امام ابوحنیفہ اہل حدیث علماء کی نظر میں

امام ابوحنیفہ اہل حدیث علماء کی نظر میں

امام اعظم ابوحنیفہ اس امت کے منتخب اور چنندہ افراد میں شمار کیے جاتے ہیں، اپنے علم ، تقویٰ، عمل، اخلاق، تواضع وانکساری، جود وسخاوت، بلند نظری، مخلوق کی ہم درد وی غم خواری، پاکیزہ صحبت وعلم وعلماء کی بے غرضا نہ خدمت عظیم کی بنا پر الله تعالیٰ نے آپ کو عزت کے آسمان اور شہرت کے ثریا پر پہنچا دیا، آپ کی زندگی، آپ کی خدمات، آپ کی فکر نے بہت سوں کے لیے فکر وعمل اور غور وتدبر کے دروازے کووا کر دیا، آپ باتفاق امت مجتہد مطلق تھے اور ائمہ مجتہدین میں مختلف حیثیتوں سے آپ کو تفوق حاصل تھا، آپ کی مجتہدانہ رجال سازی نے مجتہدین کی ایک جماعت تیار کر دی، فقہ وحدیث میں گہری واقفیت نے فقہ کے دائرے کو بہت وسیع کیا اور ایک ایسی فقہ وجود میں آئی جس سے آج بھی امت کا سواد اعظم استفادہ کر رہا ہے ، آپ کی عظمت شان اور جلالت مکان کو بڑے بڑے اساطین علم وفضل نے تسلیم کیا ہے ، فقہ وحدیث کے تاج داروں نے آپ کو فقہ وحدیث کا امام اعظم مانا ہے اور آپ کی گونا گوں صفات اور علمی تبحر کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے، یہی نہیں کہ ائمہ احناف یا علمائے احناف نے ہی آپ کی سوانح تحریر کی ہے، بلکہ آپ کے سوانح نگاروں میں زیادہ تر فقہ مالکی اور فقہ شافعی کے متبعین اور پیروکار شامل ہیں، جنہوں نے صاف اور واضح لفظوں میں امام صاحب کے علمی کمالات اور ان کی صاف وشفاف زندگی کو تاریخ بناکر پیش کیا ہے، امام صاحب کے سوانح نگاروں میں زیادہ تر حضرات نے امام صاحب کے صرف ایجابی پہلو کو ذکر کیا ہے اور امام صاحب کی خدمات کا اعتراف کیا ہے، جب کہ بعض مصنفین نے، جیسے خطیب وغیرہ، ہر طرح کے رطب ویابس کو لکھ کر امام صاحب کے بعض نقائص کو ذکر کیا ہے اور بہت سے بے جا الزامات اور غلط خیالات کو امام صاحب کی طرف منسوب کیا ہے، جس کی کوئی دلیل اور صحیح سند کبھی پیش نہیں کی جاسکتی ، اسی کے ساتھ بہت سے منصف اہل علم اور مؤرخین نے امام صاحب کی طرف منسوب ان اعتراضات اور الزامات کا جائزہ لے کر امام صاحب کی طرف سے صفائی پیش کی ہے اور آپ کو ان الزامات سے بری ہونے کا سر ٹیفکیٹ دیا ہے۔

ہم یہاں پر امام صاحب پر جرح کی حقیقت کا مختصر جائزہ اور امام صاحب کے سلسلے میں چند اہل علم کی آرا کو نقل کرکے اصل موضوع کو شروع کریں گے۔

امام صاحب پر جرح کی حقیقت
امام صاحب کے بعض سوانح نگاروں نے امام صاحب کی طرف عقائد و فروعات سے متعلق بعض ایسی باتیں نقل کی ہیں جن سے امام صاحب بالکل بری ہیں، بہت سے منصف اہل قلم نے امام صاحب کی طرف سے دفاع کیا ہے اور اس کے جوابات لکھے ہیں ، امام صاحب کی طرف خلق قرآن ، قدر وارجاء وغیرہ کے الزامات لگائے گئے ہیں، شیخ طاہر پٹنی صاحب ”مجمع البحار“ اس کے متعلق فرماتے ہیں: امام ابوحنیفہ کی طرف ایسے اقوال منسوب کیے گئے ہیں جن سے ان کی شان بالاتر ہے ،وہ اقوال خلق قرآن، قدر، ارجا، وغیرہ ہیں، ہم کو ضرورت نہیں کہ ان اقوال کے منسوب کرنے والوں کا نام لیں، یہ ظاہر ہے کہ امام ابوحنیفہ کا دامن ان سے پاک تھا، الله تعالیٰ کا ان کو ایسی شریعت دینا جو سارے آفاق میں پھیل گئی اور جس نے روئے زمین کو ڈھک لیا اور ان کے مذہب وفقہ کو قبول عام دینا ان کی پاک دامنی کی دلیل ہے، اگر اس میں الله تعالیٰ کا سر خفی نہ ہوتا نصف یا اس سے قریب اسلام ان کی تقلید کے جھنڈے کے نیچے نہ ہوتا۔ (مجمع البحار بحوالہ امام ابوحنیفہ ور ان کے ناقدین، ص:52)

امام صاحب پر جس طرح کا بھی جرح کیا گیا ہے اس کی حقیقت معاصرانہ چپقلش، غلط فہمی اور جہالت، یا تعصب وحسد ہے، ورنہ امام صاحب کی زندگی ان الزامات سے آئینہ کی طرف صاف وشفاف ہے، مولانا سرفراز خان صفدر صاحب ”مقام ابوحنیفہ“ میں اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

حضرت امام ابوحنیفہ کے بارے میں جن جن حضرات نے کلام کیا ہے یا تو وہ محض تعصب اور عناد وحسد کی پیداوار ہے، جس کی ایک پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں ہے اور بعض حضرات نے اگرچہ دیانةً کلام کیا ہے، مگر اس رائے کے قائم کرنے میں جس اجتہاد سے انہوں نے کام لیا ہے وہ سرسرا باطل ہے، کیوں کہ تاریخ ان تمام غلط فہمیوں کو بیخ وبن سے اکھاڑ رہی ہے، اس لیے ان حوالجات سے مغالطہ آفرینی میں مبتلا ہونا یا دوسروں کو دھوکہ دینا انصاف ودیانت کا جنازہ نکالنا او رمحض تعصب اور حسد وغیبت جیسے گناہ میں آلودہ ہونا ہے۔ ( مقام ابی حنیفہ ص:272)

خطیب نے عبد بن داؤد کے حوالے سے نقل کیا ہے:
”الناس فی أبی حنیفة رجلان: جاھل بہ، وحاسد لہ․“
امام صاحب کے سلسلے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں یا تو امام صاحب کے فضل وکمال سے ناواقف ہیں یا ان سے حسد کرتے ہیں۔ (تاریخ بغداد:13/346)

خطیب کے جرح کی حقیقت
امام صاحب پر جن لوگوں نے جرح کیا ہے او رامام صاحب کی طرف مطاعن ومعایب کو منسوب کیا ہے اس میں سر فہرست خطیب بغدادی ہیں، بعد میں زیادہ تر حضرات نے خطیب کی عبارتوں سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن خطیب کے جرح کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ خطیب نے مدح وذم کی تمام روایات کو ذکر کرکے اپنے مؤرخانہ فریضہ کو انجام دیا ہے، اس میں انہوں نے روایت کی صحت وغیرہ پر زور نہیں دیا ہے ، خود خطیب ان کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی یہ خطیب کی اپنی رائے تھی، بعض جرح کو نقل کرکے خطیب نے امام صاحب کا دفاع بھی کیا ہے، مثلاً جنت وجہنم کے غیر موجود ہونے کی جرح نقل کرکے خطیب کہتے ہیں: قول بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ خودراوی ابو مطیع اس کا قائل تھا، ابوحنیفہ نہ تھے، جب کہ بہت سے حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ یہ خطیب کی اپنی رائے نہیں، لیکن خطیب کو ان اقوال کے نقل کرنے سے احتراز کرنا چاہیے تھا، انہو ں نے امام صاحب کے متعلق ان باتوں کو لکھ کر گویا اپنی کتاب کی استنادی حیثیت کو کم کر دیا ہے، حافظ محمد بن یوسف الصالحی الشافعی ۔ (المتوفی942ھ) فرماتے ہیں:
حافظ ابوبکر خطیب بغدادی نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں جو مخل تعظیم باتیں نقل کی ہیں ان سے دھوکہ نہ کھانا، خطیب بغدادی نے اگرچہ پہلے مدح کرنے والوں کی باتیں نقل کی ہیں، مگر اس کے بعد دوسرے لوگوں کی باتیں بھی نقل کی ہیں، سو اس وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب کو بڑا دغ دار کر دیا ہے او ر بڑوں او رچھوٹوں کے لیے ایسا کرنے سے وہ ہدف ملامت بن گئے ہیں اورانہوں نے ایسی گندگی اچھالی ہے، جو سمندر سے بھی نہ دھل سکے۔ (عقودالجمان بحوالہ مقام ابی حنیفہ ، ص:270)

قاضی القضاة شمس الدین ابن خلکان الشافعی(م861ھ) خطیب بغدادی کی اس غلط طرز گفتگو پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خطیب نے اپنی تاریخ میں امام صاحب کے بارے میں بہت سے مناقب ذکرکیے، اس کے بعد کچھ ایسی ناگفتہ بہ باتیں بھی لکھی ہیں جن کا ذکر نہ کرنا اور ان سے اعراض کرنا بہت ہی مناسب تھا؛ کیوں کہ امام اعظم جیسی شخصیت کے متعلق نہ تو دیانت میں شبہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ورع وحفظ میں ، آپ پر کوئی نکتہ چینی بجز قلت عربیت کے اور نہیں کی گئی ہے۔ (تاریخ ابن خلکان2/165)

خطیب اور چند دیگر حضرات کے علاوہ زیادہ تر مصنفین اور مؤرخین ائمہ جرح وتعدیل اور ائمہ حدیث نے امام صاحب کے فضائل ومناقب کو انصاف کے ساتھ ذکرکیا ہے اور کسی قسم کی جرح کو ذکر نہیں کیا ، بلکہ صرف مناقب پر اکتفا کیا ہے، نمونے کے طور پر چند اسماء الرجال کی کتابوں اور چند ائمہ حدیث کے اقوال کو یہاں مختصرا ذکر کیا جاتا ہے، امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں ، حافظ صفی الدین خزرجی نے خلاصة تذہیب تہذیب الکمال میں ، علامہ نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں ، امام یافعی نے مرآة الجنان میں امام صاحب کے حالات او رمناقب کو ذکر کیا ہے، لیکن کسی نے کوئی جرح نہیں کی ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک امام صاحب پر جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اب چند معتمد ترین اور ائمہ علم وفضل کے اقوال یہاں ذکر کیے جاتے ہیں، تاکہ امام صاحب کی بے داغ اور تقویٰ وطہارت سے لبریز زندگی اور آپ کے فضل وکمال کی مختلف نوعیتیں ہمارے سامنے آسکیں۔

(فضیل بن عیاض م187ھ)
فضیل بن عیاض مشہور صوفیاء میں ہیں ، ان کی زندگی زہد وتقویٰ اور عبادت وریاضت سے عبارت تھی ، وہ فرماتے ہیں: امام ابوحنیفہ مرد فقیہ تھے، فقہ میں معروف، پارسائی میں مشہور، بڑے دولت مند، ہر صادروو ارد کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنے والے، شب وروز صبر کے ساتھ تعلیم میں مصروف ، رات اچھی گزارنے والے، خاموشی پسند ، کم سخن تھے، جب کوئی مسئلہ حلال وحرام کا پیش آتا تو کلام کرتے اور ہدایت کا حق ادا کر دیتے، سلطانی مال سے بھاگنے والے تھے۔ ( امام ابوحنیفہ او ران کے ناقدین، ص:44)

سفیان ثوری م161ھ
ابوبکر بن عیاش کا قول ہے کہ سفیان کے بھائی عمرو بن سعید کا انتقال ہوا تو سفیان کے پاس ہم لوگ تعزیت کے لیے گئے مجلس لوگوں سے بھری ہوئی تھی، عبدالله بن ادریس بھی وہاں تھے، اسی عرصہ میں ابوحنیفہ اپنے رفقاء کے ساتھ وہاں پہنچے، سفیان نے ان کو دیکھا تو اپنی جگہ خالی کر دی اور کھڑے ہو کر معانقہ کیا، اپنی جگہ ان کو بٹھایا، خود سامنے بیٹھے، یہ دیکھ کہ مجھ کو بہت غصہ آیا، میں نے سفیان سے کہا ابوعبد الله! آج آپ نے ایسا کام کیا جو مجھ کو برا معلوم ہوا،نیز ہمارے دوسرے ساتھیوں کو بھی، انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا آپ کے پاس ابوحنیفہ آئے، آپ ان کے لیے کھڑے ہوئے، اپنی جگہ بٹھایا، ان کے ادب میں مبالغہ کیا ،یہ ہم لوگوں کو ناپسند ہوا، سفیان ثوری نے کہا تم کو یہ کیوں ناپسند ہوا؟ وہ علم میں ذی مرتبہ شخص ہیں، اگر میں ان کے علم کے لیے نہ اٹھتا تو ان کے سن وسال کے لیے اٹھتا اور اگر ان کے سن وسال کے لیے نہ اٹھتا تو ان کی فقہ کے واسطہ اٹھتا اور اگر ان کے فقہ کے لیے نہ اٹھتا تو ان کے تقویٰ کے واسطے اٹھتا۔ ( اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، ص:73)

علامہ محمد بن اثیر الشافعی م606ھ
علامہ محمد بن اثیر الشافعی فرماتے ہیں کہ اگر الله تعالیٰ کا کوئی خاص لطف اور بھید اس میں مضمر نہ ہوتا تو امت محمدیہ کا تقریباً نصف حصہ کبھی امام ابوحنیفہ کی پیروی نہ کرتا او راس جلیل القدر کے مسلک پر عامل ہو کر اور ان کی تقلید کرکے کبھی قرب خدا وندوی حاصل کرنے پر آمادہ نہ ہوتا۔ ( حامل الاصول بحوالہ مقام ابی حنیفہ :73)

یزید بن ہارون م206ھ
یزید بن ہارون کو شیخ الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اپنے وقت کے عابد وزاہد حضرات میں شمار ہوتے تھے، علم حدیث میں بڑی شان کے مالک تھے، ان سے پوچھا گیا آدمی فتوی دینے کا کب مجاز ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایاجب ابوحنیفہ کے مثل او ران کی طرح فقیہ ہو جائے۔ ان سے سوال کیا گیا اے ابو خالد! آپ ایسی بات کہتے ہیں ؟ فرمایا ہاں! اس سے بھی زیادہ کہتا ہوں ،کیوں کہ میں نے ابوحنیفہ سے بڑا فقیہ اور متورع نہیں دیکھا، میں نے ان کو دھوپ میں ایک شخص کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں نے سوال کیا آپ دیوار کے سائے میں کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہ کہنے لگے کہ مالک مکان پر میرا قرضہ ہے، میں نہیں پسند کرتا کہ مدیون کے مکان اور دیوار کے سائے کے نیچے بیٹھ کر اس سے منتفع ہوں، اس سے زیادہ تقویٰ اور ورع کیا ہو گا؟! ( مناقب موفق1/141)

ان کا ہی بیان ہے میں نے ایک ہزار اساتذہ سے علم لکھا اور حاصل کیا ہے ، لیکن خدا کی قسم! میں نے ان سب میں ابوحنیفہ سے بڑھ کر صاحب ورع اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا او رکوئی نہیں دیکھا۔ ( مناقب موفق1/195)

وکیع بن جراح م198ھ
علم حدیث کے بڑے اماموں میں ان کا شمار ہوتا ہے، امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور امام شافعی کے استاذ ہیں، ان کی مجلس میں کسی نے امام ابوحنیفہ کی غلطی بیان کی، اس پر وکیع نے کہا امام صاحب کس طرح غلطی کر سکتے ہیں؟ حالاں کہ امام ابویوسف اور زفر جیسے صاحب قیاس اور یحییٰ بن ابی زائدہ اور حفص بن غیاث اور حبان ومندل جیسے حفاظ حدیث اور قاسم بن معن جیسا لغت وادب کا جاننے والا اور داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسا زاہد وپارسا ان کے ساتھ ہیں، جن کے ایسے ہم نشین ہوں وہ غلطی نہیں کرسکتا، اگر کبھی غلطی کر جائے تو اس کے جلیس ان کو رد کردیں گے۔ ( امام ابوحنیفہ او ران کے ناقدین، ص:48)

علامہ الخوارزمی 665ھ پوری روایت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
پھر امام وکیع نے فرمایا جو شخص امام ابوحنیفہ کے بارے میں یہ کہتا ہے وہ تو جانوروں کی مانندیا اس سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہے۔ (جامع المسانید1/23)

غیر مقلدین کی ہفوات
ایک طرف ائمہ جرح و تعدیل ہیں جنہوں نے صرف امام صاحب کے متعلق فضائل ومناقب کو ذکر کیا ہے او رجرح سے بالکل گریز کیا ہے، اسی کے ساتھ علم وفضل کے آفتاب وماہتاب اور علم حدیث فقہ وفتاوی کے درخشندہ ستارے ہیں، جنہوں نے امام صاحب کے فضائل کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور آپ کو علم حدیث کا امام اعظم اور ورع وتقویٰ کا نیر تاباں قرار دیا ہے، آپ کے فضائل کو ذکر کرتے ہوئے آپ کو آسمان رشد وہدایت کادمکتا ستارہ تسلیم کیا ہے تو دوسری طرف غیر مقلدین کی ایک جماعت ہے جنہوں نے امام صاحب کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسی دریدہ ذہنی کا انہیں وظیفہ ملتا ہے، امام صاحب کی شان میں اس طرح کی حرکتیں اور ایسے گندے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے کہ عام انسان کے لیے بھی ان الفاظ کا استعمال روا نہیں ہے، چہ جائے کہ اس عظیم انسان کی شان میں کہی جائے جس کے احسان سے امت کا بہت بڑا طبقہ گراں بار ہے، بعض اساتذہ سے سنا کہ بعض اداروں میں بعض غیر مقلدین طلبہ امام کا نام لکھ اسے جوتے سے مارتے تھے اور بعض طلبہ امام صاحب کا نام لکھ کر اسے گندے نالے میں ڈال دیتے تھے، بعض غیر مقلدین طلبہ بے ادبی کی ساری حدیں پارکرتے ہوئے ہدایہ جیسی فقہ کی اہم کتاب پر، جس پر صاحب ہدایہ نے دلیل عقلی کے ساتھ ساتھ دلیل نقلی کا بھی حد درجہ اہتمام کیا ہے اور قرآن وحدیث سے یہ کتاب پوری طرح مبرہن ہے، اس کتاب کو کھول کر اس پر بیٹھ جایا کرتے تھے، اس طرح کی دریدہ دہنی او رغیر شائستہ حرکتوں سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں، میں ان کو نقل نہیں کرسکتا ہوں ، یہ وہ حرکتیں ہیں جو ایک عام انسان کے حق میں بھی کسی طرح جائز نہیں ہیں، بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اپنے وفات شدہ لوگوں کے محاسن کو یاد کیا کرو۔ ( ابوداؤد، باب النہی عن سب الموتی، رقم الحدیث:4900) یعنی ان کے عیب وکمزوری کے بیان سے گریز کیا کرو۔ یہ حضرات کہنے کو تو اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں ، لیکن معلوم نہیں کن احادیث پر عمل کرنے کی بنا پر یہ لوگ اہل حدیث کہلاتے ہیں، جب حدیث میں سختی کے ساتھ وفات یافتگان کو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے تو کس جواز کی بنا پر یہ حضرات امام صاحب کی شان میں گستاخی کرتے ہیں؟!

منصف اہل حدیث کا طرز عمل
اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امام یا فقہ حنفی پر کیچڑ اچھالنا اور امام صاحب کی شان میں گستاخی کرنا تمام اہل حدیث کا شیوہ نہیں ہے، بلکہ بہت سے منصف مزاج اہل حدیث ہیں جو نہ صرف امام صاحب کی شان میں گستاخی کرکے اپنی زبان کو گندہ نہیں کرتے ، بلکہ اپنے اہل حدیث دوستوں کو بھی اس لایعنی اور غیر مہذب عمل سے روکتے ہیں، اس فہرست میں اہل حدیث کے بڑے بڑے علماء ہیں، جنہوں نے امام صاحب کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں ، امام صاحب کا نام بڑی عزت واحترام سے لیا ہے، امام صاحب کی علمی عبقریت اور فقہ وحدیث میں ان کی امتیازیت کا اعتراف کیا ہے، ان منصف اہل حدیث علماء کا بیان تمام اہل حدیث دوستوں کے لیے آئینہ ہے، جس میں وہ امام صاحب کی صحیح تصویر دیکھ سکتے ہیں او ران کی شان میں گستاخی کرکے انہوں نے امام صاحب کی تصویر کو کس حد تک بگاڑنے کی کوشش کی ہے اس کا بھی معائنہ کر سکتے ہیں ، ذیل میں چنداہل حدیث علماء کے اقوال کو ذکر کیا جاتا ہے، جس سے ہم اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ جس طرح امت کے سواد اعظم اور مذاہب اربعہ کے ائمہ متبوعین نے امام صاحب کی جلالت قدر کا اعتراف واظہار کیا ہے اسی طرح بہت سے منصف اہل حدیث علماء نے بھی امام صاحب کی خدمات کو سراہا ہے، ان اہل حدیث علماء کا بیان تمام غیر مقلدین کے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، جس پر وہ بھی عمل کرسکتے ہیں۔

امام صاحب مولانا ابراہیم سیالکوٹی کی نظر میں
مولانا ابراہیم سیالکوٹی اہل حدیث کے ممتاز لوگوں میں شمار ہوتے ہیں او رعلماء اہل حدیث میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ، انہوں نے تاریخ اہل حدیث میں امام صاحب پر تقریباً بیس صفحے لکھے ہیں، جس میں جگہ جگہ امام صاحب کا تذکرہ عقیدت واحترام کے ساتھ کیا ہے اور امام صاحب پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات مدلل طور پر دیے ہیں، امام صاحب پرارجاء کے دفاع میں لکھتے ہیں:
” بے شک بعض مصنفین نے ( خدا ان پر رحم کرے) امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں امام ابویوسف، امام محمد،امام زفر، حسن بن زیاد کو رجال مرجیہ میں شمار کیا ہے، جس کی حقیقت کو نہ سمجھ کر اور حضرت امام صاحب ممدوح کی طرز زندگی پر نظر نہ رکھتے ہوئے بعض لوگوں نے اسے خوب اچھالا ہے، لیکن حقیقت رس علماء نے اس کا جواب کئی طریق پر دیا ہے۔ ( تاریخ اہل حدیث:77)

اس کے بعد مولانا موصوف نے علامہ ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر، علامہ ذہبی، شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ مختلف حضرات علماء کے اقوال نقل کرکے امام صاحب کے دفاع میں مکمل تجزیہ کیا ہے۔ حافظ ذہبی کے اقوال کو نقل کرکے اس پر جو تجزیہ کیا ہے اس کو ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:
اسی طرح حافظ ذہبی اپنی دوسری کتاب تذکرة الحفاظ میں آپ کے ترجمہ کے عنوان کو معزز لقب ”امام اعظم“ سے مزین کرکے آپ کا جامع اخلاق حسنہ ہونا ان الفاظ میں ارقام فرماتے ہیں: ”کان إماما ورعا عالما متعبدا کبیر الشان، لا یقبل جوائز السلطان، بل یتجر ویکتب ، تدکرة1/10․“

سبحان الله! کیسے مختصر الفاظ میں کس خوبی سے ساری حیات طیبہ کا نقشہ سامنے رکھ دیا اور آپ کی زندگی کے ہر علمی اور عملی شعبہ اور قبولیت عامہ اور غنائے قلبی اور حکام وسلاطین سے بے تعلقی وغیرہ فضائل میں سے کسی بھی غیر ضروری امر کو چھوڑ کر نہیں رکھا۔ ( تاریخ اہل حدیث:80)

آگے چل کر ”ایک محاکمہ“ کا عنوان قائم کرتے ہیں ،اس کے ذیل میں لکھتے ہیں: جس امر میں بزرگان دین میں اختلاف ہو اس میں ہم جیسے ناقصوں کا محاکمہ کرنا بری بات ہے، لیکن چوں کہ بزرگوں سے حسن تادب کی بنا پر ہمارا فرض ہے کہ ان کے کلام کے محمل بیان کرکے ان سے الزام واعتراض کو دور کریں اور محض اپنی شخصی رائے سے نہیں، بلکہ بزرگوں ہی کے اقوال سے جو قرآن وحدیث سے مستنبط ہیں۔ (تاریخ اہل حدیث:88)

اخیر میں فیض ربانی کا عنوان قائم کرکے اپنے دل کی بات کہی ہے او ربزرگوں کے ساتھ ادب واحترام کی تعلیم وتلقین فرمائی ہے، فیض ربانی کا عنوان ملاحظہ فرمائیں:
”ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ، لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں او راپنے صالح اساتذہ مولانا ابو عبدالله عبید الله غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اورجناب حافظ عبدالمنان صاحب مرحوم محدث وزیر آبادی کی صحبت وتلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصاً حضرات ائمہ متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہے، اس لیے بعض اوقات خدا تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے کوئی فیض اس ذرے بے مقدار پر نازل کر دیتا ہے، اس مقام پر اس کی صورت یوں ہے کہ جب میں نے اس مسئلے کے لیے کتب متعلقہ الماری سے نکالی اور حضرت امام کے متعلق تحقیقات شروع کی تو مختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر غبار آگیا، جس کا اثر بیرونی طور پر یہ ہوا کہ دن دوپہر کے وقت جب سورج پوری طرح روشن تھا یکا یک میرے سامنے گھپ اندیرا چھا گیا”ظلمٰت بعضھا فوق بعض“ کا نظارہ ہو گیا، خدا تعالی نے میرے دل میں ڈال دیا کہ یہ حضرت امام صاحب سے بدظنی کا نتیجہ ہے، اس سے استغفار کرو، میں نے کلمات استغفار دہرانے شروع کیے، وہ اندھیرے فوراً کا فور ہو گئے او ران کے بجائے ایسا نور چمکا کہ اس نے دوپہر کی روشنی کو مات کر دیا، اس وقت سے میری حضرت امام صاحب  سے حسن عقیدت اور زیادہ بڑھی گئی او رمیں ان شخصوں سے، جن کو حضرت امام صاحب سے حسن عقیدت نہیں ہے ،کہا کرتا ہوں کہ میری اور تمہاری مثال اس آیت کی مثال ہے کہ حق تعالیٰ منکرین معارج قدسیہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے :﴿ أفتمارونہ علی مایری﴾میں نے جو کچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے، ھذا والله ولی الھدایہ ․ اب میں اس مضمون کو ان کلمات پر ختم کرتا ہوں اور اپنے ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ وہ بزرگان دین سے، خصوصاً ائمہ متبوعین سے حسن ظن رکھیں اور گستاخی وشوخی اور بے ادبی سے پرہیز کریں ،کیوں کہ اس کا نتیجہ ہر دو جہاں میں موجب خسران ونقصان ہے #
از خدا خواہم توفیق ادب
بے ادب محروم شد از لطف رب
مولانا سیالکوٹی کا درد میں ڈوبا ہوا اور حقیقت کا انکشاف کرتا ہوا مضمون ان تمام اہل حدیث کے لیے عبرت ونصیحت ہے جن کا شیوہ ہی امام صاحب سے بد گمانی وبد زبانی کا ہے۔ (جاری)

مفتی امانت علی قاسمی، حیدر آباد، دکن
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں