدرسے میں بخاری شریف کے دونوں مدرسین حضرت شیخ کے شاگرد ہیں۔ بخاری جز اول کے مدرس بلا واسطہ شاگرد اور بخاری جز ثانی کے مدرس بواسطہ، حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید رحمہ الله، وہ بھی شاگرد۔

دورہ حدیث کے طالب علم مولوی لقمان نے بخاری شریف کی آخری حدیث مکمل سند کے ساتھ پڑھی، حضرت شیخ نے خطبہ پڑھ کر درس حدیث شروع فرمایا:
محدثین کے درمیان کلام ہوا ہے کہ اصح الکتب بعد کتاب الله صحیح البخاری کا مقام ہے یا مؤطا امام مالک رحمہ الله کا مؤطا امام مالک رحمہ الله کو تین وجوہات کی بنا پر بخاری شریف پر فوقیت حاصل ہے۔

امام مالک رحمہ الله کا محدث اور فقیہ ہونا علمائے کرام کے ہاں بغیر کسی اختلاف کے متفق علیہ ہے۔

امام مالک  کا زمانہ امام بخاری رحمہ الله کے زمانے سے مقدم ہے۔

امام مالک رحمہ الله مدنی ہیں، جب کہ امام بخاری رحمہ الله غیر مدنی ہیں، لہٰذا مدنی کو غیر مدنی پر فضیلت حاصل ہوگی۔

جب امام بخاری رحمہ الله کی تالیف منظر عام پر آئی تو علمائے کرام کی رائے بدل گئی، اب فیصلہ یہ ہوا کہ ”اصح الکتب بعد کتاب الله“ صحیح البخاری ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ امام مالک رحمہ الله نے مؤطا میں آثار صحابہ کو بھی بہت کثرت سے ذکر فرمایا ہے، مرفوع روایات اس میں کم ہیں، جب کہ امام بخاری رحمہ الله نے اس کا التزام واہتمام فرمایا کہ وہ اپنی صحیح میں احادیث مرفوعہ کو ذکر فرماتے ہیں، آثار صحابہ اور تعلیقات اس میں بہت کم ہیں۔ دوسری بات یہ کہ امام بخاری رحمہ الله نے سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی پوری حیات طیبہ کا نقشہ اپنی تالیف میں پیش فرمایا ہے۔ یہ تو ہوئی ایک بات۔

دوسری بات یہ ہے کہ پوری صحاح ستہ میں سہل الحصول اور استفادے کے لیے سب سے آسان سنن ترمذی ہے۔ امام بخاری کے تراجم معرکة الآراء ہیں، مشہور ہے کہ فقہ البخاری فی تراجمہ۔ اس کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں، ایک تو یہ کہ امام بخاری کی فقہاہت ان کے دقیق تراجم الابواب سے ظاہر ہوتی ہے، دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام بخاری اپنا فقہی نکتہ نظر اپنے تراجم میں بیان فرماتے ہیں۔ امام ترمذی رحمہ الله اپنی سنن میں سہل تراجم ذکر فرماتے ہیں اور ان تراجم کے تحت نقل کردہ احادیث کی مطابقت تراجم کے ساتھ بالکل واضح ہوتی ہے، اس کے علاوہ امام ترمذی حدیث نقل کرنے کے بعد اس کی فنی حیثیت اور اس کا مقام بھی ذکر فرماتے ہیں، ساتھ ساتھ فقہی اعتبار سے ائمہ فقہ کے مذاہب بھی ذکر فرماتے ہیں، چناں چہ علمائے کرام کے لیے سنن ترمذی سے استفادہ نہایت سہل ہے۔

تیسرا ایک مسئلہ یہ ہے کہ صحیح البخاری کے بعد حدیث کی صحت کے لحاظ سے مسلم شریف کا درجہ ہے، اس کے بعد تیسرا درجہ سنن نسائی کا ہے، چوتھے اور پانچویں درجے میں محدثین کی دو رائے ہیں، بعض کے نزدیک سنن ترمذی چوتھے نمبر پر اور سنن ابی داؤد پانچویں نمبر، بعض دوسرے حضرات کی رائے میں سنن ابی داؤد چوتھے نمبر پر اور سنن ترمذی پانچویں پر ہے سب سے آخری درجہ سنن ابن ماجہ کا ہے ۔

چوتھا ایک مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ الله نے صحیح البخاری کی پہلی روایت:” إنما الأعمال بالنیات… “ ذکر فرمائی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اس روایت کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں کل سات مقامات پر ذکر فرمایا ہے، چھے مقامات میں اس روایت کو مکمل ذکر فرمایا ہے، جب کہ پہلی مرتبہ ذکر فرماتے ہوئے ناقص ذکر فرمایا ہے، چناں چہ اس مقام پر ”فمن کان ہجرتہ إلی الله ورسولہ فھجرتہ إلی الله ورسولہ“ کا حصہ نقل نہیں کیا گیا۔ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ الله یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ”اعمال حسنة“ تو ہیں ہی خیر اور حسن۔ ان میں اگر کوئی نیت نہ بھی کی جائے تب بھی وہ درست اور قابل قبول ہوتے ہیں۔ اصل فکر اس کی ہونی چاہیے کہ نیت سیئہ سے اجتناب کیا جائے، اس لیے کہ نیت سیئہ کی وجہ سے اعمال اکارت اور ضائع ہو جاتے ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمدلله رب العالمین․

درس بخاری کے بعد حضرت والا نے دعا فرمائی اور مسجد سے تشریف لے گئے حضرت والا، فیصل احمد خان کے گھر ظہرانے کے لیے تشریف لے گئے، جب کہ حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کرام کی دستاربندی فرمانے لگے، ظہرانے سے فارغ ہو کر تمام حضرات گرامی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے، نماز ظہر سے فارغ ہو کر 2:30 بجے کے لگ بھگ ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہو گئے، آج4:10 پربینکاک سے جنوبی تھائی لینڈ کے شہر یالا کے لیے فلائٹ تھی، یالا شہر پہنچنے کے لیے بینکاک سے ہٹ یائی شہر تک فلائٹ ہے اور اس کے بعد تقریباً دو گھنٹے کا زمینی سفر یالا شہر تک۔

چناں چہ ہماری فلائٹ 5:35 منٹ پر شام کو ہٹ یائی پہنچی۔مقامی احباب استقبال کے لیے موجود تھے۔ بینکاک سے سفرکرنے والوں میں حضرات گرامی قدر کے علاوہ مولانا موسی صاحب مدیر مدرسہ، حاجی حنیف صاحب شوری بینکاک، مولانا عمر فاروق اور راقم شامل تھے، ہٹ یائی شہر سے یالا کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں چنا کے مقام پر پہلے سے طے شدہ پرو گرام کے تحت مقامی حضرات نے ایک مدرسے میں حضرات گرامی کی شام کی چائے ودیگر لوازمات کے ساتھ ضیافت فرمائی۔

حضرت والا گاڑی ہی میں تشریف فرمارہے، طلبائے کرام گاڑی کے قریب جمع ہو گئے، حضرت والا نے سب کے لیے دعا فرمائی، چائے کی بھی تعریف فرمائی، رات 8:30 بجے کے لگ بھگ قافلہ یالا پہنچ گیا، اہل مرکز اور علمائے کرام وطلبائے عظام نے پرتپاک استقبال فرمایا۔ حضرت والا عشاء کی نماز ادا فرما کر سونے لیٹ گئے، دیگر احباب گرامی قدر مرکز کی طرف سے دیے گئے عشائیہ میں شریک ہوئے، بعد ازاں نماز عشاء ادا کرکے آرام کرنے لیٹ گئے۔

اگلے دن صبح بروز اتوار8/ مئی تبلیغی مرکز یالا میں ختم بخاری شریف کی تقریب منعقد ہونا تھی، صبح ساڑھے آٹھ بجے تقریب کا آغاز ہوا۔ معمول کی کارروائی کے بعد 9:30 بجے حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب زید مجدہم کا خطاب ہوا، حضرت الأستاذ نے اپنے خطاب میں اس پرمسرت موقع پر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا اور طلبائے کرام سے فرمایا کہ ہمارا آپ سے رشتہ بہت قدیم ہے اور ہم اس خطے کو ” فطانی“ کے نام سے جانتے تھے۔1977ء میں آپ کے اس خطے سے تعلق رکھنے والے حضرت قاری عبدالرحمن فطانی رحمہ الله جامعہ فاروقیہ کراچی میں ہمارے ہم سبق وہم درس رہے ہیں، حضرت الاستاذ کے خطاب کے دوران حضرت شیخ الحدیث زید مجدہم تشریف لے آئے۔ حضرت والا کے تشریف لاتے ہی مولانا عبدالله خالد صاحب خاموش ہو کر منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ مقامی علمائے کرام نے حضرت والا سے اجازت چاہی کہ دورہ حدیث کے طلباء نہ صرف یہ کہ بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھیں، بلکہ مؤطا امام مالک کی بھی ایک حدیث پڑھ کر حضرت والا سے مؤطا امام مالک کی بھی اجازت کے متمنی ہیں، حضرت والا نے درخواست قبول فرمائی، چناں چہ دورہ حدیث کے طالب علم نے بخاری شریف کی آخری حدیث اور مؤطا امام مالک رحمہ الله کی ایک حدیث پڑھی، حضرت والا نے بینکا ک کے درس ختم بخاری شریف میں فن حدیث سے متعلق پر مغز خطاب فرمایا تھا، جب کہ یالا میں اصلاحی خطاب فرماکر طلباء وعلماء کو عمل کی طرف دعوت دیتے ہوئے اصلاح کی طرف متوجہ فرمایا۔ حضرت والا نے ارشاد فرمایا:

آج دنیا میں اہل باطل نے نئی نئی چیزوں کو بکھیر دیا ہے، آپ نئی روشنیوں کے چکر میں نہ پڑیں۔ اگر آپ کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کا اتباع کریں۔آج مولوی لوگ تصویریں بنواتے ہیں، مووی بنواتے ہیں ، آپ ایسا نہ کریں، آپ اپنے مقام کی قدر کریں، مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ ناقدری نہ ہو جائے۔ اگر آپ اس منصب کی قدر کریں گے تو آپ کام یاب ہوں گے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو آپ ناکام ہوں گے۔

حضرت والا نے مزیدارشاد فرمایا:
ہمارے ہاں تطفیف کا عمل جاری ہے۔ ہم امت سے بہت کچھ لیتے تو ہیں، مدرسے کی تعمیر کے اخراجات اور دیگر اخراجات امت سے وصول تو کرتے ہیں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم امت کو کیا دیتے ہیں اور ہمارے اندر کتنا جذبہ ہے امت کو دینے کا؟ ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے کہ ہم امت کو کیا دے رہے ہیں؟ وصلی الله علیہ وسلم۔

مدرسے کے اساتذہ کی درخواست پر حضرت والا نے اجازت حدیث مرحمت فرمانے کے بعد دعا فرمائی اور مسجد سے رخصت ہو گئے ،بعد ازاں حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے دستار بندی فرمائی۔

تقریب ختم بخاری شریف سے فراغت کے بعد حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مقامی استاذ فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی کے ساتھ اپنے ہم درس مولانا قاری عبدالرحمن صاحب مرحوم کے گھر ان کے بچوں سے ملنے کے لیے تشریف لے گئے، راقم بھی ساتھ تھا۔

آج مغرب کے بعد حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے مرکز کی شوریٰ کی درخواست پر عمومی مجمع کے لیے مرکز کی مسجد میں بیان فرمایا، جب کہ حضرت والا کی خدمت میں مقامی علمائے کرام حاضر ہوتے رہے۔

دس دس کی جماعت میں حاضر خدمت ہونے والے لگ بھگ 80 کے قریب علمائے کرام کو حضرت والا نے اجازت حدیث بھی مرحمت فرمائی اجازت ِ حدیث دیتے وقت حضرت والا دو باتوں کو بار بار تاکید سے ارشاد فرماتے رہے، پہلی بات یہ کہ آپ حضرات تقویٰ کا اہتمام فرمائیں اور دوسری یہ کہ دنیا میں سب سے اچھا کام وہ ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیا کرتے تھے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”إنما بعثت معلما“ میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ لہٰذا آپ حضرات درس وتدریس کے شعبے سے ہمیشہ وابستہ رہیں۔ تھوڑی دیر بعد رات کا کھانا تناول فرماکر نماز عشاء ادا فرما کر سو گئے۔

اگلی صبح 9 / مئی بروز پیر بینکاک واپسی کا سفر طے تھا، چناں چہ ناشتے سے فراغت کے بعد پونے نو بجے ہٹ یائی کے لیے روانگی ہوئی،روانہ ہوتے ہوئے گاڑی کو مدرسے کے اندر سے گزار لیا گیا، چناں چہ مرکز یالاکے احاطے میں واقع کئی منزلہ مدرسہ حضرت والا کے مشاہدہ میں آگیا۔ مدرسے کے احاطے میں دونوں جانب اساتذہ اور طلباء حضرت والا کے استقبال کے لیے قطار بنائے کھڑے ہوئے تھے۔ گاڑی ٹھہرائی گئی اور حضرت والا نے حاضرین کے لیے دعا فرمائی۔ بارہ سو طلباء پر مشتمل یہ عظیم مدرسہ نگاہوں میں لیے یالا سے رخصت ہو گئے۔ راستے میں سونکلا کے مقام پر ساحل سمندر پر ٹھہرنے کا انتظام مقامی احباب نے کیا ہوا تھا، سادے مگر لذیذ کھانوں کا اہتمام تھا، تمام احباب نے کھانا تناول فرمایا اور ہٹ یائی پہنچے ،ضروری کارروائی اور نماز ظہر سے فراغت کے بعد فلائٹ کے انتظار میں بیٹھ گئے، جہاز نے اپنے مقررہ وقت ڈیڑھ بجے دوپہر اڑان بھری اور الله تعالیٰ کے حکم سے مقررہ وقت 2:50 منٹ پر بینکاک ائیر پورٹ پر پہنچ گیا۔ ایئرپورٹ پر مولانا نعیم صاحب، مولانا حسین صاحب، مولانا ایوب صاحب اور حاجی صالح صاحب استقبال کے لیے موجود تھے۔

رہائش گاہ پر پہنچ کر حضرت والا آرام کے لیے لیٹ گئے۔ دیگر احباب گرامی عصرانے او رنماز عصر میں مشغول ہو گئے۔ رہائش گاہ پر استقبال کے لیے راقم کے والد محترم اور بچے بھی جذبات محبت لیے موجود تھے۔

آج حضرت والا سے درخواست کی گئی تھی کہ چوں کہ راقم کی اہلیہ بھی آپ سے بیعت کا تعلق رکھتی ہیں، چناں چہ حضرت والا گھر تشریف لائیں تو کھانا بھی تناول فرمائیں اور اہلیہ سے بھی پردے کے پیچھے سے گفتگو ہو جائے اور وہ براہ راست حضرت والا سے فیض یاب اور مستفید ہو ں۔ حضرت والا نے ضعف کے باوجود درخواست کو قبول فرماکر نہایت شفقت اور احسان کا معاملہ فرمایا۔ محترمہ والدہ صاحب نے بھی حضرت والا سے دعا کی درخواست فرمائی۔

ادھر تبلیغی مرکز مسجد المدنی میں حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے کچھ پاکستانی دوستوں کے ساتھ غیر رسمی مجلس قائم فرمائی اور بہت سی مفید باتیں ارشاد فرمائی۔ حضرت والا جب راقم کے گھر سے تشریف لائے تو یہ پاکستانی دوست حضرت والا سے مصافحہ کرنے کے لیے حاضر خدمت ہوئے، اس موقع پر حضرت نے فرمایا کہ الله کی محبت پیدا کر لو۔ ایک ساتھی نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی۔ حضرت والا نے ارشاد فرمایا:

درود شریف کی خوب کثرت کرو، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے درود شریف کی عادت ڈال لو، پھر دیکھنا سارے مسائل ان شاء الله حل ہوتے چلے جائیں گے اور درود شریف پڑھتے ہوئے رسول الله صلی الله لعیہ وسلم کے احسانات کا تصور بھی کیا کرو ۔ اس سے آپ علیہ السلام کی محبت میں اضافہ ہو گا انہی ساتھی نے دوبارہ عرض کیا کہ حضرت میرے ہاں اولاد نہیں ہے، اولاد کے لیے بھی دعا فرمائیں، حضرت والا نے جواب ارشاد فرمایا:

”درود شریف کی کثرت کرکے تو دیکھو، سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ان شاء الله۔“

اور پھر مزید فرمایا:
”دیکھو الله تعالیٰ رحمن بھی ہیں، رحیم بھی ہیں، ودود بھی ہیں اور وہ حکیم بھی ہیں، لہٰذا ان کے فیصلے پر ہمیں راضی بھی رہنا چاہیے، ہمارے لیے اس میں خیر ہوتی ہے۔“

انہی پاکستانی دوست کے گھر سے رات کا کھانا بھی آیا ہوا تھا۔ حضرت والا تو راقم کے گھر سے قیام گاہ پہنچ کر نماز عشاء سے فارغ ہو کر سونے کے لیے لیٹ گئے۔ جب کہ دیگر حضرات گرامی نے نماز عشاء کے بعد کھانا تناول فرمایا۔ پاکستانی دوست بھی شریک رہے، مولانا نعیم، مولانا ایوب اور مولانا حسین صاحبان کو بھی شریک کر لیا گیا، مولانا عمر فاروق صاحب بھی موجود تھے۔

10/ مئی بروز منگل صبح ناشتے کے لیے حضرت والا مدرسے کے مدیر مولانا موسیٰ کی درخواست پر ان کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت والا نے مولانا موسیٰ کو ہدیہ بھی عنایت فرمایا، مولانا موسیٰ نے بھی حضرت والا کو کھجور کا ہدیہ پیش کیا۔ ناشتے سے فراغت کے بعد حضرت والا قیام گاہ تشریف لے گئے اور مولانا عبیدا لله خالد صاحب مدیر صاحب کی درخواست کو قبول فرماتے ہوئے مدرسے تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے مدرسے کے اساتذہ کرام سے خطاب فرمایا۔ اپنے خطاب میں حضرت الاستاذ نے اساتذہ کو احساس ذمے داری کی طرف بہت شدت سے متوجہ فرمایا۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک ایک طالب علم پر طویل محنت درکار ہے ۔ آج کے یہ پودے، کل کے تناور درخت ہوں گے، جو کہ پھل دار ہو کر آپ کے لیے رفع درجات کا سبب اور ذریعہ ہوں گے۔

بعد ازاں حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے مدرسے کے طلبائے کرام سے بھی الگ خطاب فرمایا، جس میں طلباء کو احساس ذمے داری، ادب اور تقویٰ کی طرف خصوصیت سے متوجہ فرمایا۔ مولانا نے طلباء سے فرمایا کہ آپ مطالعہ کرنے کی عادت ڈالیں اور کتابوں کا مطالعہ کرنا سیکھیں، مطالعہ کرنا بھی سیکھنے کی چیز ہے، کتابوں سے دوستی پیدا کریں، کتاب بہترین رفیق ہے۔ مدرسے سے فارغ ہو کر مولانا قیام گاہ پر آرام کے لیے تشریف لے گئے۔ 12 بجے مولانا عبیدالله خالد صاحب راقم کے والد محترم، مولانا عمر فاروق صاحب، مولانا نعیم صاحب اور راقم کا بیٹا محمد احمد خاں، مولانا عبدالقادر کے مدرسے ”التربیة“ تشریف لے گئے۔ چناں چہ وہاں مولانا نے طلباء وطالبات سے تفصیلی خطاب فرمایا اور وہاں ظہرانہ بھی ہوا، بعد ازاں اقرا اسکول تشریف لے گئے، محترم جنید صاحب کا قائم کردہ اقرا مسلم اسکول بینکاک میں دینی ماحول کا حامل عصری تعلیم کا معیاری اسکول ہے، مولانا نے وہاں خطاب فرمایا۔شام کو حضرت والا قیام گاہ پر آرام فرماتے رہے۔ حضرت والا نے صاحب مکان حاجی صالح صاحب کو ہدیہ بھی عنایت فرمایا۔ ان کے داماد مولانا حسین ، مولانا نعیم او رمولانا ایوب کو بھی ہدیہ عنایت فرمایا۔ عشائیہ کی دعوت حاجی حنیف صاحب کے صاحب زادے اقرا اسکول کے پرنسپل مولانا صدیق صاحب کی طرف سے ان کے گھر پر تھی، حضرت والا توضعف کی وجہ سے قیام گاہ پر ہی آرام فرمارہے، دیگر حضرات گرامی قدر عشائیے میں تشریف لے گئے۔

11/ مئی بروز بدھ 7:55 منٹ پر حضرات گرامی قدر کی رنگون برما کی فلائٹ تھی، چناں چہ قیام گاہ سے نماز فجر ادا فرماکر5:30 بجے ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ الوداع کرنے والے احباب موقع پر موجود تھے، راقم کے والد صاحب اور بچے بھی موجود تھے۔ مصافحہ اور معانقہ ہوا اور دلوں کو سرور وراحت پہنچانے والے بزرگ ومکرم حضرات رخصت ہو گئے۔
وصلی الله علی النبی الکریم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین
(جاری)

ضبط وتحریر:مولانا فیصل احمد خاں
ماہنامہ الفاروق شوال المکرم1437ھ (جامعہ فاروقیہ کراچی)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں