قبولیت صدقہ کی بنیادی شرط

قبولیت صدقہ کی بنیادی شرط

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ أَرِنِیْ کَیْْفَ تُحْیِیْ الْمَوْتَی قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَی وَلَکِن لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْْرِ فَصُرْہُنَّ إِلَیْْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْء اً ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَأْتِیْنَکَ سَعْیْاً وَاعْلَمْ أَنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:260)
اور یاد کر جب کہا ابراہیم نے اے پروردگار میرے! دکھلا دے مجھ کو کہ کیوں کر زندہ کرے گا تو مُردے؟ فرمایا کیاتونے یقین نہیں کیا کہا کیوں نہیں، لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ تسکین ہو جاوے میرے دل کو، فرمایا تو پکڑلے چار جانور اڑنے والے، پھر ان کو ہلالے اپنے ساتھ، پھر رکھ دے ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا، پھر ان کو بُلا، چلے آویں گے تیرے پاس دوڑتے اورجان لے کہ بے شک الله زبردست ہے، حکمت والا

تفسیر:حضرت ابراہیم عليه السلام نے احیا ئے موتی کے مشاہدے کی خواہش کیوں کی؟
مُردوں کو زندہ کرنے کا ایک مظاہرہ حضرت ابراہیم عليه السلام کی خواہش پر ان کے سامنے بھی ہوا، یہاں اسی کا تذکرہ ہو رہا ہے ۔ انبیا علیہم السلام ایمان ویقین کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہوتے ہیں، ان کے دل معرفت الہی کے خزینے اور سرّ الہٰی کے قصر ہیں ، اگر وہ اپنی مادّی آنکھوں سے قدرت کے سربستہ رازوں کا مشاہدہ بھی کر لیں تو ان کے ایمان ویقین میں مزید کوئی اضافہ نہیں ہوتا، چوں کہ بارگاہ الہٰی میں انہیں خاص تقرب حاصل ہوتا ہے اس لیے وہ مقام ناز میں کبھی قادر مطلق ذات سے قدرت کے چند گوشوں کو بے نقاب کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، تاکہ محبوب حقیقی کے کمالات کے مشاہدے سے شمع محبت کی لو کو فروزاں سے فروزاں تر کرسکیں۔

حضرت ابراہیم عليه السلام کی یہ خواہش بھی اسی نوعیت کی تھی، جس کا اظہار آپ نے ان الفاظ میں فرمایا:﴿رَبِّ اَرِنیْ کَیْفِ تُحْیِ المَوْتٰی﴾ (مجھے دکھائیے آپ حشر میں مردوں کو کیسے زندہ فرمائیں گے؟ ) الله تعالیٰ حضرت ابراہیم عليه السلام کی ایمانی کیفیت سے باخبر تھے، اس کے باوجود پوچھا ﴿أوَلَمْ تُوْمِن﴾ کیا تمہیں مردوں کے زندہ ہونے پر یقین نہیں ہے ؟ آپ ں نے فرمایا بلیٰ کیوں نہیں!، یہ سوال وجواب اس لیے کیے گئے تاکہ کسی بدطینت کو ایمانِ ابراہیمی پر اعتراض یا شک وشبہ کرنے کا موقعہ نہ ملے۔ حضرت ابراہیم عليه السلام اطمینان قلب کی وہ کیفیت حاصل کرنا چاہتے تھے جو مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے، ظاہر ہے خبر کتنی ہی مدلل او رمحقق ہو، معائنے اور مشاہدے کی طرح نہیں ہو سکتی ، چناں چہ انہیں چار پرندے مانوس کرنے کا حکم ملا، تاکہ دوبارہ زندہ ہونے کے بعد آپ انہیں پہچان سکیں اور وہ اپنے مالک کو ، پھر انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے ارد گرد کی پہاڑیوں پر ڈال کر اپنی طرف بلایا تو منتشر ہڈیاں آپس میں ملنے لگیں ، گوشت وکھال چڑھنے لگی اور روح لوٹ آئی اور بھاگتے ہوئے آپ کے پاس جمع ہو گئے۔

حضرت علی رضي الله عنه کی افضیلت کا وسوسہ اور اس کا ازالہ
حضرت علی رضي الله عنه کا ایک معروف قول ہے کہ اگر حجاباتِ خداوندی اٹھ جائیں تو میرے یقین میں اضافے کا موجب نہ بنیں۔(روح المعانی،البقرہ تحت آیة رقم:260) یعنی رفعِ حجابات کے بغیر ہی مجھے اتنا یقین کامل حاصل ہے۔

اس قول سے بعض کج فہم لوگ حضرت علی رضي الله عنه کی افضیلت کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ نبی کے یقین میں رفعِ حجاب سے اضافہ ہوا اور حضرت علی رضي الله عنه کا کامل یقین اس کا محتاج نہ تھا ، دراصل رافضیوں کا عقیدہ ہے کہ مقامِ امامت مقام نبوت سے بالاتر ہے، نیز حضرت علی رضي الله عنه ( نعوذ بالله) تمام انبیا سے افضل ہیں۔

اثناعشریہ شیعہ میں ”امام“ کا مرتبہ
اثناعشر یہ شیعوں کے یہ عقائد ان کی کتابوں میں واضح الفاظ میں لکھے ہوئے ہیں، دورِ قریب کے معروف شیعہ راہنما جناب خمینی نے اپنی کتاب ”الحکومة الاسلامیة“ میں لکھا ہے :”وإنّ منِ ضروریات مذھبنا أنّ لأئمّتنا مقاماً لایبلغہ ملک مقرب، ولانبي مرسل․“(الحکومة الاسلامیہ، ص:52) ( یہ عقیدہ ہمارے مذہب کی ضروریات میں داخل ہے کہ ہمارے ائمہ کو وہ مقام حاصل ہے جہاں نہ کسی مقرب ترین فرشتے کی رسائی ہے، نہ کسی نبی مرسل کی۔

ان جھوٹے عقیدوں کو سہارا دینے کے لیے انہیں ایسے لطیفوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اولا تو یہ دعوی ہی غلط ہے کہ حضرت ابراہیم عليه السلام کے یقین میں اضافہ ہوا ،بلکہ کیفیت کے مشاہدے سے ایک کیفیت متعین ہو گئی، جسے یقین کے اضافے میں کوئی دخل نہیں۔ ثانیاً اگر تسلیم کر لیا جائے کہ یقین میں اضافہ ہوا تھا تو یہ بھی جان لیجیے کہ نبی کے لیے کمالِ یقین کے مراتب جدا ہیں اور ولی کے کمال یقین کے مراتب جدا ہیں، ولی کا کمال یقین نبی کے کمال یقین ،بلکہ اصل یقین سے بھی کمتر اور ضعیف ہوتا ہے ، لہٰذا حضرت علی رضي الله عنه کو کمالِ یقین جو ولایت کی مناسبت سے عطا ہوا وہ انبیا علہیم السلام کے نفس یقین کے برابر بھی نہیں ہوسکتا، چہ جائیکہ اس سے بڑھ جائے۔ (ملخص از تفسیر روح المعانی تحت آیة رقم:260)

﴿مَّثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ،الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ ثُمَّ لاَ یُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُواُ مَنّاً وَلاَ أَذًی لَّہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ، قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَیْْرٌ مِّن صَدَقَةٍ یَتْبَعُہَا أَذًی وَاللّہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ ، یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالأذَی کَالَّذِیْ یُنفِقُ مَالَہُ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْداً لاَّ یَقْدِرُونَ عَلَی شَیْْء ٍ مِّمَّا کَسَبُواْ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْن﴾․(سورہ بقرہ، آیت:264-261)
مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال الله کی راہ میں ایسی ہے کہ جیسے ایک دانہ، اس سے اُگیں سات بالیں، ہر بال میں سو سو دانے اور الله بڑھاتا ہے جس کے واسطے چاہے اور الله بے نہایت بخشش کرنے والا ہے، سب کچھ جانتا ہے جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال الله کی راہ میں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں، انہیں کے لیے ہے ثواب ان کا اپنے رب کے یہاں اور نہ ڈر ہے ان پر اور نہ غمگین ہوں گے جواب دینا نرم اور در گز ر کرنا بہتر ہے اس خیرات سے جس کے پیچھے ہو ستانا اور الله بے پروا ہے، نہایت تحمل والا اے ایمان والو ا مت ضائع کرو اپنی خیرات احسان رکھ کر اور ایذا دے کر، اس شخص کی طرح جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کے دکھانے کو اور یقین نہیں رکھتا ہے الله پر اور قیامت کے دن پر سو اس کی مثال ایسی ہے جیسے صاف پتھر کہ اس پر پڑی ہے کچھ مٹی، پھر برسا اس پر زور کا مینہ، تو کر چھوڑا اس کو بالکل صاف ،کچھ ہاتھ نہیں لگتا ایسے لوگوں کے ثواب اس چیز کا جو انہوں نے کمایا اور الله نہیں دکھاتا سیدھی راہ کافروں کو

ربط:پارے کی ابتدا میں اہل ایمان کو انفاق فی سبیل الله کا حکم دیا گیا کہ وقت کو غنیمت جان کر موت وقیامت کے آنے سے قبل جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرنا چاہو اس میں دریغ مت کرو ، اس کے مبد او معاد کے تین واقعے بیان فرما کر بعثت کی حقانیت کو مزید واضح کر دیا، جب آخرت پر یقین کامل ہو گا تو اس کے لیے توشہ جمع کرنا بھی آسان ہو گا، اس لیے اب دوبارہ انفاق کی ترغیب دی جارہی ہے۔

تفسیر:انفاق فی سبیل الله کے فضائل، آداب ، قبولیت کی شرائط
﴿مَّثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُون…﴾ اس آیت کریمہ میں انفاق فی سبیل الله او را س کے ثمرات کی مثال ایک دانے سے دی گئی ہے، جس کی سات بالیں نکلیں او رہر بالی میں سو دانے ہوں، جس طرح ایک دانہ سات سوگُنا دانوں کو لے کر آتا ہے، اسی طرح راہ الہی میں خرچ کیا گیا ایک درہم سات سو گنا ہو کر انسان کو واپس ملے گا، فی الواقع الله تعالیٰ دیتا ہے، لیتا نہیں ، بلکہ خرچ کرنے والے کی باطنی کیفیت، جذبہ اخلاص ، جوش وخروش کے بقدر بخشش خداوندی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے ، اس کے فضل واحسان کی وسعتیں حدود سے بالاتر ہیں۔

صدقے کے بعد احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے سے اجر ضائع ہو جاتا ہے
کس کو ممنونِ احسان کرکے اس پر احسان جتلانا، حقیر سمجھنا یا کمزور سمجھ کر اس کے حقوق پامال کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا، اس سے انفاق فی سبیل الله کا اجروثواب بھی ضائع ہو جاتا ہے اور مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے ، کیوں کہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ معاشر ے میں ہمدردی اور اخوت کے جذبات غالب رہیں ، معاشرہ بغض، حسد، عناد، تکبر کی آفتوں سے محفوظ رہے ، اگر احسان کرنے والا ممنون احسان کو حقیر جان کر اس سے ذلت آمیز رویہّ رکھے گا تو معاشرتی تقسیم خود بخود پیدا ہوتی چلی جائے گی ،جس کا انجام بغض وحسد، تکبر اور فساد کی شکل میں ظاہر ہو گا، اس لیے صدقہ کرنے کے بعد اس کے ثواب کی حفاظت کا اہتمام بھی کیا جائے، یہ اہتمام کرنے والے ہی قیامت کے دن پروانہ مغفرت کے مستحق ہوں گے، انہیں اس روز اپنے خرچ پر پشیمانی ہو گی اور نہ اجروثواب کے ضائع ہونے کا اندیشہ۔

قول معروف… دل داری کا ایک جملہ دل آزاری سے بہتر ہے
صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے یا دل آزاری سے بہتر ہے کہ دل داری کا ایک جملہ بو ل کر معذرت کر لی جائے، یہ معذرت بھی نادار کے لیے درست ہے، صاحب حیثیت کو تو صدقہ ہی کرنا چاہیے اس کے حق میں تو معذرت بھی جرم ہے۔

دکھلاوے کے صدقے میں کوئی اجر نہیں ہوتا
جس صدقے کا مقصد رضائے الہی کا حصول نہ ہو، بلکہ نام ونمود اور ہوائے نفس کی تکمیل ہو ،اس کا کوئی اجر نہیں ہوتا ، اس صدقے کی مثال اس کھیت کی جیسی ہے، جسے کسان نے کسی چٹان پر مٹی کی موٹی تہہ کو زرخیر زمین سمجھ کر بو دیا ہو ، موسلادھار بارش ہو اور کھیت مٹی سمیت بہہ جائے اور چکنی چٹان کے علاوہ کچھ نہ رہے تو کسان کو کس قدر افسوس لاحق ہوتا ہے؟!

اس کی محنت، حصول نفع کی سار ی امیدیں اس طوفانی ریلے میں بہہ جاتی ہیں، اسی طرح ایمان سے محروم شخص کا انفاق ، یا دکھلاوے کی نیت سے کیا گیا صدقہ روزمحشر میں اس کے اعمال خیر سے ایسے ہی غائب ہو گا جیسے مٹی چٹان سے، پھر وہاں کا افسوس تو بہت بڑا افسوس ہے ، جس کی تلافی بھی ناممکن ہے۔

﴿وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُکُلَہَا ضِعْفَیْْنِ فَإِن لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْر﴾․(سورہ بقرہ، آیت:265)
اور مثال ان کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال الله کی خوشی حاصل کرنے کو اور اپنے دلوں کو ثابت کرنے کو، ایسی ہے جیسے ایک باغ ہے، بلند زمین پر، اس پرپڑا زور کامینہ تو لایا وہ باغ اپنا پھل دو چند اور اگر نہ پڑا اس پر مینہ تو پھوار ہی کافی ہے اور الله تمہارے کاموں کو خوب دیکھتا ہے

تفسیر:اخلاص نیت کے ساتھ صدقہ کرنے کی مثال
اس کے برعکس جن لوگوں کے صدقات وطاعات کا مقصد رضائے الہٰی کا حصول ہوتا ہے ،ان کے انفاق کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی بلند ٹیلے پر واقع ہو، زمین بھی زرخیر ہو ، اچھے محل وقوع کی وجہ سے وہ لطیف ہواؤں سے معمور رہتا ہو، اس پر اگر زور کی بارش پڑ جائے تو اس کا پھل دگنا ہو جائے او راگر ہلکی پھوار پڑ جائے تو بھی اس کی بارآوری کے لیے کافی ہے، یعنی ایسا باغ بہر صورت نفع دیتا ہے، اسی طرح رضائے الہٰی کے حصول کے لیے خرچ کیا گیا مال بھی بہر صورت آخرت میں نفع ہی پہنچائے گا۔ اخلاص کی کمی بیشی کے تناسب سے اس کے نفع میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے، لیکن ضائع ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ۔ زوردار بارش اور پھوار سے اخلاص کے ادنی واعلیٰ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

﴿أَیَوَدُّ أَحَدُکُمْ أَن تَکُونَ لَہُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِیْلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ لَہُ فِیْہَا مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَہُ الْکِبَرُ وَلَہُ ذُرِّیَّةٌ ضُعَفَاء فَأَصَابَہَا إِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمُ الآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُون﴾․(سورہ بقرہ ،آیت:266)
کیا پسند آتا ہے تم میں سے کسی کو یہ کہ ہووے اس کا ایک باغ کھجور اور انگور کا، بہتی ہوں نیچے اس کے نہریں اس کو اس باغ میں اور بھی سب طرح کا میوہ حاصل ہو او رآگیا اس پر بڑھاپا اور اس کی اولاد ہیں ضعیف، تب آپڑا اس باغ پر ایک بگولا، جس میں آگ تھی، جس سے وہ باغ جل گیا، یوں سمجھاتا ہے تم کو الله آیتیں، تاکہ تم غور کرو

تفسیر:گزشتہ مثالوں کی مزید وضاحت
جس طرح تم میں سے کوئی شخص یہ گوارہ نہیں کرتا کہ اس کے عمر بھرکی کمائی جوکھجوروں اور انگورں کے باغ کی صورت میں موجود ہو اس میں نہریں بہہ رہی ہوں ، جس سے باغ کی خوش حالی اور حسن وجمال میں اضافہ ہو رہا ہو، باغ کا مالک بوڑھا شخص ہو، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ، ان کی معیشت کا دار ومدار صرف یہی باغ ہو، اس عمر میں جب انسان مشقت کا کام نہیں کر سکتااور مال کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے، یک بیک کوئی آگ کا بگولا آئے اور پورے باغ کو جلا کر خاکستر کردے، بوڑھے نے جس باغ پر امیدوں کی بہارسجا رکھی تھی اسی سے شعلے اٹھنے لگے، حسرتوں کا جنازہ آنکھوں کے سامنے سے گزر نے لگے، ایسے وقت میں بوڑھے کے دل میں گزرتے غموں کے طوفان کاکوئی اندازہ کرسکتا ہے؟ لیکن اس سے بڑھ کر حرماں نصیبی اس شخص کی ہے جس نے اپنے اعمال نامے میں انفاق فی سبیل الله کا باغ لگایا ہو ، پھر قیامت کے روز اسی پر بھروسہ کرکے اجر وجواب کی امید لگائے کھڑا ہو کہ اچانک اسے خبر دی جائے کہ تم نے جو انفاق فی سبیل الله کا باغ لگایا تھا وہ قبولیت کی شرائط سے محروم ہونے کی وجہ سے پھل دینے سے قاصر ہے، تمہارا سہارا ٹوٹ چکا ہے، اس کی حسرت کا کیا عالم ہو گا؟وہ حسرت بھی ناقابل تلافی حسرت ہو گی ۔ اگر تم اس اندوہناک انجام سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے صدقات وطاعات کو ریا کاری اور دل آزاری سے بچائے رکھو۔

قبولیتِ صدقہ کی بنیادی شرط
انفاقی فی سبیل الله اور ہر قسم کی طاعات کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ نیکوکار صاحب ایمان ہو ، بغیر ایمان اورد ینِ اسلام کے کوئی نیکی بارگاہ الہٰی میں سند قبولیت حاصل نہیں کر سکتی، بلکہ دنیا ہی میں ان کی جزا چکا دی جاتی ہے۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیْہِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِیْہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَنِیٌّ حَمِیْد، الشَّیْْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُم بِالْفَحْشَاء وَاللّہُ یَعِدُکُم مَّغْفِرَةً مِّنْہُ وَفَضْلاً وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ،یُؤتِیْ الْحِکْمَةَ مَن یَشَاء ُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:269-267)
اے ایمان! والو خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے اوراس چیز میں سے کہ جوہم نے پیدا کیا تمہارے واسطے زمین سے اور قصد نہ کرو گندی چیز کا اس میں سے کہ اس کو خرچ کرو، حالاں کہ تم اس کو کبھی نہ لو گے، مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ او رجان رکھو کہ الله بے پروا ہے، خوبیوں والا شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگ دستی کا اور حکم کرتا ہے بے حیائی کا او رالله وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا اور الله بہت کشائش والا ہے، سب کچھ جانتا ہے عنایت کرتا ہے سمجھ جس کسی کو چاہے او رجس کو سمجھ ملی اس کو بڑی خوبی ملی اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں

ربط:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ…﴾ بارگاہ الہٰی میں قبولیت انفاق کی چند شرائط کا تذکرہ گزشتہ آیت میں ہوا تھا اور کچھ شرائط کا تذکرہ اس میں ہے۔

تفسیر:حلال اور عمدہ مال راہ الہی میں خرچ کرنا چاہیے
الله کی راہ میں وہ چیز خرچ کرنی چاہیے جو حلال کمائی سے ہو اور عمدہ بھی ہو ۔ ناقص اور ردّی اشیاء کے خرچ کرنے سے نہ کوئی غریب فائدہ اٹھا سکتاہے، نہ ہی بخل جیسے باطنی مرض کا علاج ہو سکتا ہے او ررضائے الہی کے حصول کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایسی بے فائدہ چیز کے خرچ پر کیا ثواب ملے گا؟ ہاں! اگر عمدہ چیز میسر نہ ہو تو پھر قابل انتفاع تو ہو،ایسی بے کار چیزیں جو ہم خود ایک دوسرے کو دینے سے شرمائیں اور ان سے اعراض برتیں ،وہ بارگاہ الہٰی میں حاضر کرنے کے لائق کس طرح ہو سکتی ہیں ؟

مال تجارت میں زکوٰة اور عشر کے وجوب پر استدلال
اہل علم نے ﴿أَنفِقُواْمِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ ﴾ سے مال تجارت میں زکوٰة کے فرض ہونے پر استدلال کیا ہے اور ﴿وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم ْ﴾ سے عشر کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ اس صورت میں انفاق کا حکم برائے وجوب ہوگا۔ اور من الارض کی قید سے سمندری جواہر اور ہیرے مستثنیٰ ہو گئے، ان پر زکوٰة نہیں ہے، بشرطیکہ مال تجارت نہ بنے۔ (احکام القرآن اللجصاص،البقرة تحت آیة رقم:267،احکام القرآن للقرطبی تحت آیة رقم:267)

الشَّیْْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْر
ربط:گزشتہ آیت میں عمدہ مال کے خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے او راس آیت کریمہ میں بتایا جارہا ہے کہ شیطان اس موقع پر مختلف اندیشے اور وسوسے جھونک کر ورغلاتا ہے ،اس لیے اس کے کہنے میں مت آنا۔

تفسیر:شیطان فقر کا خوف دلاتا ہے
شیطان فقر کا خوف دلا کر انفاق سے روکتا ہے، حالاں کہ بوقت گنجائش مناسب مقدار میں مال خرچ کرنے سے افلاس کا خطرہ لاحق ہی نہیں ہوتا ،چہ جائیکہ اس کا اندیشہ کیا جائے، جہاں خرچ کرنے میں دنیا وآخرت کی فلاح یقینی ہو اور نقصان کا ذرہ بھر بھی احتمال نہ ہو، وہاں افلاس کا خوف احمقوں کو ہی لاحق ہو سکتا ہے۔ شیطان بخیلوں کو انہی وہموں میں غلطاں رکھ کر خیرسے محروم رکھتا ہے، ہاں! اگر مال کے خرچ کرنے کی گنجائش نہ ہو یا خرچ کرنے سے افلاس او رمحتاج ہونے کے اسباب وقرائن یقینی طور پر موجود ہوں تو خرچ سے رک جانے میں کوئی حرج نہیں، نہ ہی انہیں بخل کا طعنہ دیا جاسکتا ہے، بلکہ ایسے شخص کو تو شریعت صدقات نافلہ سے روکتی ہے۔

یُؤتِیْ الْحِکْمَةَ مَن یَشَاء
ربط:چوں کہ بخل انسان کو انفاق فی سبیل الله سے روکتا ہے ، اس لیے اس آیت میں بخل کا علاج تجویز کیا جارہاہے۔

تفسیر:حکمت کسے کہتے ہیں؟
الله جسے چاہتا ہے اسے ”حکمت“ سے نوازتا ہے اور جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر عطا کر دی گئی، حکمت کیا ہے؟ امور دین کو صحیح طریقے سے سمجھنے کا نام حکمت ہے۔(احکام القرآن للقرطبی، البقرة تحت آیة رقم:269) اوردین کی فہم صحیح بخل کا علاج بھی ہے اور خیر کثیر کی بنیاد بھی، اعمال خیر کی پہچان بھی اسی سے ہوتی ہے، عقائد واعمال کے درجات جاننا کہ کون سے فرض، کون سے واجب، کون سے مسنون، کون سے مستحب اور کون سے اولیٰ اور کون سے مباح ہیں؟ پھر اسی لحاظ سے ان کی رعایت رکھنا، اسی طرح کون سا اختلاف کس درجے کا ہے او راس میں کس قدر شدّت، یا نرمی روا رکھی جائے؟ یہ سب چیزیں دین کی صحیح سمجھ کی برکت سے حاصل ہوتی ہیں۔اور آخرت میں نجات کا دارومدار بھی ان دو چیزوں پر قائم ہے ۔ درست عقائد اعمال صالحہ۔ اس لیے” حکمت “کو خیر کثیر کی بنیاد کہنا بالکل بجا ہے۔

﴿ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللّہَ یَعْلَمُہُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنصَار، إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَإِن تُخْفُوہَا وَتُؤْتُوہَا الْفُقَرَاء فَہُوَ خَیْْرٌ لُّکُمْ وَیُکَفِّرُ عَنکُم مِّن سَیِّئَاتِکُمْ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ، لَّیْْسَ عَلَیْْکَ ہُدَاہُمْ وَلَکِنَّ اللّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَلأنفُسِکُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْہِ اللّہِ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَیْْرٍ یُوَفَّ إِلَیْْکُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُون﴾․(272-270)
اور جو خرچ کرو گے تم خیرات یا قبول کرو گے کوئی منّت تو بے شک الله کوسب معلوم ہے اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں اگر ظاہر کرکے دو خیرات تو کیا اچھی بات ہے او راگر اس کو چھپاؤ اور فقیروں کو پہنچاؤ تو وہ بہتر ہے تمہارے حق میں اور دور کرے گا کچھ گناہ تمہارے اور الله تمہارے کاموں سے خوب خبر دار ہے تیرے ذمے نہیں ان کو راہ پر لانا اور لیکن الله راہ پر لاوے جس کو چاہے او رجو کچھ خرچ کرو گے تم مال سوا پنے ہی واسطے جب تک کہ خرچ کرو گے الله ہی کی رضا جوئی میں اورجو کچھ خرچ کر وگے خیرات سو پوری ملے گی تم کو او رتمہارا حق نہ رہے گا

ربط:﴿ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَة﴾گزشتہ آیات میں ان شرائط اور آداب کا تذکرہ تھا جس کی رعایت کرنے سے صدقات وخیرات باعث اجروثواب بنتے ہیں، اس آیت میں انہیں چیزوں کی رعایت کی ترغیب دوسرے انداز سے دی جارہی ہے۔

تفسیر
تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو ، تھوڑا ہو یا زیادہ، ردی ہو یا عمدہ اور جہاں کہیں بھی خرچ کرتے ہو ، مصارف خیر میں یا مصارف شرّ میں یا جو نذر مانتے ہو ،بدنی ہو یا مالی ، مطلق یا مشروط، سب خدا کے علم میں ہے، اس لیے محتاط رہو ، خدا کی حضوری کا استحضار رکھو تو امور خیر میں خرچ کی توفیق ہو گی اور آداب وشرائط کی رعایت رکھنے میں بھی آسانی ہو گی۔

نذر کسے کہتے ہیں؟
نذر کہتے ہیں کسی مراد کے پورے ہونے پر اپنے اوپر کوئی چیز (عبادت) لازم کر لینا جو پہلے سے اس پر واجب نہ تھی ۔ (روح المعانی، البقرة تحت آیة رقم:270) اردو میں اسے منّت اور نذر بھی کہا جاتا ہے۔

نذر کے صحیح ہونے کے لیے بنیادی شرط
نذر کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ نذر عبادات مقصودہ کی مانی جائے ۔ ( الدّرالمختار مع الرد:3/313،316) یعنی جس چیز کی نذر مانی جارہی ہو اس کی نظیر فرائض وواجبات میں بحییثت مستقلہ موجود ہو ، جیسے نماز ، روزہ، قربانی۔

نذر کی دو قسمیں ہیں
نذر مطلق(الدّرالمختار مع الردّ:3/735) یعنی اگر کسی نے بلا تعلیق کے یہ الفاظ کہہ دیے ، میں اپنے اوپر دو روزے لازم کرتا ہوں تو اس پر یہ روزے رکھنا واجب ہو جائیں گے۔

نذرمشروط(ایضاً) یعنی نذر کو کسی فعل سے مشروط کرنا، مثلاً اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو دس نفل پڑھوں گا، دونوں طرح کی نذریں درست ہیں۔

غیر الله کی نذر ماننا
واضح رہے کہ نذر ایک عبادت ہے او رعبادت کے لائق صرف الله تعالیٰ کی ذات ہے ، اس لیے الله تعالیٰ کے علاوہ کسی کی نذر ماننا حرام ہے ۔ مثلاً یوں کہنا” اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو فلاں بزرگ کے مزار پر بکرا ذبح کرنے کی نذر مانتا ہوں ۔“ یہ بکرا ذبح کرنا اور اس بکرے کو کھانا حرام ہے، اگرچہ اس کے ذبح کرتے وقت الله تعالیٰ کا نام لیا ہو، کیوں اس سے خدا کی خوش نودی مقصود نہیں ہوتی، بلکہ صاحب مزار کی خوش نودی اور تقرّب مقصود ہوتاہے ۔ اس کی مکمل تفصیل سورة بقرہ کی آیت نمبر173 میں گزر چکی ہے ۔

إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَات
ربط:یہاں سے صدقہ دینے کی کیفیّت بیان کی جاری ہے کہ ، خفیہ دیا جائے یا اعلانیہ۔

صدقہ خفیہ دیا جائے یا اعلانیہ؟
قرآن کریم میں صدقہ خفیہ اور اعلانیہ دونوں کی تعریف کی گئی ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُم بِاللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ سِرّاً وَعَلاَنِیَةً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ﴾․ (البقرة:274) ( جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال الله کی راہ میں رات کو اور دن کو چھپا کر اور ظاہر میں تو ان کے لیے ہے ثواب ان کا اپنے رب کے پاس) حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں نفلی صدقات میں اخفا افضل ہے اور صدقات واجبہ میں اظہار افضل ہے ( جیسے زکوٰة، نذر ، قربانی) تاکہ ان کے متعلق کوئی تہمت نہ لگا سکے۔(احکام القرآن للجصّاص، البقرة تحت آیة رقم:270) کہ زکوٰة ادا نہیں کرتے، نیز صدقات واجبہ کے اعلانیہ دینے میں دوسرے مسلمانوں کے لیے ترغیب وتحریض کا سبق بھی مضمر ہے، نیز صدقہ واجبہ فقط محتاج اور ضرورت مند افراد کو ہی دیا جائے۔

ربط:یہاں بتایا جارہاہے مالی تعاون صرف مسلمان غرباء کے ساتھ مخصوص نہیں ، نفلی صدقات سے ذمی کافروں میں جو افراد محتاج ہوں ان کا تعاون کرنا بھی جائز ہے۔

تفسیر:کافروں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم
صحابہ کرام ث بعض اوقات کافروں کے ساتھ اس مصلحت سے تعاون نہیں کرتے تھے کہ شاید اس تدبیر سے وہ ایمان لانے پر آمادہ ہو جائیں۔( احکام القرآن للجصاص، البقرة تحت آیة رقم:272) آپ صلی الله علیہ وسلم کی رائے بھی یہی تھی ، اس لیے اس آیت میں آپ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کسی کو ہدایت پر لانا آپ کے ذمے نہ فرض ہے نہ ہی واجب، جس کے لیے آپ اتنی دور دراز کی تدبیروں کا اہتمام کریں، یہ تو سب مشیتِ الہٰی پر موقوف ہے، اس لیے آپ کافروں پر احسان کرنے سے گریز نہ فرمائیں ، آپ کو اس کا اجر تو بہرحال ملے گا۔

کفار کو صدقہ دینے کی تفصیل
جو کافر مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں شریک ہو یا لڑنے والوں کا تعاون کر رہا ہو، اسے کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں ہے۔ یہی حکم دارالحرب کے رہائشی کفار کا ہے۔(احکام القرآن للجصاص، البقرة تحت آیة رقم:272) لہٰذا دارلحرب یعنی کفار ممالک اگر آفت سماوی آندھی، طوفان، بجلی، اولے یا آفت ارضی، سیلاب، زلزلے، باہمی جنگیں وغیرہ کاشکار ہوں تو مسلمانوں کے لیے ان کی امداد کرنا جائز نہیں۔

فرمان الہٰی ہے:﴿لایَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ﴾․ (ممتحنة:8) الله تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اورنکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی او رانصاف کا سلوک۔

جو کافر مسلمانوں کے خلاف کسی لڑائی وغیرہ میں شریک نہ ہو اور اسلامی حکومت میں معاہدے کے تحت ٹیکس دے کر رہ رہا ہو،جسے شرعی اصطلاح میں ذِمّی کہتے ہیں، وہ اگر فقر میں مبتلا ہو اسے بقدر ضرورت نفلی صدقہ سے تعاون کرنا درست ہے، صدقات واجبہ سے درست نہیں، کیوں کہ وہ صرف مسلمان غربا کا حق ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرة تحت آیة رقم:272)

ایک شبہے کاجواب
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کھانا نیک لوگ ہی کھائیں او راس آیت میں کافروں کو صدقہ دینے کی اجازت دی جاری ہے ، دونوں میں تعارض ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث رسول میں جس کھانے کا تذکرہ ہے اس سے دعوت کا کھانا مراد ہے اور آیت کریمہ میں ضرورت کے کھانے کا بیان ہے، اس میں کافروں کا اکرام پیش نظر نہیں ہوتا، بلکہ ان کی ضرورت پیش نظر ہوتی ہے ۔ اس لیے دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ (ملخص از بیان القرآن، البقرة تحت آیة رقم:276) (جاری)

 

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں