میانمار میں مسجد شہید، کشیدگی کا خطرہ

میانمار میں مسجد شہید، کشیدگی کا خطرہ

میانمار کے وسطی علاقے میں انتہا پسندوں کی جانب سے ایک مسجد کو شہید کیے جانے کے بعد علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرہ بڑھ گیا۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کے مطابق صوبہ باگو کے مسلم اکثریتی گاؤں میں انتہا پسند بدھ متوں نے حملہ کرکے ایک مسجد کو شہید کردیا جس کے بعد علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔
رواں ہفتے بھی 200 بدھ متوں پر مشتمل ایک مشتعل ہجوم نے مدرسہ قائم کرنے پر یہاں دھاوا بول دیا تھا اور ان کی گاؤں کے رہائشیوں سے تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔
مقامی پولیس سربراہ اون لوین کا کہنا ہے کہ علاقے میں کشیدگی برقرار ہے جس کی وجہ سے پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے، تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
مسجد کے سیکریٹری ون شوے کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی جان کا خطرہ ہے اور وہ معاملہ ٹھنڈا ہونے تک کسی اور علاقے میں منتقل ہونے پر غور کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ میانمار بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز جذبات پائے جاتے ہیں اور ماضی میں بھی مسلمانوں اور بدھ متوں کے درمیان ہونے والے تصادم میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
سب سے خطرناک صورتحال مغربی ریاست راکھائن میں ہے جہاں روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت ہے، لاکھوں روہنگیا مسلمان ہنگاموں کے بعد اب بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
بدھ مت کے ماننے والے شدت پسند افراد روہنگیا مسلمانوں کو اقلیت تسلیم کرنے کے سخت مخالف ہیں اور انہیں بنگلہ دیش سے غیر قانونی طریقے سے آنے والے ‘بنگالی’ کہتے ہیں۔
میانمار سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی رہنما آنگ سان سوچی کو بھی روہنگیا مسلمانوں کے لیے آواز نہ اٹھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
رواں ماہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو ‘انسانیت سوز جرائم’ قرار دیا جاسکتا ہے۔
نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی دہائیوں بعد قائم ہونے والی سویلین حکومت کی سربراہ بھی ہیں اور انہوں نے مذہبی برادریوں کے درمیان اعتماد سازی کے لیے تھوڑا وقت مانگا ہے۔

ڈان نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں