تہران میں سرکاری منبر سے صحابہ کرام کی شان میں گستاخی

تہران میں سرکاری منبر سے صحابہ کرام کی شان میں گستاخی

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ایک بار پھر ملک میں اہل سنت و الجماعت کی مقدسات کی شان میں گستاخی ہوچکی ہے۔ اس بار تہران میں سرکاری منبر برائے نماز جمعہ پر صحابہ کرام کی توہین اور تحقیر ہوگئی۔
’آیت اللہ موحدی کرمانی‘، تہران کے نائب خطیب جمعہ نے بائیس اپریل دوہزار سولہ کے خطبہ جمعہ کے دوران حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہیں ’جاہل مسلمان‘ یاد کیا جس پر سنی حلقوں میں غم وغصے کی لہر دوڑگئی۔
یہ سب اس حال میں ہورہاہے کہ باجماع اہل سنت و الجماعت حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کا شمار اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتاہے جو عشرہ مبشرہ سے بھی ہیں جنہیں اسی دنیا میں جنتی ہونے کی بشارت نبوی کی سعادت حاصل ہوگئی تھی۔ ان بزرگوں پر نبی کریم ﷺ اور حضرات خلفائے راشدین کو اتنا اعتماد تھا کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے شہادت سے پہلے انہیں چھ رکنی شورا میں رکنیت دی تاکہ ان میں کوئی خلافت کی ذمہ داری سنبھال لے۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ تہران کی ایک سرکاری مسند سے ایسے نفرت انگیز بیانات سننے میں آتے ہیں حالانکہ تہران کو ہمارے حکام عالم اسلام کا ’ام القری‘ گردانتے ہیں! کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور ان کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنا ہرگز کسی کے مفادات کے مطابق نہیں ہے۔ بلکہ ایسے بیانات کو دنیا میں کوریج ملے گا اور اس سے منفی تاثرات سامنے آئیں گے۔ ایسی نفرت انگیز اور فرقہ وارانہ باتوں کا اتحاد امت اسلامیہ کے نعروں سے کھلا تضاد سب پر عیاں ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حالات کے تناظر میں جب عالم اسلام، خاص کر مشرق وسطی میں فرقہ وارانہ تنازعات کی آگ بھڑک چکی ہے، ایسی باتوں کا نفع کس کو پہنچے گا؟ کیا مسلمانوں کے ازلی دشمن جن میں عالمی طاقتیں اور صہیونی قوتیں سرفہرست ہیں،اس سے غلط فائدہ نہیں اٹھائیں گی؟ گستاخیوںکا یہ سلسلہ اس حال میں جاری ہے کہ ایران کے مرشد اعلی سمیت متعدد شیعہ مراجع تقلید اور علما نے اہل سنت کی مقدسات کی شان میں گستاخی سے منع کیاہے اور ایسے اقدامات کو اسلام دشمن عناصر اور عالمی صہیونی تحریک کی سازشوں کے عین مطابق قرار دیا ہے۔

اس سے پہلے بھی بعض سرکاری شخصیات کی زبان سے ایسے گستاخانہ الفاظ نکل چکے ہیں اور انہیں یاددہانی بھی کرائی گئی ہے، مگر یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ لہذا اسلامی اخلاق و آداب، لوگوں کے عقائد کے احترام کی اہمیت اور عالم اسلام کے نازک حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھاریوں اور مقررین کو چاہیے پہلے سے زیادہ اپنی تحریروں اور تقریروں کا خیال رکھیں؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن کی سازشوں کے جال میں پھنس جائیں۔

اداریہ سنی آن لائن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں