اکابر دیوبند کی محبت رسول صلی الله علیہ وسلم

اکابر دیوبند کی محبت رسول صلی الله علیہ وسلم

محبت نبوی علیٰ صاحبہا السلام
محبت کا آغاز طبیعت کے میلان سے ہوتا ہے۔ بڑھتے بڑھتے وہ دل کی گہرائیوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر یہ عالم ہوتا ہے کہ محبوب کی ہر چیز محب کے دل کو لبھانے لگتی ہے او را س کے علاوہ کوئی چیز اسے پسند نہیں آتی۔ عرف عام میں اسے عشق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عشق کا لفظ قرآن وحدیث میں کہیں نہیں، لیکن سیرت کی کتابوں میں محبت کے بعض واقعات جو ہم پڑھتے ہیں، ان کے لیے ہم اپنی زبان میں عشق سے موزوں لفظ کوئی نہیں پاتے۔ عشق کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:

حضرت عبدالله بن زید رضی الله عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں، انہی کے رویائے صادقہ سے اَذان کا سلسلہ جاری ہوا۔ جس دن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا، وہ مدینہ منورہ سے باہر اپنے باغ میں کام کر رہے تھے۔ ان کے صاحب زادے وہاں پہنچے او رانہیں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خبر وفات سنائی، دل میں عشق کی ایک موج ابھری اور انہوں نے فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے، اے الله! اگر آج کے بعد میری آنکھوں کو مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوسکتا تو مجھے نابینا کر دے کہ ان آنکھوں سے اورکسی کو نہ دیکھ سکوں ۔ (ترجمان السنہ ص،ج1، ص:349)

اس واقعہ کو علم کی روشنی میں نہ جانچیے، کیوں کہ یہ عشق کی اضطراری کیفیت ہے، جس کی تعریف مولانا جامی ان لفظوں میں کرتے ہیں #
گہے فرزانہ را دیوانہ سازد
گہے دیوانہ را فرزانہ سازد

اب حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک ملفوظ سنیے:
حافظ محمد عظیم صاحب پشاور کے ایک عالم تھے اور سنا ہے صاحب نسبت بھی تھے۔ نابینا تھے اور قصداً نابینا ہوئے تھے۔ خواب میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، دودرخواستیں کیں، ایک تو یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ کر پھر کسی کو نہ دیکھوں اور دوسرے یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو ہمیشہ دیکھ لیا کروں۔ چناں چہ جس وقت اٹھے تو نابینا تھے، لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت سے برابر مشرف ہوتے رہے۔ (ملفوظات حسن العزیز، ص:132)

سیدنا امام مالک رحمہ الله کے بارے میں منقول ہے کہ ہر رات خواب میں زیارت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے مشرف ہوتے تھے۔ کیا شان کریمی ہے کہ سلف کا نمونہ خلف میں بھی پیدا کر دیا #
جام شراب عشق سے دونوں ہیں بے خبر
بلبل چمن میں مست ہے، ہم کوئے یار میں

دیار رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے محبت
عاشق محبوب کی ہر چیز سے پیار کرتا ہے کہ اس کے مسکن اور راہ گذر سے بھی وہ بے حد محبت رکھتا ہے ،عرب کا ایک شاعر کہتا ہے #
امر علی الدیار دیار لیلیٰ
اقبل ذا الجدار وذا الجدارا
وما حب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا
ترجمہ: میں محبوب کے گھر سے بے پناہ محبت رکھتا ہوں۔ اس کے پاس سے گزرتا ہوں،کبھی اس دیوار کو بوسہ دیتا ہوں، کبھی اس کو، مجھے یہ لگن اس گھر کے سنگ وخشت سے نہیں، بلکہ اس کے رہنے والے سے ہے۔

سیدنا امام مالک رحمہ الله کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ مدینة الرسول سے باہر صرف ایک مرتبہ تشریف لے گئے تھے اور وہ بھی سفر حج کے سلسلہ میں اس کے علاوہ انہوں نے کبھی جو ار رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑناگوارا نہ کیا۔

اب علمائے دیوبند کے بارے میں سنیے
مولانا خیر محمد ٹھل حمزوی رحمہ الله بہاولپور کے ایک بلند پایہ عالم تھے ۔ (مولانا محمد مکی دام مجدہ مدرس حرم شریف آپ کے اکلوتے صاحب زادے ہیں) علم حدیث میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری کے شاگرد تھے۔ عمر کا کافی حصہ دیار حبیب میں گزارا۔ حرم شریف میں درس حدیث دیا کرتے تھے۔ مولانا نے بیان فرمایا کہ حضرت سہارن پوری نے زندگی میں کئی حج کیے تھے۔ ایک حج کے موقع پر انہوں نے چنددعائیں کیں ،جن میں سے ایک یہ تھی کہ زندگی کے آخری ایام مدینہ منورہ میں گزریں۔ چناں چہ الله تعالیٰ نے یہ درخواستیں قبول فرمالیں، یہ بیان کرکے مولانا خیر محمد صاحب نے فرمایا کہ جب حضرت آخری سالوں میں مدینہ منورہ میں مقیم تھے تو میں نے ایک مرتبہ با ادب پوچھا کہ حضرت! یا تو شوق کا یہ عالم تھا کہ آپ ہندوستان سے سفر کی تکلیفیں برداشت کرکے حج کے لیے آتے تھے اور یا اب یہ حال ہے کہ یہاں بیٹھے ہیں، لیکن حج کے ایام میں آپ مکہ مکرمہ تشریف نہیں لے گئے۔ فرمایا خیر محمد! کوئی علمی مسئلہ نہیں ہے، اپنے دل کی بات کہتا ہوں، اب زندگی کی ایک ہی تمنا باقی ہے کہ خلیل احمد کی کمزور ہڈیوں کو دفن ہونے کے لیے مدینہ کی سر زمین نصیب ہو۔ اسی لیے حج کو نہیں جاتا کہ کہیں اس سعادت سے محروم نہ رہ جاؤں #
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت، یہی آرزو ہے
حضرت کے دل کی تمنا پوری ہوئی، مدینہ منورہ میں وفات ہوئی اور جنت البقیع میں تدفین۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ الله جو حضرت سہارن پوری کے شاگرد رشید بھی ہیں اور خلیفہ مجاز بھی اور حضرت کے پڑوس میں جنت البقیع میں دفن ہیں۔

صحیح بخاری پر حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کی املائی تقاریر، فیض الباری کے نام سے طبع شدہ ہیں۔ ان تقاریر کے جامع اورمرتب شیخ الحدیث مولانا بدر عالم میرٹھی ہیں، ساتھ ہی ان کی طرف سے کہیں کہیں مختصر حواشی بھی البدر الساری کے نام سے موجود ہیں۔ جب باب حرم المدینہ میں حضرت عمر کی مشہور دعا”اللھم ارزقنی شھادة فی سبلیک واجعل موتی ببلد رسولک“ پر پہنچے ہیں تو مولانا بدر عالم نے حاشیہ میں ایک نہایت پیاری دعا کی ہے، جس کا صحیح لطف تو عربی الفاظ کے پڑھنے سے آسکتا ہے، ہم یہاں اس کا ترجمہ کر دیتے ہیں، کہتے ہیں:

اے الله! یہ ایک دعا ہے، جو تیرے محبوب نبی اُمی صلی الله علیہ وسلم کے جانشین نے کی اور قبول ہوئی، میں بھی تجھ سے یہی درخواست کرتا ہوں، تو اسے قبول فرما او رمجھے محروم نہ رکھ۔

اے الله! اپنی محبت کو میرے دل میں سب سے زیادہ محبوب بنا۔ اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کے شہر کو سب شہروں سے زیادہ میرے نزدیک بنا، مجھے وہیں مرنا نصیب فرما۔ کیوں کہ اس شہر کو تیرا رسول بھی محبوب رکھتا ہے اور اپنے محبوب کی خاطر تو بھی اسے محبوب رکھتا ہے اور چوں کہ تو بھی اسے محبوب رکھتا ہے اور تیرا رسول بھی، اس لیے میں بھی اس سے محبت رکھتا ہوں تو مجھے وہیں موت دینا۔ میں امید وار بن کر تیرے دربار میں سوال کر رہا ہوں۔ مجھے محروم نہ رکھ اے الله! یہ ایک امیدوار کی درخواست ہے تو اسے قبول کر لے۔ تو اس کے قبول کرنے پر قادر ہے او رتیرے لیے مشکل کو آسان کر دینا آسان ہے۔ اپنے محبوب نبیوں کے سرداربشیر ونذیر کی طیب وطاہر اولاد کے طفیل میری یہ دعا قبول فرما۔ تو ہر چیز کا دانا وبینا ہے۔ آمین، آمین۔ ( فیض الباری، ج3، ص:144)

سبحان الله کیسی پاکیزہ اور والہانہ دعا ہے۔ قارئین کو معلوم ہو گا کہ مولانا نے زندگی کے آخری سال حرم مدینہ ہی میں گزارے ہیں،1385ھ میں انتقال فرمایا، اور جنت البقیع میں اُمہات المومنین کے قدموں میں دفن ہوئے #
آخر گل اپنی ہوئی صرف درمیکدہ
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

ان لوگوں کے بخت کا کیا کہنا جو رُخِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے بارگاہ رسالت کی بار یابی اور شہ دوسرا کی غلامی کی سعادت ان کے حصہ میں آئی۔ لیکن مقدر ان لوگوں کا بھی قابل رشک ہے جنہیں مرنے کے بعد طیبہ کی مبارک سر زمین نصیب ہوئی ۔ داغ مرحوم کا ایک پیارا شعر یاد آگیا ہے #
دی کس خوشی سے جان تہ تیغ داغ نے
لب پہ تبسم اور نظر یار کی طرف
حبیب کبریا علیہ التحیة والثناء کے عاشقوں کا شوق وذوق تو دیکھیے۔ سبحان الله، سبحان الله!

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله حج کے موقع پر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ عشق صادق ملاحظہ ہو کہ اول تو آپ منزلوں دور تھے کہ اونٹ سے اتر کر پیدل چلتے رہے او رپھر جب روضہٴ اقدس پر نظر پڑی تو جوتے اتار کر بغل میں دبالیے اور نوکیلے پتھروں سے بھرا ہوا راستہ ننگے پاؤں طے کرتے رہے۔ (سوانح قاسمی،ج3، ص:31)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله فرماتے ہیں مدینہ کے سفر خرچ کا حساب نہ کیا جاوے، کیوں کہ وہ عاشقانہ سفر ہے اورحساب تقاضائے عشق کے خلاف ہے ۔ ( ملفوظات حسن العزیز)

کیا یہی وہ طائفہ ہے جس پر ایک گروہ بے ادب ہونے کی تہمت لگاتا ہے ؟ شاید ان نادانوں کو معلوم نہیں کہ دو عالم کے آقا صلی الله علیہ وسلم کا دربار تو بہت دوررہا، یہاں تو یہ حال ہے کہ اپنے ہم عصر بزرگوں کے ادب واحترام کی داستانیں بھی پڑھنے اور سننے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔

آثار وتبرکات کا احترام
صحابہ کرام رضی الله عنہم کی عشق ومحبت کی داستانوں سے سیرت کی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ کوئی سی چیز جو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے نسبت رکھتی ہو ان کے ہاتھ لگ جاتی تو اسے جان سے عزیز تر رکھتے۔ ایمان کو تازہ کرنے کے لیے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔

مولانا رفیع الدین صاحب رحمہ الله دارالعلوم دیوبند کے پہلے مہتمم ایک بلند مرتبہ صاحب نسبت بزرگ تھے۔ مشہور ہے” ولی راولی شناسد“ آپ بانی دارالعلوم حضرت مولانا نانوتوی کے ساتھ نہایت مودبانہ پیش آتے۔ انہوں نے اپنے ایک مرید مولوی نظام الدین صاحب حید رآبادی سے فرمایا کہ میں 25 برس حضرت مولانا نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں او رکبھی بلا وضو نہیں گیا۔ ( ارواح ثلثہ ص:173)

سبحان الله! کیا ٹھکانہ ہے ادب واحترام کا!
اکابر دیوبند آثار وبرکات کا بے حد احترام کرتے تھے۔ حضرت گنگوہی رحمہ الله کے پاس مدینہ منورہ کی جو کھجوریں آتیں انہیں کھا لینے کے بعد گٹھلیوں کو پھینک نہیں دیتے تھے، کوٹ کر رکھ لیتے اور سفوف کی شکل میں انہیں وقتاً وقتاً استعمال فرماتے۔ (تذکرہ الرشید)

حد تو یہ ہے مسجد نبوی میں جلائے جانے والے زیتون کے تیل کی تلچھٹ حضرت گنگوہی رحمہ الله کو ملی تو اسے بھی غٹ غٹ پی گئے۔ (شہاب ثاقب) الله اکبر کیا عالم ہے وارفتگی کا!

جلال آباد( ہندوستان) میں ایک جبہ مبارک تھا، جو رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب تھا۔ تقسیم کے بعد یہ جبہ شریف پاکستان آیا تھا۔ کچھ عرصہ بہاول پور بھی رہا۔ اس گناہ گار نے اس کی زیارت کی ہے۔ جبہ شریف کے متولیان کبھی کبھی اسے لے کر تھانہ بھون جاتے۔ حضرت تھانوی رحمہ الله رات بھر اسے اپنے پاس رکھتے۔ فرماتے تھے۔ جس حجرے میں یہ جبہ شریف رکھا ہوتا ہے اس حجرہ کی طرف بھی پاؤں پھیلانا دل کو گراں معلوم ہوتا ہے۔ (ملفوظات)

حضرت تھانوی  فرمایا کرتے تھے: کعبہ شریف کی طرف پاؤں پھیلانا تو بے ادبی ہے ہی، میں تو اتنی احتیاط کرتا ہوں کہ چلتے چلتے کبھی میری چھڑی کا نچلا سرا کعبہ کی طرف نہیں ہوتا۔ الله الله! کتنا احترام ہے شعائر الله وآثار دینیہ کا۔

تعجب ہے کہ جو لوگ الله کے مقرب بندوں سے اس حدتک عقیدت کا تعلق رکھتے ہیں انہیں نادانوں کا ایک گروہ اولیاء الله کا منکر قرار دیتا ہے۔

حدیث اور سیرت کی کتابوں میں منقول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا عرق بدن نہایت خوش بودار تھا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس رضی الله عنہ کی والدہ ام سلیم بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لاتے اور آرام فرماتے تو وہ حضرت کے جسد اقدس کا پسینہ شیشی میں جمع کر لیتی تھیں اور شادی وغیرہ کی تقریبات کے موقعہ پر اس سے کام لیا جاتا تھا۔

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی  کو گلاب کے پھول سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت گنگوہی نے حاضرین مجلس سے فرمایا کہ جانتے ہو کہ مولانا کو گلاب سے زیادہ محبت کیوں تھی؟ ایک صاحب نے عرض کیا کہ ایک حدیث ضعیف میں آیا ہے کہ گلاب جناب رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے عرق مبارک سے بنا ہوا ہے۔ فرمایا ہاں! اگر چہ حدیث ضعیف ہے، مگر ہے تو حدیث ۔(ارواح ثلاثہ، ص:305)

قارئین کرام! ذوق وحال کی ان باتوں کو قیل وقال کے پیمانوں سے نہ جانچیے۔ اس چیز پر نظر کیجیے جو دل کی گہرائیوں میں پیوست ہو کر اس کے آثار ونتائج ان شکلوں میں نمودار ہوتے ہیں #
یہ کیفیت اسے ملتی ہے جس کے مقدر میں
مئے الفت نہ خم میں ہے، نہ شیشے میں، نہ ساغر میں

بزرگوں کے عطیات تو تبرکات کی حیثیت رکھتے ہیں، ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ اکابر سلف وخلف اپنے سے چھوٹوں کا بھی بے حد احترام کرتے تھے اور ان کی عطایا کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ چند واقعات ہدیہ قارئین ہیں۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایاکہ لوگ اطراف عالم سے تمہارے پاس دین سیکھنے کے لیے آئیں گے۔ میں تمہیں ان کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔ حضرات صحابہ رضی الله عنہم سے بڑھ کر فرمان نبوی کا پاس دار کون ہو سکتا ہے؟ حضرت ابو سعید رضی الله عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں، آپ نے شام میں رہائش اختیار فرمائی تھی۔ دِمشق کی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو حدیثیں سنایا کرتے تھے۔ جو لوگ حدیث کا درس لینے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے آپ تعظیماً ان کی خاطر اٹھ کھڑے ہوتے۔

علمائے دیوبند کے سید الطائفہ حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی رحمہ الله اپنے خلفاء میں سے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله او رحضرت مولانا گنگوہی کا بہت ہی احترام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت گنگوہی رحمہ الله نے ایک عمامہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں بھیجا تو حضرت نے اسے تبرک سمجھ کر سر پر رکھ لیا۔ (ملفوظات حسن العزیز ،قصص الاکابر،ص:92)

ایک مرتبہ حضرت مولانا گنگوہی رحمہ الله حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے کہ بارش آگئی۔ سب طلبہ کتابیں لے کر اندر کو بھاگے۔ مگر مولانا سب طلبہ کی جوتیاں جمع کر رہے تھے کہ اٹھا کر لے چلیں۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے۔(ارواح ثلثہ، ص:227)

الله، الله!… کیا عالم ہے بے نفسی اور تواضع کا۔ وقت کا امام طالب علموں کی جوتیاں سمیٹ رہا ہے۔ صرف یہ سمجھ کر کہ حدیث کے طالب علم مہمانان رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا درجہ رکھتے ہیں۔

اتباع سنت
سنت نبوی کا اتباع دین میں اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ہے، یہی تقویٰ اور دین داری کا مرکز ہے، جادہٴ سنت سے ہٹ کر آدمی یا تو فسق وفجور میں مبتلا ہو جاتا ہے یا بدعات ومحدثات میں اور ظاہر ہے کہ دونوں راستے غلط ہیں۔

رسول صلی الله علیہ وسلم کے اعمال وافعال دو قسم پر ہیں، جن کا موں کو حضورصلی الله علیہ وسلم ثواب کی غرض سے کرتے تھے۔ انہیں سنن عبادات کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جو کام آپ ویسے کرتے تھے یعنی شرعاً ان کا کرنا باعث ثواب نہیں اور چھوڑ دینے سے گناہ نہیں ہوتا۔ انہیں سنن عادات کہا جاتا ہے۔ اہل الله اس حد تک اتباع سنت کا خیال رکھتے ہیں کہ عبادات کے علاوہ عام عادات تک میں وہ حضور کی نقل اتارنے کی کوشش کرتے ہیں او راس بارے میں صحابہ کرام رضي الله عنه کے بے شمار واقعات موجود ہیں۔ ائمہ دین اور علمائے سلف کے بھی سینکڑوں واقعات کتب میں ملتے ہیں۔ اکابر دیوبند میں سے حضرت شیخ الہند کے بارے میں ایک واقعہ راقم السطور نے حضرت مولانا واحد بخش صاحب احمد پوری رحمہ الله (خلیفہ حضرت تھانوی رحمہ الله) سے سنا تھاکہ حضرت جب مرض الموت میں مبتلا تھے تو علاج معالجہ ہو رہا تھا۔ جب دوائی پینے کا وقت آتا تھا آپ خدام سے فرماتے کہ مجھے پلنگ سے نیچے اتار دو۔ اس طرح خدام کو تو کیا تکلیف ہوتی ایک مشت استنحواں کو اٹھا کے نیچے رکھ دینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ لیکن انہیں حضرت والا کا احساس ہوتا، آخر کار حضرت کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ جناب کو دوائی لینے کے لیے نیچے اترنے سے تکلیف ہوتی ہے، چارپائی پر بیٹھ کر پی لیا کریں۔ ارشاد فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے متعلق چار پائی پر بیٹھ کر کھانا پینا کہیں منقول نہیں ہے۔ اس وجہ سے میں نیچے اتر کے دوائی لیتاہوں۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے۔ راقم نے تقریباً تین ماہ حضرت اقدس مولانا احمد علی لاہوری رحمہ الله کی خدمت میں گزارے تھے ،بارہا کوشش کی کہ آتے جاتے کبھی تو سلام کرنے میں سبقت کا موقع مل جائے۔ مگر حضرت والا نے کبھی اس کا موقع نہ دیا۔

حضرت مولانا حبیب الله گمانوی رحمہ الله اس علاقے کے نامور بزرگ اور شیخ گزرے ہیں، ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، کھانا کھانے بیٹھے تو دسترخوان پر کھیس بھی موجود تھی۔ حضرت نے ایک پلیٹ میں ڈال کر مجھے دی اور فرمایا لو! یہ بھی کھالو۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کھیس کھائی ہے۔ سوچنے کا انداز قابل غور ہے۔ یوں نہیں فرمایا کہ یہ میٹھی ہے یا لذیذ ہے… نہیں!… بلکہ ترغیب دلائی تو یہ فرما کر کہ کھیس کا کھانا سنت کا درجہ رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ حضرت مولانا گمانوی رحمہ الله امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ الله کے تلمیذ رشید تھے اور سند العلماء حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمہ الله سے باطنی نسبت رکھتے تھے، ان کے علاوہ واں بھیچراں کے حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمہ الله سے بھی تلمذ اور باطنی استفاضہ کا تعلق تھا۔

ان واقعات سے قارئین نے انداز لگا لیا ہو گا کہ اکابر دیوبند کیوں کر صبغة الله میں رنگے ہوئے تھے حضرت شہاب الدین سہروردی نور الله مرقدہ کے بارے میں حضرت شیخ محی الدین ابن العربی سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:”السنة من الراس الی القدم“ یہی جھلک ہمیں اکابر دیوبند میں نظر آتی ہے۔
اعلی الله درجاتھم وجعلنا من اتباعھم، و صلی الله تعالیٰ علی حبیبہ وعلی الہ وسلم

علامہ محمد عبداللؒه
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں