اور اس کے نتائج و ثمرات

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (دوسری قسط)

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (دوسری قسط)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قیاس و رائے (فقہی بصیرت) کو خود بھی بعض مواقع میں استعمال فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی نہایت سیدھے سادے انداز سے اس طریقے کو سمجھایااور ان کی تربیت کی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے گوناگون شعبوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت جس انداز سے کی، اس کے کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیںؒ

حج کی ادائیگی
ایک صحابہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ: میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، وہ حج نہ کرسکی اور مرگئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لو کان علیھا دین أکنت قاضیہ؟ قال: نعم، قال: فاقضِ دَینَ اللہِ فَھُوَ أحقّ بالقضاء‘‘(۱)
’’تیری بہن پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اُسے ادا کرتا؟ بولا: جی ہاں۔ فرمایا: اس کو ادا کر، اللہ تعالی کا قرض اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کو ادا کیا جائے۔‘‘
یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے قرض کو انسان کے قرض پر قیاس کیا، یہ علت دونوں میں موجود ہے، ان میں سے ہر فرض کی ادائیگی ضروری ہے۔
اسی طرح خثعمیہ نامی ایک خاتون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض ہے، لیکن وہ بہت بوڑھا ہے، سواری پر بیٹھ نہیں سکتا، کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے، اس پر قرض ہوتا اور تم وہ ادا کرتیں تو کیا وہ کافی ہو جاتا؟ اس نے کہا: جی ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ کا قرض ادا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ (۲)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کو بھی فقہی بصیرت سے آشنا کردیا۔

میاں بیوی کی معاشرتی زندگی کا پہلو
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات عرض کی کہ: ایک دن میں خوشی میں تھا، میں نے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لیا (تو کیا روزہ جاتا رہا؟) ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غور کرو اگر تم نے روزے کی حالت میں منہ میں پانی لیا اور اسے منہ میں پھرایا، کلی کی، تو کیا ہوگا؟ بولے: یہ کوئی حرج کی بات نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا ہوا؟ روزہ پانی کے حلق سے اترنے سے ٹوٹے گا، اگر پانی حلق سے نہیں اترا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ (۳)
یہاں صرف بوسہ لینا، یہ صورت ایسی ہے جیسے منہ میں پانی ڈالا اور وہ حلق سے نیچے نہ اترا، روزہ برقرار رہا، علت دونوں میں یکساں ہے، لہذا جو حکم ایک کا ہے، وہی حکم دوسرے کا ہوگا۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ عرض کیا کہ: مالدار صدقہ خیرات کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، وہ آخرت میں ہم سے بازی لے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بھی یہ کرتے ہو۔ میں نے عرض کیا: وہ صدقہ کرتے ہیں، ہم صدقہ خیرات نہیں کرتے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے بھی صدقہ ہے، تمہارا راستے سے ہڈی اٹھانا صدقہ ہے، تمہارا گناہ سے بچنا بھی صدقہ ہے، تمہارا کمزور کی مدد کرنا صدقہ ہے، اور تمہارا اپنی بیوی سے ہمبستری کرنا صدقہ ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمیں اپنی شہوت پوری کرنے پر اجر دیا جاتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ذرا غور کرو اور دیکھو) اگر تم یہی کام اپنی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ کرتے تو کیا تم گنہگار نہ ہوتے؟ میں نے کہا: جی ہاں! تو کیا تم اپنے آپ کو شر و بدکاری سے نہیں روکتے ہو؟ اور کیا تم یہ نیک کام انجام نہیں دیتے ہو؟ (۴) اس حدیث میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیاس کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیاس کے طریقے سے ہی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی رہنمائی فرمائی۔

معاملاتی پہلو
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سفر میں کسی قبیلے میں اتری (اس زمانے میں ان میں مہمانداری عام تھی، لیکن قبیلہ والوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کھانے و غیرہ کانہیں پوچھا اور اس زمانے میں کسی ہوٹل و غیرہ کا کوئی رواج نہ تھا) اتفاقا اس قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، انہوں نے اس کے علاج کی کوشش کی، وہ سودمند نہ ہوئی، قبیلے کے کچھ لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان لوگوں سے بھی پوچھو، چنانچہ انہوں نے کہا: کیا تم میں کوئی سانپ کے کاٹے کا علاج جانتا ہے؟ ان میں سے ایک بولا: جی ہاں، میں جانتا ہوں، میرے پاس اس کا منتر ہے، لیکن تم نے ہماری مہمانداری نہیں کی، اس لیے ہم بھی بلا اجرت اس پر جھاڑ پھونک نہیں کریں گے، چنانچہ بکریوں کے ایک مختصر گلے پر معاملہ طے ہوگیا۔ وہ صحابی رضی اللہ عنہ گئے اور الحمد شریف پڑھ کر دم کیا، سانپ کا زہر اتر گیا، چنانچہ معاملے کے مطابق جو طے تھا وہ انہیں دیا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے کہا: یہ مال آپس میں تقسیم کرو، چنانچہ دم کرنے والا بولا: ابھی نہیں، بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر تقسیم کریں گے، چنانچہ مدینہ آکر حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو یہ قصہ بتایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ الحمد اس کا منتر ہے؟ (انہوں نے عرض کیا: الحمد شریف ہر مرض سے شفا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک کیا، یہ مال باہم تقسیم کرو اور میرا بھی اس میں سے ایک حصہ رکھو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (۵)
یہاں صحابی رضی اللہ عنہ نے منتر کے عوض اجرت کو دوا کے عو ض و اجرت پر قیاس کیا، اس لیے کہ علتِ جامعہ دونوں میں عوض و اجرت ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اجتہاد کی وجہ سے دوہرے اجر ملنے کی خوشخبری سنائی ہے۔ مذکورہ بالا حدیثوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نئے مسائل کے حل میں اجتہاد و نہایت کامیاب ترین طریقہ ہے۔ نیز اس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ اصول فقہ کے مبادی عہد رسالت ہی میں ظاہر ہوگئے تھے۔ (۶)

تجارت کے پہلو
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’لعن اللہ الیھود حرمت علیھم الشحوم فحملوھا فباعوھا‘‘ (۷)
’’یہودیوں پر اللہ تعالی کی لعنت اور پھٹکار ہو، (گردے، آنتیں، اور معدے کی)چربیاں ان پر حرام کی گئی تھیں (انہوں نے اس کو چھوڑا نہیں، انہوں نے ان سے مالی فائدہ اٹھایا) انہیں بیچا اور بیچ کر اس کی قیمت کھائی۔‘‘
چربی سے فائدہ اٹھانا حرام تھا، انہوں نے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھایا، یہاں دیکھئے ’’أکل‘‘ (کھانا) بھی (باعث) انتفاع تھا اور خرید و فروخت کرکے مالی فائدہ اٹھانا بھی (باعث) انتفاع ہے۔ دونوں میں علت (انتفاع) یکساں موجود ہے تو حکم بھی دونوں کا یکساں ہوگا۔

رنگ و روپ کا پہلو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے یہاں کالا بچہ پیدا ہوا ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! موجود ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے بتایا وہ سرخ ہیں، پھر سرور دو عالمﷺ نے اس سے پوچھا: ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! موجود ہے۔ سرور کونیں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا: ممکن ہے مادی کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہوگا۔(۸)
ملاحظہ فرمائیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ بیٹے کے رنگ و روپ کے اختلاف کو اونٹ کے رنگ و روپ کے اختلاف پر قیاس کیا اور آدمی کو بھی فقہی بصیرت کا ڈھنگ بتادیا۔
ؒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیاس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک چیز کا حکم اس کی نظیر سے پیش کر کے بتاتے تھے۔ (۹) چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تمہاری بیوی سے ہمبستری کرنا بھی صدقہ و خیرات کا حکم رکھتا ہے۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا ہمیں اس شہوت کی تسکین کرنے میں بھی اجر دیا جاتا ہے؟ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم یہ کام اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت کے ساتھ کرتے تو تم گنہگار نہ ہوتے؟ (معلوم ہوا جہاں نکاح کی علت نہ پائی جائے گی، وہاں یہ کام گناہ اور حرام ہوگا) صحابی نے عرض کیا: جی ہاں ہوتا، حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ: جس طرح تمہارا برے کام پر مواخذہ اور گناہ ہوگا، اسی طرح خیر کے کام پر اجر ملے گا۔ تو دیکھئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیاس کیا اور محظور کا مقابلہ مباح سے کرکے یہ واضح فرمایا کہ: جس طرح محظور کے ارتکاب پر گناہ اور محاسبہ ہوتا ہے، اس کے مقابل مباح کے ارتکاب پر اجر ملتا ہے۔

بصیرت کے استعمال کی ترغیب اور ہمت افزائی
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ دو آدمی جھگڑتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو، ان کے درمیان فیصلہ کرو، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے زیادہ اس کے حقدار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس کے باوجود تم کرو۔ انہوں نے عرض کیا: اس فیصلے پر مجھے کیا ملے گا؟ میں کیونکر فیصلہ کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے ٹھیک فیصلہ کیا تو تمہارے لیے دس نیکیاں ہیں اور اگر تم نے اجتہاد کیا اور اس میں بھول چوک ہوئی تو تمہیں ایک نیکی ملے گی۔ (۱۰) اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح سے مروی ہے۔

شرائط صلح کی پابندی میں قیدی صحابی رضی اللہ عنہ کی فقہی بصیرت
صلح حدیبیہ ۶ ہجری کے بعد حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ جب مشرکین کے چنگل سے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے تو صلح حدیبیہ کے شرط کے مطابق قریش نے دو آدمی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیخدمت میں بھیجے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شرط کے مطابق ابوبصیر کو واپس کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس کیا، جب مدینہ سے باہر نکلے تو ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک کو جان سے مارڈالا اور دوسرا بھاگ کر واپس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور ابوبصیرؓ کے کارنامے کی خبر کی، ابوبصیررضی اللہ عنہ ’’سِیفُ البحر‘‘ (ساحل سمندر) جاپہنچے۔ یہ خبر جب مکہ میں کچھ مسلمانوں کو لگی تو وہ بھی ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے جاملے اور مشرکین پر حملے شروع کیے۔ (۱۱)
ابوبصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی یہ کام اپنے اجتہاد سے کرتے رہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی نکیر اور گرفت نہیں کی، اس لیے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدود شرائط سے خارج تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ کے مسلمانوں کو جو خط ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے جاملنے کے لیے لکھا تھا، وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے نہیں لکھا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر بھی نہیں کی اور نہ حضور ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے کافر کو قتل کرنے پر کوئی گرفت کی اور نہ ان کے قیام ساحل سمندر پر کوئی باز پرس کی اور نہ ان سے جاملنے والوں پر کچھ گرفت کی، اس لیے کہ یہ ان کی فقہی بصیرت اور اجتہادی فکر و نظر کا نتیجہ و ثمرہ اور درست تھا۔

نماز کی امامت میں فقہی بصیرت
اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: قوم و قبیلے میں جو سب سے بڑا قاری ہو، وہ امامت کرے اور قرائت میں سب برابر ہوں تو جو اُن میں سنت کا سب سے بڑا عالم ہو وہ امامت کرے، چنانچہ دو ہم رتبہ اور قریب قریب میں سے ایک کو زیادہ بڑا قرار دینا اجتہادی امر ہے۔ (۱۲)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے یہ فرمایا کہ تم اپنی کمزور قوم کے امام ہو، لہذا کمزور ترین کی اقتدا کا خیال رکھو، کمزورترین کو جاننا اجتہادی طریقے سے ہی ہوسکتا ہے۔ (۱۳)

نماز میں شک اور فقہی بصیرت سے فیصلہ
اسی طرح نماز کے اندر شک میں مبتلا شخص کا ظنِ غالب پر عمل کرنا، یہ بھی اجتہادی امر ہے۔

امان و سفارش
اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دودھ شریک بھائی عبداللہ بن ابی سرح کا واقعہ ہے جن کے قتل کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا، پھر بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں ’’امان‘‘ دی اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاکر بیعت کی سفارش کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ اس کے قتل کا حکم دیا جاچکا ہے، کوئی اُسے آکر قتل کردے کچھ دیر رکے رہے، جب کوئی آگے نہ بڑھا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیعت کرلیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ’’امان دہی اور سفارش‘‘ اجتہادی کام تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نکیر نہیں کی۔ (۱۴)

میدان جنگ میں انتخاب امیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ موتہ ۸ھ میں لشکر روانہ کیا تو فرمایا تھا کہ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (۸ھ؍۶۲۹ء) شہید ہوجائیں تو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (۸ھ؍۶۲۹ء) کو امیر لشکر بنایا جائے، یہ شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (۸ھ) کو امیر بنایا جائے۔ یہ بھی شہید ہوگئے تو لشکر بغیر امیر لشکر رہ گیا۔ یہاں صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق اپنی فقہی بصیرت سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (۱۲ھ؍۶۴۲ء) کو امیر لشکر چن لیا، جب دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں اس امر کی اطلاع کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتہادی عمل کو درست قرار دیا۔ (۱۵)

طہارت میں پانی پر قادر نہ رہنے میں فقہی رہنمائی
۱: اسی طرح غزوہ ذات السلاسل ۷ یا ۸ ہجری میں سردی کی رات، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو احتلام ہوگیا، چنانچہ انہیں یہ ڈر ہوا کہ اگر میں نہایا تو ہلاکت کا خطرہ ہے، تیمم کیا اور صبح (فجر) کی نماز پڑھائی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس واقعہ کا تذکرہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’یا عمرو! صلیت بأصحابک و أنت جنب؟‘‘۔۔۔ ’’اے عمرو! تم نے احتلام کی حالت میں اپنے رفقا کو نماز پڑھادی؟‘‘ (حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) نہ نہانے کی میں نے وجہ بتائی اور عرض کیا: اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وَ لا تقتلوا أنفسکم ان اللہ کان بکم رحیما‘‘۔ (۱۶)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قیاس شرعی کو تسلیم کیا، نہ کوئی گرفت کی، نہ ملامت اور تقریراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اجتہاد اور فقہی بصیرت کو درست قرار دیا۔ (۱۷)
یہاں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے جان کی ہلاکت کی صورت کو تیمم کے جواز کی صورت پر قیاس کیا، کیونکہ دونوں صورتوں میں علت مشترکہ پانی کے استعمال پر قادر نہ رہنا ہے۔ (۱۸)
۲: ’’عن أبی سعید رضی اللہ عنہ أن رجلین تیمما و صلیا ثم وجدا ماءً فی الوقت فتوضأ أحدھما و عاد لصلاتہ ما کان فی الوقت و لم یعد الأخر فسألا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال للذی لم یعد أصبت السنۃ و أجزأتک صلاتک و قال للأخر أما أنت فلک مثل سھم جمع۔‘‘ (۱۹)
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے تیمم کرکے نماز پڑھی، پھر وقت کے رہتے رہتے پانی مل گیا، ایک نے وضو کرکے نماز لوٹائی اور دوسرے نے نماز نہیں لوٹائی، پھر ان دونوں نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں جاکر یہ واقعہ بیان کیا، اور اس کے متعلق حکم پوچھا۔ جس شخص نے نماز نہیں لوٹائی، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے سنت کے مطابق عمل کیا، تم نے جو نماز پڑھی وہ کافی ہوگئی، اور دوسرے شخص سے فرمایا: تم کو ثواب کا پورا حصہ ملے گا، یعنی تم نے دونوں نمازوں کا ثواب پایا۔ (اس نے اپنے اجتہاد کی وجہ سے دوہرا اجر پایا)۔‘‘

۳: عن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: یوم الأحزاب لایصلین أحد العصر الا فی بنی قریظۃ فأدرک بعضھم العصر فی الطریق، فقال بعضھم: لانصلی حتی نأتیھا، و قال بعضھم: بل نصلی لم یرد منا ذلک، فذکر ذلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فلم یعنف واحدا منھم۔‘‘ (۲۰)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق ۵ھ میں (جب جنگ ہوچکی) یوں فرمایا: تم میں سے ہر شخص عصر کی نماز نبی قریظہ کے پاس پہنچ کر پڑھے۔ اب نماز کا وقت راستے میں آپہنچا تو بعض نے کہا: ہم تو جب تک بنی قریظہ کے پاس نہ پہنچ لیں گے، عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے اور بعض نے کہا: ہم نماز پڑھ لیتے ہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہم نماز قضا کریں، پھر بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں اس واقعہ کا ذکر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر خفگی نہیں کی، ہر ایک کے عمل کو درست قرار دیا۔‘‘

عہد رسالت میں دو مجتہدین کی اجتہادی آرا
نماز کا وقت راستے میں ہوگیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم میں دو جماعتیں ہوگئیں، ایک نے راستے میں وقت پر نماز ادا کی، اور دوسری جماعت نے بنی قریظہ میں وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھی، دونوں کا انداز فکر و نظر جداگانہ تھا۔ ایک جماعت کی رائے تھی کہ نماز وقت پر ادا کرنے کا حکم ہے، لہذا نماز کا وقت راستے میں آگیا ہے، یہیں ادا کرنا ہے۔ دوسری جماعت نے بنی قریظہ میں جاکر نماز پڑھی، دونوں کی نیت بخیر تھی، اس لیے کسی پر ملامت و گرفت نہ کی۔ اس انداز تربیت سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ مجتہد ہر اس مسئلے میں جس میں نص موجود نہ ہو، اپنی فقہی بصیرت پر عمل کرسکتا ہے، اس کی رائے درست نہ ہو تو بھی اس سے مواخذہ نہ ہوگا، بلکہ حق کی جستجو میں جو کوشش کی ہے اس کا ایک اجر ملے گا، جیسا کہ دوسری حدیث سے ثابت ہے۔ (۲۱) قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ حدیث مذکور کی شرح میں رقم طراز ہیں:
’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ فروعی مسائل میں (مجتہد سے) بھول چوک معاف ہے۔ اور ان فروعی مسائل میں سے جس مسئلے (کے نتیجے) تک مجتہد کا اجتہاد اُسے پہنچائے، اس میں مجتہد کی ملامت و گرفت نہیں کی جائے گی، اس کے برعکس اصول کے مسائل (یعنی عقائد) میں معافی نہیں اور یہ مذکورہ بالا صورت میں جب صحابہ رضی اللہ عنہم کی نظر میں دلائل متعارض ہوگئے، چنانچہ نماز کو اپنے وقت پر پڑھنے کا حکم تو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نماز کو بنی قریظہ پہنچنے سے پہلے ادا کیا جائے۔ اور ’’أن لا یصلین أحد العصر الا فی بنی قریظۃ‘‘ کا حکم اس امر کو چاہتا ہے کہ نماز وقت نکلنے کے بعد بنی قریظہ میں پڑھی جائے، تو کون سے ظاہر کو مقدم کیا جائے، اور کون سے عام پر عمل کیا جائے؟ قاضی عیاض رحمہ اللہ (المتوفی ۵۴۴ھ) نے فرمایا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد بنی قریظہ تک پہنچنے میں جلدی کرنا تھا، نفس نماز کو مؤخر کرنا، اس میں سستی اور کوتاہی کرنا مراد نہ تھا۔ جس نے اس مفہوم کو لیا، اس نے نماز کے فوت ہونے کے اندیشے سے نماز وقت میں ادا کی اور جس نے ظاہر لفظ کولیا، مقصود کو نہ سمجھا، اس نے اس پر عمل کیا اور نماز مؤخر کی، تو اس حدیث میں دونوں مکاتب فکر کی دلیل موجود ہے۔ جو مکتب فکر ظاہری الفاظ پر عمل کا قائل ہے، اس کی بھی دلیل ہے اور جو مکتبہ فکر منشأ و مقصد (بات کی تہہ تک پہنچنے) کا خوگر ہے، اس کی بھی دلیل موجود ہے۔‘‘ (۲۲)
امام محی الدین یحیی بن شرف نووی رحمہ اللہ (المتوفی ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:
’’نماز کا وقت تنگ ہوجانے کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم میں نماز اپنے وقت میں ادا کرنے، یا اس میں اتنی دیر کرنے میں کہ قضا پڑھنی پڑے، اختلاف ہوا۔ اس اختلاف کا سبب یہ تھا کہ شریعت کے دلائل ان کی نظر میں متعارض ہوگئے، اس طرح کہ نماز کو وقت پر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ’’لا یصلین أحد العصرَ أو الظھرَ الا فی بنی قریظۃ‘‘ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ: بنی قریظہ کی طرف جانے میں جلدی کی جائے اور جلدی پہنچنے میں کوئی چیز مانع نہ ہو، محض نماز کی تاخیر مقصود نہیں، لہذا بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ’’لایصلین‘‘ کے معنی و منشأ کے پیش نظر وقت پر نماز پڑھی اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ظاہر الفاظ پر عمل کیا اور بنی قریظہ میں جاکر قضا نماز پڑھی۔ اس واقعے کا ذکر جب بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی فریق پر نہ گرفت کی، نہ ملامت کی، کیونکہ ہر فریق نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا، اس لیے اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوئیں: ۱۔ ظاہر الفاظ پر اور۲: قیاس رائے پر عمل کرنا، یہ دونوں درست ہیں۔ چنانچہ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی دلیل پوشیدہ ہے جو اجتہاد و قیاس کے قائل ہیں اور معنی و منشأ کا خیال رکھتے ہیں اور اس فریق کی بھی دلیل موجود ہے جو ظاہر الفاظ پر عمل پیرا رہتے ہیں، نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مجتہد کو اس کے اجتہاد پر عمل کرنے میں ملامت نہیں کی جائے گی، جب کہ اس نے حق کی جستجو میں اپنی پوری کوشش کی ہو۔‘‘ (۲۳)
اس حدیث پر علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (۷۵۱ھ) نے سیر حاصل بحث کی ہے، وہ بھی ہدیۂ ناظرین ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’فقہا کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ ان دونوں فریقوں میں سے کونسا فریق زیادہ حق سے قریب رہا ہے؟ فقہا کی ایک جماعت کہتی ہے: کہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے نماز مؤخر کی، وہ اپنے اجتہاد میں حق سے قریب رہے۔ اگر ہم ان کے ساتھ ہوتے تو ہم بھی ایسا کرتے، جیسے انہوں نے نماز مؤخر کی، اور ہم بھی بنی قریظہ میں نماز پڑھتے، تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم: ’’لایصلین أحد العصر الا فی بنی قریظۃ‘‘ پر عمل پیرا رہتے، فی الفور نماز نہ پڑھتے۔ اور فقہا کی دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ نہیں بلکہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے راستے میں اپنے وقت پر نماز پڑھی، انہوں نے سبقت کی فضیلت حاصل کی، اور دونوں فضیلتوں سے سرفراز ہوئے، اس لیے کہ انہوں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو: ۱۔ جلد از جلد پورا کرنے کی کوشش کی۔ ۲۔ اور اپنے وقت پر نماز پڑھنے میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا جوئی کی خاطر جلدی کی۔ ۳: پھر قوم کے ساتھ جاملنے میں بھی جلدی کی تو انہوں نے جہاد کی فضیلت بھی پائی، نماز کو اپنے وقت میں پڑھنے کی فضیلت بھی حاصل کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشأ کو پانے میں بھی کامیاب رہے۔ یہ جماعت دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ فقیہ نکلی اور خاص کر یہ نماز تو عصر کی نماز تھی، اور یہی صلاۃ الوسطیٰ ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صحیح صریح نص کی وجہ سے جس کا کوئی معارض نہیں اور اس میں کوئی طعن بھی نہیں۔ نماز عصر کی پابندی کرنے، اس میں تاخیر نہ کرنے، اس کو جلدی پڑھنے کے متعلق حدیث میں تاکید آئی ہے۔ اس کے متعلق یہ حدیث بھی موجود ہے کہ جس سے یہ نماز فوت ہوئی تو گویا کہ اس کے اہل و عیال اور مال سب برباد ہوگئے، اس کا عمل ضائع ہوگیا، پس جو تاکید اس نماز کے متعلق آئی ہے، اس جیسی تاکید اس کے سوا دوسری نمازوں کے متعلق نہیں آئی۔
بہر حال! جن حضرات نے نماز مؤخر کی، ان کے پاس بھی نماز مؤخر کرنے کا عذر موجود ہے، ان کو ایک اجر ملے گا، یہ اس لیے ملا کہ انہوں نے ظاہر نص کو نہیں چھوڑا، ان کی غرض اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل تھی، اسی لیے حق تک رسائی میں ان دونوں میں سے کوئی بھی خطا کار نہیں۔ بلکہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے راستے میں نماز پڑھی، انہوں نے دونوں دلائل میں موافقت اور تطبیق کی، دونوں فضیلتوں کو حاصل کیا، اس لیے ان کے لیے دو ہرا اجر ہے اور دوسرے حضرات بھی اجر کے مستحق ہیں۔‘‘ (۲۴)
آپ نے دیکھا کہ جس جماعت نے نماز وقت پر ادا کی، اس نے اپنی فقہی بصیرت سے گوناگوں اجر کس خوبی سے سمیٹے! یہی وہ راز ہے جس کی بنا پر فقیہ اللہ تعالی کے یہاں محبوب و پسندیدہ ہوتا ہے اور اس کا مرتبہ دوسروں سے بلند تر رہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی و حوالہ جات
۱: صحیح البخاری، ج۲، ص۹۹۱، کتاب الأیمان و النذور، باب من مات و علیہ نذر۔
۲: سنن النسائی، باب حج المرأۃ عن الرجل، ج۲، ص۴، طبع قدیمی کتب خانہ۔
۳: أبوداؤد، کتاب الصوم، باب القبلۃ للصائم، حدیث نمبر:۲۳۸۵، الحاکم، ج۱، ص۴۳۔
۴: مسند احمد، بیروت، المکتب الاسلامی، ج۵، ص۱۵۴۔
۵: صحیح البخاری، کتاب الاجارۃ، ۳/۱۲۱۔
۶: الوصول الی قواعد الاصول، ص۱۶۔
۷: صحیح البخاری، ج۴، ص۲۰۷۔
۸: بخاری، ج۷، ص۶۸، کتاب الطلاق۔
۹: أصول الجصاص، ج۲، ص۲۲۴۔
۱۰: مسند احمد، ج۴، ص۲۰۵۔
۱۱: صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۲۷۳۴۔
۱۲: أصول الجصاص، ج۲، ص۲۲۳۔
۱۳: ایضاً۔
۱۴: ایضاً۔
۱۵: ایضاً، ج۲، ص۲۱۶۔
۱۶: النساء: ۲۹۔
۱۷: سنن ابوداؤد، ج۱، ص۱۴۵۔
۱۸: سنن النسائی، کراچی، قدیمی، ص۷۵۔
۱۹: الاحکام، ج۵، ص۹۴۔
۲۰: ترجمہ مسلم، وحیدالزمان، ج۴، ص۱۳۶۔
۲۱: ایضاً۔
۲۲: اکمال المعلم، ج۶، ص۱۱۰، طبع دارالوفاء۔
۲۳: مسلم، ج۲، ص۹۶۔
۲۴: زاد المعاد، بیروت، مکتبہ ’’المنار الاسلامیۃ‘‘، ج۳، ص۱۳۱۔

(جاری ہے)

پہلی قسط
تحریر: مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی
بشکریہ ماہنامہ بینات۔ شعبان المعظم ۱۴۳۵ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں