حالیہ پھانسیوں میں دوراندیشی و فراخدلی سے کام نہیں لیا گیا

حالیہ پھانسیوں میں دوراندیشی و فراخدلی سے کام نہیں لیا گیا

ممتاز سنی عالم دین نے زاہدان کے خطبہ جمعہ پانچ اگست دوہزار سولہ میں بعض کرد سنی نوجوانوں کی پھانسی پر تنقید کرتے ہوئے ایسی پھانسیوں کے ’منفی اثرات‘ کے بارے میں وارننگ دی۔
’سنی آن لائن‘ نے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی کہ مولانا نے اپنے خطبہ جمعہ میں ’رجائی شہر‘ جیل میں گزشتہ منگل کو متعدد سنی شہریوں کی پھانسی دینے کے واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: حالیہ پھانسی کے واقعے میں ہمارے کچھ کرد سنی ہموطنوں کو پھانسی دی گئی، اس حوالے سے بہت سارے مسائل توجہ طلب اور قابل غور ہیں۔ فقہی نقطہ نظر سے قاتل کے علاوہ دوسرے افراد جو براہ راست کسی ناحق قتل میں شریک نہ ہوں، انہیں تعزیر دے کر قید کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ اگر توبہ کرکے اصلاح ہوجائیں، انہیں رہا کرنا چاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: ہمارا شکوہ یہ ہے کہ ان پھانسیوں میں خطے کے حساس حالات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ موجودہ حالات بہت ہی حساس ہیں اور ہمارے دشمن بدامنی پھیلانے کے مواقع ڈھونڈرہے ہیں، ایران میں امن مثالی ہے اور یہ بہت سارے ملکوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ متعلقہ حکام کو چاہیے تھا دوراندیشی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے اور دشمن کو غلط فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم نہ کرتے۔
انہوں نے مزیدکہا: اب بھی ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ان مسائل کو خیال رکھا جائے اور جو براہ راست کسی کے قتل میں ملوث نہیں ہیں، ان سے عفو و رحمت کا معاملہ کیا جائے۔ اسلام، انصاف اور رحمت و نرمی کا دین ہے۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگی قیدیوں سے معاملہ میں عفو و گذشت سے کام لیتے تھے۔

ملزمان کا مقدمہ کھلی اور عادلانہ عدالت میں سناجائے
صدر دارالعلوم زاہدان نے سیاسی پس منظر کے حامل ملزموں کے ٹرائل پر اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا: آج کل دنیا میں کسی بھی برادری میں ممکن ہے کوئی شخص انتہاپسندی کا شکار ہوجائے، ہمارے ملک ایران میں بھی شیعہ و سنی دونوں میں شدت پسندانہ خیالات رکھنے والے افراد پائے جاتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے ایسے لوگ جب گرفتار ہوتے ہیں، اگر براہ راست کسی قتل میں ملوث ہوچکے ہیں اور ان پر عائد الزام عادلانہ اور کھلی عدالت میں حسب آئین ثابت ہوجائے، پھر انہیں قصاص کیا جائے۔ آئین ایک قومی قرارداد ہے اور پوری قوم کا اس پر اتفاق ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: ہمارے لیے شیعہ وسنی کا فرق اہم نہیں، اسلام اور انسانیت کو مدنظر رکھ کر ہم موقف اختیار کرتے ہیں۔

شریعت کی کوشش ہے پھانسی کی سزا کم ہوجائے
فقہ اہل سنت کی رو سے پھانسی کی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز عالم دین نے کہا: فقہ اہل سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے اسلامی فقہ اور شریعت نے پھانسی کے حوالے سے بہت ہی احتیاط سے کام لیاہے۔ کسی کو تختہ دار پر لٹکانے سے متعدد مسائل جنم لیتے ہیں۔ پھانسی پانے والے کے گھروالوں اور بچوں کی لاوارثی و کسمپرسی کے علاوہ دشمنی بھی پیدا ہوجاتی ہے اور دلوں میں نفرت پرورش پاتی ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: پھانسی کے ناگوار نتائج و آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت اسلام نے پھانسی کی سزا کمترین حد تک پہنچانے پر زور دیاہے۔ جو قتل عمد کا ارتکاب کرتاہے، ڈاکہ زنی کرکے کسی کو قتل کرتاہے اس کا حکم ’قصاص‘ ہے۔ نیز شادی شدہ شخص اگر زنا کرے اور چار گواہ اس پر گواہی بھی دیں، پھر اس کا رجم کیاجاتاہے۔
انہوں نے مزیدکہا: شیعہ وسنی دونوں نبی کریم ﷺ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اسوہ ہونے پر متفق ہیں اور ان کے کردار سب کے لیے مثالی ہے۔ یہ دیکھا جائے حضرت علی کرم اللہ وجہہ جنگی قیدیوں سے کیسے برتاو رکھتے تھے؟ ’جمل‘، ’صفین‘ اور ’نہروان‘ کی جنگوں میں جہاں شدید لڑائی ہوئی تھی اور آخری معرکے میں خوارج مدمقابل تھے، آپؓ کا حکم یہ تھا کہ جو سامنے آئے صرف اسے قتل کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی بھاگ جائے یا اسلحہ زمین پر رکھ دے، اسے رہا کریں۔ انہوں نے حکم دیا زخمیوں کو نہ ماراجائے۔ حتی کہ خوارج کے قیدیوں کی رہائی کا حکم صادر فرمایا اور بعد میں مذاکرہ و مکالمے سے بہت سارے خوارج کو توبہ کراکے ان کی اصلاح کروائی۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سب کے لیے نمونہ ہے۔ مناسب ہے ایسے مسائل میں نرمی سے کام لیاجائے۔

سنی برادری پرامن رہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے آخر میں سنی برادری خاص کر دو درجن کے قریب پھانسی پانے والوں کے اہل خانہ اور متاثرین سے اپیل کی اس موقع پر اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور پرامن رہیں۔ انہوں نے کہا دشمنوں کو غلط فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیا جائے جو صرف اپنے ہی مفادات کی خاطر کوشش کررہے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں