”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ : اہمیت، مقصد اور گزارشات

”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ : اہمیت، مقصد اور گزارشات

علم فقہ کی اہمیت
دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے درس نظامی کے نصاب میں ایک علم ”علم فقہ“ہے، ابتدا سے لے کراب تک درس نظامی کے نصاب پرگزرے ہوئے اَدوارمیں سے کوئی بھی دورایسانہیں ہے کہ جس میں علم فقہ کی کتابیں داخل نصاب نہ ہوں، اگرچہ مختلف وجوہ کے پیش نظرفقہ کی کتابوں میں تبدیلی ہوتی رہی ہے، جیساکہ دیگرعلوم کی کتب میں ہوتی رہی ہے، البتہ مطلَق ”علم فقہ“ کی کتابیں داخل نصاب رہی ہیں۔اوراس کی وجہ صرف اورصرف علمِ فقہ کابڑی اہمیت کاحامل ہوناہے، کیوں کہ علمِ فقہ میں زندگی میں پیش آنے والی ہرممکن صورت کاحکم موجودہے اورپھرصرف ایک مخصوص زمانہ کے لوگوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کی زندگی میں ممکن الوقوع تمام حوادث اورواقعات کاحکم اس میں موجودہے، کیوں کہ یہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے اللہ جل جلالہ کے اس دین کانچوڑہے جوگزشتہ، موجودہ اورآئندہ زمانے کے تمام انسانوں کے لیے ہے ۔

علم فقہ کی اہمیت پرقرآن کریم کی آیات: ﴿یوٴت الحکمة من یشاء ومن یوٴت الحکمة فقد أوتی خیرًا کثیرًا﴾․ نیز﴿فلو لا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین﴾ واضح دلائل ہیں۔

اس کے علاوہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کاارشادِ گرامی : ”من یرد اللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین“ا س علم کی اہمیت کے ثبوت کے لیے کافی ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ”تفقہ فی الدین “کی دعافرمائی تھی۔

”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ اوراس کامقصد
اسی اہمیت کی بنا پردرسِ نظامی کے نصاب سے فراغت کے بعد ”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ کے نام سے بعض مدارس میں ایک دویاتین سالہ کورس پڑھایا جاتا ہے۔ اس کورس کامقصد تو اس کے نام ہی سے واضح ہے کہ متخصص کوعلم ِفقہ کے اصول، قواعد،کلیات وجزئیات، قدیم وجدید مسائل اوران کے احکام کے علل وحکم سے اتنی واقفیت ہوجائے کہ اُسے اِس علم میں ایک گونہ خصوصیت وامتیاز حاصل ہو۔ لیکن صرف اورصرف یہی مقصد نہیں کہ کتبِ فقہ میں موجود جزئیات وفرعیات، اصول وقواعد اور عبارات پڑھ لی جائیں یا اَزبر کرلی جائیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کرایک اہم مقصدیہ ہے کہ کتب ِفقہ کے ساتھ مقررہ طویل مدت تک وابستہ رہ کر ماہرِ فن اور مشاق اساتذہ کرام کے فقہی تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے فقہی ذوق، فقہی طبیعت اورفقہی مزاج بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔

کتبِ فقہ میں مذکور مسائل میں سے بہت سارے ایسے مسائل ہیں کہ بوقت ِتحریر اُن کاحکم وہی تھا، جو لکھا گیاہے، لیکن اب عُرفِ زمانہ کی بنا پر اُن کے اَحکام میں تبدیلی آئی ہے تواب اگرکوئی فقہی بصیرت سے عاری آدمی صرف کتاب میں موجودحکم معلوم کرلے اورہمیشہ یہی حکم بتایاکرے جو کتاب میں دیکھ لیاہے، اگرچہ عرف میں اورحکم کی علت میں کتنی ہی بڑی تبدیلی پیدا ہو چکی ہو، تویقینا یہ ایک فاش غلطی ہے، جوفقہی بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے صادر ہوتی ہے۔ لہٰذا ”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ کاسب سے بڑا اور اہم مقصد ”فقہی بصیرت “کاحصول ہے ۔

فقہی ذوق وبصیرت
”فقہی ذوق، فقہی بصیر ت اور ملکہ فقہیہ “متحدالمفہوم الفاظ ہیں، اِن سب سے مرادانسان میں وہ ”مخفی استعداد“ ہے، جس کی مددسے مسئلہ سے متعلق صحیح دلائل کے ذریعہ مسئلہ کاصحیح حکم معلوم کیاجاسکے۔

دراصل مسائل کے احکامات قرآن وحدیث یاان سے اَخذ شدہ اَقوال فقہاء میں صراحةً یا دلالةً مذکور ہوتے ہیں اوریہی اُن مسائل کے اَحکامات کے دلائل ہوتے ہیں، اُنہی دلائل کی روشنی میں پیش آمدہ مسئلہ کاحکم معلوم کیا جاتا ہے اور اُن دلائل میں سے متعلقہ دلیل کو پیش آمدہ مسئلہ پرمنطبق کیاجاتاہے۔ اب مسئلہ پرمتعلقہ دلیل کی صحیح تطبیق اوراس سے اس مسئلہ کاصحیح حکم معلوم کرنااسی مخفی استعداد،یعنی: فقہی ذوق سے ہوتاہے، اس استعداد میں جتنی قوت ہوگی، اُتنی ہی اَخذِ حکم میں درستگی ہوگی اورجتنی کمزوری ہو گی اُتنی ہی دلیل کی تطبیق میں غلطی اور نتیجتاً بیانِ ِحکم میں غلطی کا اِمکان بڑھتا ہے، خصوصاً اس صورت میں کہ جب مسئلہ سے بظاہر دو مختلف الحکم دلائل متعلق ہوں اوران میں سے ایک کو ترجیح دینی پڑ رہی ہو، یعنی: محض حفظِ جزئیات وفرعیات، یاضبط ِاصول ونصوص کانام فقہی ذوق وبصیرت یا فقہ نہیں، بلکہ ان سے برموقع صحیح استدلال اوراس کی بنا پرصحیح حکم مستنبط کرنا جس استعداد اور اندرونی قوت سے ہوتا ہے، اُس کانام فقہ یافقہی بصیرت ہے اوریہ قوت چوں کہ ایک خدائی نورانی عطاہے ، اس لیے امام مالک رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ”لیس الفقہ بکثرة المسائل، ولکن الفقہ نور یوٴتیہ اللہ من یشاء من خلقہ“․ (المصباح: 1/352)

حضرت تھانوی رحمة اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :
”تفقہ فی الدین توا ور چیز ہے، اگر وہ صرف الفاظ کا سمجھنا ہوتا تو کفار بھی توا لفاظ سمجھتے تھے ،وہ بھی فقیہ ہوتے اوراہلِ خیرہوتے ، تفقہ فی الدین یہ ہے کہ الفاظ کے ساتھ دین کی حقیقت کی پوری معرفت ہو۔“ (تحفة العلماء)

ایک جگہ فرماتے ہیں:
”کتابوں کے پڑھ لینے کانام فقہ نہیں ،فقہ ایک نورہے، جوفقیہ کے دل میں ہوتاہے ،جس کی برکت سے اس کودین کی سمجھ حاصل ہوتی ہے اوراس نور کو حق تعالیٰ جب چاہیں سلَب کر لیں، وہ کسی کے اختیارمیں نہیں ہے، اب تم لاکھ کتابیں پڑھتے پڑھاتے رہو، مگر چوں کہ دین کی سمجھ نہیں رہی ، تم فقیہ نہیں ہوسکتے۔“ (تحفة العلماء )

مثال:حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کاایک واقعہ منقول ہے ،جس سے مطلوب کی وضاحت ہوتی ہے :
”ایک غیر مقلد نے مجھ سے ریل میں پوچھاکہ اجتہاد کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا تمہیں کیا سمجھاوٴں؟ میں تم سے ایک مسئلہ پوچھتا ہوں ، اس کاجواب دو، اس سے پتہ لگ جائے گا۔ دو شخص سفر میں ہیں، جوسب اوصاف میں یکساں ہیں، شرافت میں، وجاہت میں، جتنی صفات امامت کے لیے قابل ِترجیح ہوسکتی ہیں، دونوں میں برابر موجود ہیں۔ دونوں سو کر اٹھتے ہیں تو ان میں سے ایک کو غسل ِجنابت کی حاجت ہو گئی اور سفر میں ایسے مقام پرتھے جہاں پانی نہ تھا، جب نماز کا وقت آیا تو دونوں نے تیمم کیا، ایک نے غسل کا اور دوسرے نے وضوکا، بتاوٴ اس صورت میں امامت کے لیے دونوں میں کون زیادہ مستحق ہو گا؟ غیر مقلد صاحب نے فوراً جواب دیا کہ جس نے وضوء کاتیمم کیاہے، وہ زیادہ مستحق ہوگا،کیوں کہ اس کوحدث اصغر تھا اور دوسرے کو حدث اکبر اور پاکی دونوں کویکساں حاصل ہے، مگر ناپاکی ایک کی بڑھی ہوئی تھی، حدث اصغر والے کی پاکی زائد اور قوی ہوئی۔ میں نے کہا کہ مگرفقہا کی رائے اس کے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں کہ جس نے غسل کاتیمم کیاہے، اس کوامام بنانا چاہیے، کیوں کہ یہاں اصل وضوء ہے اور تیمم اس کانائب ہے، اسی طرح غسل اصل ہے اورتیمم اس کانائب ہے اورغسل افضل ہے وضوء سے اورافضل کانائب بھی افضل ہوتاہے، توغسل کاتیمم بھی افضل ہو گا وضوء کے تیمم سے، لہذاجس نے غسل کاتیمم کیاوہ اقوی فی الطہارة ہوگا، یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے اجتہاد کا۔“ (تحفة العلماء ، ص:759)

مذکورہ مثال میں اگراس پہلو کودیکھا جائے کہ پاکی دونوں کی یکساں ہے، یعنی: دونوں نے تیمم کیاہے، لیکن ایک کی ناپاکی گہری اور قوی ہے، اس لیے بادیٴ النظر میں آدمی وضوکے بدلے تیمم کرنے والے کوامامت کامستحق کہے گا اور اگر اس پہلو کودیکھا جائے کہ اگر ایک کی ناپاکی گہری ہے تواس ناپاکی کے بدلے اس کی پاکی بھی گہری ہے تووضو کے بدلے تیمم کرنے والے کی امامت ضروری نہیں ہونی چاہیے۔

اب اس وجہ ترجیح کی طرف ذہن جانا اور یہ دلیل قائم کرنا اسی فقہی نظر اور اسی استعداد کانتیجہ ہے جوایک الہٰی عطا ہے اور اسی سے متصف شخص ہی صحیح معنوں میں ”متخصص فی الفقہ الاسلامی“ کہلانے کامستحق ہے۔

بغیرتفقہ کے صرف جزئیات کاحفظ کرنا
عام طور پرصرف اورصرف جزئیات کے حفظ کی کوشش کی جاتی ہے ، اس کی عبارات یادکی جاتی ہیں، حالاں کہ حفظ ِجزئیات کو اگر ثانوی درجہ کامقصد بھی تسلیم کیا جائے توتفقہ کی آمیزش کے ساتھ ہی تسلیم کیا جانا ممکن ہو سکے گا۔ تفقہ کے بغیر نہ تویہ مقصد بننے کی صلاحیت رکھے گا اورنہ ہی یہ صفت ”متخصص “کی خصوصیت کہلائے گی، بلکہ ایک عام آدمی بھی کتابیں دیکھ دیکھ کربہت ساری جزئیات کاحافظ ہو سکتا ہے اور اس کے لیے دو تین سال کاعرصہ صرف کرنا نہ صرف یہ کہ غیر معقول بات ہو گی، بلکہ ایسا کرنے والے کا اپنے آپ کو متخصص باور کروانا بھی شاید دیانت کے خلاف ہو گا، اس لیے کہ عام یومیہ معمولات میں ہی کتابوں کامطالعہ کر لیا جائے تب بھی بہت سارے مسائل زبانی یادہوسکتے ہیں۔

بہرحال ”تخصص فی الفقہ الاسلامی“سے مقصدِاوّلی فقہی ذوق اور فقہی بصیرت کا حصول ہے، حفظِ جزئیات اگر مقصد ہے تو وہ بھی تب ہے کہ جب اس کے ساتھ مقصدِ اوّلی ،یعنی: فقہی بصیرت کی آمیزش ہو، محض حفظِ جزئیات ”متخصص“ کا مقصد نہیں بن سکتا۔

حصولِ مقصد میں ممد امور وگذارشات
آنے والی سطور میں کچھ ایسے امور ذکر کیے جاتے ہیں جو شاید کسی قدر حصولِ مقصد میں راہ نما ثابت ہوں گے۔

اس سلسلے میں ”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ کوتین مرحلوں میں تقسیم کیاجاتاہے :
مرحلہ اولیٰ میں طلباء کو تدریساً پڑھائی جانے والی کتب اوران کے نصابی مطالعہ سے متعلق امورشامل ہیں۔

مرحلہ ثانیہ میں مسئلہ (استفتاء)کے حل کرنے سے متعلق ہدایات بیان ہوں گی۔

مرحلہ ثالثہ میں ”تدریبی مقالہ“سے متعلق بات ذکرکی جائے گی۔

مرحلہ اولیٰ
یہ مرحلہ انتہائی اہم اوربنیادی مرحلہ ہوتاہے، اسی میں طالب علم کے ”متخصص “بننے کی بنیاد رکھی جاتی ہے، اس مرحلہ میں جن امور کا درس دیاجاتاہے ، وہ ”مقدمة التخصص“ کی حیثیت رکھتے ہیں ،اس مرحلہ میں ہی طالب علم کوبروقت متنبہ کیاجاسکتاہے کہ وہ فقہ کواب آنے والی محدود مدت میں کس حیثیت سے پڑھے گا، اسے یہ بات سمجھائی جاسکتی ہے کہ تخصص فی الفقہ کی تعلیم کے دوران کن امور کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، جن پر درس نظامی میں فقہ پڑھنے کے باوجود بھی دست رس حاصل نہ ہو سکی اوراب اس زمانہ تخصص میں ان کا سامنے رکھنا ضروری ہے، اس مرحلہ کوبہتربنانے کے لیے دوامورپرتوجہ دینی ضروری ہے ،ایک پڑھائی جانے والی کتب کے درس پراوردوسری متخصصین کے نصابی مطالعہ پر۔

درس سے متعلق دوباتیں ذکرکی جاتی ہیں۔

درس سے متعلق پہلی بات
ابتداء میں جن مقررہ کتب کادرس دیاجاتاہے ان میں وہ کتابیں اور رسائل بھی داخلِ درس ہوتی ہیں، جن کے اندر فقہ کے مختلف زاویوں سے طلباء کو آشنا کرانے والے امورذکرہوتے ہیں، مثلاً: فقہ کی قدیم وجدید تعریف، ہر تعریف کے اعتبار سے فقہ کے اندرشامل ہونے والے علوم، فرعی مسائل کی تقسیم، بعض ضعیف کتب کاذکر، بعض فقہی اصطلاحات کی تشریح، آدابِ افتاء، اس میں احتیاط اورلاپرواہی پر وعید کا ذکر وغیرہ ۔

شعبہ تخصص میں داخلے کی شرائط پر پورا اُترنے والے طلباء میں اتنی استعداد ہوتی ہے کہ وہ ان زیر درس کتب کی عبارات حل کر کے ان سے مطلوب کااخذ کر سکیں اورسمجھ سکیں، لہذا ان کتب کے درس سے مقصد صرف عبارات کا ترجمہ اور اس کا ایک عام سا مفہوم بیان کر دینا ہی کافی نہیں ، کیوں کہ ان کتب کے ایک عام درس سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا، جس مقصدکے لیے یہ کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کتب کے درس میں تو ایک خاص انداز اور خاص طریقہٴ درس اپنانا ضروری ہے، جس میں صرف ترجمہ اورمفہوم پراکتفانہ کیا جاتا ہو، بلکہ کتاب میں موجود امور کے علاوہ بہت ساری وہ فقہی معلومات ذکرکی جائیں، جو ماہرِ فن، حاذق اور فن میں ٹھوس معیاری استعداد رکھنے والے فقیہ کے تجربات کا نچوڑ ہوں، اس درس میں فقہ سے متعلق ان اقوال اور ہدایات کا ذکر ہو جو فقہاء نے امہات کتب الفقہ میں ذکر کی ہیں، جن پرمطالعہ اورکتب بینی کے خوگر محققین ہی مطلع ہوتے ہیں۔ اس درس میں طلباء کوفقہی مزاج دینے والی چیز پڑھانے والے کے قلب ودماغ پر حاوی وہ فقہی قوت ہو جو اقوال کے واسطہ سے طلباء کی طرف منتقل کی جاتی ہو اور ان کی طبیعت پر اثر انداز ہوتی ہو، تب ہی یہ درس نتیجہ خیز ہو سکتا ہے اورحصول ِ مقصد کا ذریعہ بن سکتا ہے ، ورنہ طلباء کو از خود سمجھ آنے والی عبارت ہی پڑھا دینا ایک گونہ تحصیل ِحاصل ہی ہو جائے گا۔

اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتاہے کہ فقہ میں تخصص کی تعلیم کے لیے ایسے فقیہ استاذ کا انتخاب کیا جائے جو خود علم فقہ میں معتدبہ اختصاص اور امتیاز رکھتا ہو، اسے علم فقہ میں مرجع کی حیثیت حاصل ہو، وہ فقہ کے اصول وفروع پرمضبوط گرفت رکھتاہو، وہ کتاب کے علاوہ اپنے سینہ میں متعلقہ امور کا بھی ایک ذخیرہ رکھتا ہو، جس کے ذریعہ وہ طالب علم کی وقتاً فوقتاً راہ نمائی کرتاہو۔

امام شاطبی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
من أنفع طرق العلم الموصلة إلی غایة التحقیق أخذہ عن أھلہ المتحققین بہ علی الکمال والتمام۔

وقد قالوا: ان العلم کان فی صدور الرجال، ثم انتقل الی الکتب، وصارت مفاتحہ بأیدی الرجال وھذا الکلام یقتضی بان لابد فی تحصیلہ من الرجال، اذ لیس وراء ھاتین المرتبتین مرمی عندھم، وأصل ھذا فی الحدیث الصحیح: ”ان اللہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من الناس، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء“․ فاذا کان کذلک فالرجال ھم مفاتحہ بلاشک فاذا تقرر ھذا فلا یوٴخذ الا ممن تحقق بہ، وھذا أیضاً واضح فی نفسہ، وھو أیضاً متفق علیہ بین العقلاء؛ اذ من المشھور شروطھم فی العالم بأی علم اتفق أن یکون عارفاً بأصولہ، وما یبنی علیہ ذالک العلم، قادراً علی المقصود فیہ، عارفاً بما یلزمہ عنہ، قائماً علی دفع الشبھة الواردة علیہ فیہ․ (المصباح:1/345)

مدرس کالائق اورقابل ہوناایسی شرط ہے جوہرشعبہ کی کام یاب تعلیم کے لیے ضروری ہے، شعبہ تخصص کے علاوہ درس نظامی یا دوسرے دنیوی نظامہائے تعلیم کے غیر معیاری اوراس کے غیر اطمینان بخش ہونے کی وجوہات میں سے ایک اہم اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ ماہر فن استاذ میسر نہیں ہوتا۔

غور کرنے والے پر یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ ایک بہت بڑا حصہ پڑھانے والوں کا وہ ہوتا ہے جن میں سمجھانے کی، فن منتقل کرنے کی، کسی ذہین طالب علم کو مطمئن کرنے کی استعداد نہیں ہوتی ہے، بلکہ بہت سارے ایسے ہوتے ہیں جو اس نیت سے پڑھاتے ہیں کہ ان کی اپنی مشق ہو جائے اور جس فن کی کتاب کا درس دے رہے ہیں ، اس فن سے انھیں واقفیت ہو جائے، اس سے اگرطالب علم کا وقت ضائع ہو رہا ہو (اور یقیناً ہوتا ہے) تو اس کا احساس نہیں ہوتا، حالاں کہ درس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مدرس اپنی تدریب مدنظر رکھے اورزمانہ طالب علمی میں نہ سمجھے ہوئے فنون یا کتاب کو اس زمانہ تدریس میں سمجھے۔

درس سے متعلق دوسری بات
تخصص کے نصاب میں صرف حصہ عبادات داخل نہیں ہوتا، بلکہ حصہ معاملات بھی داخل نصاب ہوتا ہے، لیکن طلباء کے لیے ان معاملات کا سمجھنا اور جدید صورتوں کا ان پر منطبق کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ ایک تو معاملات میں خاصی تیز رفتاری سے بہت سی جدید صورتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور آ رہی ہیں، جن کی خاص اصطلاحات اور پیچیدہ صورتیں ہوتی ہیں اور پھر درس نظامی میں داخل کتب فقہ کا درس اتنا عام اور سادہ ہوتا ہے کہ اس میں معیاری درس وہ ہوتا ہے کہ جس میں صرف عبارت حل کرا لی جائے، اگر عبارت میں موجود مسئلہ کا حکم تبدیل ہو گیا تو اس پر بحث نہیں کی جاتی، حالاں کہ یہ مسئلہ کو ادھورا چھوڑ دینے کے مترادف ہے اور متعلم بھی مسئلہ کی جدید صورت اور اس کی خاص اصطلاحات سے نا واقف ہی رہ جاتا ہے۔

اسی بنا پر دورانِ تخصص اور تخصص سے فراغت کے بعد بھی معاشی مسائل کی فقہی تکییف اور اُن کا حل اِن کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے، بلکہ متخصصین کی اکثریت وہ ہوتی ہے جو تخصص کر لینے کے باوجود بھی معاملات کے مسائل سے ایسے ہی ناواقف رہتے ہیں، جیسا کہ تخصص سے پہلے تھے، اس طرح اگرچہ فراغت کے بعد ”متخصص فی الفقہ الاسلامی“ کہلاتے ہیں، لیکن درحقیقت انہوں نے فقہ کے کسی خاص باب عبادات وغیرہ کے مسائل تو کسی قدر پڑھ لیے ہوتے ہیں ، لیکن مکمل فقہ میں انہیں قطعاً دس ترس نہیں ہوتی اور وہ مسلسل یہ ضرورت محسوس کرتے رہتے ہیں کہ وہ جدید معاشیات یا فقہ المعاملات مستقل طور پر پڑھ لیں ؛ اور ان کی یہ ضرورت بجا ہے، کیوں کہ ان کو روز مرہ کی زندگی میں ایسے بہت سارے مسائل، یعنی: معاملات اور معاشیات کے مسائل کا حل مطلوب ہوتا ہے، جن کی اصطلاحات سے بھی وہ واقف نہیں ہوتے۔

ان کی اسی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ تخصص کے نصاب درس میں جدید معاشیات سے واقف کرانے والی کتب بھی شامل ہونی چاہییں اور صرف یہ ہی نہیں، بلکہ یہ کتب پڑھانے کے لیے ماہرین فن اساتذہ بھی مقرر کیے جائیں، جو صحیح معنوں میں طلبہ کو کتاب کے مقاصدمیں کام یاب کرا سکیں۔

”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ کی یہ کمی صر ف جدید معاشیات تک نہیں ہوتی، بلکہ معاملات کی وہ صورتیں جو گزشتہ زمانے میں پائی جاتی تھیں اور ان کی صورتیں کتب فقہ میں ضبط کرلی گئی ہیں، ان سے بھی طلباء کی عدمِ واقفیت اور اسے نہ سمجھنے کی کمی پائی جا تی ہے، لہٰذا معاشیات کا درس صرف چند جدید اصطلاحات تک بھی محدود نہ کر دیا جائے، بلکہ درس اس طور پر ہو کہ وہ طلبہ کے ذہنوں کو عام معاملات سے واقف کرانے والا اور ان کے حل کا عادی بنانے والا ثابت ہو۔

مطالعہ
مرحلہ اولیٰ کا دوسرا حصہ ”مطالعہ کتب“ ہے، جس میں طالبِ علم نے نصاب میں شامل کتب کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ کسی حد تک کوئی بھی علم دو راستوں سے حاصل ہوتا ہے: یا تو کسی غیر سے حاصل ہوگا، یا پھر اپنی ہی معلومات سے اخذ کرکے دوسرے علوم تک رسائی ہو گی۔ عقلی طور پر کسی چیز میں خوب مہارت کے حصول کے لیے دونوں راستوں کو ہی اختیار کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے مرحلہ اولیٰ کے اس حصہ ”مطالعہ“ کی اہمیت مسلَّم ہے اور اسی لیے طلبہ کے ذمہ مقرر کتب کا مطالعہ ہوتا ہے۔

شعبہ تخصص میں نصابی مطالعہ سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ:
1..حتّی الوسع جزئیاتِ فقہیہ حفظ کر لیے جائیں۔2..مختلف فیہ مسائل میں مفتیٰ بہ اقوال کی تعیین کی جائے۔3..مفتیٰ بہ اقوال کو مفتیٰ بہ قرار دینے کی وجہ کا بغور مطالعہ کیا جائے، تاکہ دوسرے مختلَف فیہ مسائل میں مفتیٰ بہ قول متعین کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجا ئے۔4..اور عام مقصد یہ کہ ہر حیثیت سے علمِ فقہ سے مناسبت اور تعلق پیدا ہوجائے۔

ان مقاصد کو مد نظر رکھ کر مطالعہ کیا جائے تو کافی حد تک مفید ثابت ہو گا۔ اِن اُمور سے قطع نظر کتاب کے صرف عبوری مطالعہ پر ہی اکتفا کیا جائے تو وہ محض ایک عام مطالعہ ہوگا، جوکہ ”متخصص فی الفقہ الاسلامی“ کے ساتھ خاص نہیں ،حالاں کہ ”متخصص فی الفقہ الاسلامی“ کے لیے منزل مقصود تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مطالعہ میں کچھ خصوصیات ہوں اور کچھ امتیا زات ہوں، جن کی بنا پر فقہ میں اس کے متخصص ہونے کی راہ ہموار ہوسکے۔ مطالعہ کرتے ہوئے کیف ما اتفق فقہی معلومات جمع کرنانہ خاص فا ئدہ رکھتا ہے اور نہ ہی متخصص کے اس مرحلہ کا مقصد ہے۔

الغرض ان مذکورہ بالا امور پر متخصص کا دوران ِمطالعہ خصوصی توجہ کرنا ضروری ہے۔ ان مقاصد کے حاصل کرنے میں جو امور ممد ومعاون ہو سکتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

ابوابِ فقہیہ کی مبادیات ازبر کرنا
کسی بھی فقہی باب کا مطالعہ کرنے کے بعد اس باب کے بنیادی اور مبادی مسائل اَزبر ہونے چاہییں، مبادی مسائل سے مراد کسی بھی عنوان(باب) کا رکن، شرائط اور حکم ہیں، ویسے تو باب سے متعلق جزئیات سب کی سب یاد نہیں رہتیں،کچھ یاد رہ ہی جاتی ہیں توکچھ بھول جاتی ہیں،لیکن باب کے شروع میں جو ارکان ،شرائط اور حکم مذکور ہوتا ہے ، اس کو یاد رکھنا ضروری ہے،کیوں کہ ان کی مدد سے باب کا ایک خاکہ ذہن میں بیٹھا رہے گا۔ اور کسی قدر اسی باب کی جزئیات اور فرعیات بھی یاد رہتی ہیں،کیوں کہ باب میں متعدد ایسی جزئیات ہوتی ہیں جو اس رکن اور شرائط پر متفرع ہوتی ہیں ، بعض مسائل وہ ہوتے ہیں جو رکن اور شرائط سے متفق ہونے کی حیثیت سے متفرع ہوتے ہیں اور بعض مسائل رکن یا شرائط نہ پائے جانے کی بنا پر متفرع ہوتے ہیں، اس طرح رکن اور شرائط ذہن میں محفوظ رکھنے پر کئی سارے متفرع مسائل بھی ذہن میں رہیں گے، اس کے علاوہ باب کے دیگر منتشر اور متفرق مسائل بھی محدود ہو جائیں گے۔ اور اس کو محفوظ رکھنا بھی کسی حد تک آسان اور سہل ہوجا ئے گا۔

کتب فقہ کا اندازِ تحریر مختلف ہوتا ہے ،اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں،لیکن بدائع الصنائع اس حوالہ سے بہت مفید کتاب ہے کہ اس سے باب کی تعریف ،ارکان،شرائط اور حکم کو ضبط کرنا بہت سہل ہے،کیوں کہ علامہ کاسانی ہر باب کے شروع میں باب کا خطة البحث بیان کرتے ہیں کہ اس باب میں اس کی تعریف ،ارکان ،شرائط،اقسام (اگرہوں)اور حکم بیان ہوں گے، اس کے بعد ہر چیز کی تعداد،انواع،تفصیل اور اس پر متفرع ہونے والی جزئیات ذکر کرتے ہیں۔ان کے اس خاص اندازسے بدائع الصنائع سے مسئلہ اخذ کرنا بھی بہت آسان ہے،کیوں کہ اس انداز سے مسائل کی ترتیب اور عبارت کا تسلسل برقرار رہتا ہے ،بخلاف دیگر شروح وحواشی کے۔اور یہ انداز صاحب بدائع کے تبحر علمی کی علامات میں سے ایک خصوصی علامت ہے۔

بدائع الصنائع کی چند دیگر خصوصیات بھی ہیں، لیکن فیما نحن فیہ کے اعتبار سے اسے کتب فقہ میں ایک خصوصی امتیاز حاصل ہے۔

اس کے علاوہ الفتاویٰ الہندیہ ،شرح المجلہ لخالد الاتاسی،شرح المجلہ لعلی حیدر بھی اس طرز کی کتب ہیں اور ان کی مدد سے بھی باب کی مبادیات کا ضبط سہل ہوتا ہے۔ اُردو کتبِ فقہ میں اس حیثیت سے حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب  کی کتاب ”عمدة الفقہ“بے مثل ہے،لیکن کاش یہ کتاب حضرت ہی کے دستِ مبارک سے مکمل ہوجاتی۔ یہ چار جلدوں میں ہے ، جس میں کتاب الحج تک ابواب مذکور ہیں۔(جاری)

مفتی محمد حنیف احمد
متخصص جامعہ فاروقیہ کراچی، ورفیق دارالافتاء تجوید القرآن ، کوتٹہ
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ : اہمیت، مقصد اور گزارشات

  1. محمد سلمان رضا says:

    میں تخصص فی الفقہ کرنا چاہتا ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں