دین اسلام کی امتیازی خصوصیات

دین اسلام کی امتیازی خصوصیات

کون نہیں جانتا کہ اسلام میں غیبت گناہ کبیرہ ہے اوریہ ایسا گناہ ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے اور ایک عجیب و غریب مثال سے اس کی قباحت و شناعت واضح فرمائی ہے۔ ظاہر ہے کہ غیبت میں کوئی خلاف واقعہ بات نہیں ہوتی ہے، بلکہ جو کمزوری کسی انسان میں ہو، اس کا ذکر اس کی غیرموجودگی میں کرنا غیبت کہلاتا ہے۔ وہ بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ خود حق تعالیٰ قرآن کریم میں اس کا ذکر فرماتا ہے اور مسلمانوں کو اس سے منع فرماتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جھوٹ گناہِ کبیرہ ہے اور جھوٹی بات کہنا منافقت کی علامت بتلائی گئی ہے۔
منافق وہ شخص ہے جس کی زبان پر اسلام کا دعویٰ ہو اور دل میں کفر چھپا ہوا ہو، کون نہیں جانتا کہ ’’افتراء‘‘ یعنی کسی پر جھوٹی بات لگانا الزام لگادینا گناہ کبیرہ ہے اور یہی افتراء اگر حد سے بڑھ جائے کہ لوگ سن کر مبہوت ہوجائیں تو ’’بہتان‘‘ کہلاتا ہے اور وہ گناہ کبیرہ ہے۔ غرض غیبت، کذب، افتراء، بہتان، تمام کے تمام معاصی کبیرہ ہیں اور ان کے مرتکب کے لیے جہنم کی وعید ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ اسلام نے مسلمانوں میں عالمگیر اُخوت قائم کی ہے:
«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ»(الحجرات:۱۰)
’’مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
اور اسلامی اُخوت کے بارے میں احادیثِ نبویہ میں عجیب عجیب حقائق بیان فرمائے گئے ہیں، ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کیا حقوق ہیں؟ فرمایا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ:
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے، نہ اسے دشمن کے حوالے کرے، بوقتِ حاجت اس کی امداد کرے، اگر کوئی گناہ کرے تو اس کی پردہ پوشی کرے اور جو مسلمان، مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا حق تعالیٰ شانہ دنیا و آخرت دونوں میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘
(الصحیح المسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم، ج:۲، ص:۳۲۰، ط:قدیمی)

اور فرمایا کہ: ’’مسلمانوں کی مثال ہمدردی و غم خواری میں ایک جسد کے اعضاء کی طرح ہے، اگر ایک عضو درد میں مبتلا ہو تو تمام بدنِ انسانی بے چین رہتا ہے۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الآداب، باب رحمۃ الناس و البھائم، ج:۲، ص:۸۸۹، ط:قدیمی)

اور فرمایا کہ : ’’مسلمان تب مسلمان ہوگا کہ جو چیز خود اپنے لیے پسند کرے وہی مسلمان بھائی کے لیے پسند کرے۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ، ج:۱، ص:۶، ط:قدیمی)

اور فرمایا کہ: ’’مسلمان وہ ہے کہ مسلمان اس کی ایذاء رسانی سے محفوظ رہیں۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب أی الاسلام أفضل، ج:۱، ص:۶، ط:قدیمی)

کہاں تک بیان کیا جائے، مسلمان جب مسلمان سے ملے تو ’’السلام علیکم‘‘ کہے۔ اور مسلمان کو چھینک آئے تو فوراً ’’یرحمک اللہ‘‘ کہے کہ اللہ تعالی کی آپ پر رحمت ہو، مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ غرض قرآن، احادیث نبویہ میں اتنی تفصیلات ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
یہ ہیں دینِ اسلام کی وہ امتیازی خصوصیات کہ کوئی دین ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ مسلمان کا اکرام و اعزاز کرنا اسلام کے بنیادی حقوق میں سے ہے۔ مسلمان کی خیرخواہی، اس کی نصرت، اس کی ہمدردی، اس پر نیک گمان کرنا، و غیرہ و غیرہ، یہ دین اسلام کی وہ باتیں ہیں کہ تہذیب کی مدعی قومیں اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔

جدید تہذیب کی برکات
افسوس کہ آج کل بالخصوص پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی اسلامی اخوت اور مسلمانی کی وہ دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں کہ سن کر عقل حیران ہے۔ جھوٹ، غیبت، بہتان طرازی، افتراء پردازی کون سا وہ گناہ ہے جو بر سر بازار بڑے بڑے عظیم الشان اجتماعات میں نہیں کیا جاتا۔ ایک طوفان بدتمیزی ہر محفل میں بر پا ہے، نہ کسی کہ آبرو محفوظ ہے، نہ کسی کی جان محفوظ، مال و دولت کو بری طرح سے بہایا جارہا ہے، بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے، غرض کون سی بدتہذیبی ہے جس کا مظاہرہ نہ ہو رہا ہو۔
یہ ہے یورپ کی تہذیب، یہ ہے مغرب کا تحفہ، یہ ہیں مغرب زدگی کے کارنامے۔ پھر ہر شخص ہر فریق کی زبان پر یہ دعویٰ کہ ہماری جماعت کی کامیابی سے اسلام کا یہ فائدہ ہوگا، مسلمانوں کو یہ نفع پہنچے گا، آئندہ ہم اگر کامیاب ہوئے تو یہ کریں گے اور وہ کریں گے، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ* كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ»(الصف: ۲،۳)
’’اے ایمان والو! ایسی بات تم کیوں کہتے ہو جو نہیں کرتے؟ حق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی ہے یہ بات کہ جو کہتے ہو کرتے نہیں۔‘‘
یہ ہے تہذیب جدید کی پیداوار اور اس قسم کے انتخابات سے یورپ کی جمہوریت جنم لیتی ہے، جس کا حشر ملک ۳۰ برس سے دیکھ رہا ہے کہ ان دعویداروں نے اسلام کی کیا خدمت انجام دی اور کسی خدمت کی ابتداء کی بھی تو انجام کی خدا کو خبر۔ کیا اس ملک میں ایسا قانون بنا جس سے انسان کی شرافت محفوظ ہو، آبرو محفوظ ہو، مال محفوظ ہو، جان محفوظ ہو؟ کیا اللہ تعالی کا قانونِ عدل نافذ کیا؟ کیا شراب کو بند کیا گیا؟ کیا زنا پر اسلامی سزا جاری کی گئی؟ کیا چور کے ہاتھ کاٹے گئے؟ کیا چکلے بند کردیئے گئے؟ کیا شراب خانے ختم کردیئے گئے؟ کیا قصاص جاری کیا گیا؟ نہیں! بلکہ بے حیائی، شراب خوری، آبروریزی کو دورِ حاضر کے ہر ذریعے سے اتنا اچھالا گیا کہ عقل دنگ رہ گئی۔
کیا مسلمانوں کی املاک محفوظ ہیں؟ کیا کارخانے محفوظ ہیں؟ کیا انڈسٹری محفوظ ہے؟ کیا اس قریبی دور میں ۲۲؍سو فیکٹریاں قومیائی نہیں گئیں؟ جن کی کم از کم تین ارب کی کمائی سے قوم محروم ہوگئی اور نااہلوں کے سپرد کرکے معیشت تباہ ہوگئی، خسارے میں چل رہی ہیں، یا دکھلایا جارہا ہے کہ خسارہ ہے، تا کہ حکومت کے خزانے میں ٹیکس نہ ادا کرنا پڑے، حکومت کا خزانہ بھی خالی ہوگیا، قوم بھی فقر وفاقے میں مبتلا ہوگئی۔
یہ داستان نہ ہمارا موضوع ہے، نہ ہمارا مزاج، ورنہ بتلاتے کہ ان دعویداروں نے اس ملک اور ذرائع آمدنی کی کیا گت بنائی ہے۔ غرض نہ دین کی ترقی، نہ دنیا کا سکون ’’خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ‘‘ (الحج:۱۱)
دنیا تباہ، دین تباہ، اخلاق تباہ، انسانیت ختم، حیا کا جنازہ نکالا گیا۔ یہ ہیں جدید تہذیب کی برکات، یہ ہیں جمہوریت کے ثمرات اور یہ ہے خدا فراموشی کی سزا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حق تعالی اس ملک خداداد پر رحم فرمائے اور صالح ہاتھوں میں حکومت آئے، تا کہ اللہ تعالی بھی راضی ہو اور قوم بھی خوش ہو، دل کو بھی سکون ملے، جان بھی محفوظ ہو۔
أللهم لا تُسلط علینا من لا یرحمنا أللهم وَلِّ أمورنا خیارنا و لا تُوَلِّ أمورنا شرارنا و اغفرلنا و ارحمنا و أنت خیرالراحمین، آمین یا رب العالمین.

محدث العصر علامہ سید محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ
بشکریہ ماہنامہ بینات، جمادی الاولی ۱۳۴۶ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں