رزق کی قدر دانی

رزق کی قدر دانی

کھانے پینے کی اشیاء کے تعلق سے اس فراوانی اور بہتات کے دور میں اس کی ناقدری اور بے حرمتی ایک عام سی بات ہو گئی ہے، بچے ہوئے کھانے کو محفوظ رکھ کر اس کے استعمال کو معیوب گردانا جاتا ہے؛ بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ مغرب کی اندھی تقلید نے جہاں اقدار کے بہت سارے پیمانے بدل دیے ہیں، اسی طرح کھانے کے بچانے اور اس کے پلیٹ میں رکھ چھوڑنے کو ایک مہذب عمل سمجھا جاتا ہے اور پلیٹ کی مکمل صفائی اور پلیٹ کے بقیہ ریزوں کے استعمال او راس کے کھا لینے کو حقیر ترباور کیا جاتا ہے اور خصوصاً شادی بیاہ کے موقع سے اسراف وفضول خرچی کے وہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں اور رزق کی بے حرمتی کے وہ مناظرہ نگاہوں سے گذرتے ہیں کہ الامان والحفیظ، اسراف وفضول خرچی کا ایک طومارہوتا ہے، مختلف کھانوں کی انواع نے تقاریب کے موقع سے رزق کی ناقدری کو بڑھا وا دیا ہے، مختلف نوع کے کھانے او رہر ایک سے کچھ چکھ لینے کی نیت نہ جانے کس قدر رزق کی بے حرمتی اور اس کی ناقدری کی وجہ بنتی ہے، اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ ہم رزق کی قدر کریں گے تو کتنے غریبوں کی بھوک کا علاج اور ان کے فاقوں کا مداوا ہو سکتا ہے او رکتنے نانِ شبینہ کے محتاج اور سسکتے بلکتے اور فاقہ زدہ گھرانوں کی خوشیاں عود کر آسکتی ہے۔

اس وقت پیسوں او رمال ودولت کی فراوانی میں جو ہم رزق کے ضیاع اور بے حرمتی کے نقوش پیش کر رہے ہیں، کبھی خدانخواستہ احوال زمانہ ہمیں کنگال اور بالکل غریب اور نہتا او رمفلس نہ کر دیں۔

ایک عربی ادیب محمد بن عبدالعزیز نے رزق کی حرمت اور پاس داری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے پڑوسی کو عصر کی نماز کے بعد کوڑے دان کے پاس اس میں سے کچھ لے کر اپنے گھر جاتے دیکھا، تو اس کو یہ اندیشہ ہوا کہ شاید یہ شخص محتاج اور نادار ہے او رمجھے اس کا پتہ بھی نہیں؛ چناں چہ میں نے اس سے ملاقات اور اس کے احوال کی جاں کاری اور کوڑے دان سے اسے کچھ اٹھاتے جو دیکھا تھا اس سے متعلق پوچھنے کا ارادہ کیا، جب میں اس سے ملاقات کی غرض سے اس کے پاس گیا تو وہ بہترین غنی اور مال داری کی حالت میں تھا، میں نے اس سے کوڑے دان سے کھانے اٹھانے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں نے کوڑے دان میں کھانے کے قابل کھانے کو پڑا دیکھا تو اس کا پھنکا ہوا ہونا اچھا نہیں لگا، میں نے اس کو بجائے اس غلیظ جگہ میں پڑے رہنے کے اس کے اکرام کو بہتر سمجھا۔

اس نے بتایا کہ ایک دفعہ میں فاقہ کی شدید حالت سے گزرا، نہ میرے پاس کوئی پیسہ تھا اور نہ مجھے کوئی کام مل پارہا تھا، میں صبح کام کی تلاش میں نکلتا اوارت میں کچھ کام نہ ملتا تو گھر آکر سو جاتا، میری بیوی اور بیٹی روزانہ اس انتظار میں ہوتی کہ میں کچھ لے آؤں اور ان کی بھوک کا مداوا کروں، جب معاملہ حد سے گزرنے لگا اور تین دن فاقہ میں گذر گئے تو میں نے بھوک مٹانے کی خاطر اپنی حسین وجمیل اور اکلوتی بیٹی کو فروخت کرنے کا ارادہ کیا، اس کو بنا سنوار کر بازار لے گیا، ایک دیہاتی کی نظر لڑکی پر پڑی، اس نے لڑکی کو دیکھا تو اسے پسند آگئی، اس نے مجھ سے لڑکی کے تعلق سے بھاؤتاؤ کیا ، چاندی کے بارہ ریال پر راضی ہو گیا، جیسے ہی میں نے درہم اس کے ہاتھ سے لیے اس کو لے کر کھجور کے بازار کی جانب دوڑ پڑا، پیٹ بھرنے کی خاطر کھجور کی ایک زنبیل دو ریال کے عوض خریدی اور ایک قلی کو اس کے اٹھانے کے لیے خرید لیا، بھوک کی شدت کی وجہ سے مجھے اس کے اٹھانے کی طاقت نہ تھی، میں اس سے پہلے گھر پہنچ گیا، گھر پہنچنے پر پیچھے جو دیکھا تو قلی نظر نہیں آیا، میں اس کی تلاش میں نکل پڑا، پھر میں نے سوچا: میں بازار جا کر دوسری کھجور خرید لیتا ہوں، میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ بقیہ ریال بھی گم ہو گئے تھے، مجھ پر بہت زیادہ مایوسی اور غم طاری ہو گیا، میں نے حرم شریف میں جانے کا عزم کیا،جب میں مطاف میں پہنچا تو وہ دیہاتی میری لڑکی کے ساتھ نظر آیا، میرے دل میں خیال آیا کہ جب یہ مکہ سے نکلے گا تو وہاں کسی گھاٹی میں گھات لگا کر اس کا قتل کرکے اس سے اپنی لڑکی کو آزاد کر لوں گا، میں طواف کر رہاتھا تو وہ مجھے نظریں چرا کر دیکھنے لگا، اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے مل گئی، بتاؤ یہ لڑکی کون ہے؟ میں نے کہا: یہ میری باندی ہے، اس نے کہا: نہیں! یہ تیری بیٹی ہے ۔میں نے اس سے پوچھا ہے، اس لڑکی نے کہا یہ میرے والد ہیں، اس نے کہا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا: ہم تین دن سے فاقہ سے تھے، موت کے اندیشے اور ہم تینوں کی ہلاکت کے خوف سے میں نے ایسا کیا، پھر میں نے لڑکی کی قیمت اور اس کے گم ہو جانے کے تعلق سے اس کو بتلایا کہ مجھ کو اس رقم سے کوئی نفع نہیں ہوا ، تو اس دیہاتی نے کہا: اپنی لڑکی لے لو اور آئندہ ایسا نہ کرنا، اس نے ایک تھیلی نکالی، جس میں تیس ریال تھے، اس میں سے تقسیم کرکے آدھے مجھے دیے۔

میں بہت خوش ہوا، اس کے لیے الله سے دعا کی اور اس کے فضل واحسان پر اس کے گن گائے او راپنی لڑکی کو لے کر کھجور خریدنے کے لیے بازار گیا تو مجھے وہ قلی نظر آیا، میں نے اس سے پوچھا: تم کہاں تھے؟ اس نے کہا: چچا جان! آپ تو جلدی جلدی چل رہے تھے، مجھے تو راستہ ہی نظر نہ آیا، میں نے آپ کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، تلاش بسیار کے بعد بازار واپس چلا آیا، میں نے کہا: وہ کھجور لے آؤ، جب ہم واپس ہو کر گھر میں داخل ہوئے اور برتن میں کھجور خالی کرنا چاہا تو وہیں مشک کے نیچے وہ درہم موجو دتھے، میں نے الله کا شکر ادا کیا او رمجھے یہ علم ہو گیا کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے، پھراس وقت سے یہ عزم کیا کہ ہمیشہ الله عزوجل کی نعمتوں اور اس کے رزق کی قدر دانی کروں گا۔ (القصة القصیرة ودورھا فی نشر رسالة الاسلام، الدکتور محمد فضل الله شریف)

یہ واقعہ رزق کی قدر دانی کے تعلق سے نہایت عبرت خیز ہے، رزق کی اہمیت کا نداز ہ فاقہ او ربھوک کی شدت میں ہی لگایا جاسکتا ہے؛ اس لیے رزق کی بے حرمتی اور ناقدری سے بچیں، اس کے ذریعہ غریبوں، مسکینوں اور بھوکوں کی بھوک مٹانے کا نظم کریں، شادی بیاہ، دعوتوں اور تقاریب کے موقع سے اور ہوٹلوں میں رزق کے ضیاع سے حفاظت کرکے ہزاروں بھوکے لوگوں کے پیٹ بھرے جاسکتے ہیں، اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ محض اپنی شان رکھنے کے لیے کھانے کے ضیاع اور الله کی نعمت کی ناقدری کرنے والے نہ بنیں ، الله کی ناراضگی او راس کی نعمت کی ناقدری کہیں اس کے غضب کے نزول کا سبب نہ بن جائے اور ہم سے بھی اس نعمت کی ناقدری کی وجہ سے وہ نعمت چھن نہ جائے اور ہمیں بھی برے اور بھیانک احوال سے گزرنا نہ پڑے۔

مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں