اولاد کی تربیت ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل

اولاد کی تربیت ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور حکومت تاریخ اسلام میں ایک سنہری دور کہلاتا ہے۔ ایک بہت بڑے رقبے اور قطعہ زمین پر انہوں نے حکومت کی، لیکن انتقال کے وقت ان کی میراث صرف سترہ دینار تھے، جن میں سے سات دینار تجہیز و تکفین میں خرچ ہوگئے۔ باقی دس دینار ان کے گیارہ بیٹں میں تقسیم کردیے گئے۔ یعنی ایک بیٹے کو ایک دینار بھی پورا نہ مل سکا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے انتقال کے وقت ان کے وزراء اور مشران نے ان سے حیرت اور استعجاب کے ساتھ یہ سوال کیا کہ آپ سے پہلے بھی تو کئی مسلم حکمران گزرہے ہیں، لیکن انہوں نے جاتے وقت اپنی اولاد کے لیے بہت کچھ سرمایہ پیچھے چھوڑا تا کہ ان کی اولاد خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔ یہ آپ اپنی اولاد کے ساتھ کیا کرکے جارہے ہیں؟ ان کا جواب تھا: اگر میرے جانے کے بعد میرے بیٹے نیک رہے اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے رہے تو اللہ ان کی مدد اور سرپرستی فرمائے گا، اس لیے کہ خود قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: ’’و ھو یتولی الصالحین‘‘ یعنی وہ نیک اور صالح لوگوں کی سرپرستی کرتا ہے اور اگر یہ نافرمان بن گئے تو میں ان کے گناہ کے کاموں میں ان کا مددگار نہیں بننا چاہتا۔ چنانچہ انتقال کے بعد ان کے ایک بیٹے کو خلیفہ وقت کی جانب سے ایک صوبے کا گورنر بنادیا جاتا ہے۔ وہ انتہائی مثالی اور معیاری حسن انتظام کے ساتھ اس صوبے کا نظام چلاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کا چرچا ہونے لگتا ہے۔ اس پر خلیفہ وقت دوسرے بھائی کو دوسرے صوبے کا گورنر اور پھر کرتے کرتے گیارہ بھائی مختلف صوبوں کے گورنر مقرر کردیے جاتے ہیں۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم دنیا سے جاتے وقت اپنی اولاد کو کیا کچھ دے کر جارہے ہیں؟ ہمارے بعد ہماری اولاد کی زندگی کیسی ہوگی؟ سورۃ التحریم میں اللہ تعالی کا رشاد ہے: ’’یا ایھاالذین آمنوا قو انفسکم و اھلیکم نارا‘‘اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں اور اپنے اہل و عیال کو بھی جہنم کی اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘ ہم نے قرآن کریم کی اس آیت پر کتنا عمل کیا؟ یہ میں اور آپ اندازہ لگالیں۔ دنیا کی آگ سے اپنی اولاد کو بچانے کے لیے ہم پوری کوشش کرتے ہیں، حتی کہ اگر کوئی بچہ آگ کی طرف لپکے اور سمجھانے سے نہ سمجھے تو ہم اس کو ڈانٹتے بھی ہیں، ڈراتے بھی ہیں، تھپڑ بھی رسید کردیتے ہیں، لیکن آگ کے قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ کیا جہنم کی آگ سے بھی ہم اسی طرح اپنی اولاد کو بچا رہے ہیں؟
عموماً والدین کی زبان سے جو بات سننے کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ابھی بچہ ہے، بڑا ہوگا تو خود ٹھیک ہوجائے گا۔ بڑا ہوگا تو سمجھ جائے گا، لیکن مقام حیرت یہ ہے کہ یہ بات ہم اس کے کسی دنیاوی معاملے کے بارے میں کیوں نہیں کہتے؟ اگر وہ اسکول نہیں جاتا تو اس وقت ہمیں یہ بات کیوں یاد نہیں آتی؟ اگر وہ یونیورسٹی جانے میں پس و پیش کرے تو اس وقت ہم کیوں یہ بات بھول جاتے ہیں؟ اگر وہ کھانا نہ کھائے تو اس وقت ہم کیوں یہ نہیں کہتے؟ اس وقت تو ہم اس کو سمجھاتے ہیں، امیدیں دلاتے ہیں اور مجبور کرکے وہ کام کرواتے ہیں۔ یہ بات لے دے کر اگر ہمیں یاد آتی ہے تو بس ان کی دینی تربیت اور آخرت سنوارنے کے موقع پر ہی یاد آتی ہے؟ یہ دو ہرا معیار آخر کس بات کی غمازی کرتا ہے؟ حالانکہ اس کی مثال تو بالکل یوں ہوجائے گی کہ اگر ایک مستری دیوار بنا رہا ہو اور وہ دیوار بنیاد سے ٹیڑھی ہو اور پوچھنے پر وہ یہ جواب دے کہ جب اوپر جائے گی تو سیدھی ہوجائے گی؟ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی بھی طرح معقول نہیں ہوسکتی۔ اولاد کا معاملہ اس سے بہت زیادہ نازک ہے۔ بچوں کی مثال نرم ٹہنیوں کی سی ہوتی ہے، جہاں موڑنا چاہیں موڑ دیں، لیکن یہی ٹہنی جب کچھ عرصہ گزرنے کے بعد لکڑی بن جائے تو اس وقت اس کا رخ کسی طرف پھیرنا یا اس کو موڑنا ممکن نہیں رہتا۔ بالکل یہی مثال بچوں کی ہے۔ اسی طرح بچوں میں جو عادات اور خصلتیں ان کے بچپن میں ان کو سکھا دی جائیں وہ پوری زندگی ان کے اندر رہتی ہیں؟
لوگ کہتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو ہدایت نہ ملی تو ہم کون ہوتے ہیں اپنے بچوں کو راہ راست پر لانے والے؟ دیکھیے ہدایت تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتا، لیکن انسان اپنی پوری کوشش کرے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی مثال دیتے وقت ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نو سو سال سمجھایا بھی تو تھا؟ اب ہم دیکھیں کہ ہم نے اپنی اولاد کو کتنے سو سال سمجھایا ہے؟ ہم تو مہینہ، دو مہینہ، سال دو سال، پانچ سال بعد ہتھیار پھینک کر مایوس ہوجاتے ہیں؟ یہ کسی بھی طرح ایک مناسب رویہ کہلائے جانے کے قابل نہیں۔
بس ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ ہم اسلامی اصولوں اور شرعی ہدایات کی روشنی میں اپنی اولاد کی تربیت کریں۔ شریعت نے چند اصول طے کرکے مسلمانوں کو بتادیے ہیں کہ تربیت کے دوران آپ نے اصولی طور پر ان باتوں کو سامنے رکھنا ہے۔ طرز عمل اور طریقہ کار میں یقیناًاختلاف ہوسکتا ہے۔ ہر آدمی اپنے گھر کے ماحول، اپنے بچے کی طبیعت اور مزاج کو بہتر طریقے سے سمجھتا ہے۔ موقع محل کی مناسبت کو دیکھنا اور سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ اسی لیے اسلام نے ہمیں ایک مخصوص طریقہ کار میں مقید نہیں کیا، بلکہ ہمیں قواعد و ضوابط طے کرکے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ یہاں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ اگر ہم ایک صالح اسلامی معاشرہ نہ ہو، بلکہ ایک مکمل اسلامی معاشرہ ہو، اس کے لیے ہمیں اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دینی ہوگی۔ اس لیے کہ یہی افراد جب ملتے ہیں تو معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرہ میرے اور آپ کا نام ہے۔ جب میں اور آپ ٹھیک ہوجائیں گے تو معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس لیے اگر ہم اس قوم کو روشن مستقبل فراہم کرنا چاہتے ہیں، ہم اپنے ملک میں صالح قیادت کے منتظر ہیں تو پھر اس قیادت کی تربیت ابھی سے کرنی ہوگی۔

تحریر: مولانا رشید احمد خورشید
روزنامہ اسلام، جمعہ ۴ رمضان المبارک ۱۴۳۷ھ بمطابق ۱۰ جون ۲۰۱۶ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں