ایک سچے مسلمان کا کردار

ایک سچے مسلمان کا کردار

حالات، واقعات، حکومتی وزرا اور مشیروں کے بیانات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی فورسز شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کے لیے ایک مرتبہ پھر ان کی طرف رُخ کر رہی ہیں اور شاید ان سطور کے چھپ کر آنے تک کئی ایک جگہ آپریشن کا آغاز ہوچکا ہوگا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ آپریشن کب تک ہوگا اور اس کا انجام کیا ہوگیا۔ اس لیے کہ اس سے پہلے بھی ان علاقوں میں آپریشن کے نام پر کئی مرتبہ یلغار ہوچکی ہے اور ہر مرتبہ دونوں طرف سے کشت و خون، گھروں، بستیوں اور آبادیوں کی تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
ظاہر ہے آپریشن کے نام پر جب دونوں طرف سے یلغار ہوگی، گولہ بارود کا استعمال ہوگا تو نامعلوم اس میں کتنے بے گناہ افراد، جن میں بچے، بوڑھے، مرد اور عورتیں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، کتنا ایسے ہوں گے جو زندگی بھر مفلوج، اپاہج اور اپنے قیمیتی اعضا سے محروم ہوجائیں گے اور کتنا ایسے ہوں گے جو اس آپریشن کے خوف سے اپنے گھروں اور علاقوں کو چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھائیں گے اور کس مپرسی کا شکار ہوں گے۔ سوچنا چاہیے کہ یہ تمام خاندان اور قبائل جب اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہوں گے تو کیا ان کے دلوں میں حکومت پاکستان، فورسز اور شہری آبادیوں کے بارہ میں کوئی نرم گوشہ رہے گا اور وہ اسلحہ اٹھا کر اپنے دلوں میں پائے جانے والے غم و غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے اور اپنے پیاروں کے لاشے اُٹھانے کی وجہ سے انتقام کے جذبات سے لبریز نہ ہوں گے؟
ہر ایک جانتا ہے کہ فوج کشی کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہا۔ اسلام آباد میں بیٹھنے اور رہنے والوں نے ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں بسنے والی آبادی کے مسائل، شکایات اور ان کے جائز مطالبات کو بھی گفت و شنید سے طے کرنے کے بجائے قوت و طاقت کے استعمال اور فوجی یلغار سے ان کو دبانے اور خاموش کرانے کی پالیسی پر عمل کیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کی بجائے اب بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش میں بسنے والے ہمارے مسلمان بھائی ہونے کے باوجود ان کے دلوں میں مسلم پاکستانی افواج، عوام اور حکومت پاکستان کے بارہ میں ایسی نفرت بیٹھ گئی ہے کہ ان کا نام سنتے ہی ان کے چہروں پر بل آجاتے ہیں اور ان کا چہرہ مارے نفرت سے متغیر ہوجاتا ہے۔
یہ طالبان جن کے خلاف حکومت آپریشن کرنے جارہی ہے، کیا اس نے اطمینان سے بیٹھ کر کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ یہ تو وہ لوگ تھے جو ہماری دفاعی لائن تھے، روس کے خلاف پاکستان کی دھال بن کر صف اول میں یہی لوگ کھڑے تھے۔ انہوں نے صرف افغانستان کو ہی روس کے تسلط اور جبری قبضے سے نہیں چھڑایا، بلکہ انہوں نے نامساعد حالات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی جان، مال اور کار و بار کی قربانی دیتے ہوئے سرخ ریچھ سے پنجہ آزمائی کرکے اس سے پاکستان کو ہڑپ کرنے سے بھی بچایا تھا۔ آج وہ ہم سے ناراض کیوں ہیں؟ ان کے ساتھ کیا ظلم ہوا؟ کیا ناانصافی ہوئی؟ اور وہ کیوں اپنے کلمہ گو بھائیوں کے خلاف اسلحہ تان کر کھڑے ہوگئے؟
ہماری دانست میں تو صرف یہ بات آتی ہے کہ اس وقت چونکہ صرف دو ہی طاقتیں تھیں: روس اور امریکہ۔ امریکہ نے روس کے تسلط اور یلغار کو روکنے اور ان کے سامنے بند باندھنے کے لیے افغانستان کی عوام اور مجاہدین کی مدد کی۔ روس کی شکست اور ناکامی کے بعد جب طالبان نے افغانستان پر اسلامی حکومت قائم کرلی تو اب امریکہ کو کل کے مجاہدین اور آج کے طالبان کھٹکنے لگے۔
ادھر امریکہ افغانستان پر نیٹو کی معیت میں پنجے گاڑ کر بیٹھ گیا اور ان آزاد قبائل میں بسنے والے افراد کے خلاف پاکستانی حکومتوں سے مختلف بہانوں اور ناموں سے آپریشن کرائے گئے، تا کہ روس جیسی سپر طاقت کو شکست دینے والی افراد قوت و طاقت کو توڑا جائے اور ان آپریشنوں کے ذریعہ اُن کو نیست و نابود کیا جائے اور آج بھی کچھ قوتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان اور بیرونِ پاکستان اسی کام پر لگی ہوئی ہیں اور وہ یہی کام کررہی ہیں۔ یہ حالیہ آپریشن بھی اسی سلسلہ کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔
حکومتوں، ان کے وزیروں، مشیروں اور بہی خواہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے بے مقصد آپریشنوں اور اپنوں کے خلاف صف آرائی میں کتنا اسلحہ ضائع ہوا، کتنا سرمایہ خرچ ہوا، کتنا ہمارے فوجی جوان اس میں شہید ہوئے، کتنا پولیس، رینجرز اور دوسری سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی جانیں نچھاور ہوئیں اور کتنے ہمارے کلمہ گو بھائی اس بے مقصد بدامنی اور غارت گری میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کتنا ایسے ہیں جو زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا کیے گئے؟ اور ابھی تک وہ اسی کس مپرسی اور بدحالی کی کیفیت سے گزرہے ہیں۔
بینات کے انہیں صفحات میں بار بار کہا گیا کہ قبائلی علاقے کے تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے کبھی قوت و طاقت اور اسلحے کے زور پر کسی کی غلامی قبول نہیں کی اور نہ ہی وہ آج کسی کی غلامی قبول کریں گے۔ قبائلی عوام خالصتاً مسلمان ہیں، اسلام کو ہی اپنی زندگی کا مقصد اور کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں۔ آج بھی وی اسی کا مطالبہ کررہے ہیں اور اسی پر انہوں نے مذاکرات کی میز سجائی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بڑے بھائی کی طرح بڑائی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے سروں پر ہاتھ رکھے، ان کے گلے شکوے دور کرے اور جو مذاکرات شرع کیے گئے تھے، ان کو نیک نیتی اور خلوصِ دل سے اس وقت تک آگے بڑھایا جائے، جب تک کہ اس جاری بدامنی اور خانہ جنگی سے عوام کو نجات نہ مل جائے۔ یہ وقت اپنی قوت و طاقت کو منوانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا نہیں، بلکہ حکمت عملی سے حالات کو سدھارنے اور غیروں کی طرف سے لگائی گئی گولہ و بارود کی آگ کو بجھانے کا ہے۔
دانشور اور صاحب بصیرت حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ باریک بینی اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ایسے افراد اور گروہوں پر نظر رکھے جو طالبان کا لبادہ اوڑھ کر طالبان کو بھی بدنام کررہے ہیں اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھی کام رہے ہیں، جیسا کہ اخبارات میں یہ خبریں چھپ چکی ہیں کہ ملک دشمن طالبان کے نام پر ملک میں گھناؤنی کارروائیاں کررہے ہیں۔
حکومت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آج کے حالات میں بین الاقوامی طور پر بھی اور پڑوسی ممالک کے اعتبار سے بھی پاکستان کی دوستوں سے زیادہ دشمنوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔
بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا اور آئے دن اس کی ریشہ دوانیاں اور کارستانیاں بڑھ رہی ہیں۔ اخبارات کے صفحات اور حکومتی اہل کاروں کے بیانات اس کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔ بلوچستان میں خلفشار کے پیچھے بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی کرم فرمائیاں، علیحدگی پسندوں پر دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ افغانستان کا صدر کرزئی پاکستان کو آنکھیں دکھارہا ہے۔ ایران بھی دھمکی آمیز لہجے میں بات کررہا ہے۔ ان حالات میں بھی اگر پاکستان اپنے اندر اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ چھیڑ دیتا ہے تو سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو، ورنہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ آپریشن اور پاکستان کی اندرونی جنگ پاکستان کو کمزور کرنے اور توڑنے کا ایک منصوبہ ہے جو پاکستان دشمنوں نے بہت پہلے مناسب وقت اور مناسب حالات کے انتظار میں تیار کر رکھا ہے اور حکومت کو اسی کی طرف دھکیلنے کی ہر طرف سے پوری محنت اور کوشش کی جارہی ہے۔ و لا فعل اللہ ذالک۔
ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اسی طرح اختلافِ رائے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان بیسیوں اختلاف ہوسکتے ہیں اور ہیں، لیکن دونوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کا عہد کریں کہ اسلام اور پاکستان کی سالمیت کا تحفظ ہر اختلاف و نزاع سے بالاتر ہے۔ اور دونوں کو چاہیے کہ وہ ثابت کریں کہ ہمیں ایک دوسرے سے خواہ کتنا شکوے اور شکایات ہوں، لیکن بحمداللہ! دونوں مسلمان اور محب وطن ہیں، اس لیے دونوں کو چاہیے کہ اسلام اور اسلامی مملکت کے تحفظ کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں اور کسی کو اسلام، اسلامی اقدار اور ملکی سالمیت کے خلاف میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہ دیں۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اختلاف سب کو معلوم اور شہرہ آفاق ہے، لیکن جب عین معرکہ کارزار میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نصرانی بادشاہ کا خط ملا، جس میں اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں آپ رضی اللہ عنہ کو اپنی حمایت کی پیشکش کی تھی، آپ رضی اللہ عنہ نے سفارتی آداب کو نظرانداز کرتے ہوئے اُسے جواب تحریر فرمایا:
’’واللہ لئن لم تنتہ و ترجع الی بلادک یا لعین! لأصطلحن أنا و ابن عمی علیک و لأخرجنک من جمیع بلادک و لأضیقن علیک الأرض بما رحبت، فعند ذلک خاف ملک الروم و انکفّ۔۔۔‘‘ (البدایہ و النہایہ، ج:۸، ص:۱۹۹)
یعنی ’’اللہ کی قسم! اگر تو باز نہیں آئے گا اور اپنے علاقہ کی طرف واپس نہیں جائے گا تو اے لعین! میں اور میرے چچا کے بیٹے (حضرت علی رضی اللہ عنہ) تیرے خلاف باہم صلح کر لیں گے اور میں تجھے تیرے علاقوں سے نکال دوں گا اور زمین کے فراخ ہونے کے باوجود میں اُسے تم پر تنگ کردوں گا۔ تو اس پر شاہ روم ڈر گیا اور باز آگیا۔۔۔‘‘
یہ ہے باہمی اختلاف میں ایک سچے مسلمان کا کردار! اور یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ جو لوگ باہمی رنجش کی بنیاد پر اسلامی مملکت کو اعدائے اسلام کا ترنوالہ بنا کر ملت فروشی کی قیمت وصول کرتے ہیں، تاریخ اُنہیں بغداد کے ابن علقمی، بنگال کے میر جعفر اور دَکن کے میر صادق ایسے ’’ننگِ قوم، ننگ دین و ننگ وطن‘‘ غداروں کی صف میں جگہ دیتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالی ہر جرم کو معاف کردیتا ہے، مگر دو جرائم ایسے ہیں جن کو وہ اپنی حلیمی و ستاری کے باوجود معاف نہیں کرتا: ایک ظلم و ستم اور حقوق العباد کی حق تلفی اور دوسرے ظاہر و باطن کا اختلاف یعنی جس طرح کسی کی حق تلفی کرنے والا کبھی خدائی گرفت سے نہیں بچ سکتا، بلکہ اللہ تعالی جلد یا بدیر اُسے اس کے ظلم کا مزہ چکھا کر چھوڑتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دینا اور ظاہری طور پر ’’اسلام اسلام‘‘ پکارنے کے باوجود اسلام سے بے اعتنائی برتنا بھی بہت بڑی وعید کا سبب ہوگا۔ جو حاکم وقت، عالم دین یا عوام میں سے کوئی فرد صرف زبانی اسلام کا دعویٰ کرتا ہے، مگر دل سے اسلام کی بالادستی نہیں چاہتا، نہ اپنے اختیارات، طاقت اور وسائل اسلام کی بالادستی و سربلندی کے لیے استعمال کرتا ہے، اُسے بھی دنیا میں بہت سی آزمائشوں اور آخرت میں اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی کا سامنا ہوگا۔
اس نعمت کو خلق خدا کے حقوق پامال کرنے میں صرف کریں گے اور اللہ تعالی کے کمزور بندوں کو اپنے ظلم و ستم اور جور و جبر کا نشانہ بنائیں گے، اُنہیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہے ہیں اور جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود اسلام اور اس کی مقدس تعلیمات سے نہ صرف روگردان ہیں، بلکہ اس کی مخالفت میں کوشاں ہیں، اُنہیں اپنے خالق و مالک کی گرفت سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔
و صلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین

بقلم: مولانا محمد اعجاز مصطفی
ماہنامہ بینات (جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن، کراچی)
جمادی الأولی ۱۴۳۵ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں