رمضان المبارک۔۔۔ حسنات کا گنج گراں مایہ

رمضان المبارک۔۔۔ حسنات کا گنج گراں مایہ

اسلامی کلینڈر کا نواں مہینہ جس کی فضیلتوں اور برکتوں کا شمار ممکن نہیں، واحد وہ مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آتا ہے اور دو مناسبتوں سے آیا ہے۔
اول یہ کہ یہی وہ ماہ مقدس ہے جس میں نزول قرآن کا آغاز ہوا یا قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا اور پھر حکمتِ الہی اور ضرورت بشری اور حکمت خداوندی سے ۲۲؍سال اور ۷؍ماہ اور ۱۴؍دن کے عرصے میں نجماً نجماً، آیۃً آیۃً، سورۃً سورۃً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا رہا۔
«شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ»(بقرہ:۱۸۵)
’’رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔‘‘
دوسری مناسبت یہ ہے کہ اسی مہینے میں روزوں کی فرضیت کے احکامات نازل ہوئے۔
«فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ»(بقرہ:۱۸۵)
’’تم میں سے جو اس مہینہ میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘
یوں ایک طرف یہ جشن نزول قرآن کا مہینہ ہے تو دوسری طرف ماہ صیام ہے۔
لغوی طور پر رمضان ’’رمض‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی سخت گرمی اور تپش کے ہیں۔ اہل لغت نے اس لفظ کی اشتقاقی حیثیت پر بحث کرتے ہوئے دو ممکنہ وجوہ بتائی ہیں:
۱۔ جب ابتدا میں مہینوں کے وضع کیے گئے تو یہ مہینہ سخت گرمی کے موسم میں آیا ہوگا۔
۲۔ روزہ دار روزوں کی وجہ سے بھوک اور پیاس کی حدت و شدت کا احساس رکھتا ہے، اس لیے اسے رمضان کا نام دیا گیا۔
رمضان المبارک میں روزوں کی فرضیت مکی زندگی میں نہیں ہوئی بلکہ ۲؍ہجری میں پہلی مرتبہ اہل اسلام پر روزے فرض کیے گئے اور صرف اسی ماہ کے روزے فرض کیے گئے۔ یوں سفر ہجرت کے کم و بیش ڈیڑھ سال بعد روزے فرض ہوئے۔ یوں کلمہ طیبہ اور نماز کے بعد تیسرا رکن اسلام (روزہ) اس خصوصی مہینے سے گہری وابستگی رکھتا ہے اور تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ دین سے گہری محبت اور شیفتگی کا درس دیتا ہے۔
عظمتوں والے اس ماہ مبارک کی فضیلتیں قرآن و حدیث میں پوری شرح و بسط سے دی گئی ہیں۔ آج کی نشست میں ہم سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ خطبہ ہے جو آپ نے شعبان ۲ھ کے آخری دن ارشاد فرمایا۔ اس ایک خطبے سے رمضان المبارک کی فضیلت، اہمیت اور افادیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اس خطبے کے راوی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان ۲ھ کے آخری دن ہم سے یہ خطاب فرمایا:
’’اے لوگو!ایک عظیم مہینہ، ایک مبارک مہینہ تم پر سایہ فگن ہے۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ خیر و برکت والی ہے۔ اللہ نے اس کے دنوں میں روزہ رکھنا فرض قرار دے دیا اور اس کی راتوں میں قیام سنت قرار دیا ہے۔ جو شخص اس ماہ مبارک میں ایک نیکی کرے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں ایک فرض ادا کیا اور جو اس میں ایک فرض ادا کرے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جس شخص نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایا، اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور اسے آتش جہنم سے آزاد کردیا جائے گا۔ اسے بھی روزہ دار جتنا ہی ثواب ملے گا، درآں حالیکہ روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ آئے گی۔
ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم میں سے ہر کوئی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ثواب اللہ تعالی پانی ملے ہوئے دودھ یا پانی کے گھونٹ پر بھی مرتب فرمادے گا۔ جو روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلادے، اسے اللہ میرے حوض سے پانی پلائے گا جس کے بعد اسے تشنگی محسوس نہ ہوگی تا آنکہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔
یہ وہ مہینہ ہے جس کا عشرہ اول رحمت ہی رحمت ہے، جس کا درمیانی عشرہ بخشش ہی بخشش ہے اور جس کا آخری عشرہ آگ سے آزادی ہے۔ جس شخص نے اپنے غلام یا خادم یا ملازم کی ذمہ داریاں اس مہینہ میں کم کردیں، اللہ تعالی اس کی بخشش فرمادے گا اور اسے آتشِ دوزخ سے آزاد فرمادے گا۔‘‘
(کنز العمال، رقم الحدیث: ۲۳۷۰۹)

سرکار رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث جس میں آپ کا یہ خطاب نقل کیا گیا ہے، رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں خیر و برکت کے خزانوں اور حسنات و فضائل کے گنج ہائے گراں مایہ کی نشانہ دہی کرتی ہے۔ اس حدیث میں اس مہینہ کی چار اہم صفات کا تذکرہ ہے:
۱۔ شہر عظیم: عظمتوں والا مہینہ۔
۲۔ شہر مبارک: برکتوں والا مہینہ۔
۳۔ شہر صبر: ہمت و استقلال سے نیکیوں پر اور جرات و حوصلے سے گناہوں کے خلاف ڈٹے رہنے کا مہینہ۔
۴۔ شہر مواساۃ: ایسا مہینہ جس میں لازم آتا ہے کہ ہم اپنے ابنائے جنس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہمدردی، غم گساری اور دل سوزی کے ساتھ پیش آئیں۔
خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس حد تک اس پر عمل پیرا ہیں۔ اگر اس آئینے میں دیکھ کر اپنے اندر کوتاہیاں پاتے ہیں تو ان کے ازالے کا ہم نے کیا سوچا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہر مسلمان کے ذمے ہے۔

ماہ صیام کے ہدایا و عطایا
رمضان المبارک اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں اور ضیاپاشیوں کے ساتھ پورے عالم اسلام کو بقعہ نور بنادیتا ہے تو اس کے جلو میں ان برکتوں، رحمتوں اور فضیلتوں کا ظہور بھی ہوتا ہے جن سے سال بھر کے دوسرے مہینے خالی ہیں۔ یوں کہنا چاہیے، رمضان ایک ابر نوبہار ہے جس سے ایمان کی کھیتیاں لہلہاتی ہیں، حسنِ عمل کے نہال پروان چڑھتے اور رحمت و بخشش کے اثمار شیریں جھولیوں میں آن گرتے ہیں۔ اس ماہ مقدس میں خیر کے خزانے لٹتے اور نیکیوں کے بھنڈار بٹتے ہیں۔ رحمتیں محض بہانے تلاش کرتی ہیں۔ کبھی رحمت عالم انسانیت کو محیط ہوتی ہے تو کبھی گناہوں کی تپتی دھوپ میں مغفرت کے سائبان تن دیے جاتے ہیں اور کبھی گرفتار بلا کو نارِ جہنم سے آزادی کے پروانے عطا کیے جاتے ہیں۔ اوله رحمة، اوسطه مغفرة و آخره عتق من النار۔
(کنزالعمال، رقم حدیث: ۲۳۷۰۹)

حالت صیام ہو یا حالت قیام، ہر دو کو اس زور سے تبشیری سانچے میں ڈھال دیا گیا ہے کہ گزشتہ گناہوں کے دھل جانے کی نوید جانفزا دلوں کو سکون کی نعمت سے مالامال کرتی ہے۔ نبوت کی زبان فیض ترجمان ہے، اعلان ہوتا ہے:
’’من صام رمضان ایماناً و احتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه، و من قام رمضان ایماناً و احتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه‘‘ (الجامع الصحیح للبخاری، رقم حدیث: ۱۷۶۸)
اس ماہ کے خصوصی ہدایاکو نگاہ میں رکھیے اور پھر اس کی عظمتوں کا اندازہ لگائیے کہ اس کی ایک ایک آن کس ندرت آمیز شرف کی آئینہ دار ہے۔
سب سے پہلا ہدیہ خود روزہ ہے۔ باقی مہینوں میں آپ روزے رکھیں تو محض نفلی عبادت ہوگی جس کی استحبابی قدر و قیمت تو اپنی جگہ ہے مگر یہ عبادت ادائے فرض کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتی۔ رمضان اپنے ساتھ روزہ لاتا ہے اور روزہ جن جسمانی، طبعی، طبی، نفسیاتی، روحانی، معاشرتی فوائد و مصالح کو متضمن ہے، اسے لفظوں کے شکستہ پیمانوں سے ناپاہی نہیں جاسکتا۔ لفظ کیسے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں، روزے کی افادیت اور جزا کی وسعتوں کو نہیں پاسکتے۔ وجہ یہ ہے کی باقی عبادات میں ریاکاری اور نمود و نمائش کے سو پہلوؤں کا امکان ہے۔ محض روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریاکاری کو ذرہ برابر دخل نہیں تا آنکہ خود روزہ دار ہی نمود روزہ پر مصر نہ ہو۔ اس عبادت کا یہی اخلاصی پہلو ہے جس کے لیے حدیث قدسی میں فرمایا گیا: ’’الصیام لی و انا اجزی به‘‘ (الجامع الصحیح للبخاری، رقم حدیث: ۱۷۶۱) ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دیتا ہوں‘‘۔ اگرچہ جزا تو سبھی اعمال کی وہی دیتا ہے اور کوئی نہیں دے سکتا، مگر اپنی طرف یہ انتسابِ جزا روزہ کے دوسرے اعمال پر شرف و تخصص کا اظہار کرتا ہے۔
دوسرا تحفہ جو رمضان اپنے ساتھ لایا، وہ، وہ ضابطہ حیات ہے جس نے پوری کائنات میں ہلچل مچادی۔ فرسودہ زندگی کے اندر سے ایک تازہ تر اور شاداب تر زندگی نمودار ہوئی۔ وقیانوسی اور رسم و رواج کے مارے ہوئے آدمی کے اندر سے ایک پر عزم اور بالیدہ روح انسان برآمد ہوا جس نے چار وانگ عالم میں فکر و نظر اور علم و عمل کا ایک انقلاب تازہ پیدا کردیا۔ یہ وہ نوشتہ دانش و بینش ہے اور وہ کتاب ہدایت ہے جس نے آتے ہی پوری نسل انسان کو یہ چیلنج کردیا کہ اس جیسے کم از کم تین جملے ہی گھر لاؤ مگر اپنی فصاحت و بلاغت اور قدرت زبان و بیان کی جملہ توانائیوں کے باوجود نہ کوئی اس دور میں اس کی نظیر و مثال پیش کرسکا، نہ ہی آج تک اس تحدی کا جواب پیش کیا جاسکا ہے۔ آج بھی وہ چیلنج انھی زور دار لفظوں میں پورے تحکمانہ لہجے کے ساتھ موجود ہے جیسے چودہ سو سال پہلے تھا:
«فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ»(البقرہ: ۲۳)
زیادہ سے زیادہ جواب دیا گیا تو صرف یہ کہ ’’لو نشاء لقلنا مثل ھذا‘‘ (الانفال:۳۱) مگر یہ بھی خالی الفاظ تھے، ہر طرح کی معنوی معقولیت سے خالی۔ آج تک جواب کا انتظار ہے بلکہ قیامت تک رہے گا، جواب یقیناً نہیں بن پڑے گا۔ اس کتاب حکیم نے دلوں کے زاویے بدل دیے، نگاہوں کا آرزوئیں بدل دیں، دلبری اور دل ربائی کے طور بدل دیے، روحوں میں بے تابیاں بھردیں اور فکر و عمل کو نئی وسعتیں عطا کردیں۔ جس نے یہ کلام سنا اس کی تاثیر کا گھائل ہو کے رہا۔
مخدرات سرا پردہ ہائے قرآنی
چہ دلبرند کہ دل می برند پنہانی

جس جان میں اتر گیا، اس میں زبردست انقلابی داعیے ابھارے، بالکل کائنات ہی بدل کر رکھ دی:
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود

تیسرا ارمغان ثمین اس ماہ مبارک میں اعتکاف ہے۔ اعتکاف اصل میں دنیوی آلائشوں اور بہت حد تک مکروہات زمانہ سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرکے اپنے خالق و مالک کے ساتھ تخلیے کا دوسرا نام ہے۔ تخلیہ طالب و مطلوب کے راز و نیاز کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ ایک عابد شب زندہ دار اپنے محبوب حقیقی کے ساتھ رات کی تنہائیوں میں اس زاویہ عزلت میں چپکے چپکے خضوع و خشوع کے ساتھ لو لگاتا ہے۔ کبھی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے تو کبھی اپنی تر دامنی پر سسک سسک کر، بلک بلک کر معافی کا خواستگار ہوتا ہے۔اس حال میں اس کی یہ دعائیں در اجابت سے ٹکراتی اور بارگاہ حق میں شرف باریابی پاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کائنات کے محسن اعظم نے ہر ماہ رمضان کے عشرہ اخیرہ میں اعتکاف فرمایا۔ ۸ھ کو فتح مکہ میں مصروفیت کی وجہ سے اعتکاف نہ فرماسکے تو اگلے سال ۹ھ میں بیس بن کا اعتکاف فرمایا۔ یہ رمضان ہی ہے جس میں بنی نوع انسان کے لیے رحمتوں کے خزانے لٹتے اور انعاماتِ الہیہ کی بے طرح بارش ہوتی ہے۔

رحمت حق بہانہ می جوید
رحمت حق بہا نمی جوید

چوتھی عطائے رمضان المبارک لیلۃ القدر ہے۔ کس حتمی انداز سے کہہ دیا گیا ہے کہ ’’ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ‘‘ (القدر:۳) حساب لگائیے تو ۸۳؍سال۴؍ماہ بنتے ہیں۔ ایک شخص بغیر کوئی دوسرا کام کیے بارگاہ ایزدی میں سر نہوڑائے، پوے استغراق و انہماک اور جذب و انجذاب کے ساتھ عبادت میں ۸۳؍سال۴؍ماہ تک مسلسل کھڑا رہے تو بھی اس رات کی بیداری اور تعلق باللہ اس عرصہ دراز سے بھی بہتر ہے۔ خَیر کا لفظ تفضیل کل سے بھی کوئی اوپر درجہ ہو تو اس کو بھی شامل ہے۔ امت محمدیہ کی کوتہ عمری کا اس کثرت ثواب اور جزئے جزیل سے ازالہ کیا جارہا ہے۔ یوں سمجھئے کہ تھوڑا کرنے پر بہت زیادہ انعامات کا مستحق قرار دینا اسی ذات ستودہ صفات کا شیوہ ہے جس نے اپنے آپ کو رب العالمین اور رحمن و رحیم کے دلنواز القاب دیے ہیں۔
پانچواں عطیہ جو اس مقدس ماہ کا خاصہ ہے، وہ عیدالفطر ہے۔ اگرچہ یہ روز سعید شوال کی پہلی تاریخ کو ہوتا ہے مگر یہ ہے حاصل رمضان ہی۔ یہ فضیلتوں والا دن ہے جس روز پورا عالم اسلام ایک ماہ کی پوری بدنی و روحانی ریاضتوں کے بعد انبساط و مسرت کے جذبات میں ڈوب جاتا ہے۔ دل والے
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
کے لہجے میں اس دن کی خوشیوں کو دوبالا کرتے، استعاروں سے کام لیتے ہوئے، مجاز کے پردے میں معارف کا ذکر ایسے ایسے حسین پیرایہ میں کرتے ہیں کہ ذوق جھوم جھوم اٹھتا ہے۔

ساقیا عید ہے لابادے سے مینا بھر کے
کہ مے آشام پیاسے ہیں مہینہ بھر کے

یہ ارمغان بہجت مسرتوں و شادمانیوں کا پیغام لاتا ہے۔ قربتوں اور محبتوں میں اضافے کا موجب ہے۔ روزے نے جن بہیمی قوتوں کو مضمحل کر دیا تھا، یہ ان پر اترانے کا دن ہے۔ روح کی بالیدگی کا دن ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غرہ شوال کو دیکھتے ہی روحیں یوں مچلنے لگتی ہیں گویا کوئی سالوں کا محروم حج اکبر کی سعادت سے بہرہ ور ہورہا ہو۔

روزے داراں نوں عید داچن چڑھیا
جویں حاجیاں حج تیاریاں نیں

کیا فائدہ ہے ترک غذائے حلال سے
روزہ اردو اور فاردی میں ترجمہ ہے صوم کا اور صوم کے لغوی معنی ہیں باز رہنا، رک جانا، خواہ کھانے سے ہو یا کلام کرنے سے یا چلنے سے:
الصوم فی الاصل: الامساک عن الفعل مطعماً کان اور کلاماً اور مشیاً۔ (المفردات فی غریب القرآن للاصفہانی، ص۲۹۳)
’’روزہ اصل میں کسی کام سے رک جانے کا نام ہے، وہ کھانا ہو بات یا چلنا ہو۔‘‘

الصوم فی اللغۃ: الامساک عن ما تنازع الیہ النفس۔ (تفسیر بیضاوی، ۲؍۴۳۶)
’’روزہ لغت میں اس چیز سے رک جانے کو کہتے ہیں جس کی طرف نفس زور کرکے جائے‘‘
معلوم ہوا کہ روزہ نفس کی مرغوبات سے پرہیز کا دوسرا نام ہے۔ شرعی اصطلاح میں روزہ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ بعض حلال چیزوں سے بچے رہنے کا نام ہے جن میں کھانا پینا اور جنسی عمل سر فہرست ہیں۔ دیگر منکرات عام زندگی میں بھی قابل پرہیز ہیں، بحالت روزہ تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوں گے۔
کھانا پینا زندگی کی بدیہی ضروریات میں سے ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا کھانا پینا ہی زندگی کی غایت ہے؟ اس کا جواب انسانی فکر نے دو طرح دیا ہے:
۱۔ زیستن برائے خوردن، کھانے ہی کے لیے زندہ رہنا چاہیے۔
۲۔ خوردن برائے زیستن، زندگی گزارنے کے لیے کھانا چاہیے۔
پہلا طرز فکر وہ ہے جو مادہ پرستانہ نظریات نے دیا ہے۔ اس نقطہ نگاہ کے مطابق تن پروری ہی انسانی زندگی کی غایت اولیٰ ہے۔ ایسے افراد یا ایسے معاشرے اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے پیٹ پوجا سے آگے کوئی حقیقت نہیں دیکھ سکے۔ ان کا نعرہ مستانہ یہی ہوتا ہے:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
Eat, drink and be merry, for tomorrow you will die.
یہ زندگی کو دیکھنے کا اپیقورین (Epicurean) مطمح نظر ہے۔
دوسرا نقطہ نگاہ وہ ہے جس کے پیچھے وحی کی قوت محرکہ اور الہامی سوچ کے دھارے بہہ رہے ہیں۔ کھانا ایک ناگزیر ضرورت حیات ہے، مگر محض کھانا اور شکم پروری ہی غایت حیات نہیں۔ یہ پیغمبرانہ طرز فکر ہے۔ اس سوچ کے مطابق جسم کا جان سے رشتہ قائم رکھنا از حد ضروری ہے، مگر وہ تن پروری جو تن آسانی پیدا کردے، مطلوب نہیں۔ یہاں جاں پروری اور روح کی پرورش و تربیت کے وسائل کو بروئے کار لانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اور انسانی فطرت کی نشو و نما کے جملہ اسباب فراہم کرتا ہے۔ وہ کھانے پینے میں اسراف کو فسق سے تعبیر کرتا ہے تو اس سے کلیۃً بچے رہنے کو رہبانیت جانتا ہے۔ یوں وہ ’’خیر الامور اوسطھا‘‘ کا معیار پیش کرکے ہر طرح کی انتہا پسندی کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے، لہذا روح انسانی کی، جو ایک لطیف چیز ہے، نشو و نما کے لیے اس نے سال بھر میں ایک ماہ کا ایسا ریفریشر کو رس دیا ہے جس سے روح کی کثافتیں دھلتی اور اس میں لطافتیں در آتی ہیں۔ یہی مہینہ وہ ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
«شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ» (البقرۃ: ۱۸۵)
’’رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
اور فرمودہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی توثیق یوں کی گئی کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ (یکے از عشرہ مبشرہ) نے ایک شخص کے بارے میں بتایا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
یا رسول اللہ! اخبرنی عما فرض اللہ علی من الصیام؟ قال: شھر رمضان۔
(الجامع الصحیح للبخاری، رقم حدیث:۱۷۵۸)
’’اللہ کے رسول! مجھے بتائے کہ اللہ نے مجھ پر کون سے روزے فرض کیے ہیں؟ فرمایا: رمضان کا مہینہ‘‘
روحانی لطافتوں میں اضافے کے لیے روزہ بہترین تدبیر ہے۔ یوں سمجھئے کہ جسم و جان کے کئی امراض کے لیے یہ ایک پرہیز ہے، جس طرح نماز جسم و جاں کی صحت و بقا کے لیے دوا ہے۔ دوا اور پرہیز دونوں کی اہمیت سے کسی بھی دور میں کسی بھی صاحب فہم کو کبھی انکار نہیں رہا، بلکہ بعض نے پرہیز کی افادیت کے پیش نظریہ تک بھی کہہ دیا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اس پرہیز سے نہ تو بھوک پیاس کی شدت اور تکلیف مالا یطاق مقصود ہے اور نہ ہی اذیت رسانی، بلکہ واضح طور پر اس کی غایت بتادی گئی ہے اور وہ ہے ’’لعلکم تتقون‘‘، تا کہ تم تقوی شعار ہوجاؤ۔ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ دراصل اس احساس کا نام ہے جس سے انسان کے دل میں نیکی کی طرف شدید رغبت ہوتی ہے اور گناہوں سے سخت نفرت پیدا ہوتی ہے۔ روزہ دراصل اسی غایت اولیٰ کے لیے فرض کیا گیا۔ اگر یہ مقصد حاصل ہوگیا تو روزہ، روزہ ہے، ورنہ بھوکا پیاسا رہنا نہ مفید مطلب ہے، نہ مقصود و مطلوب ہے۔ اس حقیقت سے سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک فرمان واجب الاذعان سے یوں پردہ اٹھایا ہے:
رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع (سنن ابن ماجہ، رقم حدیث:۱۶۸۰)
’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو ان کے روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
وہ شخص بڑا ہی محروم القسمت ہے جو بھوکا پیا سا رہ کر اور اپنے آپ کونڈھال کرکے بھی مفسدات روزہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا اور تقوی شعاری سے محروم رہتا ہے۔ جب حرام کھانے سے اجتناب نہ کیا جائے تو حلال کھانا ترک کردینے سے کیا فائدہ!

کیا فائدہ ہے ترک غذائے حلال سے
روزے میں جب نہ عزم ہو ترک حرام کا

تحریر: پروفیسر غلام رسول عدیم
(سابق استاذ شعبہ اردو، گورنمنٹ ڈگری کالج، گوجرانوالہ، پاکستان)
بشکریہ ماہنامہ الشریعۃ، اگست ۲۰۱۱ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں