نکاح ایک نعمت، طلاق ایک ضرورت

نکاح ایک نعمت، طلاق ایک ضرورت

نکاح الله کی ایک عظیم نعمت ہے، جب یہ رشتہ قائم کیا جاتا ہے تواس میں پائیداری ودوام مقصودہوتاہے۔ الله تعالیٰ نکاح کے مقصد کو اس طرح بیان فرماتا ہے: اور اسی کی نشانیوں میں ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی بیویاں بنائیں، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے ( یعنی میاں بیوی کے )درمیان محبت وہمدردی پیدا کردی۔ (سورہ الروم، آیت:21) الله تعالیٰ نے بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر نکاح کو جائز قرار دیا ، من جملہ ان مصالح وحکم کے ایک حکمت ومصلحت یہ بھی ہے کہ اس روئے زمین پر نوع انسان، اصلاح ارض اور اقامت شرائع کے لیے اس کی نائب بن کر قیامت تک باقی رہے اور یہ مصلحتیں اسی وقت متحقق ہو سکتی ہیں جب کہ ان کی بنیاد مضبوط او رمستحکم ستونوں پر ہوں اور وہ ہے نکاح۔ ویسے تو نسل انسانی کا وجود مردوعورت کے ملاپ سے ممکن تھا، خواہ وہ ملاپ کسی بھی طرح کا ہوتا، لیکن اس ملاپ سے جو نسل وجود میں آتی وہ اصلاح ارض اور اقامت شرائع کے لیے موزوں او رمناسب نہ ہوتی، نیک نسل نکاح سے ہی وجود میں آسکتی ہے۔

اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ نکاح کا معاملہ عمر بھر کے لیے کیا جائے اور اس کو توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، کیوں کہ اس معاملہ کے ٹوٹنے کا اثر نہ صرف میاں بیوی پر ہی پڑتا ہے ، بلکہ اولاد کی بربادی اور بعض اوقات خاندانوں میں جھگڑے کا سبب بنتا ہے۔ جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے دونوں میاں بیوی کو وہ ہدایات دی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے۔

اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف رونما ہوں تو سب سے پہلے دونوں کو مل کر اختلاف دور کرنے چاہئیں۔ اگر بیوی کی طرف سے کوئی ایسی صورت پیش آئے جو شوہر کے مزاج کے خلاف ہو تو شوہر کو حکم دیا گیا ہے کہ افہام وتفہیم اور زجروتنبیہ سے کام لے۔ دوسری طرف شوہر سے بھی کہا گیا کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ نہ سمجھے، بلکہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں، جن کی پاس داری شریعت میں ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے وہیں اس کی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں ( یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہو گا جو ان کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔

طلاق ضرورت
اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف دورنہ ہوں تو دونوں خاندان کے چند افراد کو حکم بنا کر معاملہ طے کرناچاہیے۔ غرض کہ ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے کہ ازدواحی رشتہ ٹوٹنے نہ پائے، لیکن بعض اوقات میاں بیوی میں صلح مشکل ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے دونوں کامل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے، تو ایسی صورت میں ازدواجی تعلق کو ختم کرنا ہی طرفین کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے شریعت اسلامیہ نے طلاق کو جائز قرار دیا ہے۔ طلاق میاں بیوی کے درمیان نکاح کے معاہدہ کو توڑنے کا نام ہے۔ جس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دواہم شرائط کے ساتھ صرف ایک طلاق دے دی جائے عورت پاکی کی حالت میں ہو۔شوہر عورت کی ایسی پاکی کی حالت میں طلاق دے رہا ہو کہ اس نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو ۔ صرف ایک طلاق دینے پر عدت کے دوران رجعت بھی کی جاسکتی ہے ، یعنی میاں بیوی والے تعلقات کسی نکاح کے بغیر دوبارہ بحال کیے جاسکتے ہیں۔ عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح بھی ہو سکتا ہے۔ نیز عورت عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔ غرض کہ اس طرح طلاق واقع ہونے کے بعد بھی ازدواجی سلسلہ کو بحال کرنا ممکن ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرنے کا مکمل اختیار بھی رکھتی ہے۔

طلاق کا اختیار مرد کو
مرد میں عادتاً طبعاً عورت کی بہ نسبت فکر تدبر او ربرداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، نیز انسانی خلقت، فطرت، قوت اور صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے ذریعہ انسان غور وخوض کرے تو یہی نظر آئے گا کہ الله تعالیٰ نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے وہ عورت کو نہیں دی گئی ۔ لہٰذا امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے لیے اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کے بجائے اس ذات سے پوچھیں جس نے ان دونوں کو پیدا کیا ہے ۔ چناں چہ خالق کائنات نے قرآن کریم میں واضح الفاظ کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کر دیا ہے ﴿ وللرجال علیھن درجة﴾(سورہ بقرہ ، آیت:228) ﴿الرجال قوامون علی النساء﴾․(سورہٴ النساء:34) ان آیات میں الله تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ذکر فرمایا کہ مرد ہی زندگی کے سفر کا سربراہ رہے گا اور فیصلہ کرنے کا حق مرد ہی کو حاصل ہے، اگرچہ مرد کو چاہیے کہ عورت کو اپنے فیصلوں میں شامل کرے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے طلاق دینے کا اختیار مرد کو دیا ہے۔

خلع
لیکن عورت کو مجبور محض نہیں بنایا کہ اگر شوہر بیوی کے حقوق کماحقہ ادا نہیں کررہا ہے یا بیوی کسی وجہ سے اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ کو جاری نہیں رکھنا چاہتی تو عورت کو شریعت اسلامی نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر عورت واقعی مظلومہ ہے تو شوہر کی شرعی ذمہ داری ہے کہ اس کے حقوق کی ادائیگی کرے، ورنہ عورت کے مطالبہ پر اسے طلاق دے دے، خواہ مال کے عوض یا کسی عوض کے بغیر۔ لیکن اگر شوہر طلاق دینے سے انکار کر رہا ہے تو بیوی کو شرعی عدالت میں جانے کا حق حاصل ہے، تاکہ مسئلہ حل نہ ہونے پر قاضی شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کرے۔ اس طرح عدالت کے ذریعہ طلاق واقع ہو جائے گی اور عورت عدت گذار کر دوسری شادی کر سکتی ہے۔ خلع کی شکل میں طلاق بائن پڑتی ہے، یعنی اگر دونوں میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو رجعت نہیں ہو سکتی، بلکہ دوبارہ نکاح ہی کرنا ہو گا، جس کے لیے طرفین کی اجازت ضروری ہے۔

طلاق کی قسمیں
عمومی طور پر طلاق کی تین قسمیں کی جاتی ہیں: طلاق رجعی، طلاق بائن اور طلاق مغلظہ۔

طلاق رجعی
واضح الفاظ کے ذریعہ بیوی کو ایک یادو طلاق دے دی جائے۔ مثلاً شوہر نے بیوی سے کہہ دیا کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ یہ وہ طلاق ہے جس سے نکاح فوراً نہیں ٹوٹتا، بلکہ عدت پوری ہونے تک باقی رہتا ہے۔ عدت کے دوران مرد جب چاہے طلاق سے رجوع کرکے عورت کو پھر سے بغیر کسی نکاح کے بیوی بنا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شرعاً رجعت کے لیے بیوی کی رضا مندی ضروری نہیں ہے۔

طلاق بائن
ایسے الفاظ کے ذریعہ جو صراحتاً طلاق کے معنی پر دلالت کرنے والے نہ ہوں،جیسے کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے میکے چلی جا اس طرح کے الفاظ سے طلاق اسی وقت واقع ہو گی جب کہ شوہر نے ان الفاظ کے ذریعہ طلاق دینے کا ارادہ کیا ہو، ورنہ نہیں۔ ان الفاظ کے ذریعہ طلاق بائن پڑتی ہے، یعنی نکاح فوراً ختم ہو جاتا ہے، اب نکاح کرکے ہی دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے حلال ہو سکتے ہیں۔

طلاق مغلظہ
اکٹھا طور پر یا متفرق طور پر تین طلاقیں دینا طلاق مغلظہ ( سخت) ہے ، خواہ ایک ہی مجلس میں ہوں یا ایک ہی پاکی میں دی گئی ہوں۔ ایسی صورت میں نہ تو مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے اور نہ ہی دونوں میاں بیوی نکاح کرسکتے ہیں، الایہ کہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح کر ے اور دنوں نے صحبت بھی کی ہو، پھر یا تو دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے تو پھر یہ عورت دوسرے شوہر کی طلا ق یا موت کی عدت کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے ۔ اس کو الله تعالیٰ نے اپنے پاک کلام( سورة البقرة آیت:230) میں اسی طرح بیان فرمایا ہے﴿فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہُ فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ﴾پھر اگر شوہر ( تیسری) طلاق دے دے تو وہ ( مطلقہ) عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔ ہاں اگر ( دوسرا شوہر بھی ) اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس ( نیا نکاح کرکے) دوبارہ واپس آجائیں، بشرطے کہ انہیں یہ غالب گمان ہو کہ وہ اب الله کی حدود قائم رکھیں گے۔ اسی کو حلالہ کہا جاتا ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ اس کے صحیح ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں: دوسرا نکاح صحیح طریقہ سے منعقد ہوا ہو۔ دوسرے شوہر نے ہم بستری بھی کی ہو۔ دوسرا شوہرجب چاہے طلاق دے یا وفات پا جائے اور دوسری عدت بھی گزر گئی ہو۔ حلالہ کے ساتھ مشروط نکاح کرنا حرام ہے۔

ایک ساتھ تین طلاق
طلاق رجعی اور طلاق بائن کی شکلوں میں عمومی طور پر اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے ابغض الحلال طلاق کے صحیح طریقہ کو چھوڑ کر غیر مشروع طور پر طلاق دے دی، مثلاً تین طلاقیں عورت کی ناپاکی کے ایام میں دے دیں، یا ایک ہی طہر میں الگ الگ وقت میں تین طلاقیں دے دیں، یا الگ الگ تین طلاقیں ایسے تین پاکی کے ایام میں دیں جس میں کوئی صحبت کی ہو، یا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دیں ، تو مذکورہ بالاتمام صورتوں میں تین ہی طلاق پڑنے پر پوری امت مسلمہ متفق ہے، سوائے ایک صورت کے، کہ اگر کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاق دے دے تو کیا ایک واقع ہو گی یا تین؟ جمہور فقہاء وعلماء کی رائے کے مطابق تین ہی طلاق واقع ہوں گی۔ فقہاء صحابہ کرام حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبدالله بن عباس، حضرت عبدالله بن عمر، حضرت عبدالله بن عمرو، حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہم اجمعین تین ہی طلاق پڑنے کے قائل تھے۔ نیز چارو ں امام ( امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی، ہند، پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان کے علمائے کرام کی بھی یہی رائے ہے۔1393ھ میں سعودی عرب کے بڑے بڑے علمائے کرام کی اکثریت نے بحث ومباحثہ کے بعد قرآن وحدیث کی روشنی میں صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کو سامنے رکھ کر یہی فیصلہ کیا تھا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں 1400 سال سے امت مسلمہ کی بہت بڑی تعداد اسی بات پر متفق ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار کی جائیں گے، لہٰذا اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں تو اختیار رجعت ختم ہو جائے گا۔ نیز میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو یہ نکاح درست اور حلال نہیں ہو گا، یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی عدت گذارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکا ح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے ، دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں، یعنی صحبت کریں۔ پھر اگر اتفاق سے یہدوسرا شوہر بھی طلاق دے دے یا وفات پا جائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ یہی وہ جائز حلالہ ہے ، جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پر متعدد مواقع پر باقاعدہ طور پر تین ہی طلاق کا فیصلہ صادر کیا جاتا رہا، کسی ایک صحابی کا کوئی اختلاف بھی کتابوں میں مذکور نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور فقہائے کرام خاص کر ( امام ابوحنیفہ، امام مالک  ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) او ران کے تمام شاگردوں کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے دلائل پر بحث نہیں کی ہے، لیکن میرے دوسرے مضمون (تین طلاق کا مسئلہ) اور سعودی عرب کے علماء کے فیصلہ میں تمام دلائل پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

عدت حکم الہٰی
عدت کے لغوی معنی شمار کرنے کے ہیں، جب کہ شرعی اصطلاح میں عدت اس معین مدت کو کہتے ہیں جس میں شوہر کی موت یا طلاق یا خلع کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان علاحدگی ہونے پر عورت کے لیے بعض شرعی احکامات کی پابندی لازم ہو جاتی ہے۔ عورت کے فطری احوال کے اختلاف کی وجہ سے عدت کی مدت مختلف ہوتی ہے ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ شوہر کی موت یا طلاق یا خلع کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائیگی ہونے پر عورت کے لیے عدت واجب ( فرض) ہے۔ عدت دو وجہوں سے واجب ہوتی ہے۔

عدت شوہر کی موت کی وجہ سے
اگر شوہر کے انتقال کے وقت بیوی حاملہ ہے تو Delivery ہونے تک عدت رہے گی ، خواہ اس کا وقت چار ماہ اور دس روز سے کم ہو یا زیادہ ۔ جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:﴿وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُن﴾․(سورہ طلاق:4) حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ اس آیت کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے، خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ، جیسا کہ احادیث وفقہ کی کتابوں (کتاب الطلاق) میں وضاحت موجود ہے۔ حمل نہ ہونے کی صورت میں شوہر کے انتقال کی و جہ سے عدت چار ماہ اور دس دن کی ہو گی، خواہ عورت کو ماہواری آتی ہو یا نہیں ، خلوت صحیحہ(صحبت) ہوئی ہو یا نہیں، جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً﴾․(سورہٴ بقرہ، آیت:234) تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن عدت میں رکھیں۔

عدت طلاق یا خلع کی وجہ سے
اگر طلاق یا خلع کے وقت بیوی حاملہ ہے تو Delivery ہونے تک عدت رہی گی ،خواہ تین ماہ سے کم مدت میں ہی ولادت ہو جائے۔ جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:﴿وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُن﴾․(سورہ طلاق:4)

حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ اگر شوہر کے انتقال یا طلاق کے کچھ دنوں بعد حمل کا علم ہو تو عدت وضع حمل تک رہے گی، خواہ یہ مدت نو ماہ کی ہی کیوں نہ ہو۔ اگر طلاق یا خلع کے وقت عورت حاملہ نہیں ہے تو ماہواری آنے والی عورت کے لیے عدت تین حیض (ماہواری) رہے گی۔ جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَء ﴾․ (سورہٴ بقرہ،آیت:228) مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ تیسری ماہواری ختم ہونے کے بعد عدت مکمل ہو گی۔ عورتوں کے احوال کی وجہ سے یہ عدت تین ماہ سے زیادہ یا تین ماہ سے کم بھی ہوسکتی ہے۔

جن عورتوں کو عمر زیادہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہو گیا ہو یا جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو تو طلاق کی صورت میں ان کی عدت تین مہینے ہو گی ۔ جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:﴿وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِیْ لَمْ یَحِضْنَ﴾․ (سورہ طلاق، آیت:4) تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہو چکی ہیں، اگر تمہیں ان کی عدت کی تعیین میں شبہ ہو رہا ہے تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور اسی طرح جن عورتوں کو حیض آیا ہی نہیں ہے، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے۔

نکاح کے بعد، لیکن خلوت صحیحہ ( صحبت) سے قبل اگر کسی عورت کو طلاق دے دی جائے تو اس عورت کے لیے کوئی عدت نہیں ہے، جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْْہِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَہَا﴾․(سورہٴ الاحزاب:49) اے ایمان والو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو، پھر ہاتھ لگانے (یعنی صحبت کرنے) سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان عورتوں پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں ہے، جسے تم شمار کرو۔ یعنی خلوت صحیحہ سے قبل طلاق کی صورت میں عورت کے لیے عدت نہیں ہے۔ لیکن خلوت صحیحہ(صحبت) سے قبل شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت کے لیے عدت ہے۔ سورہٴ البقرة کی آیت نمبر234 کے عموم ودیگر احادیث صحیحہ کی روشنی میں امت مسلمہ اس پر متفق ہے ۔ نکاح کے بعد لیکن خلوت صحیحہ سے قبل طلا ق دینے کی صورت میں آدھے مہر کی ادائیگی کرنی ہو گی۔ (سورہ البقرة:237)

عدت کی مصلحتیں
عدت کی متعدد ودنیاوی واخروی مصلحتیں ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں۔ عدت سے الله تعالیٰ کی رضا مندی کا حصول ہوتا ہے، کیوں کہ الله تعالیٰ کے حکم کو بجالانا عبادت ہے اور عبادت سے الله کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ عدت کو واجب قرار دینے کی اہم مصلحت اس بات کا یقین حاصل کرنا ہے کہ پہلے شوہر کا کوئی بھی اثر بچہ دانی میں نہ رہے اور بچے کی نسبت میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ نکاح چوں کہ الله تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، اس لیے اس کے زوال پر عدت واجب قرار دی گئی۔ نکاح کے بلند وبالا مقصد کی معرفت کے لیے عدت واجب قرار دی گئی ،تاکہ انسان اس کو بچوں کا کھیل نہ بنالے۔ شوہر کے انتقال کی وجہ سے گھر خاندان میں جو ایک خلا پیدا ہوا ہے اس کی یاد کچھ مدت تک باقی رکھنے کی غرض سے عورت کے لیے عدت ضروری قرار دی گئی۔

متفرق مسائل
شوہر کی وفات یا طلاق دینے کے وقت سے عدت شروع ہو جاتی ہے، خواہ عورت کوشوہر کے انتقال یا طلاق کی خبر بعد میں پہنچی ہو۔ مطلقہ یا بیوہ عورت کو عدت کے دوران بلاعذر شرعی گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ کسی شرعی عذر وجہ سے شوہر کے گھر عدت گزارنا مشکل ہو تو عورت اپنے میکے یا کسی دوسرے گھر میں بھی عدت گذار سکتی ہے۔ عورت کے لیے عدت کے دوران دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے، البتہ رشتہ کا پیغام عورت کو اشارةً دیا جاسکتا ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت:235-234) جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کو عدت کے وران خوش بو لگانا، سنگھا کرنا، سرمہ اور خوش بو کا تیل بلا ضرورت لگانا، مہندی لگانا اور زیادہ جمک دمک والے کپڑے پہننا درست نہیں ہے۔ اگر چاند کی پہلی تاریخ کو شوہر کا انتقال ہوا ہے تب تو یہ مہینے خواہ 30 کے ہوں یا 29 کے ہوں، چاند کے حساب سے پورے کیے جائیں گے اور 11 تاریخ کو عدت ختم ہو جائے گی۔ اگر پہلی تاریخ کے علاوہ کسی دوسری تاریخ میں شوہر کا انتقال ہوا ہے تو 130 دن عدت رہے گی۔ اگر عورت شوہر کے انتقال یا طلاق کی صورت میں عدت نہ کرے،یا عدت تو شروع کی ،مگر مکمل نہ کی تو وہ الله تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے والی کہلائے گی، جو بڑا گناہ ہے، لہٰذا الله تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرکے ایسی عورت کے لیے عدت کو مکمل کرنا ضروری ہے۔ عدت کے دوران عورت کے مکمل نان ونفقہ کا ذمہ دار شوہر ہی ہو گا۔

مولانا محمد نجیب قاسمی
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں