غیر مسلموں کے حلال تصدیقی اداروں کی شرعی حیثیت

غیر مسلموں کے حلال تصدیقی اداروں کی شرعی حیثیت

تمہید
کوئی ایسا ادارہ جو مصنوعات کے حلال ہونے کی تصدیق کرتا ہو اور اس بنا پر حلال کا سرٹیفکیٹ دیتا ہو، مگر وہ ادارہ کسی غیرمسلم ملک یا فرد کا ہو تو کیا شریعت میں ایسے حلال تصدیقی ادارے کی تصدیق کا اعتبار ہوگا؟ اور اس بنا پر کسی پروڈکٹ کو حلال تصور کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے اس کا استعمال جائز ہوگا؟ ان سطور میں شریعت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ حلال و حرام کا تعلق شریعت کے کس دائرے سے ہے؟
دوسرے یہ کہ کسی شئے کے متعلق یہ کہنا کہ وہ حلال ہے یا حرام ہے، اس کا درجہ خبر کا ہے یا شہادت کا؟ کیونکہ شرعی لحاظ سے دونوں کے احکام میں فرق ہے۔

تفصیل
۱: حلال و حرام کا تعلق دیانات سے ہے، یعنی ان حقوق سے ہے جو بندے اور اللہ تعالی کے درمیان ہوتے ہیں۔ جو حقوق بندے اور اس کے رب کے درمیان ہوتے ہیں انہیں حقوق اللہ کہتے ہیں، مگر انہیں اس نام سے اس وجہ سے موسوم نہیں کرتے کہ ان میں اللہ تعالی کا کوئی فائدہ ہے، کیونکہ وہ حاجتوں سے مبرا ہے اور نہ ہی اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ حقوق خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں، کیونکہ تمام ہی حقوق اسی نے پیدا کیے ہیں، بلکہ انہیں حقوق اللہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کسی خاص شخص کے بجائے معاشرے کی بہبود اور جماعت کا فائدہ متصور ہوتا ہے اور ان کی خلاف ورزی میں ضرر عظیم ہوتا ہے، پس حق اللہ کو مفاد عامہ اور عامہ خلائق کے مترادف سمجھنا چاہیے۔
۲: ان حقوق کو حقوق اللہ سے موسوم کرنے سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ان کو اسی طریقے سے بجا لانا چاہیے جس طرح اللہ تعالی نے فرمایا ہے اور اس میں وعقل و منطق کے گھوڑے نہیں دوڑانے چاہئیں، کیونکہ جب حق اس کا ہے تو اسی کی منشا کے مطابق اُسے ادا کرنا چاہیے۔
۳: حقوق اللہ کے مقابل حقوق العباد ہوتے ہیں جو شخصی حقوق ہوتے ہیں اور ان میں حق اللہ کی طرح مفاد عامہ اور معاشرے کی بہبود مدنظر نہیں ہوتی، بلکہ فرد کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔
دونوں حقوق میں امتیاز اس طرح کیا جاتا ہے کہ شخصی حقوق کو حاصل کرنا یا چھوڑنا اشخاص کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے، مثلاً: ایک شخص مجاز ہے کہ اپنے مکان کا کرایہ وصول کرے یا چھوڑ دے، لیکن حق اللہ کی تعمیل کرانا خود سلطنت کا فرض ہوتا ہے، کیونکہ ریاست جماعت کی نمائندہ ہوتی ہے۔

حلال و حرام کی تصدیق خبر ہے یا شہادت؟
۴: یہ معلوم ہونے کے بعد حلال و حرام دیانات کے دائرے میں آتے ہیں، اگلا سوال یہ ہے کہ کسی پروڈکٹ کو اس وجہ سے حلال سرٹیفکیٹ دینا کہ وہ شرعی اصولوں کے مطابق تیار کی گئی ہے اور حلال ہے، یا شرعی اصولوں کی عدم بجا آوری کی وجہ سے وہ حرام ہے، کیا حکم رکھتا ہے؟
جو سرٹیفکیشن باڈی حلال و حرام کی تصدیق کرتی ہے وہ دراصل اس بات کی شہادت دے رہی ہوتی ہے کہ یہ شئے حلال ہے یا حرام۔ شہادت کی وجہ سے اسلامی ضابطہ شہادت متوجہ ہوجاتا ہے کہ آیا شہادت کی شرائط موجود ہیں یا نہیں؟ جب کہ شرعی ضابطہ شہادت کے مطابق ایک غیرمسلم شہادت کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ فقہاء اسلام یہ لکھتے ہیں کہ شہادت برتری اور بالادستی چاہتی ہے، جب کہ غیرمسلم کو مسلمان پر کوئی برتری اور بالادستی حاصل نہیں۔ فقہ حنفی کی مستند کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ میں علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’لأن الشھادة من باب الولایة و لا ولایة للکافر علی المسلم، لقوله تعالی: «وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا»‘‘ (النساء:۱۴۱)
ترجمہ: ’’شہادت ولایت کو چاہتی ہے اور کافر کو کسی مسلمان پر ولایت حاصل نہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ: اور ہرگز نہ دے گا اللہ کافروں کو مسلمانوں پر غلبہ کی راہ۔‘‘ (ترجمہ از تفسیر عثمانی)
آیت شریفہ اس بارے میں بالکل واضح اور دوٹوک ہے کہ اللہ تعالی نے کافروں کو مسلمانوں کے کسی معاملہ میں حجت اور دلیل بنانے کو اور انہیں اپنے اوپر غلبہ دینے سے منع فرمایا ہے، جب کہ ان کی شہادت قبول کرنا انہیں مسلمانوں پر فوقیت اور برتری دینا ہے، حالانکہ اسلام چاہتا ہے کہ یہ لوگ ایک بالا دست قوت کے طور پر نہیں، بلکہ مسلمانوں کے زیر دست ہوکر رہیں۔ آیت شریفہ کے تحت مستند تفاسیر کی آراء ملاحظہ کیجیے:
’’الرابع إن الله سبحانه لا هجعل للکافرین علی المؤمنین سبیلا شرعا، فإن وجد فبخلاف الشرع. الخامس و لن بجعل الله للکافرین علی المؤمنین سبیلا أی حجة عقلیة و لاشرعیة یستظهرون بها إلا أبطلها و دحضت ‘‘
(تفسیر القرطبی، سورۃ النساء، ج:۵، ص: ۴۲۰، ط: دار عالم الکتاب، ریاض)
’’و قال السدی: و لن یجعل الله للکافرین علی المؤمنین سبیلا أی: حجة. ‘‘
(تفسیر ابن کثیر، سورۃ النساء، ج:۲، ص:۴۳۶، ط: دارطیبۃ)
۵: اگر حلال و حرام کی تصدیق کو شہادت کے معنی میں نہ لیا جائے، اس وجہ سے کہ شہادت کے لیے کچھ فنی قسم کی شرائط ہوتی ہیں بلکہ اسے خبر کے معنی میں لیا جائے تو معاملات میں تو غیرمسلم کی خبر قبول کرنے کی گنجائش ہوتی ہے، مگر حلال و حرام کے معاملہ میں مسلمان کے لیے کافر کی خبر پر اعتماد اور بھروسہ کی اجازت نہیں، کیونکہ حلال و حرام خالص دینی احکام ہیں اور دینی احکام میں غیرمسلم کی خبر قابل قبول نہیں۔ چنانچہ اگر ایک غیرمسلم اطلاع دے کہ پانی پاک ہے یا گوشت حلال ہے تو اس کی اطلاع پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اگر مسلمان بھی اس قسم کی اطلاع دے اور وہ دین دار نہ ہو تو اس کی خبر بھی قابل نہیں۔
’’أن خبر الکافر مقبول بالإجماع فی المعاملات لا فی الدیانات (وشرط العدالة فی الدیانات) هی التی بین العبد و الرب (کالخبر عن نجاسة الماء فیتیمم) و لا یتوضأ (إن أخبر بها مسلم عدل)… (ویتحری فی) خبر (الفاسق) …. و فی الرد قوله (إن أخبر بها مسلم عدل) لأن الفاسق متهم و الکافر لا یلتزم الحکم فلیس له أن یلزم المسلم هدایة.‘‘
(الدر المختار مع رد المختار، کتاب الحضر و الاباحۃ، ج:۶، ص: ۳۴۴ الی ۳۴۶، ط: سعید)

’’أما الدیانات فلایکثر وقوعھا حسب وقوع المعاملات فجاز أن یشترط فیها زیادة شرط، فلا یقبل فیها إلا قول المسلم العدل؛ لأن الفاسق متهم و الکافر لایلتزم الحکم فلیس له أن یلزم المسلم، بخلاف المعاملات، لأن الکافر لا یمکنه المقام فی دیارنا إلا بالمعاملة و لا یتهیأ له المعاملة إلا بعد قبول قوله فیها فکان فیه ضرورة.‘‘
(الہدایۃ مع فتح القدیر، کتاب الکراہیۃ، فصل فی الأکل و الشرب، ج:۸، ص: ۴۴۵، ط: داراحیاء التراث العربی)
۶: حلال و حرام خالص دینی و مذہبی اصطلاحات ہیں اور ایک معنی میں پورے دین اسلام کا حاصل ہی حلال و حرام ہے، کیونکہ اسلام میں کچھ چیزوں کی اجازت ہے جنہیں حلال کہتے ہیں اور کچھ کی ممانعت ہے جنہیں حرام کہتے ہیں۔ اس طرح پورا اسلام سمٹ کر حلال و حرام میں جمع ہوجاتا ہے تو اس طرح کے اہم معاملہ میں غیرمسلم کی خبر کس طرح قبول کی جاسکتی ہے؟ جب کہ معاملہ صرف اس حدتک محدود نہیں کہ ان کی اطلاع معتبر ہے یا نہیں بلکہ ان کو دخل اور راستہ دینے کا ہے۔ جب شریعت صرف ان کی خبر کو قبول نہیں کرتی تو ان کی مداخلت کو کس طرح گوارہ کرے گی؟
۷: ہمیں یہ بھی معلوم ہے اور جسے نہیں معلوم اسے معلوم ہونا چاہیے کہ غیرمسلم اپنی قوت اور طاقت کے بل بوتے پر اور اپنے ذرائع اور ووسائل کو کام میں لاکر اور اپنی تنظیموں صلاحتیوں سے فائدہ اٹھا کر اور روایتی چال بازی اور حیلہ سازی کے ذریعے، صرف مداخلت تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ جلد ہی قیادت و سیادت کا علم بھی سنبھال لیں گے اور یہ اسکیم ہی مسلمانوں سے چھین لیں گے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ جن کو متبوع ہونا چاہیے وہ تابع بن جائیں گے۔
۸: حلال و حرام کا معاملہ اہم ہونے کے علاوہ انتہائی حساس بھی ہے، جس کی حساسیت، نزاکت اور باریکی کو ایک مسلمان ہی بہتر سمجھ سکتا ہے، غیرمسلم اس کا اہل نہیں۔ یہ رائے کسی مذہبی تعصب پر نہیں، بلکہ اس مسلمہ اصول پر مبنی ہے کہ کام ایسے شخص کے سپرد ہونا چاہیے جو اس کی اہلیت اور صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
مزید یہ کہ حلال و حرام کی اتھارٹی کسی انسان یہاں تک کہ سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی نہیں ہے، یہ خالص خدائی منصب ہے۔ اور جو شخص حلال کو حرام یا حلال کو حرام کہتا ہے وہ اس خدائی اختیار کو استعمال کرتا ہے۔ اب ایک غیرمسلم کو اس قدر حساس اور اہم مذہبی معاملات کس طرح سپرد کیے جاسکتے ہیں؟!
۹: جیسا کہ پیرا نمبر:۶ میں مذکور ہوا کہ حلال ایک خالص مذہبی معاملہ ہے۔ مذہبی معاملات اسی وقت احسن طریقے سے تکمیل پاسکتے ہیں جب انہیں مذہبی روح کے ساتھ سرانجام دیا جائے، جب کہ غیرمسلم اس مذہبی روح اور اسپرٹ سے محروم ہیں اور انہیں مذہبی کے بانی سے کوئی عقیدت نہیں تو اہل مذہب کے جذبات کی وہ کیوں رعایت رکھیں گے؟! درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے اور غور کیجئے کہ فقہاء کو کس طرح قطرے میں سمندر، ذرے میں پہاڑ اور بیج میں تناور درخت نظر آتا ہے اور ان کی دوربین نگاہ کہاں تک جاتی ہے:
’’و ان کان الذین أخبرہ بنجاسة الماء رجل من أهل الذمة لم یقبل قوله لا لأن الکفر ینافی معنی الصدق فی خبره و لکن لأنه ظهر منهم السعی فی إفساد دین الحق، قال الله تعالی لا یألونکم خبالا أی لا یقصرون فی إفساد أمرکم فکان متهما فی هذا الخبر فلا یقبل منه کما لا تقبل شهادة الولد لوالده لمعنی التهمة.‘‘
(المبسوط للسرخسی، کتاب الاستحسان، ج:۱۰، ص۲۸۲، ط: دارالفکر)

۱۰: حلال مسلمانوں کا ’’لوگو‘‘ ہے اور مسلمان ہی اس کے داعی اور علم بردار ہیں اور اس وقت حلال کی طلب حقیقی معنی میں مسلمانوں کی طرف سے ہے۔ اب اگر حلال تصدیقی اداروں کا قیام مسلمانوں کی طرف سے ہوگا تو مسلمان دنیا اس پر اعتماد کرے گی اور یوں حلال کی یہ اسکیم کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گی، لیکن غیرمسلموں کی شمولیت سے قوی امکان ہے یہ اسکیم ناکامی سے دوچار ہوجائے، کیونکہ مسلمان مذہبی معاملات میں غیرمسلموں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس میدان میں ان کی دلچسپی اسی غرض سے ہو کہ اس اسلامی اسکیم اور پروگرام کو ناکام بنادیا جائے۔ اگر مسلمان اس طرح کا اندیشہ رکھتے ہیں تو اس کی معقول وجوہ موجود ہیں۔ قرآن کریم ہمیں ان پر بھروسے اور اعتماد سے روکتا ہے، تاریخ ان کی چالبازیوں اور ریشہ دوانیوں سے بھری پڑی ہے اور ماضی کے تجربے اور حال کے مشاہدے سے قرآنی احکام اور تاریخ دونوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
۱۱: معاشی میدان میں مسلمانوں کی ترقی اور غیرمسلموں کی کمزوری اسلام کو کس قدر مطلوب ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں کافر کو اپنے محارم سے نکاح کی، خنزیر کھانے اور شراب پینے کی اجازت ہے، مگر سودی معاملات کی اسے اجازت نہیں۔ نجران کے عیسائیوں کو ایک معاہدے کے ذریعے شہری حقوق دیے گئے تھے، مگر سودی لین دین کی ان کو بھی اجازت نہ تھی، اس سے سود کے خلاف اسلام کی نفرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف فقہ حنفی کے بانی حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خاص شرائط کے تابع مسلمان کو دارالحرب میں حربی سے سود لینے کی اجازت ہے، جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ امکانی حدتک کافروں کو معاشی میدان میں نقصان دینا مطلوب ہے۔ اس وقت اقتصادی ترقی ایک بہترین اور مؤثر ہتھیار ہے اور غیرمسلم چاہتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ اس میدان میں مغلوب و محکوم رہیں، اس لیے وہ حلال مارکیٹ پر بھی اپنا قبضہ اور برتری چاہتے ہیں۔ ان کے یہ مذموم مقاصد اسی وقت ناکام بنائے جاسکتے ہیں جب اس میدان میں ان کے داخلے پر پابندی ہو، جیسا کہ شریعت نے ان پر یہ پابندی لگائی ہے۔
۱۲: ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کو شہری حقوق حاصل ہوتے ہیں اور ان کی جان و مال کا بھی اسی طرح تحفظ کیا جاتا ہے جس طرح مسلمانوں کا کیا جاتا ہے۔ ہمارے آئین نے بھی بہت کشادہ دلی اور وسیع الظرفی کے ساتھ غیرمسلم اقلیتوں کو حقوق دیے ہیں، مگر اس کے ساتھ اسلام کا یہ بھی حکم ہے کہ اسلامی ریاست کے غیرمسلم شہری ایسے نام اور اصطلاحات استعمال نہ کریں جس سے مسلمانوں کے ساتھ ان کا اشتباہ و التباس لازم آئے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ایسے نام نہیں رکھ سکتے جو خالص اسلامی ہوں اور مسلمانوں کے ساتھ خاص ہوں۔ اب اگر غیرمسلم اپنے مذہبی معتقدات کے مطابق اپنے ملک میں کوئی لفظ یا اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو انہیں اس کا حق پہنچتا ہے، کیونکہ نہ تو شریعت اسلام کا مذہبی حصہ ان پر لاگو ہے اور نہ ہی وہاں شریعت کی عمل داری ہے، لیکن اگر وہ ایک اسلامی ملک میں مسلمانوں کی اصطلاح کو مسلمانوں کے تصورات کے ساتھ استعمال کریں گے تو اس سے اشتباہ و التباس لازم آئے گا جس کو دور کرنے کے لیے ریاست کو حرکت میں آنا ہوگا۔
۱۳: قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ اے ایمان والو! اللہ تعالی کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اولوالامر کی اطاعت کرو:
’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ‘‘ (النساء: ۵۹)
اولوالامر کے ساتھ (منکم) کا لفظ قابل غور ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان اولوالامر کی اطاعت کرو جو تم سے ہو یعنی مسلمان ہو، معلوم ہوا کہ غیرمسلم کی اطاعت کو قرآن کریم مسلمانوں پر لازم نہیں قرار دیتا۔ اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیرمسلم کو بحیثیت کارکن تو کسی کام میں شریک کیا جاسکتا ہے، لیکن کلیدی آسامی اس کے سپرد نہیں کی جاسکتی۔ تاریخ کے بعض ادوار میں غیرمسلم کلیدی عہدوں پر فائز رہے ہیں، مگر وہ تاریخ ہے شریعت نہیں، مسلم سلاطین کا ذاتی عمل ہے، حکم ربانی نہیں، بادشاہوں کی دریا دلی اور صلح جوئی ہے، اسلام کی عطا کردہ گنجائش و رعایت نہیں۔
۱۴: مسلم سیاسی مفکرین صاف لکھتے ہیں کہ غیرمسلموں کو قوت اور طاقت نہیں دینی چاہیے، کیونکہ یہ خود مسلمانوں کے حق میں ضرر رساں اور نقصان کا باعث ہے۔
بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں حلال کھانے کا حکم غیرمسلموں کو بھی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ’’یا أیّھا النّاس‘‘ کہہ کر پوری نوع انسانیت کو حلال کھانے کی دعوت دی گئی ہے، لہذا جب غیرمسلم بھی اس حکم کے مخاطب ہیں تو اس حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اگر وہ حلال سے متعلق تصدیقی ادارے قائم کرتے ہیں تو انہیں اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ مگر یہ شب اپنے اندر وزن نہیں رکھتا، کیونکہ خود حلال کھانے اور مسلمانوں کے لیے حلال کی اتھارٹی بن جانے میں بڑا فرق ہے۔
پھر اگر یہ شبہ درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا دائرہ بہت دور تک پھیل جاتا ہے، مثلاً: حلال کی طرح عدل و انصاف بھی اسلام کی ایک آفاقی اور عالمگیر دعوت ہے، مگر مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ ایسے مسلمان حکام کے پاس دادرسی اور طلب انصاف کے لیے حاضر ہوں جو قرآن و سنت کے مطابق ان کے تنازعات کا تصفیہ کریں، مگر جو شبہ اوپر ذکر کیا گیا ہے اس سے لازم آتا ہے کہ ایک غیرمسلم جج بھی مسلمانوں کا مقدمہ فیصل کرسکتا ہے۔
علاوہ ازیں غیرمسلم اسلام کے اعتقادی مسائل کے تو مخاطب ہیں، مگر راجح قول کے مطابق فروعات کے مخاطب نہیں اور حلال و حرام کا تعلق ثانی الذکر سے ہے۔ اگر حلال و حرام میں ان کی اتھارٹی کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر دیگر فروعی احکام مثلاً نماز و روزہ میں ان کی اس حیثیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے، کیونکہ فروعی احکام ہونے میں نماز و روزہ اور حلال و حرام برابر ہیں اور جب فروعی احکام میں ان کی اتھارٹی تسلیم کرلی جائے تو پھر انہیں اقامتِ صلوۃ کی بھی اجازت ہونی چاہیے، یعنی غیرمسلم اگر مسجد بنائے اور اس کا نظم سنبھالے تو پھر اس پر کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے، حالانکہ کوئی بھی مسلمان ان کو یہ حیثیت دینے کو تیار نہ ہوگا۔

بحث کے نتائج
۱: پیرا نمبر:۱ اور نمبر:۲ سے واضح ہوا کہ حلال و حرام کا تعلق حقوق اللہ سے بھی بنتا ہے اور حقوق اللہ کی خلاف ورزی پر ریاست کو باز پرس کرنی چاہیے۔ اس لیے ریاستی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حکومت غیرمسلموں کو حلال تصدیقی ادارے قائم کرنے اجازت نہ دے۔
۲: حقوق اللہ کو اس طرح ادا کرنا چاہیے جس طرح اللہ تعالی نے انہیں مقرر کیا ہے، کیونکہ حق اللہ سے مقصود اللہ تعالی کی منشأ کو پورا کرنا ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی منشأ کے خلاف اپنی منشأ پر عمل حق اللہ کو مجروح کرنا ہے جس سے احتیاط چاہیے۔ دیکھیں پیرا نمبر:۳
۳: پیرا نمبر: ۴ سے واضح ہوا کہ حلال و حرام کی تصدیق شہادت ہے اور غیرمسلم حلال و حرام کے متعلق شہادت کا اہل نہیں۔
۴: غیرمسلم کو حلال و حرام کی اتھارٹی دینا انہیں ایک بالادست قوت تسلیم کرنا ہے، جب کہ حکم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے دست نگر بن کر رہیں۔ دیکھیں پیرا نمبر:۴
۵: حلال و حرام کو اگر حق اللہ تسلیم نہ کیا جائے اور نہ ہی اسے شہادت تسلیم کیا جائے تو اس کے دیانات میں سے ہونے کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور پیرا نمبر:۵ میں حوالوں سے واضح ہوا کہ دیانات میں غیرمسلم کی خبر معتبر نہیں۔
۶: غیرمسلم کو حلال و حرام کی اتھارٹی دینا اپنی معاشی قوت ان کے سپرد کرنا ہے۔ ان پر حلال و حرام کے متعلق بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی شمولیت سے قوی امکان اس مشن کی ناکامی کا ہے۔ وہ دین اسلام سے محروم ہونے کی وجہ سے ایک عبادت سمجھ اور مذہبی اسپرٹ کے ساتھ اس کام کو انجام نہیں دے سکتے۔ پیرا نمبر ۱۰،۱۱
۷: مسلمان ہونے کے ناطے حلال کا تعارف اور اس سے آگہی پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے، جب کہ غیرمسلموں کی شرکت سے یہ دعوت اور اسکیم ناکام ہوجائے گی۔ کیونکہ مسلمان اپنے دین کے معامہ میں ان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ ان کا مقصد ہی اس اسکیم کو ناکام بنانا ہو۔ پیرا نمبر: ۱۳ سے معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کو حتمی اتھارٹی نہیں دینی چاہیے اور آخری پیرا کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو اہم اور کلیدی مناصب اپنے پاس رکھنے چاہئیں۔

اختتامیہ
پاکستان میں خالص خوراک کا قانون ’’Pure Food‘‘ مجریہ ۱۹۶۰ء نافذ ہے جس میں اشیاء خورد و نوش کو تیاری سے لے کر فروخت تک ملاوٹ اور مضر صحت اجزاء سے بچانے کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے، مگر یہ قانون حلال و حرام کے معیارات کے حوالے سے ناکافی ہے، کیونکہ اس کی وضع کا ہدف و مقصد ہی یہ نہ تھا۔ اس وقت حلال و حرام کے متعلق دو سرکاری ادارے کام کررہے ہیں، ایک پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (pasqca) اور دوسرا پاکستان نیشنل اینڈ ایکریڈیٹیشن (pnac) دونوں ادارے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ماتحت ہیں۔ اول الذکر حلال و حرام کے متعلق قانون سازی کرتا ہے اور مؤخر الذکر اس کی تنقید و تعمیل کرتا ہے۔ پاکستان میں کسی کمپنی کو حلال سٹیفکیشن کی اجازت دینا یا نہ دینا ان ہی سرکاری اداروں کا کام ہے۔
آج سے کچھ عرصہ قبل جب یہ بازگشت سنائی دینے لگی کہ غیرمسلم بھی اس میدان میں کودنے کی تیاری میں ہے تو اس وقت اپنے فہم کے مطابق یہ تحریر تیار کی گئی اور ایک موقر حلال تصدیقی ادارے سنہا (sanha) نے دونوں اداروں کو پیش کردی، مگر مقام افسوس ہے کہ جو خدشہ تھا وہ سامنے آگیا اور پنیک نے غیرمسلموں کے قائم کردہ ایک ملٹی نیشنل ادارے (sgs) کو پاکستان میں حلال سرٹیفکیشن کی اجازت دے دی ہے۔۔ ’’sgs‘‘ کا صدر دفتر جنیوا سوئٹزر لینڈ میں ہے اور یہ ادارہ انسپکشن، ویری فیکیشن، ٹیسٹنگ اور سرٹیفکیشن کی خدمات سرانجام دیتا ہے۔
دوسری طرف مقام شکر ہے کہ گزشتہ مہینے کی تیرہ اور چودہ تاریخ کو ترکی کے شہر استنبول میں ایک بین الاقوامی کانفرس منعقد ہوئی جس میں دنیا بھر سے مسلمانوں کے حلال تصدیقی ادارے شریک ہوئے اور کانفرس کے اختتام پر یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ حلال و حرام کے متعلق غیرمسلموں کی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔ کانفرس کا اعلامیہ طویل، خوش آیند، اور ترکوں کی قائدانہ تاریخ اور خود دارانہ جذبات کا بھرپور ترجمان ہے، جسے ضمنی حیثیت سے نہیں، بلکہ مستقل موضوع کے طور پر زیربحث لانا مناسب ہے۔

تحریر: مفتی شعیب عالم
ماہنامہ بینات۔ شوال المکرم ۱۴۳۶ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں