عورت کی عفت اور پردہ کی فطری ضرورت

عورت کی عفت اور پردہ کی فطری ضرورت

جاہلیت میں عورت کی حیثیت
اسلام سے پہلے عورت کو معاشرے میں جو حیثیت دی جاتی تھی اور جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، وہ کسی سے مخفی نہیں اور نہ ہی تعریف کا محتاج ہے۔ یہ طبقہ ان طبقات میں سے تھا جو انتہائی مظلوم اور ستم رسیدہ تھا، ان کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کی کوئی سعی نہ کی جاتی تھی، جاہلیت کے جس دور کے لوگوں پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:
«وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاء إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا» (النور: ۳۳)
’’اور اپنی (مملوکہ) لونڈیوں کو زنا کرانے پر مجبور مت کرو (اور بالخصوص) جب و ہ پاکدامن رہنا چاہیں محض اس لیے کہ دنیوی زندگی کا کچھ فائدہ (یعنی مال) تم کو حاصل ہوجائے۔‘‘
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کی حیثیت ان کی نظروں میں کیا تھی اور کیسے افعال پر اس کو مجبور کیا جاتا تھا، صحیح بخاری کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کی عورتیں رہن بھی رکھی جاتی تھیں، جیسا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں کعب بن اشرف کے پاس گیا اور غلہ قرض دینے کی درخواست کی تو اس نے کہا:
’’أرھنونی نسائکم، قالوا: کیف نرھنک نساء نا و أنت أجمل العرب۔‘‘ (۱)
’’اپنی عورتوں کو میرے پاس رہن رکھ دو، انہوں نے کہا: ہم اپنی عورتوں کو آپ کے پاس کس طرح رھن رکھ سکتے ہیں، آپ تو عرب کے حسین ترین آدمی ہیں۔‘‘
اس واقعہ سے بھی اندازہ لگایئے کہ عورت کتنی مظلوم تھی اور اس کی عصمت کس قدر پامال کی جاتی تھی۔ (۲)

اسلام میں عورت کا مقام
ان ہی ظلم آفریں اور ظلم زدہ گھٹاؤں میں جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو عورتوں کو ان کے حقوق دیئے گئے اور افراط و تفریط ختم ہوئی اور جس کا جو حق تھا وہ اس کو دیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ظلم سے نکالنے کی خصوصی جد و جہد فرمائی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطاب فرمایا، اس وقت بھی اس طرف خاص توجہ دلائی، بلکہ اخیر وقت تک اس سلسلے میں فکرمند رہے۔ اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے سماج میں عورت کو عزت و احترام کا مقام دیا، اس کو خاندان کی ملکہ بنایا، اس کی مستقل شخصیت کو تسلیم کیا ور انسانی حقوق میں مرد کے برابر درجہ دیا (۳) اور پہلا قرآنی مشورہ نسوانی حقوقی کے سلسلے میں جس کا اعلان کیا گیا، وہ یہ تھا:
« يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء» (النساء:۱)
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑ پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔‘‘ (بیان القرآن)

اسلام میں عفت کا تصور
اللہ پاک کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ شہوت کے استعمال کا جائز طریقہ نکاح بتایا، تا کہ اس کے ذریعہ شہوت کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور اس کے شعلوں کو بجھایا جاسکے اور ہر قسم کے نامناسب اور گناہ کے کاموں سے بچا جاسکے، بلاشبہ نکاح سے ہی انسان شہوت کو جائز طریقے سے پورا کرسکتا ہے اور عفت جیسی صفت سے متصف ہوسکتا ہے۔ اسی عفت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ان الفاظ کو قرآن میں محفوظ کردیا جن الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے تھے کہ وہ بدکاری نہ کریں گی، چنانچہ فرمایا:
«وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ» (الممتحنہ:۱۲)
’’اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ بہتان (کی اولاد) لاویں گی۔‘‘ (بیان القرآن)
اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی احادیث طیبہ میں عفت و عصمت سے متعلق اسلام کے نقطہ نظر کو بیان فرمایا اور بدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اور کثرتِ اموات کا سبب زنا کو بتایا، چنانچہ ایک لمبی حدیث میں منجملہ اور باتوں کے یہ بھی فرمایا:
’’و لا فشا الزنا فی قوم قط الا کثر فیھم الموت۔‘‘ (۴)
’’کسی قوم میں زنا کے عام ہونے کی وجہ سے موت کی کثرت ہوجاتی ہے۔‘‘
اسی طرح فاحشہ کے پھیلنے کو طاعون اور مختلف بیماریوں کا باعث بتلایا، چنانچہ سنن ابن ماجہ میں ہے:
’’لم تظھر الفاحشة في قوم قط حتی یعلنوا بھا إلا فشا فیھم الطاعون و الأوجاع التی لم تکن مضت فی أسلافھم الذین مضوا۔‘‘ (۵)
’’جس قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے اور بلا روک ٹوک ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالی ان لوگوں کو طاعون کی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے اور ایسے دکھ درد میں مبتلا کردیتا ہے جس سے ان کے اسلاف ناآشنا تھے۔‘‘
اسی بدکاری کو روکنے کے لیے شریعتِ مطہرہ نے حدود بھی مقرر فرمادیں اور ساتھ میں بدکاری کرنے والے کے بارے میں شفقت و مہربانی نہ کرنے کی بھی تلقین فرمادی، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
« وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ» (النور:۲)
’’اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالی کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہیے۔‘‘ (بیان القرآن)
قرآن پاک نے انسانیت کو پاکدامنی کا راستہ بھی دکھادیا اور اپنے دل کو پاکیزہ رکھنے کا طریقہ بھی بیان فرمایا کہ اگر تم ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن سے کوئی چیز طلب کرو تو پس پردہ رہ کر کرو، چنانچہ فرمایا:
« وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ» (الاحزاب: ۵۳)
’’اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ بات (ہمیشہ کے لیے) تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔‘‘ (بیان القرآن)
اگرچہ یہ آیت ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے حق میں نازل ہوئی، لیکن علت کے عموم سے پتا چلتا ہے کہ یہ طریقہ ہی رہتی انسانیت کے لیے ذریعہ نجات ہے اور نفسانی وسوسوں اور خطروں سے حفاظت کا ذریعہ حجاب ہی ہے اور بے پردگی قلب کی نجاست اور گندگی کا ذریعہ ہے۔‘‘(۶)
اسی طرح امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں نکاح کے فوائد بیان کرتے ہوئے شیطان سے حفاظت اور پاکدامنی کو ہی سرفہرست گنوایا، چنانچہ فرمایا:
’’التحصن من الشیطان و کسر التوقان و دفع غوائل الشہوۃ و غض البصر و حفظ الفرج۔‘‘
’’(نکاح کے فوائد میں سے) شیطان سے بچاؤ، شہوت کا توڑ اور اس کے خطرے کا دور ہونا اور نظروں کا پست ہونا اور شرمگاہ کی حفاظت ہے۔‘‘
گویا عفت کا نظام برقرار رکھنے کے لیے نکاح مشروع کیا گیا۔

پردہ کی اہمیت
عورتوں کے پردے کا بیان سات آیات میں آیا ہے اور ستر سے زیادہ احادیث میں قولاً و عملاً پردے کے احکام بتائے گئے ہیں، اتنی کثرت سے پردہ کے بارے میں احادیث کا وارد ہونا اس کی اہمیت پر بین دلیل ہے، پھر صحابیات رضی اللہ عنھن کے نزدیک پردے کی اس قدر اہمیت تھی کہ کسی موقع پر بے پردہ رہنا گوارا نہ کرتی تھیں، جیسے ایک صحابیہ رضی اللہ عنھا کا واقعہ آتا ہے کہ راستہ سے جارہی تھیں، پردے کے حکم کی خبر سنی تو وہیں ایک کنارے بیٹھ گئیں اور چادر منگوائی، پھر چادر اوڑھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹنی پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، اچانک اونٹنی کا پاؤں پھسل گیا اور آپ دونوں زمین پر گر پڑے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر پوچھا: ’’چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں! تم پہلے صفیہ کو دیکھو۔‘‘ یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اپنے چہرے پر کپڑا ڈالا، پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور قریب پہنچ کر ان کے اوپر کپڑا ڈال کر ان کو چھپا کر پوچھا، اس کے بعد وہ کھڑی ہوئیں اور پھر ان کو سوار کیا۔ (۸)
اس حدیث سے پردہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پردہ اتنا ضروری ہے کہ ایسی حالت میں بھی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پردہ کا اہتمام فرمایا۔ (۹)
سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ایک کنارے میں چلنے کا حکم صادر فرمایا اور ایک مرد کو دو عورتوں کے درمیان چلنے سے بھی منع فرمایا، معلوم ہوا کہ پردہ شریعت میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ (۱۰)

پردہ کا حکم
پردے سے متعلق قرآن و حدیث میں تفصیل سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں، چنانچہ پردہ سے متعلق سب سے پہلی آیت ۵ھ میں نازل ہوئی، جس میں غیر محرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماً اور بغیر کسی نیت کے دیکھنا کراھۃً داخل ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
« قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ» (النور۳۰)
’’آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ (بیان القرآن)
اور احادیث میں بھی اس موضوع سے متعلق تفصیلی احکام موجود ہیں کہ اگر بلا ارادہ اچانک کسی غیرمحرم پر نظر پڑجائے تو اپنی نظر کو پھیرنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ پہلی نظر جو بلا ارادہ اچانک پڑجائے وہ تو غیر اختیاری ہونے کے سبب معاف ہے، ورنہ بالقصد پہلی نظر بھی معاف نہیں۔
پردہ کے احکام ذکر فرماتے ہوئے مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’عورت کا تمام بدن ستر ہے، اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے، مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے اور فرمایا کہ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو اپنے چہرہ کے حسن و جمال کو نامحرم مردوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے کہ وہ عورتوں کے حسن و جمال کا نظارہ کیا کریں۔ (۱۱)
’’ و قرن فی بیوتکن‘‘ کے تحت فرمایا کہ عورت کو اپنی یہ زینت ظاہرہ (چہرہ اور دونوں ہاتھ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سرباز ار چہرہ کھول کر اپنا حسن و جمال دکھلاتی پھریں، حسن و جمال کا تمام دار و مدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعت مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قرار دیا۔‘‘ (۱۲)
اسی طرح احکام القرآن کے حوالہ سے فتاویٰ رحیمیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ حدیث میں ہے کہ جو عورت عطر اور خوشبو لگا کر نکلتی ہے وہ زانیہ ہے۔

پردہ کے درجات
۱۔ شرعی حجابِ اشخاص یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں، اس کی دلیل یہ ہے:
« وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ » (الاحزاب:۳۳)
’’اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔‘‘
۲۔ ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تو اس وقت کسی برقع یا لمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کا حکم ’’ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ‘‘ (الاحزاب:۵۹)۔۔۔ ’’سر سے نیچے کرلیا کرین اپنی ٹھوڑی سے اپنی چادریں۔‘‘ میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔
۳۔ پورا جسم تو مستور ہو، مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر فتنہ کا خوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوفِ فتنہ نہ ہوتے کا احتمال شاذ و نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متأخرین فقہاء احناف نے بھی وہی فتوی دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جو ان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے۔ (۱۳)

پردہ فطری ضرورت
فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز قیمتی ہوتی ہے، اس کو خفیہ اور پوشیدہ جگہ رکھا جاتا ہے کہ جس طرح پیسہ قیمتی چیز ہے تو انسان اس کو چھپا کر رکھتا ہے، اسی طرح عورت بھی قیمتی ہونے کے باعث اسی بات کی حقدار ہے کہ اس کو پردے میں رکھا جائے، چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے اپنے ملفوظات میں پردہ کی فطری ضرورت کو اسی انداز میں سمجھایا کہ ریل میں انسان اپنے پیسوں کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ اندر کی بھی اندر والی جیب میں رکھتا ہے، اسی طرح عورت کو بھی پردہ میں رکھنا چاہیے، اور غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورت پردہ میں رہے۔ (۱۴)
ایمان کے بعد جو سب سے پہلا فرض ہے وہ سترِ عورت ہے، تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں فرض رہا ہے، بلکہ شرائع کے وجود سے پہلے جب جنت میں شجر ممنوعہ کھالینے کے سبب حضرت آدم علیہ السلام کا جنتی لباس اتر گیا تو وہاں بھی انہوں نے ستر کھلا رکھنے کو جائز نہیں سمجھا، اس لیے آدم و حواء علیہما السلام دونوں نے جنت کے پتے اپنے ستر پر باندھ لیے، جس کو قرآن نے یوں تعبیر فرمایا:
« وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ » (الاعراف:۲۲)
’’دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ رکھتے گئے۔‘‘ (بیان القرآن)
حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کے واقعہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اتنی بات تو صلحاء و شرفاء میں ہمیشہ رہی ہے کہ اجنبی مردوں کے ساتھ عورتوں کا اختلاط نہ ہو کہ جب وہ دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے گئیں تو ہجوم کی وجہ سے ایک طرف الگ کھڑی ہوگئیں اور پوچھنے پر وجہ یہی بتائی کہ مردوں کو ہجوم ہے، ہم اپنے جانوروں کو پانی اسی وقت پلائیں گے جب یہ لوگ فارغ ہوکر چلے جائیں گے۔

بے پردہ رہنے کے نقصانات
شریعتِ مطہرہ نے خواتین کو باپردہ رہنے کا حکم دیا اور باپردہ زندگی گزارنے سے ہی معاشرہ میں امن و سکون باقی رہتا ہے اور اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بے پردگی سے جتنے مفاسد اور برائیاں معاشرہ میں جنم لیتی ہیں ان کو شمار میں لانا مشکل ہے۔ عورتوں کا بے پردہ رہنا ہی مردوں کی بدنظری کا باعث بنتا ہے، جس سے گناہوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی بدنظری کو مہلک بیماری اور فتنہ بتایا:
’’ایاکم و النظرۃ فانھا تزرع فی القلب شھوۃً و کفی بھا فتنۃً۔‘‘
’’(اجنبی عورتوں کو) تاک جھانک کرنے سے اپنے کو بچاؤ، اس سے دلوں میں شہوت کا بیج پیدا ہوتا ہے اور فتنہ پیدا ہونے کے لیے یہی کافی ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہوئے عورتوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی:
’’قال لابنہ یابنی! امش خلف الأسد و الأسود و لا تمش خلف المرأۃ۔‘‘ (۱۵)
’’فرمایا: اے بیٹا! شیر اور سانپ کے پیچھے چلے جانا، مگر (اجنبی) عورت کے پیچھے نہ جانا۔‘‘
یحییٰ علیہ السلام نے بھی بدنظری اور حرص و لالچ کو زنا کا باعث بتایا:
’’قیل لیحییٰ: مابدء الزنا؟ قال: النظر والتمنی۔‘‘ (۱۶)
’’حضرت یحیی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ زنا کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نامحرم کو دیکھنے اور حرص کرنے سے۔‘‘
بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا غیرمحرم کو دیکھنا ہے اور زنا میں چھ خصلتیں ہیں، تین دنیا میں اور تین کا تعلق آخرت سے ہے۔
دنیا میں تو یہ ہیں:
۱۔ رزق میں کمی و بے برکتی۔
۲۔ نیکی کی توفیق سے محرومی۔
۳۔ لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت۔

اور آخرت کی تین یہ ہیں:
۱۔ اللہ کا غضب۔
۲۔ عذاب کی سختی۔
۳۔ دوزخ میں داخلہ۔ (۱۷)
اس دور میں نکاح کرنا مشکل اور گناہ میں پڑنا آسان ہوگیا ہے، جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و سلف رحمہم اللہ کے دور میں عفیف رہنا آسان تھا، کیونکہ ان کا نکاح کرنا آسان تھا، اس وقت ہمیں بے پردگی نے اس قدر جکڑ لیا ہے کہ ہر وقت بازاروں میں بدنظری کا گناہ جاری ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور عفت کے تحفظ کے لیے قرآن و سنت کی ہدایات کو مشعلِ راہ بنایا جائے اور ہمہ وقت اللہ پاک سے پاکدامنی کی دعا کی جائے:
’’اللّھم انی أسئلک الھدی و التقی و العفاف و الغنی۔‘‘ (۱۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: بخاری، کتاب المغازی، باب قتل کعب الاشرف (ج:۵، ص:۹۰)
۲: اسلام کا نظام عفت و عصمت، ص:۱۰۲
۳: قاموس الفقہ، فی النساء
۴: مؤطا امام مالک، باب ماجاء فی الغلول، ص:۶۵۴
۵: سنن ابن ماجہ، باب العقو بات (ج:۲، ص:۱۳۳)
۶: معارف القرآن، کاندھلوی رحمہ اللہ (ج: ۵، ص:۵۳۷)
۷: احیاء العلوم للامام غزالی رحمہ اللہ (ج:۲، ص:۳۶)
۸: بخاری، جلد:۲ ، ص:۲۱۹
۹: پردہ اور حقوق زوجین، ص: ۵۳، مولانا کمال الدین
۱۰۔ ابوداؤد، جلد: ۲، ص: ۳۷۵
۱۱: معارف القرآن، کاندھلوی رحمہ اللہ، ص:۱۱۷
۱۲: معارف القرآن، کاندھلوی رحمہ اللہ، ص: ۴۸۹
۱۳: معارف القرآن، عثمانی رحمہ اللہ، جلد: ۷، ص: ۲۱۳
۱۴: ملفوظات حکیم الامت، جلد:۱، ص: ۱۱۵
۱۵: احیاء العلوم، جلد:۳، ص:۹۸
۱۶: فتاویٰ رحیمیہ، جلد:۹، ص: ۳۶
۱۷: تنبیہ الغافلین، ص: ۳۷۶، حقانیہ
۱۸: صحیح مسلم، باب فی الادعیۃ، ج:۴

تحریر: مولوی محمدذہیب
ماہنامہ بینات، رجب المرجب ۱۴۳۷ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں