اخلاص وخیر خواہی

اخلاص وخیر خواہی

آج کل ہر جگہ نفسا نفسی او رکشاکش ہے، کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں، ہر ایک اپنے مفادات اور مقاصد کے پیچھے دوڑ رہا ہے، دین ومذہب اور اسلامی اخوت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ، مسلمان کے دل سے مسلمان کی خیر خواہی کا تصور مٹ گیا ہے، حالاں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے تین بار دہرا کر فرمایا:” دین اخلاص اور خیر خواہی کا نام ہے۔“ چناں چہ ترمذی شریف میں ہے:
” حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تین بار دہرا کر فرمایا کہ:”دین اخلاص وخیر خواہی کا نام ہے ۔“ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا: یا رسول الله! کس کی خیر خواہی؟ فرمایا: الله تعالیٰ کی، اس کی کتاب کی، مسلمانوں کے حکام اور عام مسلمانوں کی۔“

”نصیحت“ عربی زبان میں بڑا جامع لفظ ہے، جس کا ترجمہ اردو میں کسی مفرد لفظ سے کرنا مشکل ہے۔ اس کا مفہوم خلوص اور خیر خواہی کے الفاط سے ادا کیا جاتا ہے، یعنی جس کے ساتھ جو معاملہ ہو خلوص اور خیر خواہی پر مبنی ہو، اس میں کھوٹ اور ملاوٹ کاشائبہ نہ ہو۔

امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ:الله کے ساتھ اخلاص کا حاصل یہ ہے کہ الله تعالیٰ پر ایمان لانا، اس سے شرک کی نفی کرنا، اس کی صفات میں کج روی اختیار نہ کرنا، اس کو تمام صفاتِ کمال وجلال کے ساتھ ماننا، اس کو تمام نقائص سے پاک اور منزہ سمجھنا، اس کی طاعت وبندگی بجالانا، اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنا، کسی سے صرف اس کی خاطر محبت اور بغض رکھنا، اس کے فرماں برداروں سے دوستی اور اس کے نافرمانوں سے دشمنی رکھنا، اس کے ساتھ کفر کرنے والوں کے مقابلہ میں جہاد کرنا، اس کی نعمتوں کا اقرار کرنا، اور ان پر شکر بجالانا، تمام امور میں اس سے اخلاص کا معاملہ کرنا، تمام اوصاف مذکورہ کی دعوت او رترغیب دینا او رتمام لوگوں سے ملاطفت کرنا۔

امام خطابی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ : الله تعالیٰ کے ساتھ خلوص وخیر خواہی کا معاملہ کرنا درحقیقت خود بندے کا پنی ذات سے خیر خواہی کرنا ہے، ورنہ الله تعالیٰ کسی خیر خواہ کی خیر خواہی سے غنی ہیں۔

کتاب الله کے ساتھ خلوص وخیرخواہی کا مطلب ہے اس بات پر ایمان رکھنا کہ یہ الله تعالیٰ شانہ کا نازل فرمودہ کلام ہے، مخلوق کا کوئی کلام اس کے مشابہ نہیں، مخلوق میں کوئی اس کی مثل لانے پر قادر نہیں، قرآن کریم کی تعظیم کرنا، خوب اچھی طرح اس کی تلاوت کرنا، تلاوت کے وقت خشوع اختیار کرنا، تلاوت میں حروف والفاظ کو صحیح صحیح ادا کرنا، تحریف کرنے والوں کی غلط تاویلات اور طعنہ کرنے والوں کے طعن کا جواب دے کر قرآن کریم کی مدافعت کرنا، قرآن کے تمام مضامین پر ایمان رکھنا، اس کے احکام کو قبول کرنا، اس کے علوم وامثال کو سمجھنا، اس کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرنا ، اس کے عجیب مضامین او رپہلوؤں پر غور کرنا، اس کے محکم پر عمل کرنا، اس کے متشابہ کو تسلیم کرنا، اس کے عموم وخصوص اور ناسخ منسوخ کی تفتیش کرنا، اس کے علوم کا پھیلانا اور اس کی دعوت دینا۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ اخلاص وخیرخواہی کے معنی یہ ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کی تصدیق کی جائے اورجو کچھ آپ صلی الله علیہ وسلم حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے لائے ہیں اس پر ایمان لایا جائے آپ صلی الله علیہ وسلم کے امرونہی کی اطاعت کی جائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات میں بھی اور بعد از وفات بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی نصرت ومدد کی جائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوستوں سے دوستی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کی جائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ وسنت کو زندہ کیا جائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو پھیلایا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی شریعت کی نشر واشاعت کی جائے، اس پر کیے گئے اعتراضات کی نفی کی جائے، علوم شرعیہ کی تحصیل کو شعار بنا یاجائے، ان میں تفقہ حاصل کیا جائے ، ان کی دعوت وترغیب دی جائے، ان کی تعلیم وتعلم میں شفقت ولطف سے کام لیا جائے، ان کی عظمت وجلالت کو ملحوظ رکھا جائے، ان کی قراء ت کے وقت ان کا ادب بجالایا جائے اور بغیر علم کے ان میں گفت گو کرنے سے رُکا جائے ، علوم شرعیہ کے حاملین کا علم کی نسبت سے احترام کیا جائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق وآداب کو اپنایا جائے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اہل بیت رضی الله عنہم اور صحابہٴ کرام رضی الله عنہم سے محبت رکھی جائے، جو شخص آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مقابلہ میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی الله عنہم پر نکتہ چینی کرے اس سے کنارہ کشی کی جائے اور اس نوعیت کے دیگر امور۔

ائمة المسلمین (مسلمانوں کے حکام) کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق میں ان کی معاونت واطاعت کی جائے، ان کو حق کا حکم کیا جائے، لطف ونرمی کے ساتھ ان کو تنبیہ او ریاد دہانی کرائی جائے، مسلمانوں کے جن حقوق سے وہ غافل ہوں یا ان کے علم میں نہ آئے ہوں ان امور کی ان کو اطلاع دی جائے، ان کے خلاف بغاوت نہ کی جائے اور لوگوں کے قلوب کو ان کی اطاعت کی طرف مائل کیا جائے۔ امام خطابی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ان کی خیر خواہی میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے، ان کی قیادت میں جہاد کیا جائے، ان کے پاس صدقات جمع کرائے جائیں او راگر ان کی جانب سے ظلم وبے انصافی کا مظاہرہ ہو تب بھی ان کے مقابلہ میں تلوار سونت کر نہ نکلا جائے، ان کی جھوٹی تعریفیں اور خوشامدیں کرکے ان کا دماغ خراب نہ کیاجائے او ران کے لیے صلاح وفلاح کی دعا کی جائے۔

امام خطابی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ یہ تمام تقریر اس صورت میں ہے کہ جب ائمة المسلمین سے خلفاء وحکام مراد لیے جائیں، یہی معنی زیادہ مشہور ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے ائمہ دین اور علمائے دین مراد لیے جائیں، اس صورت میں ان کی خیر خواہی کے معنی یہ ہوں گے کہ ان کی روایت کو قبول کیا جائے، احکام شرعیہ میں ان کی پیروی او رتقلید کی جائے اور ان کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے۔

عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کی دنیا وآخرت کے مصالح میں ان کی راہ نمائی کی جائے، ان کی ایذاء رسانی سے بچا جائے، پس دین ودنیا کی جس چیز سے وہ ناواقف ہوں، اس کی ان کو تعلیم دی جائے او راس میں قول وفعل کے ذریعہ ان کی اعانت کی جائے، ان کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے، ان کی حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا کیا جائے، ان سے نقصان دہ چیزوں کو دفع کیا جائے، ان کے منافع کی تحصیل میں کوشش کی جائے، نرمی، اخلاص اور شفقت کے ساتھ ان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا جائے، بڑوں کی عزت کی جائے ، چھوٹوں پر شفقت کی جائے، عمدہ نصیحت کے ذریعہ ان کی نگہ داشت کی جائے، ان سے کینہ اور حسد نہ کیا جائے، ان کے لیے خیر کی انہی باتوں کو پسند کیا جائے، جن کو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور ان کے لیے ان تمام چیزوں کو ناپسند کرے جن کو اپنے حق میں ناپسند کرتا ہے، ان کے مال وآبرو کی حفاظت کی جائے، خیر خواہی کی جو انواع اوپر بیان ہوئی ہیں ان کو ان کے اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے اور طاعات وعبادات میں ان کی ہمت افزائی کی جائے۔

یہ وہ شمائل وخصائل ہیں جن کو اپنانے سے معاشرہ رشک ملائکہ بن سکتا ہے، مگر ہماری اس طرف توجہ نہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو رہا ہے اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

الله تعالیٰ ہمیں اخلاص وخیرخواہی عطا فرمائے او رحدیث نبی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں