زکوٰة کے مسائل

زکوٰة کے مسائل

زکوٰة کے معنی
زکوٰة کے معنی پاکیزگی، بڑھوتری او ربرکت کے ہیں۔ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیْْہِمْ﴾ اُن کے مال سے زکوٰة لو تاکہ اُن کو پاک کرے اور بابرکت کرے اُس کی وجہ سے اور دعا دیں اُن کو۔

شرعی اصطلاح میں مال کے اُس خاص حصہ کو زکوٰة کہتے ہیں، جس کو الله تعالیٰ کے حکم کے مطابق فقیروں، محتاجوں وغیرہ کو دے کر انہیں مالک بنا دیا جائے۔

زکوٰة کا حکم
زکوٰة دینا فرض ہے۔ قرآن کریم کی آیات او رحضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سے اس کی فرضیت ثابت ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جو شخص زکوٰة کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے اور زکوٰة کی ادائیگی نہ کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، جس پر آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی، اگر الله تعالیٰ نے اسے معاف نہیں فرمایا۔

زکوٰة کی فرضیت کب ہوئی؟
زکوٰة کی فرضیت ابتدائے اسلام میں ہی مکہ مکرمہ کے اندر نازل ہو چکی تھی، جیسا کہ مفسر قرآن ابن کثیر نے سورہ مزمل کی آیت﴿وَأَقِیْمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ﴾ سے استدلال فرمایا ہے۔ کیوں کہ یہ سورت مکی ہے اور بالکل ابتدائے وحی کے زمانہ کی سورتوں میں سے ہے۔ البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداءِ اسلام میں زکوٰة کے لیے کوئی خاص نصاب یا خاص مقدار مقرر نہ تھی، بلکہ جو کچھ ایک مسلمان کی اپنی ضرورت سے بچ جاتا، اُس کا ایک بڑا حصہ الله کی راہ میں خرچ کیا جاتا تھا۔ نصاب کا تعین او رمقدارِ زکوٰة کا بیان مدینہ منورہ میں، ہجرت کے بعد ہوا۔

زکوٰة نہ نکالنے پر وعید
سورة التوبہ، آیت35,34 میں الله تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کماحقہ زکوٰة نہیں نکالتے۔ اُن کے لیے بڑے سخت الفاظ میں خبر دی ہے، چنا ں چہ فرمایا:﴿ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ، یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہَذَا مَا کَنَزْتُمْ لأَنفُسِکُمْ فَذُوقُواْ مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ﴾․
یعنی:”جو لوگ سونا وچاندی جمع کرکے رکھتے ہیں او ران کو الله کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ( یعنی زکوٰة نہیں نکالتے) تو (اے نبی!) آپ ان کو ایک بڑے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجیے۔ دوسری آیت میں اُس دردناک عذاب کی تفصیل ذکر فرمائی کہ یہ دردناک عذاب اُس دن ہو گا جس دن سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اُس آدمی کی پیشانی، اُس کے پہلو اور اُس کی پشت کو داغا جائے گا اور اس سے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، آج تم اس خزانے کا مزہ چکھو، جو تم اپنے لیے جمع کر رہے تھے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اس انجام بد سے محفوظ فرمائے، آمین۔ آیت میں﴿کَنَزْتُمْ﴾ سے مراد وہ مال ہے جس کی زکوٰة ادانہ کی گئی ہو۔

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مال میں زکوٰة کی رقم شامل ہو جائے( یعنی زکوٰة کی ادائیگی نہیں کی گئی یا پوری زکوٰة نہیں نکالی،بلکہ کچھ زکوٰة نکالی اور کچھ رہ گئی) تو وہ مال انسان کے لیے تباہی اور ہلاکت کا سبب ہے۔ ( مجمع الزوائد) لہٰذا اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ ایک ایک روپے کا صحیح حساب کرکے زکوٰة ادا کی جائے۔

زکوٰة کے فوائد
زکوٰة ایک عبادت ہے اور الله کا حکم ہے ۔ زکوٰة نکالنے سے ہمیں کوئی فائدہ ملے یا نہ ملے، الله کے حکم کی اطاعت بذات خود مقصود ہے۔ زکوٰة کی ادائیگی کا اصل مقصد الله کی اطاعت ہے، لیکن الله کا کرم ہے کہ جب کوئی بندہ زکوٰة نکالتا ہے تو الله اُس کو دنیاوی فوائد بھی عطا فرماتا ہے، اُن فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ زکوٰة کی ادائیگی باقی مال میں برکت ، اضافہ اور پاکیزگی کا سبب بنتی ہے۔ چناں چہ قرآن کریم( سورة البقرہ، آیت276) میں الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:” الله سود کو مٹاتا ہے اور زکوٰة اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ “

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ خرچ کرتا ہے (زکوٰة نکالتا ہے) تو فرشتے اُس کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اے الله! جو شخص الله کے راستے میں خرچ کررہا ہے اس کو اورزیادہ عطا فرما اور اے الله! جس شخص نے اپنے مال کو روک رکھا ہے ( یعنی زکوٰة ادا نہیں کر رہا ہے) تو اے الله! اس کے مال پر ہلاکت ڈال دے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) اسی طرح حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا ہے۔ ( صحیح مسلم)

زکوٰة کس پر فرض ہے؟
اُس مسلمان عاقل بالغ پر زکوٰة فرض ہے جو صاحبِ نصاب ہو۔ نصاب کا اپنی ضرورتوں سے زیادہ اور قرض سے بچا ہوا ہونا شرط ہے، نیز مال پر ایک سال کا گزرنا بھی ضروری ہے ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ جس کے پاس نصاب سے کم مال ہے، یا مال تو نصاب کے برابر ہے لیکن وہ قرض دار بھی ہے یا مال سال بھر تک باقی نہیں رہا، تو ایسے شخص پر زکوٰة فرض نہیں ہے۔

زکوٰة کا نصاب
52.5 تولہ چاندی یا7.5 تولہ سونا یا اُس کی قیمت کا نقد روپیہ یا زیور یا سامانِ تجارت وغیرہ جس شخص کے پاس موجود ہے اور اُس پر ایک سال گزر گیا ہے تو اُس کو صاحبِ نصاب کہا جاتا ہے۔

سونے یا چاندی کے زیورات پر زکوٰة
خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علماء وفقہاء ومحدثین، قرآن وسنت کی روشنی میں عورتوں کے سونے یا چاندی کے استعمالی زیور پر وجوب زکوٰة کے قائل ہیں، اگر وہ زیور نصاب کے مساوی یا زائد ہو اور اس پر ایک سال بھی گزر گیا ہو، جس کے مختلف دلائل پیش کیے جاتے ہیں:

قرآن وسنت کے وہ عمومی حکم جن میں سونے یا چاندی پر بغیر کسی (استعمالی یا غیر استعمالی) شرط کے زکوٰة واجب ہونے کا ذکر ہے او ران آیات واحادیث شریفہ میں زکوٰة کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ متعدد آیات واحادیث میں یہ عموم ملتا ہے، سورة التوبہ آیت:35,34 کا ذکر کر چکا ہوں، جس میں سونا یا چاندی پر زکوٰة نہ نکالنے والوں کو درد ناک عذاب کی خبر دی گئی ہے۔نیز حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ما من صاحب ذھب ولا فضة لا یؤدی منھا حقا الا اذا کان یوم القیامة صفحت لہ صفائح من نار، فاحمی علیھا فی نار جھنم، فیکوی بھا جنبہ وجبینہ وظہرہ، کلما ردت اعیدت لہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنة حتی یقضی بین العباد، فیری سبیلہ اما الی الجنة واما الی النار․“( مسلم، کتاب الزکوٰة، باب فیمن لا یؤدی الزکوٰة)

کوئی شخص جو سونے یا چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ( یعنی زکوٰة) ادا نہ کرے تو کل قیامت کے دن اس سونے وچاندی کے پترے بنائے جائیں گے اور ان کوجہنم کی آگ میں ایسا تپایا جائے گا۔ گویا کہ وہ خود آگ کے پترے ہیں۔ پھر اس سے اس شخص کا پہلو، پیشانی اور کمرداغی جائے گی اور قیامت کے پورے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی، باربار اسی طرح تپاتپا کرداغا جاتا رہے گا، یہاں تک کہ اس کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوجائے۔

اس آیت اور حدیث میں عمومی طور پر سونے یا چاندی پر زکوٰة کی عدم ادائیگی پر درد ناک عذاب کی خبر دی گئی ہے، خواہ وہ استعمالی زیور ہوں یا تجارتی سونا وچاندی۔

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی ،جو دو سونے کے بھاری کنگن پہنے ہوئے تھی۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس عورت سے کہا کہ کیا تم اس کی زکوٰة ادا کرتی ہو؟ اس عورت نے کہا: نہیں ۔ تو حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم چاہتی ہو کہ الله تعالیٰ ان کی وجہ سے کل قیامت کے دن آگ کے کنگن تمہیں پہنائے؟ تو اس عورت نے وہ دونوں کنگن اتار کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں الله کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے پیش کر دیے۔ (ابودادؤ، کتاب الزکوٰة، باب الکنز ماہو؟وزکوٰة الحلی، مسند احمد، ترمذی، دارقطنی) صحیح مسلم کی شرح لکھنے والے امام نووی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ حضو راکرم صلی الله علیہ و سلم میرے پاس تشریف لائے اور میر ے ہاتھ میں چھلا دیکھ کر مجھ سے کہا کہ اے عائشہ! یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا: اے الله کے رسول! یہ میں نے آپ کے لیے زینت حاصل کرنے کی غرض سے بنوایا ہے۔ تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کہا: کیا تم اس کی زکوٰة ادا کرتی ہو ؟ میں نے کہا: نہیں۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔ (ابوداؤد، دارقطنی) امام خطابی نے ( معالم السنن3/176) میں ذکر کیا ہے کہ غالب گمان یہ ہے کہ چھلا تنہا نصاب کو نہیں پہنچتا، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس چھلے کو دیگر زیورات میں شامل کیا جائے، نصاب کو پہنچنے پر زکوٰة کی ادائیگی کرنی ہو گی۔ امام سفیان ثوری نے بھی یہی توجیہ ذکر کی ہے۔

حضر ت اسماء بنت زید  روایت کرتی ہیں کہ میں اور میری خالہ حضور اکرم صلی الله علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، ہم نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے تو حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے کہا: کیا تم اس کی زکوٰة ادا کرتی ہو؟ ہم نے کہا: نہیں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ڈرتی نہیں کہ کل قیامت کے دن الله تعالیٰ ان کی وجہ سے آگ کے کنگن تمہیں پہنائے؟ لہٰذا ان کی زکوٰة ادا کرو۔ (مسند احمد) متعدد احادیث صحیحہ میں زیورات پر زکوٰة کے واجب ہونے کا ذکر ہے، یہاں طوالت سے بچنے کے لیے صرف تین احادیث ذکر کی گئی ہیں۔

برصغیر کے جمہور علمائے کرام نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی تحریر کیا ہے کہ استعمالی زیور نصاب کو پہنچنے پر زکوٰة واجب ہے۔ سعودی عرب کے سابق مفتی عام شیخ عبدالعزیز بن باز کی بھی قرآن وسنت کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ استعمالی زیور پر زکوٰة واجب ہے۔

اصولی بات
قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی سونے یا چاندی پر زکوٰة کی ادائیگی نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں کسی ایک جگہ بھی استعمالی یا تجارتی سونے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ نیز استعمالی زیور کو زکوٰة سے مستثنیٰ کرنے کے لیے کوئی غیر قابل نقد وجرح حدیث احادیث کے ذخیرہ میں نہیں ملتی ہے، بلکہ بعض احادیث صحیحہ استعمالی زیورپر زکوٰة واجب ہونے کی واضح طور پر راہ نمائی کر رہی ہیں۔ نیز استعمالی زیور پر زکوٰة کو واجب قرار دینے کے لیے اگر کوئی حدیث نہ بھی ہو تو قرآن کریم کے عمومی حکم کی روشنی میں ہمیں ہر طرح کے سونے وچاندی پر زکوٰة ادا کرنی چاہیے، خواہ اس کا تعلق استعمال سے ہو یا نہ ہو، تاکہ کل قیامت کے دن رسوائی، ذلت اور درد ناک عذاب سے بچ سکیں۔نیز استعمالی زیور پر زکوٰة کے واجب قرار دینے میں غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کا فائدہ ہے، تاکہ دولت چند گھروں میں نہ سمٹے، بلکہ ہم اپنے معاشرہ کو اس رقم سے بہتر بنانے میں مدد حاصل کریں۔

زکوٰة کتنی ادا کرنی ہے؟
اوپر ذکر کیے گئے نصاب پرصرف ڈھائی فیصد(2.5%) زکوٰة ادا کرنی ضروری ہے۔ شریعت اسلامیہ نے دنیا کے موجودہ نظام کی طرح آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا، یعنی اگر آپ کی لاکھوں روپے کی آمدنی ہے، لیکن وہ خرچ ہو جاتے ہیں تو کوئی زکوٰة واجب نہیں، بلکہ ضروریات زندگی سے بچنا، بچے ہوئے مال کا نصاب کو پہنچنا او راس پر ایک سال کا گزرنا وجوب زکوٰة کے لیے ضروری ہے۔

سامان تجارت میں کیا کیا داخل ہے
مال تجارت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کو آدمی نے بیچنے کی غرض سے خریدا ہو۔ لہٰذا جو لوگInvestment کی غرض سے پلاٹ خرید لیتے ہیں اور شروع ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ جب اچھے پیسے ملیں گے تو اس کو فروخت کرکے اس سے نفع کمائیں گے، تو اس پلاٹ کی مالیت پر بھی زکوٰة واجب ہے۔ لیکن پلاٹ اِس نیت سے خریدا کہ اگر موقع ہوا تو اس پر رہائش کے لیے مکان بنوالیں گے یا موقع ہو گا تو اس کو کرائے پر چڑھادیں گے یا کبھی موقع ہو گا تو اس کو فروخت کردیں گے، یعنی کوئی واضح نیت نہیں ہے، بلکہ ویسے ہی خرید لیا ہے تو اس صورت میں اس پلاٹ کی قیمت پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔

کس دن کی مالیت معتبر ہو گی؟
زکوٰة کی ادائیگی کے لیے اس دن کی قیمت کا اعتبار ہو گا جس دن آپ زکوٰة کی ادائیگی کے لیے اپنے مال کا حساب لگا رہے ہیں۔ یعنی زیورات کی زکوٰة میں زکوٰة کی ادائیگی کے وقت پرانے سونے کے بیچنے کی قیمت کا اعتبار ہو گا۔ یعنی آپ کے پاس جو زیورات موجود ہیں اگر ان کو مارکیٹ میں بیچیں تو وہ کتنے میں فروخت ہوں گے، اس قیمت کے اعتبار سے زکوٰة ادا کرنی ہو گی۔

ہر ہر روپے پر سال کا گزرنا ضروری نہیں
ایک سال مال پر گزر جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر سال ہر ہر روپے پر مستقل سال گزرے۔ یعنی گزشتہ سال رمضان میں اگر آپ پانچ لاکھ روپے کے مالک تھے، جس پر ایک سال بھی گزر گیا تھا۔ زکوٰة ادا کر دی گئی تھی۔ اس سال رمضان تک جو رقم آتی جاتی رہی اس کا کوئی اعتبار نہیں، بس اس رمضان میں دیکھ لیں کہ آپ کے پاس اب کتنی رقم ضروریات سے بچ گئی ہے او راس رقم پر زکوٰة ادا کر دیں۔ مثلاً اس رمضان میں چھ لاکھ روپے آپ کے پاس ضروریات سے بچ گئے ہیں تو چھ لاکھ کا2.5% زکوٰة ادا کر دیں۔ ہاں! اگر کوئی قابل ذکر رقم روٹین کے علاوہ دست یا ب ہوئی ہے تو اس کی زکوٰة اس کے سال مکمل ہونے پر ہی ادا کرنی ہو گی۔

زکوٰة اور رمضان
زکوٰة کا رمضان میں ہی نکالنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر ہمیں صاحب نصاب بننے کی تاریخ معلوم ہے تو ایک سال گزرنے پر فوراً زکوٰة کی ادائیگی کر دینی چاہیے، خواہ کوئی سا بھی مہینہ ہو۔ مگر لوگ اپنے صاحب نصاب بننے کی تاریخ سے عموماً ناواقف ہوتے ہیں اور رمضان میں ایک نیکی کا اجر ستر گنا ملتا ہے تو اس لیے لوگ رمضان میں زکوٰة کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر ہر سال رمضان میں ہی زکوٰة ادا کرتے ہیں۔ زکوٰة ایک سال مکمل ہونے سے قبل بھی نکالی جاسکتی ہے او راگر کسی وجہ سے کچھ تاخیر ہو جائے تو بھی زکوٰة ادا ہو جائے گی، لیکن قصداً تاخیر کرنا صحیح نہیں ہے۔

مستحقین زکوٰة یعنی زکوٰة کس کو ادا کریں؟
الله تعالیٰ نے سورہٴ توبہ، آیت نمبر60 میں 8 مستحقین زکوٰة کا ذکر کیا ہے:

فقیر، یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے، لیکن نصاب کے برابر نہیں۔ مسکین ،یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ جو کارکن زکوٰة وصول کرنے پر متعین ہیں۔ جن کی دل جوئی کرنا منظور ہو۔ (واضح رہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے انتقال کے بعد، اکثر علماء کے نزدیک یہ مد باقی نہیں رہی۔) وہ غلام جس کی آزادی مطلوب ہو۔ قرض دار، یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔ الله کے راستے میں جہاد کرنے والا۔مسافر، جو حالت سفر میں تنگ دست ہو گیا ہو۔

جن لوگوں کو زکوٰة دینا جائز نہیں ہے
اُس شخص کو جس کے پاس ضروریات اصلیہ سے زائد بقدر نصاب مال موجود ہو۔ سید اور بنی ہاشم۔ بنی ہاشم سے حضرت حارث  بن عبدالمطلب، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت عباس اور حضرت علی کی اولاد مراد ہیں۔ اپنے ماں ، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی کو زکوٰة دینا جائز نہیں ہے۔اپنے بیٹے، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی کو زکوٰة دینا جائز نہیں ہے۔ کافر کو زکوٰة نہیں دی جاسکتی ہے۔

نوٹ: بھائی، بہن بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، چچا،پھوپھی، خالہ، ماموں، ساس، سسر، داماد وغیرہ میں سے جو حاجت مند اور مستحق زکوٰة ہوں، انہیں زکوٰ ةدینے میں دو ہرا ثواب ملتا ہے، ایک ثواب زکوٰة کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔

زکوٰة سے متعلق چند متفرق مسائل
٭… اگر کسی کے پاس سونے یا چاندی کے علاوہ نقدی یا بینک بیلینس بھی ہے تو ان پر بھی زکوٰة ادا کرنی ہو گی، البتہ دو بنیادی شرطیں ہیں: نصاب کے مساوی یا زائد ہو۔ ایک سال گزر گیا ہو۔

٭…Diamond پر زکوٰة واجب نہ ہونے پر امت مسلمہ متفق ہے، کیوں کہ شریعت اسلامیہ نے اس کو قیمتی پتھروں میں شمار کیا ہے۔ ہاں! اگر یہ تجارت کی غرض کے لیے ہوں تو پھر نصاب کے برابر یا زیادہ ہونے کی صورت میں زکوٰة واجب ہو گی۔

٭… زکوٰة جس کو دی جائے اُسے یہ بتانا کہ یہ مال زکوٰة ہے ضروری نہیں، بلکہ کسی غریب کے بچوں کو عیدی یا کسی اور نام سے دے دینا بھی کافی ہے۔

٭… دینی مدارس میں غریب طالب علموں کے لیے زکوٰة دینا جائز ہے۔

٭…زکوٰة کی رقم کو مساجد، مدارس، ہسپتال، یتیم خانے اور مسافر خانے کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔

٭…اگر عورت بھی صاحبِ نصاب ہے تو اُس پر بھی زکوٰة فرض ہے، البتہ اگر شوہر خود ہی عورت کی طرف سے بھی زکوٰة کی ادائیگی اپنے مال سے کر دے تو بیوی کی صراحتاً یا دلالةً اجازت کے بعد دینے سے زکوٰة ادا ہو جائے گی۔

 

مولانا محمد نجیب قاسمی(ریاض)
ماہنامہ الفاروق


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں