سنت کی زندگی

سنت کی زندگی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
نحمدہ ونستعینہ، ونستغفرہ، ونومن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور انفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھدأن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیْراً﴾․ صدق الله مولانا العظیم․
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ کا ارشاد ہے،﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة﴾(سورہ احزاب:21)
البتہ تحقیق تمہارے لیے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے، لیکن یہ بہترین نمونہ تین شرطوں کے ساتھ مشروط ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس، آپ کی ذات مبارکہ، آپ کی ہستی، آپ کی سیرت، اس پر عمل کرنا اور اسے اسوہ حسنہ کے طور پر قبول کرنا، اس کی توفیق ان لوگوں کو ہو گی، جو الله پر یقین رکھتے ہیں، جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جو الله تعالیٰ کو خوب یاد رکھتے ہیں۔

میرے دوستو! ربیع الاول کا مہینہ اپنے اختتام کی طرف ہے اور یہ مہینہ اس اعتبار سے بہت مبارک، بہت ممتاز، بہت عظیم ہے کہ سرور کائنات، جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آمد اسی مہینے میں ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت اور آپ کا اس دنیا سے پردہ فرمانا بھی اسی مہینے میں ہوا۔

پورے عالم میں جب یہ مہینہ آتا ہے، تو مسلمان آپ صلی الله علیہ وسلم کی آمد اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت کے حوالے سے بیدار ہوتے ہیں ،اس کے مختلف مظاہر پوری دنیا میں نظر آتے ہیں۔

سب سے بڑا سوال اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مہینہ آیا اور اب یہ اپنے اختتام کی طرف ہے، تو کیا ہم نے اس مہینے میں کوئی عہد کیا، کوئی عزم کیا، کوئی ارادہ کیا؟ کیا ہم نے بحیثیت امتی سرورکائنات، جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، آپ کی حیات مبارکہ کو بہترین نمونہ بنایا، سوال یہ ہے!؟

بہت سے ربیع الاول آئے ، یہ سال ایک ہزار چار سوسینتیسواں ہجری سال ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہزار چار سوچھتیس ربیع الاول گزر چکے۔ کوئی یہاں تیس سال کا ہے، کوئی پچاس سال کا، کوئی ساٹھ سال کی عمرکا ہے، کوئی کم کوئی زیادہ۔

ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو کتنا اپنے اندر لے آئے اور یہ طے ہے، یہ بالکل حتمی اور یقینی بات ہے کہ الله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، آپ کی لائی ہوئی شریعت مطہرہ بہت سہل ، آسان اور عین فطرت کے مطابق ہے۔ جو چیز فطرت کے خلاف ہوتی ہے وہ اجنبی ہوتی ہے اور جو چیز فطرت کے مطابق ہوتی ہے اس پر عمل ․آسان ہوتا ہے۔

میرے دوستو! آپ مجھے بتائیے کہ کتنی سنتیں ہیں، جن سنتوں پر ہم صرف غفلت کی وجہ سے عمل نہیں کر پاتے اور یہ یاد رکھیے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت کی اگر کوئی دلیل ہے تو وہ یہ کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟!

مجھے آپ بتائیے مسجد میں داخل ہوتے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ دایاں پیر مسجد میں داخل ہوتے وقت رکھو اور نکلتے وقت بایاں پیر باہر نکالو، آپ مجھے بتائیں کہ اس میں الجھن یا مشکل کیا ہے؟ پیر تو ہم نکالتے ہی ہیں، بغیر پیر نکالے تو ہم نہ باہر جاسکتے ہیں اور نہ اندر آسکتے ہیں، صرف اتنی سی بات ہے کہ آدمی اس وقت یہ سوچے کہ میرے پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ یہ ہے کہ آپ مسجد میں داخل ہوتے وقت سیدھا پیر اندر رکھتے تھے اور جب باہر تشریف لے جاتے، تو بایاں پیر باہر نکالتے۔ (مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر، کتاب الحج421/2)

اتنی سی بات ہے، نہ اس میں وقت صرف ہوتاہے نہ اس میں محنت لگتی ہے، نہ اس میں مال لگتا ہے، کچھ بھی نہیں۔

اگر آپ نے ایسا کیا تو میں منبر رسول پر بیٹھ کے کہہ رہا ہوں، کہ آپ کے آپ صلی الله علیہ وسلم سے تعلق میں اضافہ ہوا، محبت میں اضافہ ہوا۔

آپ بیت الخلا جاتے ہیں، ہمارے پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ بیت الخلا میں آپ پہلے بایاں پیر رکھتے تھے اور نکلتے وقت دایاں پیر باہر نکالتے۔ (ویستحب لہ عند الدخول فی الخلاء أن یقول: اللھم إنی․ أعوذبک من الخبث والخبائث، ویقدم رجلہ الیسری․( الفتاوی العالمکیریہ، کتاب الطہارة، الفصل الثانی فی الاستنجاء:50/1)

اب اس میں کیا محنت ہے؟ نکلنا تو ہے ، اندر جانا بھی ہے او رباہر آنا بھی ہے او رجب اندر جائیں گے تو پیروں ہی سے جائیں گے اور جب باہر آئیں گے تو پیروں ہی سے آئیں گے، صرف اتنی سی بات ہے کہ بیت الخلا میں جاتے ہوئے بایاں پیر اندر داخل کریں اور نکلتے وقت دایاں پیر باہر نکالیں۔

اور یہ سوچیں، اس سوچ میں بھی کوتی وقت نہیں لگتا، پیسہ نہیں لگتا، محنت نہیں لگتی، کہ میں ایسا اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ میرے پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔

اب آپ کا مسجد میں آنا، مسجد سے نکلنا، بیت الخلا میں جانا، بیت الخلا سے نکلنا، یہ سب سنت ہو گیا اور جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ زینہ بہ زینہ، درجہ بہ درجہ آج آپ نے دو سنتیں مثلاً سن لیں، سمجھ لیں، سیکھ لیں، اب ابھی سے یہ نیت کریں کہ میں اس پر تاحیات عمل کروں گا۔

اصل بات یہ ہے!

چناں چہ اس کا طریقہ کیا ہے؟ میں اپنی مثال آپ کو بتاتا ہوں، میں بھی آپ ہی کا حصہ ہوں؟ کہ آدمی کو سنت معلوم ہوتی ہے مسجد میں داخل ہوتے وقت ”اللھم افتح لی أبواب رحمتک“(السنن الکبری للإمام البیہقی، باب مایقول إذا دخل المسجد، رقم الحدیث:4317) اور مسجد سے نکلتے وقت:”اللھم إنی أسئلک من فضلک“(احوالہ سابقہ) بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت” اللھم إنی أعوذبک من الخبث والخبائث“ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الوضوء باب مایقول عند الخلاء، رقم الحدیث142) نکلتے وقت ”غفرانک الحمدلله الذی أذھب عنی الاٰذی وعافانی․“(السنن الکبری للنسائی، باب مایقول إذا خرج من الخلاء، رقم الحدیث:9825) سب معلوم ہیں، عمل نہیں ہے اور آپ محسوس نہیں فرمائیے گا، عمل کیوں نہیں ہے؟عمل اس لیے نہیں ہے کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم سے تعلق اور محبت میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ناجائز ، حرام، ممنوع محبت اور عشق ہوتا ہے، لڑکے کو لڑکی سے ہو جاتا ہے، لڑکی کو لڑکے سے ہو جاتا ہے، تو پاگل اورمجنون ہو جاتا ہے ۔کیوں ہو جاتا ہے ؟ سنجیدہ ہے!

اس لڑکے یا اس لڑکی کے ایک ایک طریقے پر، اس کی ایک ایک ادا پر آدمی اپنے آپ کو فداء کرتا ہے، قربان کرتا ہے، صبح شام کی مثالیں ہیں۔

تو میرے دوستو! جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری سب سے بڑی محبت الله تعالیٰ کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہے، ہم کیا کہتے ہیں۔ روحی فداء میری جان آپ پر قربان ہو، ہم کیا کہتے ہیں، فداہ أبی وأمی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کہتے ہیں یا نہیں کہتے!؟

تو پھر آپ کی سنت پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟ اس لیے کہ سنجیدگی نہیں، اس کو اہمیت نہیں۔

میرے دوستو! میں نے جو طریقہ اختیار کیا اور بہت سوچ کر اور الحمدلله اس میں کام یابی ہوئی کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت ایک لمحے کے لیے رک جاؤ کہ کچھ کرنا ہے، اب کیا کرنا ہے؟ یہ لمحاتی بات ہے، اس میں منٹ نہیں لگتے، لمحات اور فوراً جواب آئے گا کہ سنت کے مطابق داخل ہونا ہے، تو بس فوراً دایاں پاؤں داخل کرلیں، رکیں اٹکیں۔ بیت الخلاء میں جاتے وقت ٹھہر جائیں، رک جائیں۔ ایک لمحے کے لیے کہ کچھ کرنا ہے، نکلتے وقت بھی ٹھہر جائیں، رک جائیں کہ کچھ کرنا ہے اوریہ ایک منٹ دو منٹ کا مسئلہ نہیں، لمحات کی بات ہے۔

جب آپ ابھی عصر میں ایسا کریں گے، ہو سکتا ہے، مغرب میں یاد نہ رہے تو بعد میں اپنے آپ کو ملامت کریں، عصر میں کیا تھا، مغرب میں نہیں کیا۔چناں چہ پھر عشاء میں ان شاء الله توفیق ہو گی۔

اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ، زندگی کا ہر رخ، ہرجہت، کوئی رخ اور جہت ایسی نہیں ہے، جس کی تعلیم آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ دی ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم بحیثیت نبی او ررسول ہمارے سامنے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم بحیثیت شوہر ہمارے سامنے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم بحیثیت امام اور امیر ہمارے سامنے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم بحیثیت تاجر ہمارے سامنے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا ہر رخ ہمارے سامنے ہے۔

میرے دوستو! آپ غور کریں، سوچیں کہ کتنے احسانات ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر ہر چیز، حتی کہ استنجاء کرنے کا طریقہ بھی ہمیں سکھایا۔ ”(عن سلمان قال: قیل لہ لقد علمکم نبیکم کل شیء حتی الخراء ة؟ قال: أجل، لقد نھانا أن نستقبل القبلة بغائط أو بول، وأن نستنجی بالیمین، وأن لا یستنجی أحدنا بأقل من ثلاثة أحجار، أو نستنجی برجیع أو عظم)“(سنن أبی داؤد، کتاب الطہارة، باب کراہیة استقبال القبلہ عند قضاء الحاجة:7)

آپ غور کریں کہ کون دنیا میں آپ کاایسا محسن ہو سکتا ہے کہ ایک ایک چھوٹی سے چھوٹی، بڑی سے بڑی ہر چیز سکھائی۔

چناں چہ حدیث میں آتا ہے، کہ آدمی کھانا کھاتا ہے، تو دانتوں کے اندر کچھ غذا کے ریزے پھنس جاتے ہیں ، آپ سوچیں کہ کتنی چھوٹی سے بات ہے، بظاہر کوئی بڑی اہم بات نہیں ہے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی بھی تعلیم دی ہے کہ دانتوں میں جو غذا کے ریزے پھنس جائیں، انہیں اگر زبان کی نوک سے زور لگا کے آپ نکالیں، جیسا کہ ہم نکالتے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ اسے نگل لو اور اگر خلال کے ذریعے سے نکالو تو اسے تھوک دو۔ ”(عن أبی ھریرة رضی الله عنہ أن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: من أکل فما لاک بلسانہ، فلیبلع، وما تخلل فلیفظ، من فعل فقد أحسن، ومن لا فلا حرج)“(المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب الأطعمہ، رقم الحدیث:7199) اب آپ دیکھیں کہ کتنی چھوٹی سی بات ہے لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی بھی تعلیم دی ہے۔

آج ہمارے ہاں ربیع الاول ہے، دسمبر بھی اختتام کو پہنچا، جنوری شروع ہو رہا ہے، نیا انگریزی سال ایک ہنگامہ ہے، حالاں کہ ہم مسلمان ہیں، اسلامی ملک میں رہتے ہیں، اسلامی جمہوریہ ہے، یکم محرم الحرام کو اسلامی سال شروع ہوتا ہے اور بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی ایسی ہے کہ جن کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہے ۔

اسلامی مہینے ہمیں نہیں معلوم، آپ آج کے بچوں سے، بچیوں سے گھروں میں پوچھیں، انگریزی مہینے وہ فوراً ایک سانس میں جنوری سے دسمبر تک آپ کو سنا دیں گے۔

لیکن اگر ان سے پوچھیں کہ ذرا اسلامی مہینے؟ تو وہ شاید آپ کو محرم کا بتا دیں، ربیع الاول کا بتا دیں، رمضان کا بتا دیں، اس کے آگے ان کو نہیں معلوم ۔تو یہ کیا ہے؟ یہ وہی تعلق کی کمی، تعلق کا نقص ہے، اس کو ہم نے کوئی اہمیت نہیں دی۔

ان مواقع پر شادیاں ہو رہی ہیں اور اس میں بھی جو کچھ ہوتا ہے وہ سب آپ کے سامنے ہے، دعوت نامے ہیں، ابھی کل ایک دعوت نامہ ملا، مجھے شبہ ہوا کہ یہ کوئی کتاب ہے، اتنا موٹا کاغذ، او رکپڑا لپٹا ہوا میں نے کہا کہ بھئی! کتاب ہے؟ کہا، کتاب نہیں، دعوت نامہ ہے، سینکڑوں روپے اس ایک دعوت نامے پر خرچ کرتے ہیں، اور پھر اس میں بھی تفصیل ہے، اگر کسی کو فون کرکے آپ نے دعوت دی تووہ اپنی ہتک محسوس کرتا ہے کہ فون پر بتادیا۔

کسی کے ذریعے سے دعوت دی، تو وہ اور زیادہ کہ جی ہمیں تو فون ہی نہیں کیا، فلاں سے کہلوایا۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ آئے، لمبا قصہ ہے، ایک دن آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت عبدالرحمن کے کپڑوں پر زرد رنگ لگا ہوا ہے۔ یہ زرد رنگ ایک خوش بو ہوتی تھی، جو عورتیں استعمال کرتی تھیں، خوش بو میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم ہے، ہدایات ہیں کہ عورت ایسی خوش بو لگائے جو رنگ دار ہو اورا س کی خوش بو اس کے جسم او رکپڑوں تک محدود رہے، پھیلے نہیں۔

یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم ہے، کیوں؟

اس لیے کہ اگر عورت ایسی خو ش بو لگائے گی، جو پھیلے گی تو اس سے فتنہ پیدا ہو گا او رمرد ایسی خوش بو لگائے، جس میں رنگ نہ ہو، اور اس کی خوش بو پھیلے۔(عن أبی ھریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: طیب الرجال ماظھر ریحہ وخفی لونہ، وطیب النساء ما ظھر لونہ، وخفی ریحہ․سنن الترمذی، کتاب الأدب، باب ماجاء فی طیب الرجال والنساء، رقم الحدیث:2787)

چناں چہ آپ خوش بو لگا کر مسجد میں آئیں گے، تو آپ کے دائیں والوں کو، بائیں والوں کو، آگے والوں کو، پیچھے والوں کو، سب کو راحت اور آرام ملے گا، آپ کو اجر ملے گا، ثواب ملے گا،جب کہ رنگ والی خوش بو عورتوں کے لیے ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن کے کپڑے پر جو زرد رنگ دیکھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، عبدالرحمن یہ کیا ہے؟

یعنی یہ خوش بو تو مردوں کی نہیں ہے، یہ آپ نے کیسے لگا لی؟ تو حضرت عبدالرحمن نے کہا، اے الله کے رسول ! میری شادی ہو گئی ہے او رہو سکتا ہے کہ میری بیوی نے وہ خوش بو لگائی ہو اور وہ خوش بو میرے کپڑے کو لگ گئی ہو، میں نے جان کر نہیں لگائی۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: چھا! آپ کی شادی ہو گئی؟ آپ سوچیں، ذرا غور کریں، یہ مدینہ منورہ ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے، حضرت عبدالرحمن بن عوف عشرہ مبشرہ میں ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے تو کوئی ناراضگی ظاہر نہیں کی کہ ہمیں دعوت کیوں نہیں دی؟ ہمیں کیوں نہیں بلایا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی شکوہ نہیں فرمایا، کوئی شکایت نہیں فرمائی۔

بلکہ آپ نے یہ فرمایا:”أولم ولو بشاة․“(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب البیوع، رقم الحدیث:2049)

اے عبدالرحمن، ولیمہ کر لینا، چاہے ایک بکری ہی کا کیوں نہ ہو۔

میرے دوستو! اسلام جو تعلیم دیتا ہے وہ سراسر سہل، آسان، مبارک او رتمام مشکلات سے محفوظ ہے اور شیطان جس راستے پر لے جارہا ہے، وہ سوائے تباہی کے، سوائے بربادی کے کچھ نہیں۔

ایسی ایسی دعوتیں ہم نے دیکھیں جن میں پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ قسم کے کھانے اور وہاں تذکرے کیا ہو رہے ہیں؟ یہ ولیمے کی دعوت ہے، تو لوگ آپس میں تذکرے کیا کر رہے ہیں کہ بھئی رات لڑکی والوں کے ہاں جو چیزیں تھیں وہ تو یہاں نظر ہی نہیں آرہیں، یعنی ان ساٹھ، ستر قسم کے کھانوں کے باوجود بھی شکر کے الفاظ نہیں، شکایت ہے۔

میرے دوستو! یہ تباہی کا راستہ ہے، شیطان کا راستہ ہے، آپ ساٹھ کے بجائے سو قسم کے کھانے کرلیں وہ سنت کے خلاف ہوں گے ، وہ دین کے خلاف ہوں گے، اس میں سکون نہیں ہو گا، آپ کے پیسے بھی جائیں گے، آپ کی محنت بھی برباد ہو گی او راس کے بعد حاصل کچھ نہ ہو گا، نہ دنیا میں، نہ آخرت میں، دنیا بھی برباد، آخرت بھی برباد۔

میں عرض کر رہا تھا کہ ربیع الاول ہے، کم از کم ہم یہ تو سوچیں کہ اس ربیع الاول میں ، جس میں سرور کائنات جناب رسول صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے تئیس برس بحیثیت نبی اور رسول گزارے۔

قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے آپ نبی بنا کر بھیجے گئے، آپ کی تعلیمات بھی قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہیں، اوروہ جیسی مؤثر، مفید اور مبارک پہلے دن تھیں، وہ تاقیامت اسی طرح مفید مبارک او رمؤثر رہیں گی، بشرطیکہ ہم اس پر عمل کریں اور روزانہ ایک ایک دو دو سنتیں سیکھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم سے تعلق میں ، آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت میں اضافہ ہو گا اور بتدریج آدمی کے پاس ایک بڑا ذخیرہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کا ہو جائے گا، الله تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔

ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم، وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم، وصلی الله علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، برحمتک یا أرحم الراحمین․
ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں