شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوّر اللہ مرقدہ کے منہج تدریس پر ایک یادگار اور نایاب تحریر

چودھویں صدی کا شیخ الحدیث مولانا سید حسین احمد مدنی نوّر اللہ مرقدہ

چودھویں صدی کا شیخ الحدیث مولانا سید حسین احمد مدنی نوّر اللہ مرقدہ

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی  کی ذات ستودہ صفات میں جناب باری تعالیٰ نے وہ تمام خصوصیات اور کمالات جمع فرمائے تھے جن سے ایک ذات قدسی صفات کو آراستہ ہونا چاہیے ۔آپ کی جامع کمالات شخصیت کو دنیا مختلف پہلوؤں سے پہچانتی ہے ،چوں کہ آپ کی ذات علم و عمل، شریعت و طریقت کا مجمع البحرین تھی ،آپ کا قلب حامل شریعت اور آپ کا عمل تفسیر شریعت تھا ۔آپ کے فضائل علمیہ اور کمالات باطنیہ کی صحیح اطلاع یا تو خداوند قدوس ہی کو ہو سکتی ہے یا اُن اولیائے کرام اور علمائے ربانیین کو ہوسکتی ہے جن کو مبدأفیض نے چشم بصیرت عطا فرمائی ہے ،ہم جیسے کور چشم آپ کی ذات قدسی صفات کو کیا پہچان سکتے ہیں ؟دل نہیں مانتا اور مجبور کرتا ہے کہ جس قدر بھی ان ناقص آنکھوں نے دیکھا ہے اس کو بیان کیا جائے …لہٰذا تذکرہ کے طور پر، تسکین قلب کے لیے، چند سطریں تحریر کی جاتی ہیں۔

اَحقر نے چوں کہ آپ کے حلقہ درس میں کچھ تھوڑا سا زمانہ گزارا ہے اور آپ کے زبان فیض ترجمان سے قال اللہ و قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات سنی ہیں اور آپ کو علوم نبویہ کی مسندِ رفیع پر ان کی نشرو اشاعت کرتے ہوئے دیکھا ہے لہٰذا اس موضوع پر کچھ خامہ فرسائی کرنے کی جسارت کی جارہی ہے ۔
ابتدائی تعلیم
آپ کی ابتدائی تعلیم ٹانڈہ (ضلع فیض آباد)میں ہوئی، چوں کہ آپ کے والد مرحوم کو اولاد کی تعلیم و تربیت کا غیر معمولی اور بہت زیادہ خیال تھا ،اس وجہ سے آپ کی ابتدائی تعلیم بہت عمدہ ہوئی ۔قاعدہ بغدادی جناب والدہ مرحومہ کے پاس پڑھا،پانچویں سپارہ تک والدہ مرحومہ تعلیم دیتی رہیں اور اس کے بعد سے آخر تک والد مرحوم سے پڑھا ۔اس کے بعد فارسی پڑھی ،پھر اسکول میں داخل ہوگئے اور حساب ،جبرو مقابلہ ،اقلیدس ،جغرافیہ ،تاریخ ،مساحت عملی ،اردو ،فارسی…ان علوم میں 12 سال کی عمر میں مہارت حاصل کی ۔
روانگی دیوبند و آغاز عربی
اوائل صفر1309ھ میں آپ دیوبند تشریف لائے اور شیخ الہند  کی مسجد کے سامنے کوٹھی کے کمرہ میں اقامت فرمائی اور حضرت شیخ الہند  کے فرمانے پر حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نے میزان الصرف،شروع کرائی۔اس طرح سے آپ کی عربی تعلیم کا آغاز ہوا۔
دارالعلوم دیوبند میں علمی استفادہ
آپ نے صفر 1309ھ سے شعبان1316ھ تک دارالعلوم دیوبند میں رہ کر علمی استفادہ ماہر اساتذہ سے کیا ۔آپ نے اوقات مدرسہ کے علاوہ خارج اوقات میں بہت سی کتابیں اساتذہ سے پڑھیں اور بہت محنت وتوجہ سے علوم کو حاصل کیا ۔اس شغف اور پابندی کو دیکھ کر اساتذہ کرام نے اپنی عنایتیں زیادہ سے زیادہ مبذول فرمائیں،چناں چہ حضرت شیخ الہند  باوجود یہ کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ التدریس تھے اور آپ کے درس میں اُونچی کتابیں رہتی تھیں، لیکن آپ کو حضرت شیخ الہند نے ابتدائی کتابیں بھی پڑھائیں اور اکثر کتابیں، باوجود مصروفیات کے، خارج اوقات مدرسہ پڑھائیں۔آپ ہمیشہ امتحان میں اعلیٰ اور نمایاں نمبروں سے پاس ہوتے رہے۔ہر پرچہ امتحان کے مفروضہ نمبر اگر 20 ہوتے تو 21،22،23 نمبر حاصل فرماتے تھے اور نمبر50 ہوتے تو 51،52،53 نمبر حاصل فرماتے اور صدر اکے امتحان میں تو آپ نے75 نمبر حاصل کیے!!
اساتذہ کرام
آپ نے ساڑھے چھے سال کی مدت میں دارالعلوم دیوبند میں سترہ فنون کی سڑسٹھ کتابیں اپنے مشفق اَساتذہ کرام سے پڑھیں ،تفصیل اس طرح پر ہے:
1..حضرت شیخ الہند سے مندرجہ ذیل کتابیں پڑھیں:
دستور المبتدی ،زرّادِی ،زنجانی ،مراح الارواح ،قال اَقول، مرقات،تہذیب،شرح تہذیب ،قطبی تصدیقات،قطبی تصورات،مجسطی،مفید الطالیبین ،نفحة الیمن،مطول،ہدایہ اَخیرین ،ترمذی شریف ،بخاری شریف ،ابو داؤد شریف،تفسیر بیضاوی شریف ،نخبة الفکر،شرح عقائد نسفی،حاشیہ خیالی، موطا امام مالک ،موطا امام محمد۔
2..حضرت مولانا ذوالفقار علی صاحب  سے فصول اکبری۔
3..حضرت مولانا عبد العلی صاحب مرحوم مدرس دارالعلوم دیوبند سے مسلم ،نسائی شریف ،ابن ماجہ شریف ،سبعہ معلقہ،حمد اللہ ،صدرا ،شمس بازغہ، توضیح تلویح ، تصریح۔
4..حضرت مولانا خلیل احمد صاحب مرحوم مدرس دارالعلوم دیوبند سے تلخیص المفتاح۔
5..حضرت مولانا حکیم محمد حسن صاحب مرحوم مدرس دارالعلوم دیوبند سے پنج گنج ،صرف میر،نحومیر ،مختصر المعانی ،سلم العلوم،ملاحسن،جلالین شریف ،ہدایہ اولین۔
6..حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب مدرس دارالعلوم دیوبند سے شرح ملا جامی،بحث فعل کافیہ ،ہدایة النحو ،منیة المصلی ،کنز الدقائق ، شرح مائة عامل،اُصول الشاشی۔
7..حضرت مولانا غلام رسول صاحب مدرس مرحوم مدرس دارالعلوم دیوبند سے نوراالانوار،حسامی،قاضی مبارک، شمائل،ترمذی شریف۔
8..حضرت مولانا منفعت علی صاحب مرحوم سے میر زاہد، رسالہ،میر زاہد ،ملا جلال ،میبذی،خلاصة الحساب، رشیدیہ،سراجی۔
9..حضرت مولانا الحافظ احمد صاحب مرحوم سے شرح ملا جامی بحث اسم ۔
10..حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب مرحوم سے مقامات حریری ،دیوان متنبی۔
11.. حضرت مولانا صدیق احمد صاحب مرحوم (برادر بزرگ شیخ الاسلام نوراللہ مرقدہ)سے میزان الصرف ،ایسا غوجی ،منشعب ۔
12..1316ھ میں جب کہ آپ اکثر کتب درسیہ سے فارغ ہو چکے تھے تو آپ کے والد صاحب مرحوم نے مدینہ منورہ کے سفر کا ارادہ کیا چوں کہ آپ کی بعض کتب ادبیہ باقی رہ گئی تھیں ،اس وجہ سے آپ سفر کے لیے مکمل تیار نہ تھے ، اس وجہ سے مدینہ منورہ پہنچنے کے باوجود انتہائی مشغولیت کے، آپ نے ادبیات کی باقی ماندہ کتب کی تکمیل مدینہ منورہ کے مشہور اور معمر ادیب مولانا الشیخ آفندی رحمة اللہ علیہ سے کی۔
زمانہ طالب علمی میں خصوصی شغف
ابتدا میں آپ کو منطق اور فلسفہ سے بہت شغف رہا،چناں چہ صدرا کے امتحان میں آپ نے 75 نمبر حاصل کیے۔پھر آپ کو علم ادب سے شغف ہو گیا،یہاں تک کہ آپ کو مقامات حریری ،دیوان متنبی ،سبعہ معلقہ کے قصائد اور عبارتیں ازبر ہوگئیں۔اس کے بعد علم حدیث سے خصوصی شغف ہو گیا،اس طرح آپ کا دور طالب علمی علم حدیث کے انہماک ہی میں ختم ہوا،پھر یہ شغف بعد میں اس قدر بڑھا کہ آپ کی تمام عمر خدمتِ حدیث میں گزری۔اَواخر ذی الحجہ 1316ھ میں مناسک حج وغیرہ سے فراغت کے بعد جب مدینہ منورہ کو روانگی ہوئی تو منزل ’راغب‘کی شب میں آپ کو سرور کائنات علیہ الصلوٰة والسلام کی سب سے پہلے زیارت باسعادت نصیب ہوئی۔آپ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر قدموں میں گرگئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا مانگتا ہے؟تو آپ نے عرض کیاجو کتابیں پڑھ چکا ہوں وہ یاد ہو جائیں اور جو نہیں پڑھی ہیں ان کے متعلق اتنی قوت ہو جائے کہ مطالعہ میں نکال سکوں۔جناب سرورِکائنات علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا کہ:”یہ تجھ کو دیا“۔یہ اسی علمی شغف کا نتیجہ تھا کہ آپ نے آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم سے علم ہی کو طلب کیا اور آقائے نام دار نے آپ کو یہ نعمت عطا فرمائی۔اس علم کے ساتھ ساتھ آپ کی ذات قدسی صفات علم وہبی سے بھی آراستہ وپیراستہ ہوگئی۔
مدینہ منورہ میں درس وتدریس
اَواخر شعبان المعظم 1316ھ میں آپ علوم سے فراغت کے بعد مدینہ منورہ پہنچے ۔اس زمانے میں حرم محترم مسجد نبوی علی صاحبہ السلام میں اکثر علماء اعزازی طریقہ پر درس دیتے تھے ،چناں چہ عرب اور ہندوستانی طلباء کی پیہم خواہش پر آپ نے مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰة والسلام میں درس کا سلسلہ شروع فرمایا اور شوال1320ھ تک آپ کا حلقہ درس ابتدائی پیمانہ پر رہا۔اس کے بعد حلقہ درس بہت وسیع ہو گیا اور طلبہ کا ایک جم غفیر آپ کے گرد جمع ہوگیا۔اہل علم میں عموما اور علمائے حجاز میں خصوصا معاصرانہ چشمک کا مادہ زیادہ ہوتا ہے،اس لیے جب کوئی عالم آتا ہے تو اس کی طرف آنکھیں بہت اٹھتی ہیں،علمائے ہند چوں کہ عربی بولنے کے عادی نہیں ہوتے ،اس لیے بسا اوقات شکست کھا جاتے ہیں اور ان کے لیے میدان امتحان وامتیاز میں پیش قدمی کرنا ممکن نہیں ہوتا،چناں چہ جب علوم میں جدوجہد کرنے والے مشرقِ وسطیٰ،افریقہ ، چین،الجزائر،شرق الہند،کے تشنگان علوم کا اس قدر ہجوم ہوا اور حلقہ ہائے درس میں اس کی مثال نہیں ملتی تھی اور آپ کے زیر درس درسیات ہند کے علاوہ مدینہ منورہ، مصر، استنبول، کے نصاب کی کتابیں مثلا اجرومیہ، دھلان،کفرادی، الفیہ، ابن عقیل، شرح الفیہ، ابن ہشام، شرح عقود الجمان، رسالہ اِستعارات، رسالہ وضعیہ للقاضی عضد، ابن حجر ملتقی الابحر، دُرَر، شرح مجمع الجوامع للسبکی، شرح مستصفی الاصول، ورقات، شرح منتہی الاصول، مسامرہ، شرح مسامرہ، شرح طوالع الانوار، جوہرہ الفیہ(اصول حدیث)بیقونیہ ودیگر رسائل اصول حدیث وغیرہ ……یہ کتابیں تھیں۔آپ کا علمی حلقہ ترقی کرتا گیا اور افاضہ و استفاضہ کا حلقہ وسیع ہوتا رہا ،تو لا محالہ دیگر علماء میں رَشک و رقابت پیدا ہوئی۔ آپ کے حلقہ درس پر لوگوں کی نظریں اٹھتیں اور تنقیدات کا ارادہ کیا گیا، مگر ان لوگوں کو اس میں کام یابی نہ ہوئی، چوں کہ آپ کی تعلیم جید اور ماہر فن اساتذہ کے ذریعہ ہوئی اور پھر قدرت نے آپ کو دماغ و ذکاوت اور حفظ کا وہ اعلیٰ درجہ عطا فرمایا تھا کہ جس کی نظیر خود آپ ہی تھے،نیز آپ کوئی سبق بغیر مطالعہ کے نہ پڑھاتے تھے اور دن ورات کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف تین گھنٹے آپ آرام فرماتے تھے اور بقیہ وقت درس و مطالعہ میں گزرتا ۔اِدھر آپ کی عربی تقریر صاف، شستہ اور برجستہ تھی ،استعداد کامل ،مزید برآں محنت شاقہ فرماتے، نیز آپ نے درس میں ”علمائے خیر آباد“کا طریقہ اختیار فرمایا اور دوران درس اپنے سامنے کبھی کتاب نہ رکھتے ،بلکہ طالب علم کی قراء ت کے بعد مسائل پر تقریر فرماتے تھے، حالاں کہ علمائے مدینہ نہ صرف کتابوں کو دوران درس سامنے رکھتے تھے، بلکہ اس کی شرح بھی ہاتھ میں لے کر پڑھاتے تھے اور تقریر کے وقت عبارت شرح یا حاشیہ کی سُنادیتے تھے ۔

چناں چہ آپ نے اسی طرح روزانہ چودہ اَسباق کا درس دیا، جن میں کتب عالیہ حدیث و تفسیر،عقائدواُصول بھی شامل تھیں اور1326ھ تک مسلسل اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی شان کے ساتھ قائم رہا۔ان و جوہ کی بناپر آپ کی دَھاک بیٹھ گئی اور سب آپ کی علمی قابلیت کے معترف ہوگئے اور سب کو آپ کی مہارت تامہ کا قائل ہونا پڑا۔اس شان دار ترقی میں جہاں ان مادی اسباب کو دخل ہے،وہاں اصلی وحقیقی سبب پر بھی آپ نے عمل فرمایا، یعنی توجہ الی اللہ!․․․․․․چناں چہ آپ مواجہ شریف نبویہ علیٰ صاحبہاالصلوٰة والتسلیم میں حاضر ہوکر بہت روئے اور ان علوم دینیہ کے حاصل ہونے کی درخواست پیش کی اور آپ نے اپنی بے بضاعتی کا شکوہ کیا،دیر تک اسی حالتِ گریہ میں رہے اور واپس ہوئے،چند ہی قدم چلے تھے کہ قلب میں واقع ہوا،لاتقنطوامن رحمةاللہ!․․․․․․چناں چہ حق تعالیٰ نے آپ کو حجاز میں عزت وجاہ وہ عطا فرمائی جو ہندی علماء کو کیا بلکہ یمنی،شامی،مدنی علماء کو حاصل نہیں تھی،آپ کی شہرت عرب سے تجاوز کر کے دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی اور آپ کو24سال کی عمر میں’شیخ الحرم ‘ اور’شیخ العرب والعجم‘ کے معزز القاب کے ساتھ سرفراز کیا گیا اور ان اَطراف میں آپ ان القاب کے ساتھ مشہورومعروف ہو گئے․․․․․․
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
صدارت دارالعلوم دیوبند
1326ھ میں ایک ایسے مجمع میں، جس میں دارالعلوم کی علمی ترقی پر غور و خوض ہورہا تھا،حضرت مولانا حافظ احمد صاحب قدس اللہ سرہ نے حضرت شیخ الہند رحمةاللہ علیہ سے فرمایا کہ اگر مولوی انور شاہ صاحب کشمیری،مولوی سہول بھا گلپوری،مولوی سید حسین احمد مدنی،مولوی عبدالصمد کرت پوری وغیرہ یہ حضرات یہاں آکر جمع ہو جاتے تو دارالعلوم کی علمی ترقی بڑے اعلیٰ پیمانہ پر ہوتی۔حضرت شیخ الہندرحمةاللہ علیہ نے یہ بات بہت پسند فرمائی، اگر چہ اس بارہ میں سکوت فرمایا، لیکن کیا باطنی تصرف کیا کہ یہ سب اشخاص بغیر کسی ظاہری جدوجہد کے یکے بعد دیگرے دیوبند پہنچ گئے،لیکن مبدائے فیاض کو حسین احمد مدنی سے دوسرے وقت عظیم الشان کام لینا تھا، لہٰذا آپ مستقل طور پر دارالعلوم سے متعلق نہ رہ سکے، چناں چہ جب حافظ احمد رحمة اللہ علیہ کی خواہش کے پورا ہونے کا وقت آیا تو خداوند قدوس نے 1346ھ میں مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کو دارالعلوم دیوبند کی رفیع مسند علم پر مستقل طور سے جلوہ افروز فرمایا اور دارالعلوم دیوبند نے آپ کی سر پرستی میں جو علمی ترقی کی ہے ،وہ ظاہر ہے۔ دارالعلوم کی مسند علم پر دوسرے اکابر علمائے محدثین عظام جلوہ افروز ہے اور اس دور میں بھی دارالعلوم کے دارالحدیث میں حدیث کی شمع روشن ہوئی اور اس پر جاں نثار پروانے آئے اور انہوں نے اپنی جان شمع ہدایت پر نثار کی، لیکن خداگواہ ہے کہ اس مدنی محدث نے جب شمع حدیث روشن کی تو اس پر اس قدر پر وانوں کا ہجوم ہوا اور دارالحدیث علم و عرفان کے تاب ناک ستاروں سے اس قدر جگمگایا کہ دیوبند کی تاریخ میں اس کی نظیر ممکن نہیں ۔
درس حدیث
1346ھ میں سے قبل آپ نے دارالعلوم دیوبند میں مختلف اوقات میں متعدد اونچی کتابوں کا درس دیا اور ہزاروں تشنگان علوم کو سیراب کیا، لیکن 1346ھ سے آپ نے مستقل طور پر درس حدیث ہی دیا ۔31 سال کا یہ عرصہ دارالعلوم دیوبند میں علوم نبویہ کی خدمت میں گزارا ۔آپ نے صحاح ستہ میں امام بخاری (متوفی 256ھ)کی صحیح بخار ی اور اما م عیسیٰ ترمذی (المتوفیٰ 279ھ)کی سنن ترمذی، ان دو کتابوں کو اپنے درس کے لیے منتخب کیا۔

صحیح بخاری کی وجہ انتخاب تو ظاہر ہے کہ وہ بالا تفاق اصح الکتب بعد کتاب الله ہے ،رہا سنن ترمذی کو بقیہ کتب صحاح ستہ کی بجائے زیر درس رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ سنن ترمذی کی چند خصوصیات ہیں جو بقیہ کتب صحاح ستہ میں نہیں ہیں ۔
خصوصیات سنن ترمذی
روایات کو بیان کرنے کے بعد ان کے درجہ کو مصنف ذکر کرتا ہے، یعنی صحیح ،حسن ،غریب وغیرہ۔رُوات کے سلسلہ میں جرح و تعدیل کرتا ہے،اگر کسی راوی میں کوئی کمزوری ہے تو اس کو ذکر کرتا ہے ۔احادیث میں اگر کوئی لفظ نادر غریب الاستعمال آتا ہے تو اس کے معانی ذکر کرتا ہے ۔تعارض روایات کو دور کرتا ہے ،اگر روایات میں الفاظ فقہیہ ہوں تو مذاہب اربعہ کو ذکر کرتا ہے اور ماھو الراجح عندہ کو بیان کرتا ہے ،اگر کوئی راوی معروف بالکنیة ہے تو اس کا عَلم ذکر کرتا ہے ،ان کے قبائل کو ذکر کرتا ہے ،اس میں مکر رات بہت کم ہیں ،اس کے آخر میں کتاب العلل ہے ،چوں کہ ترمذی میں منافع بہت زیاد ہ ہے اور اس کی ترتیب ابواب فقہیہ پر ہے ،اس کے مصنف شافعی المسلک ہیں ،علمائے ہند حنفی ہیں ،اس وجہ سے ان روایات پر جو مذہب حنفی کے خلاف ہیں مکمل بحث کرنی پڑتی ہے اور حدیث فقہی انداز سے پڑھانے کے لیے سنن ترمذی کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں ،اس لیے سنن ترمذی کو بقیہ کتب صحاح ستہ پر فوقیت دی گئی ہے ۔
سلسلہ حدیث
روایت احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلوٰة والتسلیم کے سلسلہ میں اتصال سند من الراوی الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ضروری ہے ،اہل ہند کا سلسلہ سند حدیث شاہ ولی اللہ  پر ختم ہوجاتا ہے اور پھر شاہ ولی اللہ سے امام بخاری و ترمذی  تک ہے اور پھر تیسرا سلسلہ امام بخاری و ترمذی  سے آقائے نام دار جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے ۔شیخ الحدیث حضرت مولانا حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کا سلسلہ سند اس طرح ہے :
1..قال شیخنا الحسین احمد المدنی: ثنا المحمود حسن الدیوبندی ثنا القاسم النانوتوی ورشید احمد الگنگوہی قالا: حدثنا الشیخ عبد الغنی الدھلوی حدثنا الامام الحجة الشاہ محمد اسحاق الدھلوی ثنا عبد العزیز الدھلوی ثنا الشاہ ولی اللہ الدھلوی رحمھم اللہ تعالیٰ․
2..اخبرنا الشیخ حسین احمد المدنی عن الشیخ الاجل محمود حسن الدیوبندی عن مولانا رشید احمد الگنگوہی وعن الشیخ احمد سعید الدھلوی و مولانا احمد علی السھارنفوری، قدس اللہ اسرارھم،کلھم عن الامام الحجة الشاہ محمد اسحاق الدھلوی عن الشاہ عبد العزیز دھلوی عن الشاہ ولی الله الدھلوی قدس اللہ اسرارھم․
3..اخبرنا الشیخ الحسین احمد المدنی عن العلامة محمد مظھر نانوتوی ومولانا القاری محمد عبد الرحمٰن الفانی کلاھما عن الشاہ محمد اسحاق رحمہم اللہ تعالیٰ الیٰ آخرہ․
4..قال شیخنا الحسین احمد المدنی: اُروی ھذہ العلوم عن الشیخ الاجل مولاناعبد العلی وعن الشیخ الاجل مولانا خلیل احمد السھارنفوری کلاھما عن مولانا رشید احمد الگنگوہی ومولانا القاسم النانوتوی الیٰ آخرہ․
5..قال الشیخ الاجل السید حسین احمد المدنی اُروی عن مشیخة اعلام من الحجاز اجازة وقراء ة لاوائل بعض الکتب اجلھم شیخ التفسیر حسب الله الشافعی الملکی ومولانا عبد الجلیل برادہ المدنی ومولانا عبد السلام الداغستانی مفتی الاحناف بالمدینة المنورة ومولانا السید احمد البرزنجی مفتی الشافعیة بالمدینة المنورة رحمھم اللہ تعالیٰ․

راس المحدثین حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نورہ اللہ مرقدہ سے امیر الموٴمنین فی الحدیث امام بخاری و امام ترمذی رحمہم ا اللہ تعالیٰ تک سلسلہ سند مشہور و معروف ہے اور کتب مذکورہ میں طبع ہوچکا ہے اور امام بخاری و ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ سے آقائے نام دار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر حدیث شریف کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے ۔اس طرح سے حضرت مدنی  سے لے کر آقائے نام دار علیہ الصلوة والسلام تک سلسلہ سند متصل ہوجاتا ہے ۔
رعایت آداب علوم نبویہ
علوم نبویہ کی فضیلت کے سلسلہ میں قرآن حکیم میں متعدد آیات ہیں :

قال تعالیٰ:﴿یرفع الله الذین آمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات ﴾․

قال تعالیٰ :﴿قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون﴾․

احادیث مبارکہ میں بھی بیان فرمایا گیا ہے :قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: العلماء ورثة الانبیا․ وایضاً قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: یشفع یوم القیامة ثلاثة: الانبیاء، ثم العلما ء، ثم الشھداء․

آثار صحابہ میں بھی اس مضمون کو بیان فرمایا گیا ہے ؛قال علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ العلم میراث الانبیاء اور متعدد دلائل اس پر موجود ہیں ۔

لہٰذا ان علوم نبویہ کے عظیم الشان آداب ہیں،جن کی رعایت کرنا ہر معلم کو ضروری ہے ،چناں چہ شیخ الاسلام قدس اللہ سرہ ان آداب و علوم کی مکمل رعایت فرماتے تھے ،مختصر طور پر چند چیزیں پیش کی جاتی ہیں :

آپ کا مقصد درس علوم نبویہ سے شہر ت ،عزت و جاہ اور احترام نہ تھا، بلکہ آپ کا مقصد فقط جناب باری تعالی کا امتثال امرا ور خوش نودی تھا ،نیز آپ چاہتے تھے کہ علوم نبویہ کی نشر و اشاعت اعلیٰ پیمانے پر ہو،تا کہ امت میں علماء زیادہ تعداد میں پیدا ہو ں ،امت میں جہلاء کی تعداد کم ہو ،اللہ کے بندوں کو راہِ راست پر لایا جائے اور دین الٰہی و سنت نبوی کی خدمت کی جائے ۔

دوسری چیز معلم کے لیے ضروری ہے کہ معلم وہ طریقہ اپنے شاگردوں کے ساتھ اختیار کرے جو جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا صحابہ کے ساتھ تھا۔ چناں چہ آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ اس قدر شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے کہ جس کی نظیرملنا مشکل ہے۔

تیسری چیز معلم کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے متعلمین سے کسی معاوضہ واجر کا طالب نہ ہو، کما قال تعالیٰ: ﴿قل لا اسئلکم علیہ اجراً﴾ چناں چہ آپ نے مدة العمر اپنے کسی شاگرد سے کسی قسم کا طمع اور لالچ نہ کیا، بلکہ ﴿اِن اَجریَ اِلا علی الله ﴾پر عمل پیرا رہے۔

چوتھی چیز ضروری ہے کہ اپنے شاگردوں کو اخلاقِ حسنہ کی جانب رغبت دلائے اور سیئات سے بچنے کی تاکید کرتا رہے، چناں چہ آپ درس میں ہمیشہ سختی کے ساتھ ان دونوں باتوں کا حکم دیتے تھے، اگر کبھی ضرورت پڑتی تو ترش لہجہ میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرماتے، ایک طرف تو شاگردوں پر شفقت کا یہ عالم کہ ان کے جوتے تک سیدھے کرتے، دوسری طرف اگر کوئی خلاف شرع امران سے سر زد ہو جائے تو پھر عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹتا تھا۔

پانچویں چیز یہ ضروری ہے کہ شاگردوں کوموعظہ حسنہ کے ذریعہ سے نصیحت کرے، چناں چہ آپ ہمیشہ موعظہ حسنة ہی فرماتے تھے، نیر یہ بھی ضروری ہے کہ معلم متعلمین کی قوت اذہان کے موافق علوم بیان فرماتے، جس قدر کہ وہ تحمل کر سکیں، چناں چہ آپ بحکم آقائے نام دار صلی الله علیہ وسلم انا معشر الانبیاء، امرنا ان ننزل الناس منازلھم ونکلم الناس بقدر عقولھم، پر پوری طرح عمل فرماتے تھے۔

نیز یہ سب سے ضروری اور اشد ہے کہ معلم کے قول وفعل میں مطابقت ہو، دوسروں کو جس کی تعلیم دے تو پہلے خود اس پر عمل ہو۔

آپ کے پیش نظر چوں کہ قولہ تعالیٰ:﴿لم تقولون مالا تفعلون﴾ اور آقائے نام دار صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی: اشد الناس عذاباً عالم لم ینفع الله بعلمہ، وقال ایضاً: اشد الناس حسرة یوم القیامة رجلان رجل عالم علما فیری غیرہ یدخل الجنة بعلمہ لعملہ، وھویدخل النار لتضییعہ العمل بہ، یہ آیات واحادیث تھیں اور آپ ان احادیث کی تعلیم دیتے تھے، لہٰذا اسی بنا پر آپ کے قول وفعل میں اعلیٰ درجہ کی مطابقت تھی، آپ کا عمل تفسیر شریعت تھا، جس کو دنیا نے دیکھا، چوں کہ آپ کی زندگی کا ہر ورق سامنے تھا ،کبھی آپ کے قول وفعل میں تخالف نہ پایا۔

نیر علوم نبویہ کی نشر واشاعت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسرے اہل علم کا احترام کرے اور سلف صالحین سے عقیدت رکھے او راہل قبلہ کی تکفیر نہ کرے ،چناں چہ پوری زندگی اس پر عمل پیرا رہے۔ درس کے وقت ضحک، ہزل نہ ہوتی تھی، بلکہ حلم، وقار، رفق، مداراة کے ساتھ پیش آتے تھے، درس میں ہمیشہ باوضو رہتے تھے اور خوش بو استعمال فرماتے تھے، اس کے علاوہ تمام آدابِ علوم کو اختیار فرماتے۔
طریقہ درس
قراء ة حدیث کے بعد اسناد حدیث کے متعلق تحقیق فرماتے، رُواة پرفن اسماء الرجال کی حیثیت سے بحث فرماتے اور جرح وتعدیل فرماتے، مناسب موقع پر رُواة کے حالات بیان فرماتے، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین میں سے جب کسی صحابی کا ذکر آتا تو ان کی خصوصیات ذکر فرماتے، اس کے بعد متن حدیث کا مفہوم اس طرح سمجھاتے کہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتا تھا، حدیث میں جو مشکل الفاظ آتے تھے ان کی لغو ی تحقیق فرماتے، حدیث کے مراتب ، صحیح، حسن وغیرہ بیان فرماتے، اس حدیث پر اگر کوئی اعتراض وارد ہو تا تو اس اعتراض کو بو ضاحت بیان فرماتے اور اس کے چند قوی جوابات، جو مستند ہوں، بیان فرماتے تھے ، تعارض حدیث کو تو اس طرح دُور فرماتے کہ یقین کرنا پڑتا تھا کہ ان میں کبھی تعارض ہی نہ تھا، ہر حدیث کا صحیح اورعمدہ محمل بیان فرماتے، اگر کوئی حدیث کسی جگہ مختصراً بیان کی گئی ہے تو اس کی تفصیلی حدیث بیان فرماتے، تراکیب نحویہ ، تشریح مقامات، خصائص کتب، فن حدیث کی اصطلاحات کی تشریح ، علل احکام وامور شرعیہ کے عقلی ومشاہداتی دلائل ، صحابی کی احادیث مرویہ کی تعداد، وجہ تخصیص مذاہب ائمہ اربعہ، دیگر علوم وفنون کی اصطلاحات، فرضیت احکام کی تواریخ وشان نزول ، فرق حقہ وفرق باطلہ کے عقائد کی تشریح معہ دلائل، تفسیر آیات، تشریح معجزات، مستند قصص الانبیا، ابحاث متعلقہ ایمان، وجہ تسمیہ سورِ قرآنی، عصمت الانبیا، احوال ائمہ حدیث، شرائط معمول بھا محدثین، تراجم ابواب سے احادیث مرویہ کی مطابقت ، شعب ایمان وغیرہ کو بالتفصیل بیان فرماتے، اگر کوئی حدیث اختلاف مسئلہ سے متعلق آتی تو تفہیم حدیث کے بعد اختلافات ائمہ بیان فرماتے او رپھر ہر امام کے جملہ دلائل بلاتفصیل بیان فرماتے اور سب سے آخر میں مذہب حنفی کو قوی دلائل سے مزین فرماتے اور دلائل کو مع حوالہ جات بیان فرماتے، دیگر ائمہ کے دلائل کے چند قوی جوابات دے کر مذہب حنفیہ کو حدیث سے مطابق فرماتے تھے۔ اس وقت یہ معلوم ہوتا تھاکہ حنفی مذہب احادیث نبویہ کے بالکل مطابق ہے اور امام ابوحنیفہ کو تفقہ فی الدین میں دست گاہ کامل حاصل ہے۔

مراتب صحابہ وتابعین، وتبع تابعین، فقہ، حدیث، مذاہب، محدثین، اسامی محدثین، بُلدان، رواة حدیث و اوطانہم، اَنساب محدثین، کنیاتِ صحابہ، تابعین واتباعہم، قبائل رواة، اعمار محدثین وولادتہم ووفاتہم، القاب محدثین، فی الاسانید زیادة، الفاظ فقیہ بزیادة راوی، اولاد صحابہ ،علل حدیث، رواة شاذہ، الفاظ غریبہ کی تشریح، طبقات محدثین، ذکر مدلسین، مغازی رسول الله صلی الله علیہ وسلم وغیرہ جملہ لوازمِ درس حدیث کا آپ دوران درس التزام فرماتے تھے۔
خصوصیات درس
1..دَوران درس جب کسی پیغمبر کا اسم گرامی آتا تو”علیہ وعلی نبینا الصلوٰة والتسلیم“ فرماتے او راگر کسی صحابی کا نام تنہا آتا تو رضی الله تعالیٰ اور اگر سند حدیث میں دوسرے اکابر کے ساتھ آتا تو رضی الله عنہ وعنہم فرماتے اور اگر ائمہ مذاہب علماء واولیاءِ سلف کا نام آتا تو رحمہ الله تعالیٰ فرماتے، بشرطیکہ وہ اہل سنت والجماعت سے ہوں، اس پر پابندی سے خود بھی عمل فرماتے اور طلبہ کوبھی تاکید فرماتے تھے۔
2..دوران درس طلبہ جس قدر بھی سوالات کرتے آپ ان کے تسلی بخش جوابات عنایت فرماتے، حالاں کہ روزانہ اوقات درس کا ایک معتد بہا حصہ اس میں صرف ہوتا تھا، ان سوالات میں درس سے غیر متعلق سوالات بھی ہوتے، مگر آپ نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ جوابات دیتے، اس سے مقصد یہ تھا کہ متعلمین کو مسائل کما حقہ ذہن نشین ہو جائیں اور کسی قسم کا شک وشبہ نہ رہے، سوالات وجوابات کا یہ طولانہ سلسلہ آپ کے درس کے علاوہ اور کسی درس میں نہ ہوتا تھا۔
3..متعلمین سے دوران درس بے تکلفانہ خطاب فرماتے اور بحکم حدیث نبوی انما انا لکم مثل الوالد لولدہ انتہائی شفقت ومحبت سے پیش آتے اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ دارالحدیث میں مشفق باپ اپنی اولاد سے کھیل رہا ہے ، دوران درس کبھی کبھی مزاح بھی فرماتے تھے۔
4..آپ کے درس حدیث میں کأن علی رء وسھم الطیرَ کا منظر قابل دید ہوتا تھا، سب طلبہ ہمہ تن آپ کی تقریر کی طرف متوجہ رہتے تھے۔
5..دران درس آپ ہمیشہ باوضو رہتے اورخوش بو استعما ل فرماتے۔
6..بخار ی شریف جلد ثانی کتاب المغازی میں باب تسمیة من اہل بدر فی الجامع النبی محمد بن عبدالله الہاشمی صلی الله علیہ وسلم ایاس بن البکیر، بلال بن رباح مولیٰ ابی بکر القریشی الیٰ آخر ہلال بن امیة الانصاری پر سب طلبہ سے دعا کراتے تھے اوراس ک وجہ یہ ہے کہ لمحات میں مذکور ہے:ان الدعات عند ذکر ہم فی البخاری مستجاب۔
7..بخاری شریف جلد ثانی باب فضل فاتحة الکتاب کی دوسری حدیث کو پڑھانے کے بعد سورة فاتحہ کے ایک مخصوص عمل کی ان الفاظ کے ساتھ جازت دیتے تھے ” یہ میرا تجربہ ہے او رمجھے اس امر کی اجازت ہے اورمیں آپ حضرات کو اجازت دیتا ہوں۔“
8..صحاح ستہ کے مصنفین چوں کہ شافعی المسلک ہیں، اس وجہ سے مسائل فقہیہ میں احادیث صحاح حنفی مسلک کے مخالف ہوتی ہیں، اس وجہ سے حنفی مسلک کے اثبات میں بڑی دشواری پیش آتی ہے، آپ صحاح ستہ میں ہی ایسی احادیث نکال کر بتلاتے تھے، جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ حنفی مسلک منشائے حدیث کے عین مطابق ہے۔
9..کسی موقع پر اگر استشہاد کلام عربی کی ضرورت واقع ہوتی تو آپ متعدد اشعار اور بے شمار عبارتیں کتب لغت کی بلا تکلف بیان فرماتے، اس موقع پر یہ معلوم ہوتاتھا کہ لغت وادب کی کتابیں کھلی ہوئی اور آپ بلا تکلف انہیں پڑھتے جارہے ہیں۔
10..کسی جگہ پر اگر کسی فن کی کوئی بحث آجاتی تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو اس فن میں یدطولیٰ حاصل ہے۔
11.. درس کی احادیث میں جب آپ تلاوت حدیث فرماتے تو آپ پہلے یہ خطبہ مسنونہ پڑھتے تھے:”الحمدلله نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ، ونعوذبا لله من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاہادی لہ، ونشھد ان لا الہ الا الله وحدہ، ونشھد ان سیدنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، اما بعد ! فان اصدق الحدیث کتاب الله، واحسن الھدی ھدی محمد صلی الله علیہ وسلم، وشر الامور محدثاتھا، وکل محدثة بدعة، وکل بدعة ضلالة، وکل ضلالة فی النار“
اگر بخاری شریف ہوتی تو اس طرح پڑھتے:
وبالسند المتصل الی الامام الحافظ الحجة امیر المؤمنین فی الحدیث ابی عبدالله محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن بردزبة الجھنی البخاری
اور اگر ترمذی شریف ہوتی تو اس طرح پڑھتے:
وبالسند المتصل إلی الامام الحافظ الحجة امیر المؤمنین فی الحدیث ابی عیسی محمد بن عیسی بن موسی بن سورة الترمذی رحمھم الله تعالیٰ، ونفعنا بعلومہ آمین قال: حدثنا الخ․
12..اصح الکتب بعد کتاب الله صحیح بخاری شریف کے ختم کے موقع پر جب آپ اپنے مخصوص لہجہ میں آخری حدیث: حدثنا احمد بن اشکاب قال: حدثنا محمد بن فضیل عن عمارة بن القعقاع عن ابی زرعة عن ابی ھریرة رضی الله عنہم قال: قال النبی صلی الله علیہ وسلم: کلمتان حبیبتان الی الرحمن،خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان: سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم․کی تلاوت شروع فرماتے تو قلوب پر رقت طاری ہونے لگتی تھی اور آپ حاضرین پر روحانی توجہ فرماتے تو تمام لوگ زار وقطار رونے لگتے تھے اور دل کانپ جاتے تھے اور لوگ توبہ واستغفار اس طرح سے کرتے تھے گویا کہ دربارِ خداوندی میں حاضر ہیں اور رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی چاہ رہے ہیں اور اس موقع پر جو دعا مانگی جاتی تھی وہ مقبول ہوتی تھی۔ آنکھیں اشک بار، دل تڑپتا ہوا، زبان لڑکھڑاتی ہوئی، رونگٹا رونگٹا کانپتا ہوا، غرض مجمع ماہی بے آب کی طرح تڑپتا تھا او رتوبہ استغفار اور دعا کرتا تھا، عجیب منظر ہوتا تھا، اس کا بیان کس طرح سے کیا جائے، اس کے اظہار کے لیے الفاظ کہاں سے لائے جائیں۔ خدا گواہ ہے کہ دارالعلوم کے ہر دو رمیں بخاری ختم ہوئی ،مگر اس انداز کی ختم بخار ی کہاں؟ دارالعلوم کی تاریخ میں اس کی نظیر ملنا ممکن نہیں، روحانیت کا یہ عظیم الشان منظر شیخ الاسلام قدس الله سرہ کے ساتھ ختم ہو گیا، آپ کی وفات کے ساتھ تاریخ کا ایک دور ختم ہو گیا۔

مولانا محمد قاسم علی بجنوری
ماہنامہ الفاروق شوال المکرم1437ھ (جامعہ فاروقیہ کراچی)


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “چودھویں صدی کا شیخ الحدیث مولانا سید حسین احمد مدنی نوّر اللہ مرقدہ

  1. মোঃ জিয়াউল করিম আল জলিলী says:

    আল হামদুলিল্লাহ ভালো লাগলো

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں