صادق خان اور سیکولرازم کی فتح

صادق خان اور سیکولرازم کی فتح

کل کسی صاحب کا مضمون نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے صادق خان کے لندن کا میئر منتخب ہونے کو سیکولرازم کی فتح قرار دے دیا۔ سیکولرازم کے بارے میں بہت پسندیدگی اور کسی حد تک اس کا اسلامی نظام سے موافقت کی کوشش موصوف نے کی۔ دلیل کے طور پر مولانا وحیدالدین خان کا کوئی مقولہ پیش کیا۔ حاصل ان کی باتوں کا یہ ہے کہ سیکولرازم دنیا میں مقبول ہے یا ہورہا ہے، اس لیے یہی اس کی معقولیت، صحت اور انسانی زندگی کے لیے افادیت کی دلیل ہے۔ نیز یہ بھی فرمایاکہ بعض لوگ خواہ مخوا سیکولرازم کو الحاد سے جوڑ دیتے ہیں، جبکہ ان کے بقول سیکولرازم مذہب مخالف نہیں، بلکہ مذہب کے بارے میں غیرجانبداری کا نام ہے۔ آخر میں یہ اشکال بھی کیا ہے کہ سیکولرازم کی حمایت ہمارے علماء بھارت اور دوسرے ممالک میں تو کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں اس کی شدید مخالفت کیوں کرتے ہیں۔۔۔
یہ ابہام سے سیاسی راہنماؤں کو بھی ہے کہ بھارت میں مولانا محمود مدنی جو جمعیۃ علمائے ہند کے سربراہ ہیں، وہ بھارت کے سیکولر آئین کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب و دیگر مذہبی رہنما سیکولر آئین کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔۔۔ اس ابہام کی بظاہر کوئی بڑی وجہ نہیں، سوائے اس کے کہ بات سوچ سمجھ کر نہیں کی جاتی۔۔۔ بھارت کا آئین سیکولر بن گیا تو بھارتی عوام کی اکثریت کی چاہت سے بنا اور اس کے سوا بھارت جیسے کثیر المذاہب ملک میں کوئی قانون چل بھی نہیں سکتا، کسی ایک فرقہ یا مذہب کو دوسرے پر مسلط نہیں کیا جاسکتا، اس لیے وہاں مجبوراً سیکولر آئین بننا ضروری تھا، جبکہ پاکستان کے عوام ۹۸ فیصد مسلمان ہیں اور قیام پاکستان سے لے کر آج تک وہ اپنے آئین کو سختی کے ساتھ اسلامی اصول کی پابندی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں خود سیکولرازم کے اصول یہی بتاتے ہیں کہ عوام کی واضح اکثریت جس آئین کو پسند کرے، اس کا التزام ضروری ہے۔ دوچار فیصد لوگ اگر اس آئین کو پسند نہ کریں تو ان کی رائے کو سیکولر دنیا میں بھی مسترد کردیا جاتا ہے، جمہوری انتخابی نظام جو سیکولرازم کا پسندیدہ نظام ہے، میں ۵۱ فیصد کی رائے کو ۴۹ فیصد کی رائے پر غالب قرار دے کر حکومت بنائی جاتی ہے، بلکہ بسا اوقات اگر امیدوار زیادہ ہوں تو جیتنے والے کے ووٹ ہارنے والوں کے مجموعی ووٹوں سے کم ہوتے ہیں۔ پھر بھی سب سے زیادہ ووٹ لینے والے کو فاتح قرار دیا جاتا ہے اور اس کے مخالفین کی رائے کو اگرچہ مجموعی طور پر زیادہ ہو، مسترد کردیا جاتا ہے، اس لیے پاکستان میں کسی حقیر اقلیت کی رائے کو عظیم اکثریت کی رائے پر ترجیح دینا یا اس کی حمایت کرنا، خود سیکولرازم کے اصول کے خلاف ہے۔ رہی یہ بات کہ پاکستانی عوام سیکولرازم کو کیوں قبول نہیں کرتے تو ان کی مرضی، آخر پاکستانی عوام کو آزادی کیوں نہیں کہ وہ سیکولر نظام کو مسترد کردیں؟
رہی یہ بات کہ سیکولرازم مذہب مخالف نہیں، بلکہ ایک نیوٹرل نظام ہے، جس میں کسی کے مذہبی رجحانات اور مراسم پر کوئی پابندی نہیں، یہ بات بھی کئی حوالوں سے قابل غور ہے۔ پورے مغرب میں مسلمان عورت کو حجاب کے مسئلے میں قانونی رکاوٹیں در پیش ہیں، سوویت یونین میں بھی بنیادی طور پر سیکولر نظام تھا، وہاں ستر سال تک مذہب پر سخت ترین پابندی رہی اور اس کے اثرات اب تک ہیں۔ ترکی کو جب کمال اتاترک نے سیکولر بنادیا تو وہاں اسلامی تعلیم، عربی زبان اور اسلامی حلیے تک پر سخت ترین پابندیاں لگادیں، یہ جبر نہیں تو کیا ہے؟
اسلام خیر و شر، اچھائی و برائی اور ہدایت و گمراہی کے تصورات کو عقل و وجدان کے صحیح تقاضوں سے اخذ کرتا ہے۔ اسلام اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اکثریت جس چیز کو پسند کرے، وہ بہرحال انسانیت کے لیے بہتر ہوگی۔ یہی عقل کا تقاضا اور بے شمار تجربات کا فیصلہ ہے کہ کئی بار اکثریت کے فیصلے غلط اور انسانیت کے لیے مہلک ثابت ہوئے۔
تازہ ترین مثال: اطلاعات کے مطابق لندن میں اگلے ماہ سے ایک ایسے ریسٹورنٹ کا افتتاح ہورہا ہے جس میں دو حصے ہوں گے، ایک حصے میں تمام لوگ بشمول کسٹمرز اور عملہ کے سب کے سب بالکل بے لباس ہوں گے، اس میں یہ قانون ہوگا کہ اس حصے میں کوئی بھی شخص کپڑے پہن کر نہیں جائے گا، اس ہوٹل کے اسی ننگ پورشن کے لیے اب تک تیس ہزار ارکان کی بکنگ ہوگی ہے۔ یہ ہے کہ سیکولر نظام کی خوبیوں کی ایک جھلک۔ اب اگر اس قماش کے لوگوں نے ایک مسلمان اور پاکستان نژاد صادق خان کو میئر منتخب کرلیا ہے تو اس میں ہمارے لیے فخر کی کیا بات ہے؟ صادق خان صاحب بھی بحیثیت میئر ننگوں کے اس ہوٹل کے خادم ہوں گے اور ان کو درکار سہولتیں فراہم کررہے ہوں گے۔
سیکولرازم میں خوبیاں ہوں گی، لیکن اس جیسی گندگیاں اس کی ساری خوبیوں کو متعفن کردیتی ہیں۔ اسی طرح کی حیوانیت کی خواہش پاکستان میں بھی بہت سے لوگ دلوں میں پالتے ہیں، ایسے لوگ عقل کو لات مارنے کی بجائے ہاتھ مارکر سوچیں کہ اس طرز عمل کو پاکستان کے عوام کس طرح قبول کریں گے؟ اور کیا یہ انسانی تہذیب کے دائرے میں کسی طرح آنے والا طرز عمل ہے؟
کئی بار عرض کیا ہے کہ سیکولرازم کے دو امتیازی اوصاف ہیں، جن میں اسلام سیکولرازم سے متصادم ہے اور اس کو مسترد کرتا ہے۔ ایک معاشرتی مسئلہ ہے، ایک معاشی مسئلہ۔ یعنی بے حیائی و متعلقات پر مبنی معاشرت چونکہ انسان کی انسانیت کی نفی کرتی ہے، اس کو حیوانوں سے جاملا دیتی ہے، اس کو عقل کسی طرح قبول نہیں کرتی۔ یہ عقل انسانی کی تحقیر و توہین ہے، اسلام اس کو کیسے قبول کرے گا؟ دوسرا مسئلہ معاشی ہے۔ یعنی سودی نظام اور اس کے متعلقات۔ یہ ایک ظالمانہ نظام ہے چاہے جس طرح پر ہو، یہ انسانیت کا بحیثیت مجموعی استیصال ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے؟ اگر کسی جگہ سب لوگ متحد ہوکر یہ اپنائیں تو بھی اسلام اس کی اجازت نہیں دے گا کہ یہ تباہی ہے، جیسے سٹے بازی اگر لوگ اپنی پسند اور مرضی سے شروع کریں تو اس کی اجازت نہیں کہ یہ واضح تباہی ہے۔
ان دوباتوں کے علاوہ جتنی بھی خوبیاں سیکولرازم میں گنوانی جاسکتی ہیں، وہ سیکولرازم کی نہیں اسلام کی تعلیمات ہیں۔ سیکولر دنیا نے یہ اصول اپنا لیے ہیں تو اسے فائدہ ہورہا ہے، لہذا پاکستان کو یاکسی بھی مسلم ملک کو سیکولرازم کی کبھی ضرورت نہیں۔ مسلمان اسلامی اصول پر عمل کرنے میں کوتاہی کا شکار ہیں، اس لیے ان کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
آخر میں پاکستانی سیکولر حضرات سے ایک احتیاطی درخواست ہے کہ سیکولرازم کی دیگر خوبیوں کی حمایت کریں اور ان کی یہاں پروان چڑھانے کی کوشش بھی کریں، لیکن لندن میں قائم ہونے والے ننگوں کے ہوٹل کی تقلید سے از حد بچیں، کیونکہ پاکستان میں صفائی کا فقدان ہے۔ کیڑے مکوڑے، چھپکلیاں اور حشرات الارض بکثرت ہوتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ کسی بے لباس گاہک، خادم یا مالک کے خفیہ خانوں میں کوئی نامعقول حشرہ دراندازی کرنے کی کوشش کرے اور پھر ہائی جیکروں کی طرح باہر آنے سے انکار کردے اور پریشانی پیدا ہوجائے!

تحریر: سعید احمد حسن
روزنامہ اسلام- گیارہ مئی ۲۰۱۶ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں